حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک عربی قصیدہ میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’دستر خوان کا پس خوردہ میری خوراک تھا اور آج میں کئی گھرانوں کو کھلانے والا بن گیا ہوں‘‘
قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کے حواریوں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ اپنے رب سے ہمارے لیے مائدہ یا دستر خوان طلب کریں تا کہ ہم اس سے لطف اور خوشی حاصل کریں۔ جس پر حضرت عیسیٰ ؑ نے خدا سے دعا کی تو انہیں اس دستر خوان کے عطا ہونے کی خوشخبری کے ساتھ ساتھ یہ وعید بھی ملی کہ دستر خوان تو میں اتاروں گا مگر یاد رکھنا کہ اس کے بعد اگر کسی نے اسکی قدر نہ کی اور ناشکری کی تو خدا تعالیٰ کا عذاب بھی سخت ہوگا۔
عموماً اس دستر خوان سے روحانی مائدہ مراد لیا جاتا ہے جو یقیناًً درست ہے، مگر مجھے خیال آتا ہے کہ اگر اس کے دنیوی پہلو کو بھی زیر نظر رکھا جائے تو اس صورت میں بھی شکر کا مقام ہے۔
آج جماعت احمدیہ ایک ایسی جماعت ہے جو ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی مائدہ سے فیض اٹھا رہی ہے اور دوسری طرف جسمانی طور پر دنیا بھر میں قائم لنگر خانوں کی صورت میں بھی اس وسیع دستر خوان سے لطف اندوز ہورہی ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ بھی احسان ہے کہ اس مائدہ کے ساتھ کوئی وعید نہیں۔
مہمان نوازی انبیاء علیہم السلام کا ایک بنیا دی وصف ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیمؑ کے مہمانوں کا ذکر ہے جن کی آمد پر آپ نے بغیر کوئی سوال کئے ان کے لئے بھنا ہوا بچھڑا پیش کر دیا تھا۔ یہی مہمان جب حضرت لوط کے پاس آئے تو قوم نے بدتمیزی شروع کردی جس پر حضرت لوط نے انہیں کہا کہ تم مجھے میرے مہمانوں کے سامنے تو شرمندہ نہ کرو اور یہی سلسلہ آنحضورﷺ کے دور میں مدینہ میں نظر آتا ہے جب دور دراز سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو کس کس طرح ان کی مہمان نوازی کی جاتی رہی۔
موجودہ دورمیں حضرت مسیح موعود ؑ نے بھی یہی طریق اختیار کیا اور آغاز سے ہی اپنے گھر میں لنگر خانہ قائم فرمایا اور جب مہمان آتے تو حضورؑ دل و جان سے ان کی خدمت کرتے۔شروع میں حضرت اماں جان کا باورچی خانہ تمام بوجھ اٹھا تا رہا۔ براہین احمدیہ کی اشاعت میں جب کچھ تاخیر ہوئی تو مولوی محمد حسین بٹالوی نے ایک خط میں اس تاخیر پر اعتراض کیا جس کے جواب میں حضورؑ نے انہیں تحریر فرمایا کہ:
’’بعض احباب مجھ پر یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اسراف کا خرچ ہے جو دو دو سو تین تین سو روپے ماہواری کا ہوجاتا ہے اور اسی خرچ نے طبع کتاب میں دقتیں ڈالیں اور انبار کا انبار قرضہ کا سر پر ہوگیا۔ اس کے جواب میں بھی یہی عرض کرتا ہوں کہ اگرچہ یہ اعتراض سچ ہے مگر یہ مہمانداری محض لِلّٰہ ہے اور اس میں بھی بارہا تواضع اور اکرام ضیف کا حکم ہوا ہے نہ تخفیف مصارف کے لیے۔ تین سال کے عرصہ میں شاید چالیس ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جہاں تک طاقت تھی حسب توفیق خداداد ان کی خدمت کی گئی۔ سو بظاہر یہ نہائیت درجہ کا اسرا ف معلوم ہوتا ہے لیکن اللہ جل شانہ کو اپنے افعال میں مصالح ہیں اور میں اسی کے حکم اور امر کا پیروہوں اور کسی دوسری کمیٹی یا جماعت کی پیروی نہیں کرسکتا اور نہ وہ اس کاروبار میں کچھ دخل دے سکتے ہیں۔ جس قدر میرے پر قرضہ اور حقوق عباد کے بار ڈالے گئے ہیں میں جانتا ہوں کہ میں اپنی قوت سے ان گراں باروں سے سبکدوش نہیں ہوسکتا بلکہ الہٰی قوت سبکدوش کرے گی۔ اس فوق الطاقت کام میں کسی دوست کی کچھ پیش نہیں جاسکتی مگر وہ ایک ہے حقیقی دوست ہے جو ان غموں کے دور کرنے پر قادر ہے۔‘‘
والسلام 8ستمبر1887ء
1891ء میں حضور نے دعوی مسیحیت کا اعلان فرماتے ہوئے اپنی کتاب ’’فتح اسلام‘‘ میں فرمایا کہ خداتعالی نے اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کے لیے آپ کو اسی رنگ میں مامور فرما یاہے جس رنگ میں حضرت موسیٰ ؑکےچودہ سو سال کے بعد حضرت عیسیٰؑ مبعوث ہوئے تھے اور اس کام کے کرنے کے لیے ایک عظیم الشان کارخانہ تیار کیا ہے اور اس کارخانے کو مختلف شاخوں میں منقسم کیا ہے۔ مہمان نوازی کے حوالہ سے حضورؑ اس کتاب میں فرماتے ہیں۔
’’تیسری شاخ اس کارخانہ کی وار دین اورصادرین اور حق کی تلاش کے لیے سفر کرنے والے اور دیگر اغراض متفرقہ سے آنیوالے ہیں جو اس آسمانی کارخانہ کی خبر پاکر اپنی اپنی نیتوں کی تحریک سے ملاقات کے لیے آتے رہتے ہیں۔ یہ شاخ بھی برابر نشو ونما میں ہے۔ اگرچہ بعض دنوں میں کم مگر بعض دنوں میں نہایت سرگرمی سے اسکا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ان سات برسوں میں ساٹھ ہزار سے کچھ زیادہ مہمان آئے ہوں گے اور جس قدر ان میں سے مستعد لوگوں کو تقریری ذریعہ سے روحانی فائدہ پہنچایا گیا اور ان کے مشکلات حل کردیے گئے اور ان کی کمزوری کو دور کردیا گیا اس کا علم خداتعالیٰ کو ہے۔‘‘
یہ وہ شاخ ہے جس کا تعلق مہمانوں کی قادیان آمد اور ان کی مہمان نوازی سے متعلق ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں جب باقاعدہ جماعت کا قیام بھی نہیں تھا۔ حضورؑ کس طرح دن رات آنے والے مہمانوں کی خدمت میں مصروف رہتے ہوں گے۔ کھانے پینے کی تیاری اور اخراجات صرف ایک پہلو ہے۔ قادیان جیسی چھوٹی سی بستی میں ان کے قیام اور رہائش کے لیے جگہ مہیا کرنی، بستر، غسلخانے، پانی کا انتظام، عمومی ضرورتوں کا خیال، غرض کئی پہلو ہیں جو اچھی مہمان نوازی سے منسلک ہیں۔ اور ان پہلوؤں کا خیال رکھنا بذات خود ایک ہمہ وقت کام ہے۔ آج اگر ہم غور کریں تو تقریباً سوا سو سال بیشتر جس دستر خوان کا قیام حضور کی نگرانی میں قادیان میں ہوا تھا اسکی شاخیں دوسو سے زائد ممالک میں قائم ہوچکی ہیں اور حضورؑ نے جو اپنے عربی قصیدہ میں فرمایا تھا کہ ایک وقت تھا جب دستر خوان کے ٹکڑے میری غذاء ہوا کرتے تھے اور اب کئی خاندان میرے دستر خوان سے روٹی کھاتے ہیں۔ ایسی شان سے پوری ہوئی کہ کوئی احمدی دنیا کے کسی کونے میں چلا جائے۔ اگر وہاں کوئی احمدی موجود ہو تو اسے اپنے کھانے پینے اور رہائش کی فکر سے آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ مرکزی جلسے کی رونق اپنی جگہ مگر اب تو ہر ملک میں جلسے، اجتماعات اور دیگر جماعتی تقریبات میں اسقدر مہمان نوازی کی جاتی ہے کہ لوگ اگلے جلسہ تک اسکا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ بلکہ گذشتہ دنوں برطانیہ کے جلسہ سے قبل سوشل میڈیا پر یہ گفتگو ہورہی تھی کہ جلسہ کا آلو گوشت کس کو پسند ہے اور دال کو کون ترجیح دیتا ہے۔
غرض خداتعالیٰ نے اپنی رحمانیت کا جلوہ دکھاتے ہوئے ہم احمدیوں کو بغیر کسی مطالبہ کے ایسا دستر خوان مہیا فرما دیا ہے جو روز بروز دنیا میں وسیع تر ہوتا چلا جارہا ہے اور جس کے ساتھ کوئی وعید نہیں بلکہ خوشخبری ہے کہ یہ نان تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لیے ہے۔ اس لیے ہمیں شکر گزاری سے حضرت مسیح موعودؑ کے روحانی مائدہ کے ساتھ ساتھ اس جسمانی مائدہ سے بھی لطف اندوز ہونا چاہیے۔ مگر اگر ہم صرف جسمانی مائدہ تک محدود رہیں اور روحانی مائدہ سے فیض نہ اٹھا سکیں تو یہ ہماری بدقسمتی ہوگی۔
(قمر سلیمان احمد)