حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
جاپان کی جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے، اس میں اگر چند ایک بھی ایسے ہوں جو اپنے قول و فعل میں تضاد رکھتے ہوں تو جماعت میں یہ بات ہر ایک پر اثر انداز ہوتی ہے، خاص طورپر نوجوانوں اور بچوں پر اس کا ایسا اثر پڑتا ہے کہ وہ دین سے دُور ہٹ سکتے ہیں۔ جو جاپانی احمدیت کے قریب ہیں وہ بھی ایسی باتیں دیکھ کے دور ہٹ جائیں گے۔ جو جاپانی عورتیں یا مرد احمدی مرد یا عورت سے شادی کے بعد احمدیت کے قریب آئے ہیں، وہ بھی دُور چلے جائیں گے۔ پس یہ بہت فکر کا مقام ہے۔ سب سے پہلے اس کی ذمہ داری صدر جماعت اور مشنری انچارج کی ہے کہ وہ ایک باپ کا کردار ادا کرے اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش میں لگا رہے۔ اپنے عہدہ کے لحاظ سے بھی، اپنے علم کے لحاظ سے بھی سب سے بڑی ذمہ داری اُسی کی ہے اور وہ اس کے لئے پوچھا جائے گا۔ لا علمی ہو، بے علمی ہو، کم علمی ہو تو اور بات ہے لیکن جب سب کچھ ہو اور پھر اُس پر عمل نہ ہو تو زیادہ سوال جواب ہوتے ہیں۔ اور افرادِ جماعت میں سے بھی ہرایک جو ہے وہ اپنے جائزے لے۔ پھر ہر جماعتی عہدیدار کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ اپنے عَہدوں کا حق ادا کر رہا ہے؟ کیا کہیں اس حق کے ادا نہ کرنے سے وہ جماعت میں بے چینی تو نہیں پیداکر رہا؟ پھر ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہیں، اُن کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہرایک اپنی امانتوں اور عہدوں کے بارے میں پوچھاجائے گاکہ کس حد تک تم نے ادا کئے۔ اجلاسوں میں، جلسوں میں جو پروگرام ہیں، وہ جاپانی زبان میں ہونے چاہئیں۔ یہ بھی مجھے بعض شکوے پہنچتے ہیں کہ جو جاپانی چند ایک ہیں اُن کو سمجھ نہیں آتی کہ اجلاسوں میں کیا ہو رہا ہے۔ جن عورتوں کو یا مردوں کو جاپانی زبان اچھی طرح سمجھ نہیں آتی اُن کے لئے اردو میں ترجمہ کا انتظام ہو۔ نہ کہ اردو پروگرام ہوں اور جاپانی میں ترجمے ہوں۔ یہاں بات الٹ ہونی چاہئے۔ سارے اجلاسات جاپانی میں ہوں اور ترجمہ اردومیں ہو۔ جاپانی احمدیوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے پروگراموں کا حصہ بنائیں، ان سے تقریریں بھی کروائیں، ان کو نظام بھی سمجھائیں اور ان سے دوسری خدمات بھی لیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا، اب ایک نئی مسجد ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی بن جائے گی، اس سے تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے۔ ان راستوں پر ہر احمدی کو نگران بن کر کھڑا ہونا پڑے گا تاکہ جو اِن راستوں پر چلنے کے لئے آئے، جو اِن کی تلاش کرنے کی کوشش کرے، وہاں ہر پرانا احمدی جو احمدیت کے بارے میں علم رکھتا ہے راہنمائی کے لئے موجود ہو۔ اور جیسا کہ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، یہ کام نہیں ہو سکتا اگر ہر ایک کا خدا تعالیٰ سے تعلق قائم نہ ہو، اُس اَحد خدا کی عبادت کا حق نہ ہو جس کے نام پریہ مسجدبنائی جا رہی ہے، اُس اَحد خدا کی غنٰی کا اِدراک نہ ہوجس کا کسی سے رشتہ نہیں۔ اُس کے لئے معزز وہی ہے جو تقویٰ پر چلنے والا ہے، عبادتوں کا حق ادا کرنے والا ہے اور اعمالِ صالحہ بجالانے والا ہے، مخلوقِ خدا کی رہنمائی اور اُسے خدا تعالیٰ کے حضور جھکانے کی کوشش کرنے والا ہے۔ آپس میں ایسے مومن بن کر رہنے والا ہے جو رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ کی مثال ہوتے ہیں۔ پس ہراحمدی کو یادرکھنا چاہئے کہ یہ صرف عہدیداران کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھے کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف عہدیداروں کی غلطیاں نکالنے پر مصروف نہ ہو جائے بلکہ اپنے جائزے لے کر اپنے آپ کو خدائے واحد و یگانہ کے ساتھ تعلق جوڑنے والا بنائے، خدائے رحمان سے تعلق جوڑ کر عبدِ رحمان بنے۔ اور اس مسجد کا حق اداکرنے کی تیاری کریں جو ان شاء اللہ تعالیٰ عنقریب آپ کو ملنے والی ہے۔ اپنی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ دلانے کی کوشش کریں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتا ہے، اپنی کوشش سے نہیں ہوتا۔ اُس کے لئے دعاؤں کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگنے کی بھی ضرورت ہے، عاجزی کی بھی ضرورت ہے۔
( خطبہ جمعہ 8؍ نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)