حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
سنگاپور کی اس reception میں وہاں کے ایک مہمان Mr. Lee Koon Choy بھی تھے۔ یہ 29سال تک آٹھ ممالک میں سنگاپور کے سفیر اور ہائی کمشنر رہ چکے ہیں۔ ممبر آف پارلیمنٹ تھے۔ سینیئر منسٹر آف سٹیٹ رہ چکے ہیں اور سنگاپور کے بانیوں میں سے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب میں ساٹھ کی دہائی میں مصر میں سفیر تھا اُس وقت مصر کے اور سارے عرب کے حالات بہت اچھے تھے، امن قائم تھا لیکن اب گزشتہ سالوں سے عرب ممالک میں امن برباد ہو گیا ہے اور اسلام کا ایک غلط تأثر پیش کیا جا رہا ہے۔ کہنے لگے: لیکن مجھے اس بات سے خوشی ہے اور میں اس بات کو سراہتا ہوں کہ احمدیہ مسلم جماعت کے سربراہ دنیا کے سامنے حقیقی اور پُر امن اسلام کا نام روشن کر رہے ہیں اور پیغام دے رہے ہیں۔ یہ ابھی بھی باوجودیکہ ریٹائر ہو چکے ہیں، سنگاپور کے ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کی وہاں کا ہر شخص بڑی عزت اور احترام کرتا ہے۔
اسی طرح Indonesian Mosque Council’s Muslimah Talent Department کے ہیڈ اور سٹیٹ اسلامی یونیورسٹی جکارتہ میں وِیمن سٹڈی سینٹر کے ہیڈ اور لیکچرر Mr Ida Rosyidah نے میرا خطاب سننے کے بعد کہا کہ جماعت کو چاہئے کہ وہ ترقی یافتہ ممالک کے علوم و فنون، ترقی پذیر ممالک میں لے کر جائے اور اس طرح یہ عالمی نا انصافی اور غربت سے لڑنے کے لئے سب کی رہنما جماعت بنے۔ یہاں جو میرا لیکچر تھا وہ دنیا کی اقتصادی حالت اور اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے کے موضوع پر تھا۔ تو اس بات پر انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا۔ کہتے ہیں آج دنیا کی کسی بھی تنظیم کے پاس اس قسم کا نظام اور قیادت نہیں ہے جو جماعت احمدیہ کے پاس ہے۔ آج جماعت احمدیہ ہی اسلام کا صحیح نمونہ ہے۔ اور یہ وہاں کی اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ پھر تاسک ملایا میں یوتھ موومنٹ کے ایک ممبر ہیں، وہ خطاب کے بعد کہنے لگے کہ یہ تمام انڈونیشین لوگوں تک پہنچنا چاہئے تا کہ وہ امن اور ہم آہنگی پر مشتمل اسلامی تعلیمات کو سمجھ سکیں۔ پھر ایک Mr Kunto Sofianto صاحب ہیں۔ یہ پی ایچ ڈی ہیں۔ انڈونیشیا میں یونیورسٹی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ انڈونیشیا کے وہ لوگ جو احمدیوں کے مخالف ہیں وہ خلیفۃ المسیح سے ملیں اور ان کی باتیں سنیں تا کہ اُن کے دل کھلیں۔ آج صرف جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہی ہیں جو اسلام کو امن پسند مذہب کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ پھر انڈونیشین اخبار ٹریبیون جابار (Tribune Jabar) کے جرنلسٹ جو احمدیت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خلیفۃ المسیح نے انسانیت، انصاف اور امن پر مبنی اقتصادی نظام کے بارے میں جو تعلیمات بیان کی ہیں اس نے مجھ پر گہرا اثر کیا ہے۔
ایک انگریز نوجوان سنگاپور میں گزشتہ ستائیس سال سے مقیم ہیں اور وہاں انہوں نے اسلام قبول کیا۔ وہیں ایک کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب میں نے پروگرام میں شامل ہونے کا ارادہ کیا تو میری کمپنی والوں نے مجھے روکا کہ اس پروگرام میں شامل نہیں ہونا۔ دو تین بار روکا۔ ہو سکتا ہے یہ کسی مسلمان کی ہو۔ کہتے ہیں مجھے یہ بھی کہا کہ تمہیں فارغ کر دیں گے۔ لیکن اس کے باوجود میں شامل ہوا۔ پھر اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ مَیں پہلے سے مسلمان ہوں لیکن اسلام کی جو سچی اور حقیقی تعلیم آج سنی ہے وہ زندگی میں پہلی بار سنی ہے اور اسلام کی یہ تصویر پہلی مرتبہ دیکھی ہے۔ بلکہ اس بات پر بھی مائل تھے کہ اسلام احمدیت کے بارے میں مزید معلومات لوں گا تا کہ مجھے صحیح اسلام کا پتہ لگ سکے اور میں جماعت میں شامل بھی ہونا چاہوں گا اور جب یہاں یوکے آؤں گا تو ملوں گا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کرے۔ اللہ ان کا سینہ کھولے۔ فلپائن سے بھی کچھ لوگ آئے ہوئے تھے۔ اُس کی یونیورسٹی میں ایشین اور اسلامک سٹڈی کے پروفیسر نے یہ اظہار کیا۔ پہلے تو انہوں نے شکریہ ادا کیا کہ ان کو یہاں بلایا گیا، آنے کا موقع دیا گیا، ملاقات ہوئی۔ اور پھر کہتے ہیں کہ جو باتیں ہوئیں (میرے ساتھ بیٹھ کے ان کی کافی باتیں ہوئیں) اُن سے یہی اندازہ لگایا ہے کہ جماعت احمدیہ ہی ہے جو مسلمانوں کو اکٹھا کر سکتی ہے اور میرا کہا کہ انہوں نے اکٹھا کرنے کا جو طریق بتایا ہے یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور قرآنِ کریم کی جو حقیقی تعلیم ہے اُس کی طرف واپس چلے جائیں۔ اسی طرح فلپائن کے ایک سیکرٹری ایجوکیشن رہ چکے ہیں، یہ مسلمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کے بارے میں شہادت دیتا ہوں کہ یہ جماعت غالب آنے والی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمانوں پر ظلم ہوتا تھا آج اسی طرح جماعت احمدیہ پر ظلم ہو رہا ہے۔ جس طرح اسلام کو پہلے زمانے میں فتح حاصل ہوئی اُسی طرح آج جماعت احمدیہ کو بھی فتح حاصل ہو گی جو کہ یقینی ہے اور ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں۔ احمدیت کو جب عظیم الشان فتح حاصل ہو گی تو ہم بھی اُس میں شامل ہوں گے۔ ان میں سے بعض دل سے تقریباً احمدی ہوئے ہوئے ہیں صرف بعض تنظیمیں وہاں ایسی ہیں جن کا اُن کو خوف ہے۔ یہاں جو مختلف پروگرام تھے ان میں سے اصل پروگرام یہی سنگاپور کی reception کا تھا، باقی تو جمعہ تھا اور ملاقاتیں تھیں۔ بہرحال اس کے بعد آسٹریلیا کا دورہ شروع ہوا۔
(خطبہ جمعہ 15؍نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)