حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ ان مبارک وجودوں میں شامل ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے موعود مسیح کی نہ صرف بیعت کی بلکہ اُن کی تعلیمات اور نصائح پر ایسا عمل کیا کہ روحانی مدارج طے کرتے چلے گئے۔ رسول اللہؐ سے عشق کا نمونہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم کیا، وہ ایسا تھا کہ اسلام میں کم ہی ہیں جنہوں نے ایسا مقام پایا۔ اور آپ کے صحابہ رضی اللّٰہ عنھم نے اس نمونہ پر ایسا عمل کیا کہ آسمانوں نے شہادت دی کہ یہ شخصیتیں رسول کریمؐ سے سچی محبت رکھتی ہیں۔
اس مضمون میں ان چند رؤیا و کشوف کا ذکر ہے جن میں آپؓ نے رسول کریمؐ کو دیکھا اور آپؐ کی صحبت میں وقت گذارا۔ مگر یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب دوست ملتے ہیں تو ضروری نہیں کہ عوام الناس کو ہر بات پتہ چلے۔ مگر حضرت مصلح موعودؓ نے بعض رؤیا و کشوف کا ذکر محض اس لئے کر چھوڑا کہ تا افراد جماعت کے ایمان تازہ ہوں اور وہ بھی ان برکات کو چکھیں اور خود اپنی کوششیں کریں۔
حضرت مولوی حکیم نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے قریبی دوست تھے۔ پس حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کے بعد آنحضرتؐ صرف خواب میں ہی نظر نہیں آتے بلکہ بیداری میں بھی زیارت ہوا کرتی تھی۔
(حیاتِ نور صفحہ 194)
پھر آپ لکھتے ہیں کہ ’’میں نے ایک دفعہ رؤیا میں نبی کریمؐ کو دیکھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’تمہارا کھانا تو ہمارے گھر میں ہے…‘‘
(مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین صفحہ 122)
ایک موقعہ پر آپؓ نے اپنی ایک خوبصورت خواب یوں بیان کی:
’’میں نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ اس مندر کے سامنے آٹے،نمک، تیل وغیرہ یعنی پرچون کی ایک دوکان ہے۔ وہاں ایک لکڑی کی چوکی پر حضرت نبی کریمؐ بیٹھے ہیں۔ میں وہاں سے گزرا تو آپؐ نے فرمایا کہ تم ہمارے یہاں سے آٹا لے لو۔ چنانچہ انہوں نے ایک لکڑی کی ترازو میں آٹا تولا جو بظاہر ایک آدمی کی خوراک کے قابل تھا۔ میں نے اپنے دامن میں اس کو لیا۔ جب وہ آٹا میرے دامن میں ڈال چکے تو کفہ ترازو کو زور سے ڈنڈی پر مارا تا کہ سب آٹا میرے دامن پر گر جائے۔ جب میں آٹا اپنے دامن میں لے چکا تو میں نے سوال کیا کہ آپؐ نے حضرت ابو ہریرہ کو کوئی ایسی بات بتائی تھی جس سے وہ آپ کی حدیثیں یاد رکھتے تھے؟ آپؐ نے فرمایا۔ ہاں۔ میں نے عرض کیا۔ وہ بات مجھے بھی بتا دیں تا کہ میں آپؐ کی حدیثیں یاد کر لوں۔ کہا کہ ہم کان میں بتاتے ہیں۔ میں نے کان آگے کیا اور آپؐ نے اپنا منہ میرے کان سے لگایا کہ اتنے میں خلیفہ نورالدین نے میرے ایک پاؤں کو خوب زور سے دبایا اور کہا کہ نماز کا وقت ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ حدیث پر عمل کرنا یہی حدیثوں کے یاد کرنے کا ذریعہ ہے۔ اٹھانے والا بھی خواب ہی کا فرشتہ ہوتا ہے اور نورالدین کے لفظ سے یہ تعبیر میری سمجھ میں آئی۔‘‘
(مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین صفحہ 173)
رسول اللہؐ سے ایسا قرب تھا کہ فرمایا:
’’ میں نے ایک مرتبہ نبی کریمؐ کو خواب میں دیکھا کہ مجھ کو کمر پر اس طرح اُٹھا رکھا ہے جس طرح بچوں کو مشک بناتے ہیں۔ پھر میرے کان میں کہا کہ تو ہم کو محبوب ہے۔‘‘
(حیاتِ نور صفحہ 519-520)
رسول اللہؐ آپ کی ہدایت کا سامان بھی فرمایا کرتے تھے۔ فرمایا:
’’ ان دنوں مجھ کو ایک بیوہ کا پتہ لگا کہ جس کو مختلف اسباب سے میں پسند کرتا تھا۔ میں نے اس کے یہاں نکاح کی تحریک کی۔ وہ عورت تو راضی ہو گئی۔ مگر ملک کا رواج جو بیواؤں کے نکاح کا نہیں ہے اس کے متعلق اس نے عذر کیا اور پھر یہ بھی کہا کہ آپ نکاح کر لیں کچھ دنوں کے بعد میرے ولی راضی ہو جائیں گے۔ میں نے ان ولیوں کو اس خیال پر کہ وہ بیوہ کے نکاح کو روکتے ہیں معزول سمجھا۔ اور اس نکاح میں جراٴت کر لی۔ قبل اس کے کہ وہ ہمارے گھر میں آئے۔ میں نے حضرت نبی کریمؐ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کا چہرہ زرد ہے زمین پر لیٹے ہیں اور داڑھی منڈھی ہوئی ہے۔ میں ہوشیار ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ نکاح سنت کے خلاف واقع ہوا ہے۔
دالان میں آتے ہی مجھ پر نوم غیر طبعی طاری ہو گئی۔ میں لیٹ گیا تو میں نے حضرت نبی کریمؐ کو دیکھا۔ اس وقت آپ کی عمر پچیس برس کے قریب معلوم ہوتی تھی۔ گویا وہ عمر تھی جب آپؐ کی شادی ہوئی ہو گی۔ میں نے دیکھا کہ بائیں جانب سے آپ کی داڑھی خشخشی ہے اور داہنی طرف بال بہت بڑے ہیں اور میں حضور میں بیٹھا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ بال دونوں طرف کے برابر ہوتے تو بہت خوبصورت ہوتے۔ پھر معاً میرے دل میں آیا کہ چونکہ اس حدیث کے متعلق تجھ کو تامل ہے اس لئے یہ فرق ہے۔ تب میں نے اسی وقت دل میں کہا کہ اگر سارا جہان بھی اس کو ضعیف کہے گا تب بھی میں اس حدیث کو صحیح سمجھوں گا۔ یہ خیال کرتے ہی میں نے دیکھا کہ دونوں طرف داڑھی برابر ہو گئی اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور مجھ سے کہا کہ کیا تو کشمیر دیکھنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ! آپؐ چل پڑے اور میں پیچھے پیچھے تھا۔ بانہال کے رستے سے ہم کشمیر گئے۔ یہ بھیرہ چھوڑنے اور کشمیر کی ملازمت کی تحریک ہے اس لئے میں بھیرہ کا اور کوئی حال نہیں لکھواتا۔‘‘
(مرقاۃ الیقین فی حیات نورالدین صفحہ 158-160)
حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی و المصلح الموعودؓ
حضرت مصلح موعودؓ کا عشق رسول بے مثال تھا۔ ایک بار جب حضرت مصلح موعودؓ کی عمر کافی کم تھی، آپؓ نے ایک رؤیا دیکھی۔ اس رؤیا میں آپؓ ایک بڑی مجلس میں تشریف فرما تھے اور اسی رؤیا میں آپ کو بتایا گیا کہ رسول کریمؐ بھی موجود ہیں گو آپؓ نے ان کو نہ دیکھا۔
(الفضل 13 دسمبر 1914ء صفحہ 12، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 37 تا 38)
آپؓ نے اس زیارت کی کثرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نے بیسیوں دفعہ رسول کریمؐ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا اور آپ نے بتایا کہ یہ بات یوں ہے اور وہ اسی طرح ثابت ہوئی۔‘‘
(الفضل 26 ستمبر 1933ء صفحہ 7، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 108)
پھر ایک اور جگہ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ابھی کچھ ہی دن ہوئے محمد مصطفےٰؐ تمثیلی طور پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے مجھے فرمایا۔ ہم تیری مشکلات کو دیکھتے ہیں اور ان کو دور کر سکتے ہیں لیکن ایک دو (یا دو تین کہا) سال تک صبر کی آزمائش کرتے ہیں۔‘‘
(پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 398،
رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 44-45)
احادیث رسولؐ کی تصدیق آپ کو بھی ہوتی رہی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’میں نے ایک دفعہ رسول کریمؐ کو رؤیا میں دیکھا آپ ایک اور شخص سے فرما رہے تھے أَ تُصَدِّقُنِيْ وَلَا تُؤْمِنُ بِيْ یعنی تو میری تصدیق تو کرتا ہے مگر میری بات نہیں مانتا۔ گویا یہ ایک حدیث ہے جو رسول کریمؐ کے مونہہ سے میں نے براہ راست سنی۔‘‘
(خطبہ جمعہ 19 اپریل 1935ء مطبوعہ خطبات محمود جلد 16 صفحہ 273،
رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 116)
پھر آپؓ اپنی ایک پیاری خواب کو یوں بیان فرماتے ہیں:
’’مقبرہ بہشتی کی طرف جاتے ہوئے مدرسہ احمدیہ اور بکڈپو کے درمیان سے جو گلی گزرتی ہے۔ اور جس کے آگے کنواں آ جاتا ہے یہاں پہلے ایک چھوٹا سا میدان تھا۔ اب تو وہاں کمرے بن چکے ہیں۔ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ اس میدان میں ایک کرسی بچھائی گئی ہے اور کسی نے کہا ہے کہ رسول کریمؐ تشریف لا رہے ہیں۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ ایک طرف سے رسول کریمؐ تشریف لا رہے ہیں۔ جب دوسری طرف میں نے نگاہ اٹھائی تو میں نے دیکھا اُس طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لا رہے ہیں اور دونوں کے منہ اُس کرسی کی طرف ہیں۔ خواب میں میں سخت گھبراتا ہوں کہ یہ کیسی خطرناک غلطی ہوئی ہے کہ رسول کریمؐ بھی تشریف لا رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لا رہے ہیں لیکن کُرسی ایک ہے یہ تو بڑی ہتک آمیز بات ہے مگر اُس وقت نہ مجھ سے اُٹھا جاتا ہے کہ میں دوڑ کر کوئی اور کُرسی لے آؤں اور نہ کسی اور کو یہ خیال آیا۔ اُس وقت میرا دل خوف سے دھڑک رہا ہے اور جوں جوں وہ قریب آ رہے ہیں میرا اضطراب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دونوں کُرسی کے قریب پہنچ گئے۔ اُس وقت مجھے خیال آیا کہ اب شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیچھے ہٹ جائیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیچھے نہ ہٹے اور رسول کریمؐ بھی آگے کی طرف بڑھے۔ اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ میرے دل کی حرکت بند ہو جائے گی مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی میں نے دیکھا کہ دونوں نے اپنے اپنے جسم کو ذرا سا ٹیڑھا کر کے کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی۔ اور اِس کے بعد اُن کے دھڑ ایک دوسرے میں داخل ہونے شروع ہو گئے۔ اور جب وہ کُرسی پر بیٹھ گئے تو دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود نظر آنے لگا۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 527-528، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 216 تا 217)
حضرت مصلح موعودؓ اپنی ایک دلچسپ خواب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’رؤیا میں میں نے دیکھا کہ میں عرب میں ہوں اور رسول کریمؐ بھی وہیں موجود ہیں۔ میں خواب میں یہ نہیں سمجھتا کہ مجھے وہ پہلا زمانہ دکھایا گیا ہے جب رسول کریمؐ دنیا میں موجود تھے اور نہ اس امر کا خیال گزر رہا ہے کہ رسول کریمؐ دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ہیں بہر حال رسول کریمؐ وہاں موجود ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمؐ مکہ میں ہیں اور ہم بھی مکہ میں ہیں اور مدینہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریمؐ کو کچھ مشکلات در پیش تھیں اس پر آپ حضرت ابوبکرؓ سے مشورہ کرنے کے لئے مدینہ تشریف لے گئے۔ حضرت ابو بکرؓ نے رسول کریمؐ سے جو باتیں کیں ان میں ایک واقعہ بھی بیان کیا ہے اور رسول کریمؐ نے اس واقعہ سے ہی فوراً ایک نتیجہ اخذ کر لیا اور اس پر عمل کر کے مشکلات کو حل کر لیا۔ وہاں بہت سے لوگ ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا مونہہ مغرب کی طرف ہے یعنی افریقہ کی طرف ہے کیونکہ افریقہ عرب سے مغرب کی طرف ہے اور رسول کریمؐ جنوب کی طرف کھڑے ہیں اور آپ بالکل نوجوان دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی عمر چھبیس ستائیس سال کے قریب ہے آپ کے سر پر چھوٹی سی پگڑی ہے وہ پگڑی نہیں جو آج کل عرب لوگ باندھتے ہیں اور جسے کوفیہ کہتے ہیں بلکہ وہ پگڑی جو عرب کے لوگ پہلے زمانہ میں پہنا کرتے تھے۔ آپ کے پٹے کانوں کی لو تک ہیں۔ کچھ نیچے مگر کندھوں سے کافی اوپر تک ہیں۔ رنگ سفید ہے اور قد حدیثوں میں تو کچھ لمبا بیان ہوا ہے مگر میں نے آپ کا قد اس سے کچھ چھوٹا دیکھا ہے، آپ کچھ فاصلہ پر میری طرف منہ کر کے کھڑے ہیں۔ میں رسول کریمؐ کی طرف اشارہ کر کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ دیکھا ایک واقعہ جو حضرت ابو بکرؓ کو تیس چالیس سال سے معلوم تھا مگر باوجود تیس چالیس سال سے معلوم ہونے کے وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے محمد رسول اللہؐ نے اسے معلوم کر کے فوراً فائدہ اٹھا لیا اور جھٹ اس سے نتیجہ اخذ کر کے اپنی مشکل حل کر لی۔‘‘
(الفضل 31 اکتوبر 1946ء صفحہ 1، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 346 تا 347)
حضرت مصلح موعودؓکو منصب خلافت پر فائز ہوئے تقریباً تیس سال ہو چکے تھے جب آپ کو یہ پرنور خواب دکھائی دی۔ آپؓ نے اپنی رؤیا میں دیکھا کہ رسول کریمؐ کا نشان جھنڈے کی طرح بلند کھڑا کیا گیا۔ آپؓ اور آپ کے ساتھی کھڑے درود پڑھ رہے تھے اور رسول کریمؐ کی ترقی درجات کے لئے دعائیں کر رہے تھے۔ پھر اس جلوہ میں وقفہ کر دیا گیا اور اس وقفہ کے دوران ایک اور جھنڈا کھڑا کیا گیا جو فیروزی رنگ کا تھا۔ آپؓ کو بتایا گیا کہ یہ پاکستان کا جھنڈا ہے اور حضورؓ اور آپ کے ساتھی اس جھنڈے کی عزت کے قیام کے لئے دعائیں کرنے لگ گئے۔
چند منٹ بعد یہ جھنڈا غائب ہو گیا اور رسول کریمؐ کا نشان دوبارہ ظاہر ہوا اور ظاہر ہوتے ہی حضورؓ اور آپ کے ساتھی رسول کریمؐ پر پھر درود بھیجنے لگے اور پھر دعائیں کرنا شروع کر دیں۔ پھر آپؓ کو الہام ہوا کہ:
تَاجُ الْمَدِيْنَةِ نَزَلَتْ عَلَى رَأْسِيْ
جس کا مطلب تھا مدینہ کا تاج میرے سر پر اترا۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ جس وقت یہ الہام ہوا اسی وقت آپ کے سامنے ایک تاج رکھ دیا گیا جو ایک لکڑی کے خوبصورت رنگ دار ڈبہ میں تہہ کیا ہوا بند تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت پھر دل میں القاء ہوا ‘‘تيجان’’ جو تاج کی جمع ہے۔ اس لفظ کے القاء ہوتے ہی آپ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آپ کو تیرہ چودہ آدمی کرسیوں پر بیٹھے نظر آئے اور ان سب کے سروں پر ایک جیسے تاج تھے۔ مگر بیچ میں آپ کو ایک بہت جسیم اور قد آور شخص بیٹھا نظر آیا جس کے سر پر سب سے بڑا تاج تھا اور بلند بھی بہت زیادہ تھا اور گھیر میں بھی بہت زیادہ تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ شاید وہ شخص جو درمیان میں دکھایا گیا وہ رسول کریمؐ تھے اور جو لوگ ارد گرد بیٹھے تھے وہ آپ کے نائب تھے جو مختلف وقتوں میں امت میں پیدا ہوتے رہے۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ خواب میں ہی سمجھا کہ یہ چھوٹے بڑے تاج لوگوں کے درجہ کے مطابق ہیں مگر ہیں سب رسول کریمؐ کے تاج کے نمونہ پر بنائے ہوئے۔ ایسا معلوم ہوا کہ ہر زمانہ میں رسول کریمؐ کے تاج کے مشابہ تاج آپ کے نائبوں کو دیا جاتا ہے اس وقت حضورؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے پہلے الہام کو دوسرے الفاظ میں ڈھالا اور کہا:
تَاجُ الْمَدِيْنَةِ وُضِعَتْ عَلَى رَأْسِيْ
یعنی مدینہ کا تاج میرے سر پر بھی رکھا گیا۔
(الفضل 20 اکتوبر 1954ء صفحہ 2، رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ 560 تا 563)
حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ
حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ اعلیٰ پایہ کے روحانی وجود تھے۔ حیاتِ قدسی میں آپ نے اپنے روحانی سفروں کا ذکر کیا ہوا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ ایک رات رویا میں دیکھا کہ میں ایک شاہراہ پر جنوب سے شمال کی طرف جا رہا ہوں کہ راستہ میں ایک ہندوآنہ شکل کا آدمی سیاہ رنگ کا کتّا پکڑے ہوئے کھڑا ہے۔ جب میں آگے بڑھنے لگا تو وہ کتّا مزاحم ہوا اور وہ شخص مجھے کہنے لگا کہ اگر تم آگے گذرنا چاہتے ہو تو مجھے سجدہ کر کے آگے گذر سکتے ہو۔ میں نے کہا کہ سجدہ فقط خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے ہے اور میں خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ نہیں کر سکتا اس پر وہ کہنے لگا اگر تم مجھے سجدہ نہیں کر سکتے تو آگے بھی نہیں گذر سکتے۔ چنانچہ اس جواب پر میں آگے قدم بڑھانے لگا تو وہ کتّا پھر مزاحم ہوا اسی پس و پیش کی حالت میں جب میں بے حد پریشان تھا تو اچانک میرے پیچھے سے حضرت سرور کائناتؐ (فداہ نفسی) گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے میرے پاس پہنچے اور مجھے فرمانے لگے کہ آپ میرے پیچھے پیچھے چلے آئیے چنانچہ میں ارشاد گرامی کی تعمیل میں حضور انورؐ کے پیچھے ہو لیا اور آپؐ مجھے اس شاہراہ میں نکال کر ایک پگڈنڈی پر ساتھ لئے ہوئے اس ہندو اور کتّے سے کچھ فاصلہ پر پھر اسی شاہراہ میں لے آئے اور فرمانے لگے اب اس شاہراہ پر چلے جاؤ یہ کتا اب مزاحم نہیں ہو گا۔ اَللّٰهُمَّ صَلِّى عَلَى سَيِّدِنَا مُحَمَّدٌ الَّذِي عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ وَبِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ۔‘‘
(حیاتِ قدسی حصہ 1 صفحہ 11)
اسی دوران آپ کو ایک اور خواب آیا۔ فرمایا:
’’انہی دنوں جبکہ میں قادیان مقدس میں تھا ایک رات خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہہ رہا ہے کہ قادیان میں رسول کریمؐ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ میں نے اسے کہا تو پھر ہمارے امام مسیح موعود کہاں ہیں۔ اُس نے جواب دیا کہ وہ عرب کی طرف چلے گئے ہیں۔ میں نے پھر اُس شخص سے دریافت کیا کہ رسول کریمؐ کہاں ہیں تو وہ شخص جو دراصل فرشتہ تھا مجھے اپنے ساتھ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ کے مطب میں لے آیا۔ جہاں میں نے دیکھا تو آنحضرتؐ ایک چٹائی پر تشریف فرما تھے اور آپ کی شکل حضرت خلیفہ اول مولانا نور الدین صاحبؓ سے ملتی تھی۔ اس وقت حضور انور کے پاس ایک صحابی بھی بیٹھے ہوئے تھے جو اس وقت حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ہم شکل معلوم ہوتے تھے۔ خاکسار نے جب آنحضرتؐ کو دیکھا تو بجذبۂ اشتیاق ’’یا رسول اللّٰہ! یا رسول اللّٰہ!‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے حضورؐ کے قریب بیٹھ گیا۔ حضورؐ کے ارشاد پر اس صحابی نے ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر مجھے دیا جب میں نے وہ کاغذ لے کر پڑھا تو اس پر آنحضرتؐ کی طرف سے یہ لکھا ہوا تھا کہ ’’آپ درود پڑھا کریں۔‘‘ اس کے بعد میں بیدار ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی رویاء میں یہ فرماتے سُنا کہ ’’درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہیے۔‘‘
(حیاتِ قدسی حصہ 2 صفحہ 12)
رسول اللہؐ سے قربت اور حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت کا اندازہ اس خواب سے ہوتا ہے:
ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرتؐ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خاکسار تینوں کھڑے ہیں اس وقت آنحضرتؐ کا روئے مبارک مشرق کی طرف ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رخ مبارک مغرب کی جانب ہے اور خاکسار دونوں مقدس ہستیوں سے شمال کی طرف جنوب کی سمت کو منہ کیے ہوئے کھڑا ہے اور اپنی خوش قسمتی پا نازاں ہو کر بڑی مسرت سے کہہ رہا ہے:
’’ہم کس قدر خوش نصیب اور بلند بخت ہیں کہ ہم نے حضرت محمدؐ رسول اللہ کو بھی پایا اور حضرت امام مہدی کو بھی پا لیا۔‘‘
اس کے بعد جوں ہی میں نے ان مقدس ہستیوں کے چہرہ کی طرف دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ آنحضرتؐ کا روئے مبارک سورج کی طرح درخشاں ہے اور حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا چہرہ چودس (چودھویں) کے چاند کی طرح تاباں ہے اور حضرت نبی کریمؐ کے روئے مبارک کے عکس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ روشن ہو رہا ہے۔ اَلْحَمْدُ للّٰهِ عَلَى ذَلِكَ۔
(حیاتِ قدسی حصہ 4 صفحہ 184-185)
حضرت مصلح موعودؓ کے انتخاب کے بعد آپ کو خواب آئی:
حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کی وفات کے بعد جب حضرت سیدنا محمود تخت خلافت پر مسند نشین ہوئے تو آپ نے اپنی دعوا ت خاصہ کے وعدہ کے ساتھ مجھے بہت تسلّی دی کہ اللہ تعالیٰ سے بہت امید ہے کہ آپ صحت یاب ہو جائیں گے ان ہی ایام میں میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک سمندر حائل ہے جس کو میں عبور کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن کوئی صورت اور رستہ گزرنے کا نہیں ملتا۔ میں اسی تردد میں ہوں کہ اچانک میرے سامنے سیّدنا حضرت نبی کریمؐ ظاہر ہوئے جس جگہ حضور مجھے نظر آتے ہیں وہ سمندر کا دوسرا کنارہ معلوم ہوتا ہے اور میں پہلے والے کنارے پر ہوں۔ اس وقت میرا اور آنحضرتؐ کا فاصلہ بہت تھوڑا معلوم ہوتا ہے لیکن مجھے اس کو عبور کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ اس حالت میں کیا دیکھتا ہوں کہ آنحضرتؐ نے اپنے وجود کو آگے بڑھا کر میرے قریب کیا اور مجھے اوپر سے دونوں بازؤں سے پکڑ کر سمندر سے پار کر دیا یہ بشارت مجھے سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعوات خاصہ اور تسلّی دلانے کے بعد نصیب ہوئی اور اس کے بعد میری حالت جلد جلد روبصحت ہوتی گئی۔
(حیاتِ قدسی حصہ 3صفحہ 64)
آپ کو رؤیا میں دکھایا گیا کہ:
’’میں ایک ایسے مکان میں داخل ہوں۔ جس کے آگے ایک نہایت خوبصورت اور مزیّن شکل کا برآمدہ ہے۔ وہ برآمدہ کافی وسیع معلوم ہوتا ہے اس برآمدہ میں چار کرسیوں پر چار اشخاص مجھے نظر آئے اور مجھے بتایا گیا کہ ان چار ہستیوں میں سے فلاں ہستی اللہ تعالیٰ ہے اور فلاں سیّدنا حضرت محمدؐ مصطفٰےؐ ہیں اور تیسری اور چوتھی ہستی کو میں نے خود پہچان لیا وہ سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت میاں چراغ دین صاحب لاہوریؓ تھے۔ اس نظارہ کو دیکھنے کے بعد میں دوسری حالت میں منتقل ہو گیا۔‘‘
(حیاتِ قدسی حصہ 3 صفحہ 71)
ایک اور خواب میں دیکھا:
’’میں نے نماز کی حالت میں بھی کشفی نظارے دیکھے ہیں ایک دفعہ جب میں التحیات پڑھ رہا تھا تو جب میں نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ ورَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُه پڑھا۔ تو آنحضرتؐ کشفاً میرے سامنے متمثل ہو گئے۔ اور میرا یہ سلام اور رحمت کا تحفہ پھولوں کا ہار بن کر آنحضرتؐ کے گلے میں جا پڑا۔ اور پھر حضرت سرور کائناتؐ کی طرف سے ایک ہار آ کر میرے گلے میں پڑا اسی طرح یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ پھر کشفی حالت جاتی رہی تو میں نے تشہد اور باقی ادعیہ متعلقہ پڑھیں اور آخری سلام پھیرا۔‘‘
(حیاتِ قدسی حصہ 3 صفحہ 97)
حضرت مولانا محمد حسینؓ
حضرت مولانا محمد حسین صاحبؓ اپنی ایک خواب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میں ایک میدان میں کھڑا ہوں اور ایک بہت بڑا گھوڑا جو بہت خوبصورت اور سرخ رنگ کا تھا۔ اس پر ایک سوار چلا آ رہا تھا۔ اس گھوڑے کے پیچھے پیچھے حضرت مسیح موعود اور ان کے پیچھے حضرت المصلح الموعود پیدل چلے آ رہے ہیں۔ وہ گھوڑا میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس گھوڑے پر حضرت نبی کریمؐ سوار ہیں۔ اتنا بڑا اور اتنا خوبصورت گھوڑا میرے خیال میں اس دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ نبی کریمؐ کے سر پر سونے اور چاندی کا تاج ہے اور بہت خوبصورت لباس ہے۔ گھوڑا اس قدر طاقتور تھا کہ حضور نے دونوں ہاتھوں سے باگیں بڑی مضبوطی سے پکڑ کے گھوڑے کو قابو کر رکھا تھا۔ میرے دل میں وہ نظارہ دیکھ کر ایک ایسا جوش پیدا ہوا کہ میں نے کہا اے مولا کریم اس تاج پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہو گی تو یہ گرم ہو جاتا ہو گا۔ اگر آپ مجھے پر لگا دیں تو میں اڑ کر سورج اور چاند کے درمیان آ جاؤں اور اپنے پروں سے نبی کریمؐ کو ہوا بھی پہنچاؤں اور سایہ بھی کروں۔ میرے کہنے کی دیر تھی کہ میرے بازوؤں کے بڑے بڑے پر بن گئے اور میں نے پاؤں سے ذرا سا اشارہ ہی کیا تو اڑ کر فضا میں عین اسی جگہ پہنچ گیا جہاں کی مجھے خواہش تھی۔ میرے پروں کی ہوا پہنچی تو انہوں نے سر اٹھا کر میری جانب دیکھا۔ میں بھی آپؐ کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ آپؐ کا چہرہ نہایت ہی خوبصورت تھا اور آپؐ میری طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے گویا خوشنودی کا اظہار فرما رہے ہیں۔ اس وقت میں بھی تہیہ کیے ہوئے ہوں کہ جدھر جدھر بھی یہ گھوڑا جائے گا میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ان کے اوپر اوپر اڑتا چلا جاؤں گا اور اپنا سایہ ان پر کیے رکھوں گا اور پروں سے سایہ کے علاوہ ٹھنڈی ہوا بھی پہنچاؤں گا۔ یہ خدمت کر کے میرا دل اتنا خوش ہوا کہ ساتھ ہی آنکھ کھل گئی۔‘‘
(میری یادیں صفحہ238-239 از حضرت مولوی محمد حسینؓ صحابی حضرت مسیح موعودؑ)
حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہؓ
حضرت سیّد زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرزند حضرت سیّد عبد الستار صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب وہ سات آٹھ سال کے تھے تو انہوں نے خواب دیکھی کہ:
کسی نے گھر میں آ کر اطلاع دی ہے کہ حضرت نبی کریمؐ تشریف لا رہے ہیں۔ چنانچہ ہم باہر ان کے استقبال کے لئے دوڑے۔ شفا خانہ کی فصیل کے مشرقی جانب کیا دیکھتا ہوں کہ بہلی میں آنحضرتؐ سوار ہیں۔ جہاں تک مجھے یاد ہے سبز عمامہ ہے اور بھاری چہرہ ہے۔ رنگ بھی سفید گندم گوں ہے۔ اور ریش مبارک بھی سفید ہے۔ اور سورج نکلا ہوا ہے۔ مجھے فرماتے ہیں۔ کہ آپ کو قرآن پڑھانے کے لئے آیا ہوں۔
(حضرت ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ ؓ صفحہ 8)
حضرت سعیدہ بیگمؓ
حضرت سعیدہ بیگم صاحبہؓ حضرت سیّد عبد الستار شاہ صاحب کی اہلیہ محترمہ اور حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کی والدہ صاحبہ تھیں۔ حضرت سیّد عبد الستار شاہ صاحب اپنی اہلیہ محترمہ کی بابت بیان فرماتے ہیں:
ایک دن میری اہلیہ نے بتایا کہ میں نے خواب میں رسول اللہؐ کو دیکھا ہے۔ آپ نے وسطی اور سبابہ دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا کہ میں اور مسیح ایک ہیں۔
(حضرت ڈاکٹر سیّد عبد الستار شاہ ؓ صفحہ 29)
حضرت ولی اللہ شاہ صاحبؓ نے اپنی والدہ صاحبہ کے متعلق بیان فرمایا کہ ان کی والدہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت امّاں جانؓ کو خواب میں دیکھا۔ آنحضرتؐ حضرت امّاں جانؓ کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ یہ مسیح موعود کی بیوی ہے۔ اپنے گلے سے سونے کا ہار انہیں دے دیں۔ اس خواب کی بنا پر انہوں نے اگلے دن وہ ہار اُتار کر قادیان میں حضرت امّاں جان کی خدمت میں بھیج دیا۔
(حضرت سیّد ولی اللہ شاہ ؓ صفحہ 99)
حضرت سیّد احمد نور کابلیؓ
آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں کافی عرصہ رہے۔ اور حضرت صاحبزادہ عبدالطیف شہید صاحبؓ کے شاگرد بھی رہے۔ آپؓ نے متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی رؤیا و کشوف میں دیکھا۔
آپ اپنی بعض خوابوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں آنحضرتؐ کے پیش ہوا اور میں نے پہچان لیا میں نے پوچھا کہ میرے والد کہاں ہیں انہوں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہا ابھی اس طرف گئے ہیں اور فرمایا درود بہت پڑھا کرو۔
پھر ایک دفعہ میں نے رسول اللہؐ کا جنازہ پڑھا اور آپؐ کی قبر مبارک پر جھنڈا لگا دیا۔
پھر ایک دفعہ میں رسول کریمؐ کو مٹھیاں بھرتے بھرتے گلے ملا۔ اس حالت میں میں دیکھتا تھا کہ کبھی آپؐ ہیں اور کبھی مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ آپ کے پاس شہد کی بوتلیں آئیں وہ کھولنے لگے تو میں نے کہا میں کھولتا ہوں آپ نے فرمایا میں کھولتا ہوں آخر آپ نے کھولیں کچھ آپ نے پیا اور کچھ میں نے پیا اس شیرینی سے میری آنکھ کھل گئی۔
ایک دفعہ میں نے رسول کریمؐ اور مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا لیکن اس حالت میں میں دیکھتا ہوں کہ وجود تو ایک ہے لیکن جلوے دو ہیں تب میں نے خیال کیا کہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ دو ایک نہیں ہو سکتے یعنی ایک وجود میں دو جمع نہیں ہو سکتے۔ پھر میں نے کہا کہ یہ باتیں لوگوں کے حق میں ہیں ورنہ خدا تعالیٰ تو سب کچھ کر سکتا اور ایک وجود میں دو لا سکتا ہے۔
پھر ایک دفعہ میں نے مہمان خانہ قادیان کو دیکھا کہ مکہ معظّمہ اور عرفات کے طور پر ہے۔ رسول اللہؐ نے اس میں نماز پڑھائی اور میں آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ میری آنکھ کھل گئی۔ اس وقت میں قادیان میں آیا ہوا تھا۔
ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ میرا ایک حجرہ ہے اور رسول اللہؐ اور مسیح موعود علیہ السلام اس میں نماز کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ جب تھوڑی دیر ہو گئی تو میں آ گیا۔ میں نے عرض کیا کہ نماز کا وقت ہے انہوں نے فرمایا کہ تمہاری انتظار تھی۔ اذان دو۔ میں اس وقت ان کا مؤذن تھا۔ میں نے اذان دی اور میری آنکھ کھل گئی۔‘‘
(شہید مرحوم حضرت صاحبزادہ عبد اللطیفؓ از حضرت سیّد احمد نورکابلیؓ صفحہ 28)
صداقت حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق
صحابہ کی رسول اللہؐ سے زیارت
حضرت سردار کرم داد خان صاحبؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے سے قبل رؤیا میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مل کر ٹہلتے آ رہے ہیں اور حضرت سردار کرم داد خان صاحبؓ ان کے سامنے سے آ رہے ہیں۔ رسول کریمؐ ان کو مخاطب کر کے انگلی کا اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے، یہ خدا کی طرف سے ہے۔ یہ تین دفعہ حضورؐ نے فرمایا۔
(رجسٹر روایات صحابہؓ جلد 5 صفحہ 1 ماخذ خطبات مسرور جلد 10 صفحہ 748)
حضرت حافظ ابراہیم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرتؐ کو تشریف لاتے دیکھا۔ انہوں نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ ’’حضور! مرزا صاحب نے جو اس وقت دعویٰ مسیح اور مہدی ہونے کا کیا ہے، کیا وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا، ’’ہاں سچے ہیں۔‘‘ میں نے کہا، ’’حضور! قسم کھا کر بتاؤ۔‘‘ آپؐ نے فرمایا، ’’مجھے قسم کھانے کی حاجت نہیں۔ میں امین ہوں زمینوں اور آسمانوں میں۔‘‘
(رجسٹر روایات صحابہؓ نمبر 4 صفحہ 120 ماخوذ از خطبات مسرور جلد9 صفحہ 169)
حضرت میاں عبد الرشید صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ‘‘میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ حضور ایک چار پائی پر لیٹے ہیں اور بہت بیمار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے پاس کھڑے ہیں جیسے کسی بیمار کی خبر گیری کرتے ہیں۔ حضورؐ چار پائی سے آپ کے کندھے کا سہارا دے کر کھڑے ہوئے۔ اُس کے بعد اس حالت میں حضورؐ نے لیکچر دینا شروع کر دیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق بیان تھا اور اس کے بعد خواب میں دیکھا کہ حضورؐ تندرست ہو گئے ہیں اور آپ کا چہرہ پُر رونق ہو گیا۔ جس سے میں نے یہ تعبیر نکالی کہ اب اسلام حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے ذریعہ سے دوبارہ زندہ ہو گا۔
(رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ رجسٹر نمبر11 صفحہ 28 ماخوذ از خطبات مسرور جلد 10 صفحہ 797)
رسول اللہؐ کو خوابوں میں کیسے دیکھا جائے
حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ نے ایک بار حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں خط لکھا اور دریافت کیا کہ کس درود شریف پڑھنے سے یا کس آیت قرآنی پڑھنے سے زیارت حضرت نبی کریمؐ کی ہو سکتی ہے؟
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ میرا زمانہ ابتدائی محمد رسول اللہؐ کا ہے۔ زیارت رسولؐ نصیب ہونے کے لئے فرمایا کہ جس وقت درود شریف پڑھو۔ محبت رسول مقبول کی قائم دل میں کرو اور محبت بچوں کی یعنی ہر ایک کی چھوڑ کر رسول کریمؐ کے ساتھ کرو۔
حضرت میاں صاحبؓ نے درود ہزارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اور تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ خواب میں حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے۔ اور ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ اور نبی کریمؐ کے دربار میں حاضر کر دیا۔ وہ لوگ قطاریں باندھے کھڑے تھے اور حضورؐ تخت مبارک پر بیٹھے تھے۔ مگر میاں صاحبؓ کو پچھلی سطر میں جگہ ملی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بآواز بلند عرض کیا کہ اے سرورکائنات محمد رسول اللہؐ ہم نے سوہنے خان کی بابت اچھا انتظام کر دیا اور حضرت محمدؐ نے فرمایا اور جو کچھ سوہنے خاں کی بابت انتظام کیا ہے ہم نے منظور کیا ہے۔
(رجسٹر روایات صحابہؓ، جلد 12 صفحہ 195-199 ماخوذ از خطباتِ مسرور جلد 11 صفحہ 19-21)
(جاذب محمود۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)