• 8 جولائی, 2025

قائد اعظم محمد علی جناح (قند مکرر)

قائد اعظم محمد علی جناح
(قند مکرر)

کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿ۚۖ۲۷﴾ وَّیَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَالۡاِکۡرَامِ ﴿۲۸﴾

(الرحمٰن: 27-28)

پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کی اچانک اور المناک وفات کی خبر ساری دنیا میں پہنچ کر مرنے والے لیڈرکے لئے جسے قائد اعظم کا خطاب ملا تھا، خراج تحسین وعقیدت حاصل کر چکی ہے۔جیسا کہ قرآنی آیت مندرجہ عنوان میں بتایا گیا ہے۔خدا کے سوا دنیا کی ہر چیز فانی ہے البتہ وہ چیز جسے خدا نے اپنی خاص توجہ سے دائمی بقا کے لئے چن لیا ہو وہ ضرور باقی رہتی اور خدا کے قیوم ہونے کا عملی ثبوت مہیا کرتی ہے۔اس اصول کے ماتحت انسان کا مادی جسم فانی قرار دیاگیا ہے اور اس کی روح ہمیشہ کی زندگی پانے والی قرار پائی ہے۔پس گو قائد اعظم کا جسمِ خاکی سپردِ خاک ہوکر اپنے دنیوی دورِزندگی کوہمیشہ کے لئے ختم کر چکا ہے مگر ان کی روح اپنے اچھے اور شاندار اعمال کے ساتھ زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔

میرا احساس ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ دنیا کی دینی اور روحانی حیات اور ترقی کے لئے انبیاء ومرسلین کا وجود پیدا کرتا رہتا ہے۔اسی طرح وہ بعض اوقات دنیا کی مادی اور قومی اور سیاسی اور علمی ترقی کے لئے بھی بعض خاص خاص وجود پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ گو انسانی زندگی کا اصل مقصد خدا کا تعلق ہے مگر اس بات میں کیا شک ہے کہ اس تعلق سے اتر کر دنیا کی مادی اور علمی ترقی بھی خدا کی توجہ کے دائرہ سے باہر نہیں سمجھی جاسکتی۔ ظاہر ہے کہ جب دین کے علاوہ خدا نے اس دنیا کے تمام مفید شعبوں کو بھی چلانا اور ترقی دیناہے تو پھر اس کی نصرت کا دائرہ صرف اُخروی امور تک ہی محدود نہیں سمجھا جاسکتا بلکہ خدا اپنی باریک در باریک حکیمانہ قدرت سے ہر دنیوی میدان کی ترقی کے لئے بھی سامان پیدا فرماتا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کی بہت سی مفید ایجادیں بھی ایک رنگ کے غیبی القاء اور خدائی نصرت کے ماتحت وقوع میں آئی ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ نہ صرف مخصوص دینی اور روحانی میدان میں بلکہ ہر قسم کے میدان میں جو بنی نوع انسان کے لئے مفید ہو، اپنے بعض بندوں کی نصرت فرما کر انسانیت کی ترقی کا سامان پیدا کرتا ہے اور یقینا اس کی یہ سنت مسلمانوں کے ساتھ زیادہ مخصوص ہے۔ کیونکہ وہ اس کے محبوب رسول اور اولین و آخرین کے سردارؐ کی طرف منسوب ہونے والی قوم ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی مشیّت نے قائداعظم محمد علی جناح کو بھی اسی رنگ میں اپنی خاص نصرت سے نوازا اور ان کے ذریعہ اس برعظیم کے مسلمانوں کا سیاسی شیرازہ غیر معمولی رنگ میں متحد کر دیا۔ قائداعظم میں بہت سی خوبیاں تھیں مگر ان کا جو کام سب سے زیادہ نمایاں ہو کر نظر آتا ہے وہ یقینا یہی ہے کہ ان کے ذریعہ مسلمانان ہندوستان (میری مراد تقسیم سے پہلے کا ہندوستان ہے۔) اپنے سیاسی اتحاد کی لڑی میں پروئے گئے جو اس سے پہلے بالکل مفقود تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ قائد اعظم کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کاوجود ہے۔ میں کہتا ہوں کہ بیشک پاکستان کا وجود ایک بہت بڑا کارنامہ ہے جو غالباََ دنیائے سیاست میں عدیم المثال سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر میری نگاہ قائداعظم محمد علی جناح کے اس کارنامہ کی طرف زیادہ اٹھتی ہے جو خود تو پاکستان نہیں مگر پاکستان کو وجود میں لانے کا سب سے بڑا بلکہ ظاہری اسباب کے لحاظ سے گویا واحد ذریعہ ہے۔ میری مراد مسلمانوں کا سیاسی اتحاد ہے جس نے یہ ثابت کر دیاہے کہ اتحاد میں وہ برکت اور وہ طاقت ہے جو دنیا کی اور کسی چیز کو حاصل نہیں۔ قائد اعظم سے پہلے ہندوستان کے مسلمان سیاسی لحاظ سے ایک منتشر گلّہ کی صورت میں تھے۔ جس کی بھیڑیں دو دو چار چار کی ٹولیوں میں اِدھر اُدھر پھرتی ہوئی جنگل کے بھیڑیوں کا شکار ہو رہی تھیں اور جوچاہتا ان کی جس ٹولی کو پکڑ کر اپنے پیچھے یا کسی دوسرے کے پیچھے لگا لیتا تھا اور اس طرح مسلمانوں کے سواد اعظم کا سارا زور آپس کے تفرقہ اور انشقاق کی نذرہورہا تھا اور اسلام کا ہوشیار دشمن مسلمانوں کی اس کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں مصروف تھا۔ مگر خدانے ہاں ہمارے علیم وقدیر خدا نے محمد علی جناح کو یہ توفیق عطا کی کہ اس کے ذریعہ ہندوستان کے پچانوے فی صدی مسلمان سیاسی اتحاد کی لڑی میں پروئے گئے اور جب یہ اتحاد قائم ہوگیاتو پھر اس اتحاد کا وہ لازمی اور طبعی نتیجہ بھی فورًا ظہور میں آگیاجو ازل سے مقدر تھا یعنی دشمن نے ہتھیار ڈال کے مسلمانوں کے متحدہ مطالبہ کو مان لیا۔کیونکہ دس کروڑ کی قوم کے متحدہ مطالبہ کو رد کرنا دنیا کی کسی طاقت کے اختیار میں نہیں ہے۔پس میں قائد اعظم کے کارناموں میں مسلمانوں کے سیاسی اتحاد کو نمبر 1 پر رکھونگا اور پاکستان کے وجود کو نمبر2 پراور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر عقلمند شخص میرے اس نظریہ سے اتفاق کرے گا۔

مسلمانوں کے سیاسی اتحاد اور پاکستان کے وجود کے بعد قائداعظم محمد علی جناح کا سب سے بڑا کام اور سب سے بڑا وصف ان کا عزم اور استقلال تھا۔دنیا جانتی ہے کہ ان کے رستہ میں بعض اوقات ایسی ایسی مشکلات آئیں کہ وہ اکثر انسانوں کو بے دل کرنے اور ہمت ہارکرسمجھوتہ کر لینے پر مجبور کر دیتی ہیں مگر قائداعظم محمدعلی جناح ہمیشہ ایک مضبوط چٹان کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہے اور مسلمانوں کی کشتی کو نہایت عزم اور استقلال کے ساتھ چلاتے اور اردگردکی چٹانوں سے بچاتے ہوئے منزل مقصود پر لے آئے بعض اوقات درمیان میں ایسے نازک مواقع بھی آئے کہ جب دنیا نے انہیں بظاہر سمجھوتے کی طرف مائل ہوتے ہوئے محسوس کیااور گو وقتی حالات کے ماتحت وقتی سمجھوتے قابل اعتراض نہیں ہوتے مگر بعد کے حالات نے بتا دیا کہ یہ صرف دشمن کے ساتھ گفت دشنید کا ایک حکیمانہ انداز تھا اور یہ کہ آخری مقصد کو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق دہلی کے مشہور اخبار ہندو ستان ٹائمز نے مسٹر جناح کی وفات پر تبصرہ کرتے ہی یہ الفاظ لکھے ہیں کہ مسٹر جناح نے دنیا کے سب سے بڑے سیاستدان (غالباََ پنڈت نہرو کی طرف اشارہ ہے یا شاید مسٹر گاندھی مراد ہوں) کے ساتھ زور آزمائی کی اور اس مقابلہ میں فتح پائی۔

قائد اعظم محمد علی جناح کا تیسرا نمایاں وصف ہر قسم کی پارٹی بندی سے بالا ہو کر غیر جانبدارانہ انصاف پر قائم رہنا تھا۔یہ وصف بھی قومی ترقی اور ملکی استحکام کے لئے نہایت ضروری چیز ہے اور پاکستان کے سب سے پہلے گورنر جنرل نے اس معاملہ میں بہترین مثال قائم کرکے پاکستان کی حکومت کے لئے ایک دائمی مشعلِ راہ پیدا کردی ہے۔ قائد اعظم کے نزدیک پاکستان کے شیعہ اور سنی، احمدی اور اہل حدیث، پارسی اور عیسائی اور پھر نام نہاداچھوت اور غیر اچھوت سب ایک تھے اور ان کے لئے صرف یہی ایک معیار قابل لحاظ تھا کہ ایک شخص کام کا اہل ہو اور یہ وہی زریںمعیار ہے جس کی طرف قرآن شریف نے ان مبارک الفاظ میں توجہ دلائی ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ وَاِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ

(النساء: 59)

یعنی اے مسلمانو !خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ چونکہ حکومت کے عہدے ایک ملکی امانت ہیں۔ پس تم ہمیشہ اس امانت کو اہل لوگوں کے سپرد کیا کرو خواہ وہ کوئی ہوں اور پھر جو شخص کسی عہدہ پر مقرر ہو اس کا فرض ہے کہ سب لوگوں کے درمیان کامل عدل کا معاملہ کرے۔

مرنے والے لیڈر میں خوبیاں تو بہت تھیں مگر میں اس جگہ صرف ان تین بنیادی خوبیوں کے ذکر پر ہی اکتفا کرتا ہوں یعنی اتحاد و تنظیم، عزم واستقلال اور غیر جانب دارانہ انصاف، اور میں پاکستان کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ان خوبیوں کو اپنا مشعلِ راہ بنا ئیں۔ کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی یہی بہترین یادگار ہوسکتی ہے کہ ان کے نیک اوصاف کو زندہ رکھا جائے اور دراصل دنیا میں وہی شخص زندہ رہتا ہے جس کی قوم اس کی یاد کو زندہ رکھتی ہے۔

(مطبوعہ الفضل 16؍ستمبر 1948ء)

(مضامین بشیر جلد2 صفحہ349-351)

(حضرت مرزا بشیر احمدؓ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 2)