حضرت سید ولایت شاہؓ۔ کوٹلی ننگل متصل گورداسپور
حضرت سید ولایت شاہ رضی اللہ عنہ ولد سید حسین علی شاہ صاحب قوم سید اصل میں کوٹلی ننگل متصل گورداسپور کے رہنے والے تھے اور محکمہ انہار میں ملازم تھے۔ آپ اپنی ملازمت کے سلسلے میں مادھوپور ضلع گورداسپور میں مقیم رہے جہاں حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان گوڑیانوی رضی اللہ عنہ یکے از 313 (وفات: 9؍جون 1921ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) پلیگ ڈیوٹی کے سلسلے میں تعینات تھے۔ (بدر یکم فروری 1904ء صفحہ 10) حضرت ڈاکٹر صاحبؓ سے آپ کے اچھے دوستانہ تعلقات تھے اور اغلبًا انہی کے ذریعے احمدیت سے تعارف ہوا جس کے بعد اپنی ایک خواب کے ذریعے تسلی پاکر 1906ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ آپ بیان کرتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کے مجھے بہت کم موقعے ملے تھے کیونکہ میں ایک ایسی ملازمت میں تھا جس میں رخصت بہت کم ملتی تھی۔ میں نے خواب کی بنا پر بیعت کی تھی جو یہ تھی کہ ہیڈ ورکس مادھوپور جہاں سے ہیڈ باری دواب نہر نکلتی ہے وہاں میں تعینات تھا۔ سرکاری کواٹر کی دیوار پر سے جس کے صحن میں مَیں سویاہوا تھا ایک جماعت بہت خوش سلوک اشخاص کی جن کے آگے ایک بزرگ نہایت خوبصورت شکل اور نہایت خوبصورت لباس میں ملبوس، تاج ایسا چمکدار جس پر نظر نہ ٹھہر سکے، سر پر پہنے ہوئے، گُزر کر میرے کوارٹر کی چھت پر چڑھ گئے اور وہاں بگل کے ذریعہ سے اذان کہی جس کی آواز بہت دور دور تک پہنچی تھی۔ اس کے بعد ایسا معلوم ہوا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ اسی دیوار پر سے واپس تشریف لائے۔ جب میری چارپائی کے پاس سے گزرے تب مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ بھائی پائخانہ اپنے اندر سے باہر کردو۔ مَیں نے خواب میں عرض کیا کہ بہت اچھا جناب! جب وہ آگے ہو گئے تب میں نے اُن کے پیچھے جو دوست تھے اُن سے دریافت کیا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ اُن میں سے ایک نے کہا آپ نہیں جانتے یہ حضرت مرزا صاحب ہیں۔ اسی فجر کو میرے دوست ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم نے میرے دروازے پر آکر دستک دی۔ جب میں باہر آیا تو انہوں نے فرمایا شاہ صاحب آپ تو احمدی ہو گئے۔ میں نے دریافت کیا کہ کس طرح؟ انہوں نے کہا آج رات مجھے خواب آیا ہے کہ آپ شفا خانہ میں آکر بیٹھے ہیں اور میں نے اندر جاکر اپنا صندوق کھول کر ایک بہت عمدہ خوبصورت انگرکھا(ایک قسم کا مردانہ لباس۔ جبا) لا کر آپ کو پہنایا ہے اور وہ آپ کے بدن پر بہت فٹ آیاہے۔ اس کے بعد میں نے بہت خوبصورت عمدہ عمدہ بٹن لا کر اس میں لگا دیئے ہیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد میں اپنے سسرال کے گھر سید اکبر شاہ صاحب مرحوم کے مکان میں آیا۔ مرزا غلام اﷲ صاحب مرحوم جو کہ پڑوسی تھے میرے پاس آئے۔ جمعہ کا دن تھا میں اُن کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں گیا۔ وہاں انہوں نے مجھے ممبر کے پاس بٹھا دیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے تب انہوں نے حضور انور کی خدمت میں میری بیعت لینے کے متعلق عرض کیا۔ حضور انور نے نہایت شفقت سے میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیا اور دیگر بیعت کرنے والوں نے میری پشت پر ہاتھ رکھ کر بیعت کر لی۔ ‘‘
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7 صفحہ 144-145)
ریٹائرمنٹ کے بعد آپ مستقل طور پر دارالرحمت قادیان میں سکونت پذیر ہوگئے اور 29؍مئی 1947ء کو بعمر 71 سال وفات پاکر بوجہ موصی (وصیت نمبر 6954) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا: ’’افسوس جناب سید ولایت شاہ صاحب دار الرحمت آج وفات پاگئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ مرحوم صحابی اور موصی تھے۔ جنازہ کل نماز جمعہ کے بعد مدرسہ احمدیہ میں ہوگا۔ ‘‘
(الفضل 30؍مئی 1947ء صفحہ 1)
آپ کی شادی حضرت حکیم محمد زمان صاحب رضی اللہ عنہ آف مالیر کوٹلہ (اصل وطن اورنگ آباد ضلع اٹک تھا) کی بڑی صاحبزادی حضرت خیر النساء بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوئی تھی جو آپ کی وفات کے بعد 20 سال زندہ رہیں اور 21؍اپریل 1967ء کو کراچی میں وفات پائی، محترم سید صوفی محمد عبدالرحیم لدھیانوی (وفات: 15؍جنوری 1971ء) نے اعلان وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’مکرمہ خیر النساء بیگم صاحبہ زوجہ سید ولایت شاہ صاحب رضی اللہ عنہ (جو خود بھی احمدیت کا ایک نادر الوجود نمونہ اور صحابی تھے) نے کراچی میں بروز جمعہ مورخہ 21؍اپریل 1967ء کو انتقال فرمایا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
مرحومہ ایک خلیق اور نیک بخت خاتون تھی جو پیدائشی احمدی اور صحابیہؓ تھیں۔ مرحومہ کی جوانی اور پھر جو عرصہ 1947ء کے بعد سے انھوں نے بیوگی میں گذارا، ایک ناقابل فراموش نیک یادگار ہے۔ ملنسار، عابد و زاہد خاتون تھی۔ مرحومہ کے والد حضرت حکیم محمد زمان صاحب رضی اللہ عنہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے خاص الخاص شاگردوں میں تھے اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ مالیر کوٹلہ کے مقرب اور ہر دلعزیز طبیب حاذق تھے۔ مرحومہ ان کی بڑی صاحبزادی تھیں۔ رشتہ میں وہ میری بھانجی تھیں۔ باقاعدہ صوم و صلوٰۃ کی پابند، زہد و تقویٰ کی ایک زندہ مثال تھیں۔ مخالف اعزہ کی باتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی وہ سب کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک حال ہو جاتیں۔ تلاوت قرآن مجید کے علاوہ بھی نوافل، درود شریف کا التزام رکھتیں …. مرحومہ نے 3 لڑکے اور چار لڑکیاں چھوڑیں۔ ‘‘
(الفضل 4؍مئی 1967ء صفحہ 6)
(نوٹ: آپ کی تصویر آپ کے پوتے مکرم سید نعیم شاہ صاحب حال ٹورانٹو نے مہیا کی ہے۔ فجزاہ اللّٰہ احسن الجزاء۔ )
(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)