آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمتع دنیاوی کا یہ حال تھاکہ ایک بار حضرت عمرؓ آپؐ سے ملنے گئے، ایک لڑکا بھیج کر اجازت چاہی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھجور کی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ جب حضرت عمرؓ اندر آئے تو آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ مکان سب خالی پڑاہے اور کوئی زینت کا سامان اس میں نہیں ہے۔ ایک کھونٹی پر تلوار لٹک رہی ہے یا وہ چٹائی ہے جس پر آپؐ لیٹے ہوئے تھے اور جس کے نشان اسی طرح آپؐ کی پشت مبارک پر بنے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ ان کو دیکھ کر رو پڑے۔ آپؐ نے پوچھا: اے عمر! تجھ کو کس چیز نے رُلایا؟ عمرؓ نے عرض کی کہ کسریٰ اور قیصر تو تنعّم کے اسباب رکھیں اور آپ جو خداتعالیٰ کے رسول اور دو جہان کے بادشاہ ہیں اس حال میں رہیں! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمرؓ! مجھے دنیا سے کیا غرض؟ مَیں تو اس مسافر کی طرح گزارہ کرتا ہوں جو اونٹ پر سوار منزل مقصود کو جاتا ہو۔ ریگستان کا راستہ ہو اور گرمی کی سخت شدت کی وجہ سے کوئی درخت دیکھ کر اس کے سایہ میں سستا لے اور جونہی کہ ذرا پسینہ خشک ہوا ہو وہ پھر چل پڑے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ51 ایڈیشن 1988ء)