• 8 جولائی, 2025

عشق، عشقِ محمدؐ اور خلفاء مسیح موعودؑ (قسط دوم آخری)

عشق، عشقِ محمدؐ اور خلفاء مسیح موعودؑ
قسط دوم آخری

لبیچ لبیچ

پچھلی قسط میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی آنحضورﷺ سے عشق کی باتیں چل رہی تھیں وہیں سے یہ سلسلہ دوبارہ جوڑتا ہوں اور آپؓ کا ایک دلگداز واقع آپؓ کے اپنے الفاظ میں درج کرتا ہوں، فرماتے ہیں:
’’حج کی قدر اور اس کی عظمت حج کے بغیر نہیں معلوم ہو سکتی۔واقعی جو دُعا اور توجہ اِلیَ اللہ اس سفر میں دیکھی ہے وہ کبھی نہ دیکھی تھی۔سینکڑوں زبانوں کے بولنے والے لوگوں کو جہاز میں اکٹھا دیکھ کر اور اُنکی لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ کی آواز سُن کرایسی رِقت اور محبت پیدا ہوتی تھی کہ اندازہ سے بڑھ کر رسولِ کریمﷺ کے کمالات پر تعجب آتا تھا کہ مکہ سے اُٹھ کر اس نور نے دنیا کے کس کس گوشہ کو روشن کر دیا۔ آخر وہ کیا قوتِ قدسی تھی جس نے کروڑوں نہیں اربوں کو ضلالت سے نکال کر ہدایت کا راستہ بتا دیا۔ رابغ پر بیٹھتے ہوئے جب لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ کا نعرہ اُٹھا اور میں نے تُرکوں کو لبیچ لبیچ کہتے سنا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ لوگ لفظ تو درست بول نہیں سکتے لیکن آنحضرتﷺ کی دُعاوں، آہ و زاریوں نے اُن کو کھینچ کر راہِ اسلام دکھا دی۔‘‘

(سوانح فضلِ عُمر جلد اول صفحہ 288)

اسی طرح ایک اور دلسوز واقع پر آپؓ کی درد انگیز تقریر کا ایک حصہ درج کرتا ہوں کہ جس کو پڑھ کر کوئی سخت دل سے سخت دل بھی آپؓ کی رسول خداؐ سے محبت کا انکار نہیں کر سکتا سوائے اس کے کہ اُس بدنصیب کے دل پر مہر لگی ہو۔

ہندوستان میں یہ دلخراش خبر پہنچی کہ محمد بن عبدالوہاب کے معتقدین کی گولہ باری سے رسول کریمﷺ کے روضہ اطہرکے گنبد میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ مسلم کونسل کے صدر اعلیٰ کی طرف سے تار آیا کہ صحیح خبر یہ ہے کہ حضورﷺ کے روضہ اطہر پر گولہ باری نہیں کی گئی البتہ اس کے گنبد پر گولیاں لگی ہیں۔

اس پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے 4ستمبر 1925ء کو رنج وغم کا اظہار کرتے ہوے خطبہ جمعہ میں فرمایا:’’یہ تو مانا نہیں جا سکتا کہ نجدیوں نے جان بوجھ کر روضہ مبارک، مسجد نبوی اور دیگر مقاماتِ مقدسہ پر گولے مارے ہوں گے، کیونکہ آخر وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں اور نبی کریمﷺ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں، اور آپ کی عزت و توقیر کا بھی دم بھرتے ہیں۔ لیکن باوجود ان سب باتوں کے جو کچھ ہوا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ…گو انہوں نے دیدہ دانستہ مقامات مقدسہ کو نقصان نہ پہنچایا ہو مگر ان کی بے احتیاطی سے نقصان ضرور پہنچا …. گو میں سمجھتا ہوں کہ قبے بنانا ناجائز ہیں مگر ہر جگہ نہیں بلکہ ضرورت کے وقت جائز ہیں۔ اس معاملہ میں ہم نجدیوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ قبے بلا ضرورت بنانے ناجائز ہیں اور شرک میں داخل ہیں۔ لیکن اس معاملہ میں ہم ان کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے کہ ان کو توڑنا اور گرانا بھی درست ہے…ہماری ان باتوں کو دیکھ کرنجدیوں کے حامی کہیں گے یہ بھی شریف علی کے آدمی ہیں۔ لیکن اگر رسول اللہﷺ کی توقیر کے متعلق آواز اٹھاتے ہوےشریف کا آدمی چھوڑ کر شیطان کا آدمی بھی کہہ دیں تو کوئی حرج نہیں۔ ہم تو رسول اللہﷺ کی خاطر سب سے محبت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ حضرت مسیح موعودؑ سے بھی اگر کوئی محبت رکھتے ہیں تو صرف اس لیے کہ وہ رسول کریمﷺ کے غلام تھے۔اور آپ کو جو کچھ حاصل ہوا اس غلامی کی وجہ سے حاصل ہوا۔ بے شک ہم قُبوں کی یہ حالت دیکھ کر خاموش رہتے لیکن رسول کریمﷺ کی محبت اور عزت کی خاطر ہم آواز بلند کرنے پر مجبور ہوگے ہیں….ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں جس سے ہم نجدیوں کے ہاتھ روک سکیں۔ ہاں ہمارے پاس سہام اللیل ہیں۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ رسول کریمﷺ کے مزار مقدس اور مسجد نبوی کے دوسرے مقامات کو اس ہتھیار سے بچائیں۔ ہماری جماعت کے لوگ راتوں کو اٹھیں اور اس بادشاہوں کے بادشاہ کے آگے سر کو خاک پر رکھیں جو ہر قسم کی طاقتیں رکھتا ہے، اور عرض کریں کہ ان مقامات کو اپنے فضل کے ساتھ اسلام کی روایات وابستہ ہیں۔پس ہمیں دن کو بھی رات کو بھی، سوتے بھی اور جاگتے بھی دعائیں کرنی چاہئیں کہ خداتعالیٰ اپنی طاقتوں سے اور اپنی صفات کے ذریعہ سے ان کو محفوظ رکھے اور ہر قسم کے نقصان سے بچائے۔‘‘

(خطباتِ محمود جلد9صفحہ 246-258)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ ……کیا یہ پڑھ کر بھی کوئی دُشمن خلفا کو دشمنِ رسول سمجھ سکتا ہے؟

جنگ عظیم دوم میں جب جرمنی کی فوجیں مصر کی حدود میں داخل ہونے لگیں تو آپؓ نے فرمایا:
’’مصر کے ساتھ ہی وہ مقدس سر زمین شروع ہو جاتی ہے جس کا ذرہ ذرہ ہمیں اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہے۔ وہ مقدس مقام ہے جہاں ہمارے آقا کا مبارک وجود لیٹا ہوا ہے، جس کی گلیوں میں محمدﷺ کے پائے مبارک پڑا کرتے تھے۔ جس کے مقبروں میں آپؐ کے والہ و شیدا خدا تعالیٰ کے فضل کے نیچے میٹھی نیند سو رہے ہیں…. وہ وادی ہے جس میں وہ گھر ہے جسے ہم خدا کا گھر کہتے ہیں اور جس کی طرف دن میں کم سے کم پانچ بار منہ کر کے ہم نماز پڑھتے ہیں… یہ مقدس مقام صرف چند سو میل کی مسافت سے زیادہ فاصلہ پر نہ اور ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں۔ کھلے دروازوں اسلام کا خزانہ پڑا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دیواریں بھی نہیں اور جوں جوں دشمن ان مقامات کے قریب پہنچتا ہے مسلمان کا دل لرز جاتا ہے‘‘

(سوانح فضلِ عمر جلد دوم صفحہ147)

جماعت سے لیا گیا عظیم عہد

یہاں میں آپؓ کے ایک عظیم عہد کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو آپؓ نے جماعت سے لیا اور یہ الفضل 31دسمبر 1949ء میں چھپا، آپؓ فرماتے ہیں:
’’ہم ایک دفعہ پھر یہاں جمع ہوئے ہیں خدا تعالیٰ کی عنایت اور اس کی مہربانی سے آوٴ ہم سچے دل سے یہ عہد کریں کہ ہم کم سے کم عبد اللہ کے بیٹے کو جتنا ایمان دکھائیں گے اور جب تک محمدﷺ کی عزت کا اقرار دنیا سے نہیں کروا لیں گے اس وقت تک ہم اطمینان اور چین سے نہیں بیٹھیں گے۔‘‘

(الفضل31دسمبر1949ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ

آپ ؒکے بارے میں مکرم بشیر احمد رفیق صاحب مرحوم سابق امام بیت الفضل لندن تحریر کرتے ہیں کہ:
’’1965ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو ا تو میں مسجد فضل لندن کا امام تھا۔مرکز سلسلہ سے ہزاروں میل دور ہم سب دُعاوٴں میں مصروف تھے اور اس بات کا شدت اور بےقراری سے انتظار ہو رہا تھا کہ مسند خلافت ثالثہ پر کون متمکن ہوتے ہیں۔ ہمارے انگریز مسلمان احمدی بھائی مسٹر بلال نٹل صاحب مرحوم میرے پاس آئے اور کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ کون خلیفہ ہوں گے۔ میں حیران ہوا کہ ان کو قبل از وقت کیسے معلوم ہو ا کہ کون مسند خلافت پر رونق افروز ہو گا۔ مسٹر نٹل نے ایک تصویر میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے شدت جذبات سے گلوگیر آوازمیں کہا یہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کی تصویر ہے جو انہوں نے لندن مسجد کے باغ میں کھنچوائی تھی اور مجھے مرحمت فرمائی تھی۔ میں ان دنوں سے جب سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب آکسفورڈ کے طالب علم تھے ان کو جانتا ہوں ان کے بے حد قریب رہا ہوں اور تقویٰ اللہ، حسن اخلاق اور عشق محمدﷺ کی جو جھلک میں نے ان میں دیکھی وہ مجھے اس یقین محکم پر قائم کرتی ہے کہ اس منصب جلیلہ کے اس وقت وہی اہل ہیں۔

(حیاتِ ناصر جلد اول صفحہ 103)

سنتِ نبویؐ کا خیال

آپ ؒکو سنتِ نبویﷺ کا کس قدر احساس تھا اور اور ہر چیز میں آنحضرتﷺ کی پسند کا کتنا خیال تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ ؒکو بھی گھوڑے پسند تھے اس لئے کہ آنحضرتﷺ کو پسند تھے۔

(حیاتِ ناصر صفحہ 36)

سنتِ نبویﷺ کے خیال کا ذکر کرتے ہوئے محترم چوہدری محمد علی صاحب مرحوم لکھتے ہیں:
’’طلباء سے تعلق بے حد محبت اور تکریم کا ہوا کرتا۔ داخلے کے وقت انٹرویو فرماتے تو کھڑے ہو کر ہر طالب علم سے ملتے اور کھڑے ہو کر مصافحہ کے بعد اسے رخصت فرماتے۔ اس طرح حضور کو بار بار اٹھنا بیٹھنا پڑتا۔ ایک مرتبہ عاجز نے عرض کیا کہ اگر اس طرح نہ ہو تو کیا حرج ہے۔ فرمایا اَكْرِمُوْا أوْلَادَكُمْ‘‘

(حیاتِ ناصر صفحہ 162)

حضرت محمدؐ کے لئے غیرت کا برملا اظہار

آنحضرتﷺ کی محبت نے ایک عجیب حالت آپؓ کے اندر پیدا کر دی تھی اور آپﷺ کے لئے ایسی غیرت رکھتے تھے جوکہ ہر پُرآشوب دور میں آپ نے دکھائی مثلا 1947ء کے فسادات میں جب بعض ہندوٴوں اور سکھوں کے جتھوں کے قادیان کے ایک محلے کا محاصرہ کر لیا تو آپ خود اس واقع کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میری ان دنوں ذمہ داری تھی، حفاظت مرکز کا کام حضرت مصلح موعودؓ نے میرے سپرد کیا ہوا تھا۔ اس کام کی انجام دہی کے دوران ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ سکھ اور ہندوجتھے آئے ہیں اور انہوں نے مسجد اقصیٰ قادیان کے مغرب میں واقعہ ایک محلہ کو گھیرے میں لے لیا ہے، جس میں زیادہ تر ایسے گھرانے آباد تھے جو احمدی نہیں تھےاور باوردی مسلح ہندو سکھ پولیس جتھوں کے ساتھ ہےاور ناکہ بندی ایسی کر رکھی ہے کہ ایک شخص بھی باہر نہیں جا سکتا اور گھیرا ڈالنے کے بعد اب اندر داخل ہو رہے ہیں۔ مجھے بڑی فکر پیدا ہوئی۔ اس لیے نہیں کہ وہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ جماعت سے تو ان کا کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس لیے تشویش پیدا ہوئی کہ وہ تمام لوگ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی طرف خود کو منسوب کرنے والے تھے اور جو شخص خود کو آنحضرتﷺ کی طرف منسوب کرے اس سے ہزار اختلاف کے باوجود کوئی شخص جو خود کو حضرت مصطفیٰﷺ کی طرف منسوب کرنے والا ہے ان کو بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا۔ یہ ایک احمدی کے دل میں اپنے محبوب آقا حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے لیے غیرت کا بر ملا اظہار ہے‘‘

(حیاتِ ناصر جلد اول صفحہ 262-263)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ

مکرم منیر احمد جاوید صاحب حضورؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:’’حضرت صاحب کی زندگی کا ایک بہت دلکش اور دلگداز پہلو آپ کا عشق محمدﷺ ہے جو ماں کی گود میں شیخ سعدی رحمۃاللہ علیہ کے ان نعتیہ اشعار پر مشتمل لوریوں کو سُن سُن کر آپ کے دل میں پروان چڑھا۔

بلغ العلی بکماله
کشف الدجی بجماله
حسنت جمیع خصاله
صلو علیه و آله

آپ نے بچپن میں پیدا ہونے والی اس محبت کی شمع کو ہمیشہ روشن رکھا۔ اسی نور اور روشنی سے ہمیشہ آپ کی پاکیزہ حیات منور رہی۔ چنانچہ جب بھی آنحضورﷺ کا مقدس نام آپ کی زبان پر آتا تو آپ کی آنکھیں آنسوٴوں سے تر ہو جاتیں، آواز بھر جاتی اور بمشکل اپنے جذبات پر قابو پا کر حضور اکرمﷺ کا ذکر مکمل فرمایا کرتے۔ آپ نے بارہا خطبات کے ذریعہ جماعت کو حضور اکرمﷺ پر درود و سلام بھیجنے کی نصیحت فرما کر ان کے دلوں میں بھی یہ لو لگا دی کہ ہر کوئی صبح شام حضور اکرمﷺ کا نام لیتا ہے‘‘

(ماہنامہ تحریکِ جدید سیدنا طاہر نمبر صفحہ 56)

اسی طرح ہم میں سے اکثر نے حضورؒ کی آواز میں ریکارڈ درود شریف ایم۔ ٹی۔ اے پر سُنا ہو گا جو کہ حضورؒ نے انتہائی مَدھر اور دلنشیں، دلگداز انداز میں پڑھا ہے۔ اور میرا یقین ہے کہ کوئی شخص جس کو محبت رسولﷺ کا دعویٰ ہے وہ اس کو سن کر رسول اللہﷺ پر درود پڑھے بغیر رہ نہیں سکتا بلکہ اگر دُشمنِ احمدیت بھی سُن لے تو وہ حضور رحمۃ اللہ علیہ کی آنحضورﷺ سے وارفتگی اور عشق کو مانے بغیر نہیں رہ سکے گا۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو خوبصورت آواز کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات و احساسات کو نظم و تحریر میں ڈھالنے کافن بھی خوب عطا کیا تھا جس میں جا بجا اپنے خدا اور اس کے محبوب کا بے ساختہ و بے انتہا ذکر نظر آتا ہے، آپ کی یہ نعت کتنی چاشنی اور حلاوت لئے ہوئے ہے اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں

اِک میں بھی تو ہوں یا رب، صیدِ تہِ دام اُس کا
دل گاتا ہے گن اس کے، لب جپتے ہیں نام اُس کا
آنکھوں کو بھی دکھلا دے، آنا لبِ بام اُس کا
کانوں میں بھی رس گھولے، ہر گام خرام اس کا
خیرات ہو مجھ کو بھی۔ اک جلوہ عام اُس کا
پھر یوں ہو کہ ہو دل پر، الہام کلام اس کا

(کلامِ طاہر صفحہ 3)

میرے والے مصطفیٰ ؐ

محترمہ امة الباری ناصر صاحبہ نے جب حضور ِ انور کی خدمت میں ان کے بعض اشعار میں تصحیح کی درخواست کی تو حضور نے بہت ہی خاکسارانہ اور خوشدلانہ انداز میں ان کی دلجوئی کی مگر یہاں پر ایک واقعہ ایسا بھی انہوں نے درج کیا ہے جس کو میں تحریر کئے بغیر نہیں رہ سکتا:
’’آپ نے ’’میرے والے مصطفیٰ‘‘ میں لفظ والے کو سُقم سمجھتے ہوے ’’تو ہی تو مصطفیٰ ہے مرا‘‘ تجویز کیا ہے۔ یہ دو وجوہات سے مجھے قبول نہیں۔ ایک یہ کہ اس نظم کی شانِ نزول تو ایک رویا میں ہےجس میں ایک شخص کو دیکھا جو بڑی پُر درد آواز میں حضرت اقدس محمدرسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ کا کوئی کلام پڑھ رہا ہے۔ ان شعروں کا عمومی مضمون تو مجھے یاد رہا مگر الفاظ یاد نہیں رہے البتہ ایک مصرع جو غیر معمولی طور پر دل پر اثر کرنے والا تھا وہ ان الفاظ پر مشتمل تھا:

’’اے میرے والے مصطفیٰ‘‘

پھر فرماتے ہیں:
’’خواب میں اس کا جو مفہوم سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ لفظ ’’والے‘‘ نے بجائے اس کے کہ سُقم پیدا کیا ہو اس میں غیر معمولی اپنا ئیت بھر دی اور قرآن کریم کی بعض آیات کی بھی تشریح کر دی جن کی طرف پہلے میری توجہ نہیں تھی۔ عموما یہ تاثر ہے کہ صرف رسول اللہﷺ ہی مصطفیٰ ہیں حالانکہ قرآن کریم میں حضرت آدمؑ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ  اور آلِ ابراہیم (اسحٰقؑ، یعقوبؑ، اسمٰعیلؑ)، حضرت موسیٰؑ اور حضرت مریمؑ حتیٰ کہ بنی آدم کے لیے بھی لفظ اصطفیٰ استعمال ہوا ہے۔ تو مصطفیٰ ایک نہیں، کئی ہیں۔ پس اگر یہ کہنا ہو کہ باقی بھی مصطفیٰ ہونگے مگر میرے والا مصطفیٰ یہ ہے تو اس کا اظہار ان الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ میں ممکن نہیں۔ یہ بات ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی بچہ ضد کرے کہ مجھے میرے والی چیز دو۔ میرے والی کہنے سے مراد یہ ہوتی ہےکہ مجھے محض یہ چیز نہیں چاہیے بلکہ وہی چیز چاہیے جو میری تھی۔ اس طرزِ بیان میں اظہارِعشق بھی محض ’’میرے مصطفیٰ‘‘ کہنے کے مقابل پر بہت زیادہ زور مارتا ہے۔ پس رویا میں ہی میں یہ نہیں سمجھ رہا کہ اس میں کوئی نقص ہے بلکہ اس ظاہری نقص میں مجھے فصاحت و بلاغت کی جولانی دکھائی دی اور مضمون میں مقابلۃ بہت زیادہ گہرائی نظر آنے لگی‘‘

حُبُّ الْعَرَبِ مِنَ الْاِیْمَانِ

مشہور ہے کہ جب محبت ہوتی ہے تو اس سے وابستہ ہر چیز پیاری لگتی ہے۔ اسی مضمون کو حضور نے ’’حُبُّ الْعَرَبِ مِنَ الْاِیْمَانِ‘‘ کے موضوع کے تحت نہایت پردرد انداز میں عربوں کے لئے احباب جماعت کو دعا کرنے کی تحریک فرمائی۔ حضورؒ فرماتے ہیں:
’’عربوں کے متعلق بھی خاص طور پر دعا جاری رکھیں۔ بہت ہی پیار اور محبت ہونی چاہیے عرب قوم کے لیے کیونکہ آنحضرتﷺ اس قوم سے تشریف لائے۔ اگر سچا عشق ہوحضورﷺ سے تو آپﷺ کی قوم سے محبت تو ایک طبعی بات ہے فطرتی عمل ہے۔ کہتے ہیں لیلیٰ کے کتے سے بھی مجنوں کو پیار تھاتو حضرت محمدمصطفیٰﷺ کے ہم قوموں سے ہمیں پیار نہ ہو، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس لیے عربوں کے لیےبالخصوص بہت درد سے دعائیں کرتے رہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے حالات بدل دے اور ان کی طرف سے ہم خوشیوں کی خبریں پا ئیں۔ (آمین)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍ جنوری 1984ء)

حضور کی اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے محبت کا مزیداندازہ کرنا ہو تو اُن کی اُس تحریک کو دیکھیں جس کی برکات سے ہم آج بھرپور انداز میں مستفیض ہو رہے ہیں۔ آپ خطبہ جمعہ موٴرخہ 3؍ اپریل 1987ء میں تحریکِ وقفِ نو کا اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’پس میں نے یہ سوچاکہ ساری جماعت کو میں اس بات پر آمادہ کروں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں روحانی اولاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دعوت الی اللہ کے ذریعے وہاں اپنے آئندہ ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کر دیں‘‘…… آگے مزید فرماتے ہیں ’’اور آئندہ صدی میں ایک عظیم الشان بچوں کی فوج ساری دنیا سےاس طرح داخل ہو رہی ہو کہ وہ دنیا سے آزادہو رہی ہو اور محمدﷺ اور محمدﷺ کے خدا کے غلام بن کے اس صدی میں داخل ہو رہی ہو‘‘۔ پھر مزید فرماتے ہیں ’’ آئندہ سو سالوں میں جس کثرت سے اسلام نے ہر جگہ پھیلنا ہے وہاں لاکھوں تربیت یافتہ غلام چاہئیں جو محمد رسول اللہﷺ اور خدا کے غلام ہوں‘‘

(خطبہ جمعہ 3 اپریل 1987ء )

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز

ہمارے موجودہ پیارے امام کا بھی اپنے ہادی کاملﷺ سے محبت کا وہی حال ہے جو آپ سے پہلے خلفاء کا تھا۔ نہ صرف یہ کہ آپ اس موجودہ دور میں اپنے طرز عمل سے جو کہ عین سنتِ نبویﷺ کے مطابق ہے معاندینِ اسلام کو اسلام کا اصل چہرہ دکھا رہے ہیں بلکہ اُن کے ہر ہر قول اور تحریک میں یہ پیار نظر آتا ہے۔ کبھی آپ ہمیں درود شریف کے پڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی پیغمبرِ اسلامﷺ کی توہین کی ناپاک جسارت کے جواب میں غیرت کا عظیم درس دیتے نظر آتے ہیں۔ کاش کہ مسلمان جن کی فلاح کے لئے یہ دعائیں کرتا نہیں تھکتا اس کی قدر کریں اور اُن کے ساتھ مل کر اُسی طرح حضرت محمدﷺ کی محبت کے نغمات گائیں۔ آمین

ایسی محبت کا اظہار کریں جو بےمثال ہو

حضور انور خطبہ جمعہ 2 جنوری 2009ء میں فرماتے ہیں کہ ’’درود شریف میں جب ہم آل رسولؐ پر درود بھیجتے ہیں تو ان روحانی اور جسمانی رشتوں کا بھی خیال آتا ہے جو آنحضرتﷺ سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اسی طرح آنحضرتﷺ کے صحابہؓ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آنحضرتؐ کے جسم مبارک کو نقصان سے بچانے کے لئے اپنے سینے آگے کر دئیے۔ غار والاواقعہ قرآن کریم میں درج کر کے حضرت ابوبکرؓ کو آنحضرتﷺ کا بہترین ساتھی قرار دے دیا۔ پس محبوب سے حقیقی محبت یہ ہے کہ اس کے پیاروں سے بھی محبت ہو۔ آنحضرتﷺ کی آل اور اصحاب اور تمام ان لوگوں سے جن سے ہمارے محبوب آقا نے محبت کی۔ ایسی محبت کا اظہار کریں جو بے مثال ہو‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2 جنوری 2009ء)

آنحضرتؐ سے عشق و محبت کی آگ

حضورِ انور اید اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز ڈنمارک کے اخبار کی جانب سے آنحضورﷺ کے خاکوں کی اشاعت پر جماعت کو خطبہ جمعہ فرمودہ 10 فروری 2006ء میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو کہ آپ کے مبارک سینہ میں آنحضورﷺ کے عشق کی گرمی اور غیرت کو ظاہر کرتی ہے اور یہ بھی ظاہر کرتی ہے خلیفہ وقت اس محبت کے راز بانٹنے میں کنجوس نہیں ہوتے بلکہ وہ تو ہر شخص کو عاشقِ رسولﷺ دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے لیکن میں احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ ان کو تو پتہ نہیں یہ عقل اور سمجھ آئے کہ نہ لیکن آپ میں سے ہر بچہ،ہر بوڑھا، ہر جوان، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردِ عمل کے طور پر اپنے آپ کو ایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ جائے۔ اب بڑے جوش سے لوگ کھڑے ہیں (پاکستان کی ایک تصویر تھی) آگ لگا رہے ہیں جس طرح کوئی بڑا معرکہ مار رہے ہیں۔یہ پانچ منٹ میں آگ بجھ جائے گی، ہماری آگ تو ایسی آگ ہونی چاہیئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو۔ وہ آگ ہے آنحضرتﷺ سے عشق و محبت کی آگ جو آپﷺ کے ہے اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو۔ جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے۔ یہ آگ ایسی آگ ہو جو دُعاوٴں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسماں تک پہنچتے رہیں۔

(خطبہ جمعہ موٴرخہ 10 فروری2006ء)

پھر کافی لمبے عرصے سے حضورِ انور خطباتِ جمعہ میں بدری صحابہ رضوان اللّٰہ علیہم کے واقعات و حالات بیان فرما رہے ہیں اور سننے والے جانتے ہوں گے اور دیکھنے والی آنکھیں دیکھتی ہوں گی کہ جب حضور وہ واقعات بیان فرما رہے ہوتے ہیں تو گویا خود بھی اُسی دور میں چلے جاتے ہیں اور بخدا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی اُس وقت بدر کے میدان میں ہیں اور حضور معیت میں آنحضورﷺ کی خاطر ہر وار اپنے بدن پر لے رہے ہیں، یہ کوئی افسانہ نگاری نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت ہے جو اگر کوئی بھی تعصب سے پاک دل سے دیکھے تو اُس کے دن پھر جائیں اور وہ بھی رسول خداﷺ کے متبعین میں شامل ہو کر محض اسی کا عاشق بن کر رہ جائے، یہ وہ طلسماتی وکرشماتی محبت کی آگ ہے جو موجودہ خلیفہ وقت کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خود لگا ئی ہے اور خدا کی قسم وہ اس محبت کی تقسیم میں بالکل بھی کنجوس نہیں بلکہ اپنے محبوب کے پیار میں یہ کھل کر اور کشادہ دلی سے اس محبت کی کنجیاں بانٹ رہا ہے جس کو لوگوں نے دنیاوی اغراض کی لاکھوں پرتوں تلے مقفل کر رکھا ہے۔

ہم تمہارا آخری سانس تک مقابلہ کریں گے

آخر پر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ایک ایمان افروز اقتباس پیش کر کے اپنا مضمون ختم کرتا ہوں۔ حضورؓ فرماتے ہیں۔
’’ہمارے جسم کا ہر ذرہ محمد رسول اللہﷺ پر قربان ہونے کا متمنی ہے۔ ہماری جان بھی اسی کے لئے ہے، ہمارا مال بھی اسی کے واسطے ہےہم اس پر راضی ہیں بخدا راضی ہیں پھر کہتا ہوں بخدا راضی ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے بچے بھی قتل کر دو، ہمارے دیکھتے دیکھتے ہمارے اہل و عیال کو جان سے مار دو لیکن محمدﷺ کو گالیاں نہ دو ہمارے مال لوٹ لو،ہمیں اس ملک سے نکال دو لیکن ہمارے سردار حضرت نبی کریمﷺ کی ہتک اور توہین نہ کرو۔ انہیں گالیاں نہ دو۔ اگرتم سمجھتے ہو کہ محمد رسول اللہﷺ کو گالیاں دینے سے تم جیت سکتے ہو اور سمجھتے ہو کہ گالیاں دینے سے تم رُک نہیں سکتے تو پھر یہ یاد رکھو کہ کم از کم ہم تمہارا آخری سانس تک مقابلہ کریں گے۔ جب تک ہمارا ایک آدمی بھی زندہ ہے وہ اس جنگ کو ختم نہیں کرے گا ان شاء اللّٰہ‘‘

(انوار العلوم جلد 9 صفحہ 477-478)

(طاہر احمد۔ فن لینڈ)

پچھلا پڑھیں

محترم چوہدری سمیع اللہ سیال وکیل الزراعت تحریک جدید کی وفات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 اکتوبر 2022