• 7 جولائی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے(مسیح موعود ؑ) (قسط 46)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے(مسیح موعود ؑ)
قسط46

قُل مَا یَعبَؤُا بِکُم رَبِّی لَو لَا دُعَاؤُکُم

خدا تعالیٰ کی نظر جذرِ قلب تک پہنچتی ہے۔ پس وہ زبانی باتوں سے خوش نہیں ہوتا۔ زبان سے کلمہ پڑھنا یا استغفار کرنا انسان کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ جب وہ دل و جان سے کلمہ یا استغفار نہ پڑھے۔ بعض لوگ زبان سے استغفراللہ کرتے جاتے ہیں مگر نہیں سمجھتے کہ اس سے کیا مراد ہے۔ مطلب تو یہ ہے کہ پچھلے گناہوں کی معافی خلوص دل سے چاہی جائے اور آئندہ کے لئے گناہوں سے باز رہنے کا عہد باندھا جائے اور ساتھ ہی اس کے فضل و امداد کی درخواست کی جائے۔ اگر اس حقیقت کے ساتھ استغفار نہیں ہے تو وہ استغفار کسی کام کا نہیں۔ انسان کی خوبی اسی میں ہے کہ وہ عذاب آنے سے پہلے اس کے حضور میں جھک جائے اور اس کا امن مانگتا رہے۔ عذاب آنے پر گڑگڑانا اور وَقِنَا وَقِنَا پکارنا تو سب قوموں میں یکساں ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ خدا کا عذاب چاروں طرف سے محاصرہ کئے ہوئے ہو ایک عیسائی ایک آریہ ایک چوہڑا بھی اس وقت پکار اٹھتا ہے کہ الٰہی ہمیں بچائیو۔ اگر مومن بھی ایسا کرے تو پھر اس میں اور غیروں میں فرق کیا ہوا۔ مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ عذاب آنے سے قبل خداتعالیٰ کے کلام پر ایمان لا کر خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑائے۔

اس نکتہ کو خوب یاد رکھو کہ مومن وہی ہے جو عذاب آنے سے پہلے کلامِ الٰہی پر یقین کرکے عذاب کو وارد سمجھے اور اپنے بچاؤ کے لئے دعا کرے۔ دیکھو ایک آدمی جو توبہ کرتا ہے دعا میں لگا رہتا ہے تو وہ صرف اپنے پر نہیں بلکہ اپنے بال بچوں پر اپنے قریبیوں پر رحم کرتا ہے۔ کہ وہ سب ایک کے لئے بچائے جاسکتے ہیں۔ ایسا ہی جو غفلت کرتا ہے تو نہ صرف اپنے لئے برا کرتا ہے بلکہ اپنے تمام کنبے کا بدخواہ ہے۔

…پس مومنو۔ قوا انفسکم و اھلیکم نارًا (التحریم:7) دعا میں لگے رہو کہ خدا تعالےٰ فرماتا ہے قل ما یعبؤا بکم ربّی لو لا دعاؤکم (الفرقان:78)۔ ایک انسان جو دعا نہیں کرتا۔ اس میں اور چارپائے میں کچھ فرق نہیں۔ ایسے لوگوں کی نسبت خدا تعالےٰ فرماتا ہے۔ یأکلون کما تأکل الانعام والنّار مثویً لھم۔ یعنی چارپائیوں کی زندگی بسر کرتے ہیں اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے۔

پس تمہاری بیعت کا اقرار اگر زبان تک محدود رہا تو یہ بیعت کچھ فائدہ نہ پہنچائے گی۔ چاہیئے کہ تمہارے اعمال تمہارے احمدی ہونے پر گواہی دیں۔ میں ہرگز یہ بات نہیں مان سکتا کہ خدا تعالےٰ کا عذاب اس شخص پر وارد ہو جس کا معاملہ خدا تعالیٰ سے صاف ہو۔ خدا تعالےٰ اسے ذلیل نہیں کرتا جو اس کی راہ میں ذلت اور عاجزی اختیار کرے۔ یہ سچی اور صحیح بات ہے…پس راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں مانگو۔ کوٹھری کے دروازے بند کرکے تنہائی میں دعا کرو کہ تم پر رحم کیا جائے۔ اپنا معاملہ صاف رکھو کہ خدا کا فضل تمہارے شامل حال ہو جو کام کرو نفسانی غرض سے الگ ہو کر کرو تا خدا تعالیٰ کے حضور اجر پاؤ۔

(ملفوظات جلد9صفحہ 357-359 ایڈیشن 1984ء)

دوسروں پر رحم کرو تا تم پر رحم کیا جاوے

شیخ سعدی لکھتے ہیں کہ ایک بادشاہ کو ناروا کی بیماری تھی۔ اس نے کہا کہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ کریم مجھے شفا بخشے تو میں نے جواب دیا کہ آپ کے جیل خانہ میں ہزاروں بے گناہ قید ہوں گے ان کی بددعاؤں کے مقابلہ میں میری دعا کب سنی جاسکتی ہے۔ تب اس نے قیدیوں کو رہا کردیا اور پھر وہ تندرست ہوگیا۔ غرض خدا کے بندوں پر اگر رحم کیا جاوے تو خدا بھی رحم کرتا ہے۔ جو لوگ دوسروں پر رحم کرتے ہیں ان پر اللہ اور اس کے رسول کو بھی رحم آجاتا ہے۔

(ملفوظات جلد9صفحہ 368-369 ایڈیشن 1984ء)

خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا گُر

توبہ استغفار کرنی چاہیئے۔ بغیر توبہ استغفار کے انسان کر ہی کیا سکتا ہے۔سب نبیوں نے یہی کہا ہے کہ اگر توبہ استغفار کرو گے تو خدا بخش دے گا۔ سو نمازیں پڑھو اور آئندہ گناہوں سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور پچھلے گناہوں کی معافی مانگو اور بار بار استغفار کرو تاکہ جو قوت گناہ کی انسان کی فطرت میں ہے وہ ظہور میں نہ آوے۔ انسان کی فطرت میں دو طرح کا ملکہ پایا جاتا ہے۔ ایک تو کسبِ خیرات اور نیک کاموں کے کرنے کی قوت ہے اور دوسرے برے کاموں کو کرنے کی قوت۔ اور ایسی قوت کو روکے رکھنا یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور یہ قوت انسان کے اندر اس طرح سے ہوتی ہے جس طرح کہ پتھر میں ایک آگ کی قوت ہے۔

اور استغفار کے یہی معنے ہیں کہ ظاہر میں کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور گناہوں کے کرنے والی قوت ظہور میں نہ آوے۔ انبیاء کے استغفار کی بھی یہی حقیقت ہے کہ وہ ہوتے تو معصوم ہیں مگر وہ استغفار اس واسطے کرتے ہیں کہ تا آئندہ وہ قوت ظہور میں نہ آوے اور عوام کے واسطےاستغفار کے دوسرے معنے بھی لئے جاویں گے کہ جو جرائم اور گناہ ہوگئے ہیں ان کے بد نتائج سے خدا بچائے رکھے اور ان گناہوں کو معاف کردے اور ساتھ ہی آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے۔

بہر حال یہ انسان کے لئے لازمی امر ہے وہ استغفار میں ہمیشہ مشغول رہے۔ یہ جو قحط اور طرح طرح کی بلائیں دنیا میں نازل ہوتی ہیں ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ لوگ استغفار میں مشغول ہو جائیں۔ مگر استغفار کا یہ مطلب نہیں ہے جو استغفراللّٰہ استغفراللّٰہ کہتے رہیں اصل میں غیر ملک کی زبان کے سبب لوگوں سے حقیقت چھپی رہی ہے۔ عرب کےلوگ تو ان باتوں کو خوب سمجھتے تھے مگر ہمارے ملک میں غیر زبان کی وجہ سے بہت سی حقیقتیں مخفی رہی ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی دفعہ استغفار کیا۔ سو تسبیح یا ہزار تسبیح پڑھی مگر جو استغفار کا مطلب اور معنے پوچھو تو بس کچھ نہیں ہکا بکا رہ جاویں گے۔ انسان کو چاہیئے کہ حقیقی طورپر دل ہی دل میں معافی مانگتا رہے کہ وہ معاصی اور جرائم جو مجھ سے سرزد ہوچکے ہیں ان کی سزا نہ بھگتنی پڑے اور آئندہ دل ہی دل میں ہر وقت خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا رہے کہ آئندہ نیک کام کرنے کی توفیق دے اور معصیت سے بچائے رکھے۔

خوب یاد رکھو کہ لفظوں سے کچھ کام نہیں بنے گا۔ اپنی زبان میں بھی استغفار ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ پچھلے گناہوں کو معاف کرے اور آئندہ گناہوں سے محفوظ رکھے اور نیکی کی توفیق دے اور یہی حقیقی استغفار ہے۔ کچھ ضرورت نہیں کہ یونہی استغفراللّٰہ استغفراللّٰہ کہتا پھرے اور دل کو خبر تک نہ ہو۔ یاد رکھو کہ خدا تک وہی بات پہنچتی ہے جودل سے نکلتی ہے۔ اپنی زبان میں ہی خدا تعالیٰ سے بہت دعائیں مانگنی چاہئیں۔ اس سے دل پر بھی اثر ہوتا ہے۔ زبان تو صرف دل کی شہادت دیتی ہے۔ اگر دل میں جوش پیدا ہو اور زبان بھی ساتھ مل جائے تو اچھی بات ہے۔ بغیر دل کے صرف زبانی دعائیں عبث ہیں ہاں دل کی دعائیں اصلی دعائیں ہوتی ہیں۔ جب قبل از وقتِ بلا انسان اپنے دل ہی دل میں خدا تعالےٰ سے دعائیں مانگتا رہتا ہے اور استغفار کرتا رہتا ہے تو پھر خدا وند رحیم و کریم سے وہ بلا ٹل جاتی ہے لیکن جب بلا نازل ہوجاتی ہے پھر نہیں ٹلا کرتی۔ بلا کے نازل ہونے سے پہلے دعائیں کرتے رہنا چاہیئے اور بہت استغفار کرنا چاہیئے۔ اس طرح سے خدا بلا کے وقت محفوظ رکھتا ہے۔

(ملفوظات جلد9صفحہ 372-374 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جوابا (قسط 7)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2022