• 28 اپریل, 2024

جامع المناھج والاسالیب (قسط 7)

جامع المناھج والاسالیب
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی شہرہ آفاق تصنیف تفسیر کبیر کا ایک اختصاصی مطالعہ
قسط 7

اجتماعی منہج / رجحان

اس رجحان تفسیر کے بارہ میں ڈاکٹر ذہبی لکھتے ہیں۔
’’اس زمانہ میں علم تفسیر ادبی اور اجتماعی حوالہ سے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ادبی اجتماعی منہج اسی زمانہ میں سامنے آیا ہے۔۔۔اس میں قرآنی نصوص کو زندگی اور اس کے گزارنے کے طریقوں معاشرتی اقدار کے فروغ اور انسانی عمرانی ضروریات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘

(التفسیر والمفسرون، جلد ثانی صفحہ478 مطبوعہ دار الحدیث القاہرۃ 2012ء)

اسسٹنٹ پروفیسر محمد فاروق حیدر (شعبہ علوم اسلامیہ، جی سی یونیورسٹی۔ لاہور) اپنے تحقیقی مقالہ بعنوان جدید تفسیری ادب محرکات و رجحانات میں اس منہج کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’ان سب تفاسیر (سر سید احمد خان کی تفسیر القرآن، سید ابو الاعلیٰ مودودی کی تفہیم القرآن، مفتی محمد شفیع کی معارف القرآن اور امین احسن اصلاحی کی تدبر قرآن۔ناقل)کے تالیف کیے جانے کے خاص عوامل و محرکات ہیں جن کا رنگ نہ صرف ان مفسرین کی شخصیات میں بلکہ ان کی کتب تفاسیر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔کسی کو مسلمانوں کی زبوں حالی کی فکر ہے اور اس ضمن میں وہ مسلمانوں کی نجات جدید علوم کو سیکھنے میں تصور کرتا ہے۔ کسی نے قرآن مجید کی تفسیر کو عام فہم اور آسان انداز میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ جدید نسل میں انقلابی روح پھونکنے کی کوشش کی ہے۔ کسی نے تفسیر میں منقولات اور سلف کے اقوال پر اعتماد کرتے ہوئے سماجی اور فقہی مسائل کو موضوع بحث بنایا اور قاری کے ذہن میں پیدا ہونے والے بہت سے ممکنہ سوالات کے جوابات دیے۔‘‘

(جدید تفسیری ادب محرکات و رجحانات از محمد فاروق حیدرجھات الاسلام جلد9 جولائی دسمبر 2015ء شمارہ نمبر1 صفحہ18)

اجتماعی منہج پر لکھی جانے والی تفاسیر

  • التحریر والتنویر من التفسیرلمحمد الطاہر المحمد المعروف بہ ابن عاشور (1879ء تا 1973ء)
  • تدبر قرآن از امین احسن اصلاحی (1904ء تا 1957ء)

تفسیر کبیر میں اجتماعی منہج کی چند مثالیں
ایک معاشرہ کی ترقی کی ضمانت

’’اوپر کی آیات (الفجر آیت 18 تا 21) میں چار امور بیان کیے گئے ہیں۔ جو کفار میں پائے جاتے تھے اور یہی چار امور ایسے ہیں جن سے قومیں تباہ ہوتی ہیں۔

اوّل: یتامیٰ کی خبر گیری نہ کرنا۔ فرماتا ہے ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام ملتا ہے تو کہتے ہیں ہم خدا کے حضور خاص شان رکھتے ہیں اور جب ان پر اس رنگ میں ابتلاء وارد ہوتا ہے کہ ان کی مالی حالت ناقص ہو جاتی ہے اور ان پر تنگ دستی کے ایام آ جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں خدا نے ہماری اہانت کر دی۔ گویا دونوں صورتوں میں وہ عزت اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ عزت آتی ہے تو کہتے ہیں ہمارا اکرام ہونا ہی چاہیے تھا اور اگر اہانت آتی ہے تو کہتے ہیں ہماری تو عزت ہونی چاہیےتھی خدا نے غلطی سے ہمیں ذلیل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان امور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمہاری تباہی کے سامان تمہارے اندر ہی موجود ہیں اور انہی کے ذریعہ سوط عذاب نازل ہوا کرتا ہے یعنی اندرونی طور پر بعض ایسی قوتیں ہوتی ہیں جو انسان کوتباہی کی طرف لے جاتی ہیں اور تباہی کے وہ سب موجبات تم میں پائے جاتے ہیں۔ اس لئے اگر تم پر تباہی نہ آئے تو اور کس پر آئے۔ چنانچہ قومی تباہی کے چار بڑے بڑے اسباب بیان کئے گئے ہیں جن میں سے پہلا اور اہم سبب یتامیٰ کی خبر گیری نہ کرنا ہے۔ بظاہر یہ ایک روحانی اور دینی کام معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قومی ترقی اور اس کے تنزّل کے ساتھ اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اگر یتامیٰ کی خبر گیری نہ کی جائے، ان کی پرورش کو نظر انداز کر دیا جائے اور ا ن کودربدردھکےکھانےپر مجبو رکیا جائے تو دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ دنیا میں بڑے سے بڑے کام قربانی کو چاہتے ہیں اور جب تک بڑی بڑی قربانیاں نہ ہوں اس وقت تک بڑے بڑے کام بھی نہیں ہوتے۔ اور بڑی بڑی قربانیاں دوہی قسم کی ہوتی ہیں یا مالی یا جانی۔ مگرہم دیکھتے ہیں انسان اپنے لئے تکلیف برداشت کر لیتا ہے لیکن جب اسے خیال آتا ہے کہ میرے بال بچوں کاکیابنے گا تو بہت سے لوگ بزدل بن جاتے ہیں اور قربانی کے میدان سے اپنے قدم کو پیچھے ہٹا لیتے ہیں۔ اگر کسی قوم میں یتامیٰ کی خبرگیری پوری طرح پائی جاتی ہو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ جانی اور مالی قربانیوں کے وقت اس قوم کا کوئی ایک فرد بھی پیچھے رہے اور اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش نہ کرے بلکہ وہ ہنستا ہواآگے بڑھے گا اور ہر قسم کے شدائد کو خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ اگر لوگ روزانہ اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھیں کہ فلاں شخص مر گیا تو اس کے یتیم بچوں کو فلاں امیر لے گیا اور اس نے اپنے بچوں کی طرح اپنے گھر میں رکھ لیا وہ ان میں اور اپنے بچوں میں کوئی فرق نہیں کرتا، وہ انہیں تعلیم دلا رہا ہے، انہیں اچھے کھانے کھلا رہا ہے، انہیں اچھا سے اچھا لباس پہنا رہا ہے تو جب بھی قربانی کا سوال پیدا ہو گا ہر شخص آگے بڑھے گا۔اور کہے گا اگر میری جان بھی جاتی ہے تو بے شک جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ فلاں شخص مر گیا تھا تو اس کے بچے فلاں قومی بھائی لے گیا اور اس نے انہیں اپنے بچوں کی طرح پالنا شروع کر دیا۔ فلاں شخص مر گیا تو اس کے بچوں کو فلاں شخص لے گیا اور ان کے اخراجا ت کا متکفّل ہو گیا اگر میں بھی مر گیا تو کیا ہوا میرے بچوں کی قوم نگران ہو گی اور وہ مجھ سے زیادہ بہتر رنگ میں ان کی تربیت کا فرض سرانجام دے گی۔ یہ احساس اگر ہر فرد کے دل میں پیدا ہو جائے اور یتامیٰ کی خبرگیری قومی طو پر کسی جماعت میں پائی جا ئے تو وہ جماعت کبھی مٹ نہیں سکتی۔ وہ جماعت کبھی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کر سکتی۔ قربانیوں سے ہچکچاہٹ محض اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مر گئے تو ہمارے بچے خا ک میں مل جائیں گے ان کا کوئی نگران نہیں ہو گا۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔ لوگ انہیں ڈانٹیں گے، ان سے نوکروں کی طرح کام لیں گے، ان کو بوٹ کی ٹھوکروں سے ماریں گے، انہیں کھانے کے لئے سوکھے ٹکڑے پہننے کے لئے پھٹے پرانے کپڑا دیں گے ان کے سروں پر محبت کا ہاتھ نہیں رکھیں گے، ان کو پیار کی نگاہوں سے نہیں دیکھیں گے، انہیں بات بات پر جھڑکیں گے، وہ روئیں گے تو انہیں چپ کرانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ انہیں ضرورتیں پیش آئیں گی تو وہ ان کو پورا نہیں کریں گے۔ یہ خیالات جب کسی شخص کے دل اور دماغ پر حاوی ہوتے ہیں تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اس کا بدن کپکپا جاتا ہے اور وہ جان دینے سے گھبرا تا ہے اور اس میدان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح مالی قربانی کا وقت آئے تو وہ گھبرا جاتا ہے اور اسے اپنے بچوں کی پرورش کا خیال روپیہ کو بلادریغ خرچ نہیں کرنے دیتا۔ اپنی زندگی کی تو اسے پرواہ نہیں ہوتی سمجھتا ہے جس طرح بھی ہو گا میں اپنے بچوں کی پرورش کر لوں گا۔ لیکن ساتھ ہی اس کے دل میں یہ خیال بھی آ جاتا ہے کہ اگر مال لٹانے کے بعد میں مر گیا اور میرے بچوں کے لئے کوئی چیز باقی نہ رہی تو ان کا بعد میں کیا حال ہو گا؟ اس وقت اگر وہ سمجھتا ہے کہ قوم نے میرے بچوں کی پرورش نہیں کرنی تو وہ بزدل بن جاتا ہے اور قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔

حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ ڈرانسان کو ا پنی موت کا نہیں ہوتا بلکہ سب سے زیادہ ڈر اسے اس بات کا ہوتا ہے کہ میری موت کے بعد میرے بچوں کا کیا حال ہو گا۔ یہ ایک جزباتی سوال ہے جو اس کے اندر ایک کشمکش اور ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ اس کے ارادوں میں تعطّل اور اس کی خواہشات میں جمود کی کیفیت رونما ہو جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ قوم کے کئی بچے یتیم ہیں مگر ان کی حالت یہ ہےکہ وہ لوگوں کے دروازوں پر جا جا کر اپنے لئے آٹا مانگتے پھرتے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ سمجھتا ہے اگر میں مر گیا تو میرا بچہ بھی کل اسی طرح بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا۔ پھر وہ ایک اور نظارہ دیکھتا ہے تو اس کا قلب اور بھی سہم جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے چند یتیم آٹا مانگنے کے لئے کسی کے دروازہ پر آئے انہوں نے دستک دی اور کہا ہمیں آٹا دیا جائے۔ گھر وہ ان کی آواز کو سنتا ہے تو بڑ بڑا کر کہنے لگ جاتا ہے ا ن لوگوں نے تو ہمارے کان کھا لئے ہیں۔ روز آٹا روز آٹا۔ وہ یہ فقرہ سنتا ہے تو اس میں اور بھی زیادہ بزدلی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے اگر میں مر گیا تو میرا بچہ اوّل تو بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا اور پھر لوگوں کا سلوک اس سے یہ ہو گا کہ وہ تو آٹا مانگے گا اور لوگ اسے کہیں گے تو نے ہمارے کان کھا لئے۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ فلاں شخص مر گیا ہے تو اس کے یتیم بچے فلاں گھر میں برتن مانجھ مانجھ کر گزارہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنی نظر کو وسیع کرتا ہے اور اپنی قوت فکریہ پر زور ڈالتا ہے۔ تو کہتا ہے جب میں مر جاؤں گا میرے بچے سے بھی اس قسم کا کام لیا جائے گا۔ اس پر اس کی بزدلی کا پارہ اور زیادہ اوپر چڑھ جاتا ہے بلکہ اگر کوئی خود ہی یتیم پر ظلم کر رہا ہو تو بھی اس میں بزدلی آ جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے جو سلوک آج میں دوسروں کے یتیم بچوں سے کر رہا ہوں وہی سلوک میرے مرنے کے بعد لوگ میرے بچے کے ساتھ کریں گے۔ پس یاد رکھو یتیم کی خبر گیری کرنا صرف نیکی اور تقویٰ ہی نہیں بلکہ قوم کے کیریکٹر کو بلند کرنا اور اسے قربانیوں پر زیادہ سے زیادہ دلیر بنانا ہے۔ جو قوم یتامیٰ سے حسن سلوک نہیں کرتی وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔

میں نے ایک دفعہ گھر میں نصیحت کی کہ یتامیٰ سے ایسا سلوک ہی کرنا چاہئے جیسے اپنے بچوں سے کیا جاتا ہے۔ اگر اس رنگ میں ان سے سلوک نہیں کیا جاتا تو قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ تم نے کسی یتیم کی پرورش کی ہے میں نے کہا میں بعض یتامیٰ کا خرچ خود دیتا ہوں مگر پھر بھی میری بعض بیویاں ان سے اس طرح کام لیتی ہیں جس طرح نوکروں سے کام لیا جاتا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ان سے بالکل کام نہ لیا جائے اگر ان سے کام نہیں لیا جائے گا تو وہ آوارہ ہو جائیں گے میں صرف یہ کہتا ہوں کہ ان سے ایسا ہی کام لیا جائے جو اپنے بچوں سے بھی لے لیا جاتا ہے اور اگر کوئی کام ایسا ہو جو ہم اپنے بچوں سے کروانے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہمیں وہ کام کسی یتیم سے بھی نہیں لینا چاہیے۔ بہرحال میں نے گھر میں نصیحت کی کہ یہ روپیہ تو میں دیتا ہوں مگر کام کی ذمہ داری تم پر ہے تمہیں چا ہئے کہ ایسے رنگ میں ان سے کام مت لو گویا وہ تمہارے نوکر ہیں۔ میری نصیحت کے بعد ام طاہر مرحومہؓ نے ایک یتیم بچہ پالا بعد میں تو اس کی حالت ایسی اچھی ثابت نہیں ہوئی مگر بہرحال انہوں نے اس بچے کو اسی طرح پالا جس طرح وہ اپنے بچوں کو پالتی تھیں اور انہوں نے کسی قسم کا فرق پیدا نہ ہونے دیا۔

اس بارہ میں نہایت ہی اعلیٰ نمونہ عزیزم مرزا مظفر احمد نے دکھایا ہے جو میرے بھتیجے ہیں۔ بنگال کے وہ فاقہ زدہ لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں وہاں ہلاک ہوئے ہیں ان میں سے ایک کی یتیم بچی لے کر انہوں نے پرورش شروع کی ہے اور اس عمدگی اور خوبی کے ساتھ وہ اس کی پرورش کر رہے ہیں کہ اس میں اور ان کی اپنی لڑکی میں کوئی بھی فرق نظر نہیں آتا۔ وہ اس کو مار پیٹ لیتی ہے اور یہ اس کو مار پیٹ لیتی ہے، دونوں کے بالکل ایک جیسے کپڑے ہوتے ہیں، ایک جیسا دونوں کو کھانا کھلاتے، ایک جیسی دونوں کو تعلیم دلاتے ہیں، اور ایک جیسی دونوں کی نگرانی رکھتے ہیں۔ ان کی لڑکی اس لڑکی کو باجی کہتی ہے اور اس کا احترام کرتی ہے اور یہی چیز ہے جسے یتیم کا پالنا کہتے ہیں۔ یتیم کا پالنا یہ نہیں کہ کسی کو گھر میں نوکر کے طور پر رکھ لیا، سارا دن اس سے کام لیتے رہے، کھانے کو اسے روکھی سوکھی روٹی دے دی، پہننے کے لئے پھٹا پرانا کپڑا دے دیا، ذرا غلطی ہوئی تو گالیاں دینے لگ گئے یا تھپڑوں سے اس کی مرمت شروع کر دی اور پھر یہ خیال کر لیا کہ ہم یتیم کی پرورش کر رہے ہیں اسے اسلامی اصطلاح میں قطعًا یتیم پروری نہیں کہا جاتا۔ یتیم پروری یہ ہے کہ انسان اپنے بچوں کی طرح دوسرے کے یتیم بچہ کو رکھے اور اپنے سلوک میں ذرا بھی فرق نہ آنے دے۔ محض کسی کو روٹی کھلا دینا اور بات ہے اور یتیم پروری اور چیز ہے۔ قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ اے لوگو! تم یتیم کا اکرام نہیں کر تے تھے یہ نہیں کہا لَّا تُطْعمُوْن الْیَتِیْمَ اے لوگو! تم یتیم کو کھا نا نہیں کھلاتے تھے۔ اگر محض کھانے کا ذکر ہوتا تو یہاں اکرامؔ کا لفظ نہ ہوتا بلکہ اِطْعَام کا لفظ ہوتا۔ اکرام کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا جانا صاف بتا رہا ہے کہ الٰہی منشاء یہ ہے کہ یتیموں کی ایسے رنگ میں پرورش کی جائے کہ ان کا احترام مدنظر ہو یہ نہ ہو کہ صدقہ کے طور پران کو روٹی دی جا رہی ہو۔

میں نے قادیان میں ایک دفعہ یتیم خانہ بنایا تھوڑے دنوں کے بعد ہی مجھے پتہ لگا کہ ان یتیموں سے سارا دن کام لیا جاتا ہے۔ کام لینا منع نہیں لیکن ہمیں ان سے اتنا ہی کام لینا چاہئے جتنا ہم اپنے بیٹے سے کام لیتے ہیں یہ نہ ہو کہ ہمارا بیٹا تو آرام سے بیٹھا رہے اور کام کا بوجھ یتیم پر ڈال دیا جائے محض اس لئے کہ اس کا باپ زندہ نہیں اس کی ماں زندہ نہیں اور وہ اب دوسروں لوگوں کے رحم پر ہے۔ اسے بیٹوں کی طرح رکھا جائے، بیٹوں کی طرح اس سے کام لیا جائے اور پھر اگر اس میں اور اپنے بیٹے میں کبھی لڑائی ہو جائے تو بے شک یہ اس کو مارپیٹ لیں اور وہ ان کو مارپیٹ لے اس وقت ماں اسے یہ نہ کہے کہ خبردار میرے بیٹے پر ہاتھ اٹھا یا تو تجھے مار مار کر سیدھا کر دوں گی۔ اگر اس طرح کسی یتیم کو رکھا جائے تو بے شک کسی غلطی پر اسے مار بھی لیا جائے اس میں کوئی حرج نہیں آخر ہم اپنے بچے کو بھی بعض دفعہ مار لیتے ہیں۔ پھر اگر کسی یتیم کو اس کی کسی غلطی پر بالکل اس طرح جس طرح ہم اپنے بچوں کی اصلاح کے لئے انہیں مارتے ہیں اگر کبھی مار لیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں مگر بہرحال اس کی عزت نظر انداز نہیں ہونی چاہئے۔

قرآن کریم صرف یتامیٰ کو کھانا کھلا ضروری نہیں سمجھتا بلکہ فرماتا ہے قومی ترقی کے لئے یہ نہایت ضروری امر ہے کہ یتیم کو عزت سے رکھا جائے، اگر یتامیٰ کا اکرام قوم میں نہیں پایا جاتا تو خواہ تم ہزارہا لوگوں سے کہو کہ جا ؤ اور خدا کی راہ میں مر جا ؤ۔ جا ؤ اور اپنی جان کو قربان کر دو۔۔۔ وہ کہیں گے ہم چلے تو جائیں گے مگر ایسا نہ ہو کہ مر جائیں اور ہمارے بچوں کو تکلیف اٹھانی پڑے۔ لیکن اگر وہ یہ دیکھیں کہ ہماری زندگی اور ہماری موت بچوں کی پرورش کے لحاظ سے برابر ہے ہمارے مرنے کے بعد بھی یہ اسی طرح رہیں گے بلکہ موجودہ حالت سے بھی ہزار گنا بڑھ کر ان کی پرورش کے سامان ہوں گے تو بے شک تم قوم کے ایک ایک فرد کو کٹواتے جاؤ، ایک ایک فرد کو مرواتے جاؤ کوئی ایک شخص بھی اپنے قدم کو پیچھے نہیں ہٹائے گا اور خوشی سے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دے گا س۔ غرض یہ ایک نہایت ہی عظیم الشان مسئلہ ہے اور جب تک کسی قوم کے افراد اس کو پوری طرح نہ سمجھ لیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔

دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامٍ الْمِسْکِیْنِ تم آپس میں ایک دوسرے کو رغبت نہیں دلاتے کہ غریب آدمی کو کھانا کھلایا جائے۔

اگر غرباء کی خبر گیری نہ ہو تو قومی جنگوں میں کا میابی نہیں ہوتی اور سپاہی بہت کم ملتے ہیں کیونکہ دنیا میں غرباء زیادہ ہوتے ہیں اگر سپاہیوں اور لڑنے والوں کے ذہن میں یہ ہو کہ ہماری قوم ہماری محسن ہے۔ ہم بیمار ہوئے تو اس نے ہمارا علاج کیا۔ ہمارے پاس کپڑے نہ تھے تو اس نے ہمارے لیے کپڑے مہیا کیے۔ ہم بھوکے تھے تو اس نے ہمارے لئے غلّہ مہیا کیا۔ ہم حاجت مند تھے تو اس نے ہماری حاجات کو پورا کیا۔ تو گو کمینے اور رذیل لوگ بھی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں مگر بہرحال جو شریف ہوں گے اور یہی طبقہ زیادہ ہوتا ہے وہ کہیں گے جب قوم نے ہمارے ساتھ یہ احسان کیا ہے وہ احسان کیا ہے تو آج ہم قومی ضرورت کے وقت کیوں پیچھے ہٹیں ہم آگے بڑھیں گے اور قوم کے لئے اپنی جانوں کو قربان کر دیں گے لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھوکے مرتے رہے مگر ہمیں کسی نے نہ پوچھا ہم ننگے پھرتے رہے مگر کسی نے ہمارا ننگ نہ ڈھانکا ہم بیمار ہوئے مگر کسی نے ہمارا علاج نہ کیا ہم محتاج ہوئے مگر کسی نے ہماری احتیاج کو رفع نہ کیا۔ تو وہ کہیں گے ہمارے لئے قوم نے کیا کیا تھا کہ آج ہم اس کے لئے قربانی کریں۔ وہ ہم سے بے اعتنائی کرتی رہی ہے آج ہم اس سے بے اعتنائی کریں گے۔ پس غرباء کی خبر نہ کر نے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قربانی کا مادہ لوگوں کے دلوں میں سے کم ہو جاتا ہے اور قومی جنگوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔

میں نے قادیان میں دیکھا ہے ہم کوشش کرتے ہیں کہ غرباء کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ہم ان کے لئے کپڑے مہیا کرتے ہیں، ان کے لئے غلّہ کا انتظام کرتے ہیں، ان کی روپیہ سے امداد کرتے ہیں، ان کو طبّی امداد بہم پنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور حتی الامکان ان کی تکالیف کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی گو کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو باوجود اس سارے انتظام کے جماعت پر اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں لوگوں کا کام صرف یہی ہے کہ ان پر روپیہ خرچ کرتے چلے جائیں ان پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ لیکن پھر بھی اکثریت ایسی ہے جو محسوس کرتی ہے کہ یہ جماعت ہمارے لئے قربانی کر رہی ہے اس لئے قومی ضرورتوں کے وقت ہمیں بھی دوسروں سے زیادہ قربانی کرنی چاہئے۔ چنانچہ وہ لوگ خود بھوکے ہوتے ہیں مگر جب کسی چندہ کی تحریک ہو مزدوری کر کے بھی اس میں ضرور حصّہ لیتے ہیں اور گو وہ اس تحریک کے مخاطب نہیں ہوتے اور ان پر کسی قسم کی ذمہ واری بھی نہیں ہوتی مگر چونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ قوم ہمارے لئے قربانی کرتی ہے اور ہماری ضروریات کا خیال رکھتی ہے اس لئے وہ بھی قربانی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قومی تحریکات میں حصہ دار بن جائیں۔ پس غرباء کی خبر گیری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر قومی جنگ ہو جائے تو چونکہ قوم کی اکثریت غرباء پر مشتمل ہوتی ہے اس لئے قوم کو کثرت سے کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ ایک کروڑ پتی کی تلوار صرف ایک تلوار کا کام دے سکتی ہے لیکن جنگوں میں ایک تلوار نہیں کروڑوں تلواروں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کروڑوں تلواریں اس وقت تک مہیّا نہیں ہو سکتیں جب تک کہ کروڑوں غرباء کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائے اور ان کو پوری طرح مطمئن نہ کیا جائے۔ اگر مساکین کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے تو یہ لازمی بات ہے کہ جب قوم پر کوئی مصیبت آئے گی شریف الطبع لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ قوم نے ہم پر احسان کیا تھا اب اس پر مصیبت آئی ہے تو ہم اس کی مدد کریں۔ جیسے انگلستان، امریکہ، روس اور جرمنی وغیرہ ممالک میں موجودہ جنگ میں لاکھوں آدمی کام آئے اور انہوں نے اپنے آپ کو قوم کے لئے قربان کر دیا۔ اس کی وجہ درحقیقت یہی ہے کہ ان قوموں میں غرباء کی پرورش کا احساس زیادہ پایا جاتا ہے ہندوستا ن میں لوگ فوجی بنتے ہیں وہ یا تو اس لئے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں کہ ان کے باپ دادا فوج میں کام کر چکے ہوتے ہیں اور یا پھر اس لئے جاتے ہیں کہ ان کو بعد میں مربّعے مل جائیں۔ قومی احساس ہندوستانیوں میں بہت کم ہوتا ہے۔

پھر اگر غرباء کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے تو ان کے دلوں میں یہ احساس رہتا ہے کہ جو لوگ اپنے اموال میں ہماری ضروریات کا خیال رکھتے ہیں وہ فتوحات میں بھی ہمارا ضرورخیال رکھیں گے اور یہ بھی قوم کی ترقی کا ایک ذریعہ ہوتا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ قومی اموال کی ترقی صرف امراء کو ہی نہیں بلکہ ہمیں بھی فائدہ پہنچائے گی۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اموال میں غرباء کے حقوق اس لئے بیان کئے ہیں کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ (الحشر: 8) تا کہ تم روپیہ کو اس طرح استعمال نہ کرو کہ وہ دولتمندوں میں ہی چکر لگانے لگے بلکہ غرباء کو بھی روپیہ ملے۔ پس غرباء کی خبر گیری کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جتنی قوم ترقی کرے گی اتنا ہی ہمارا حصہ بڑھتا چلا جائے گا لیکن اگر ان کو حصہ نہ دیا جائے تو وہ کہتے ہیں ہمیں تو حصہ ملنا نہیں قومی اموال کی ترقی امراء کو ہی فائدہ دے گی اس لئے ہم اپنی جانوں کو کیوں ضائع کریں۔

تیسری چیز جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے وہ اکْل تراثجو اسراف کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔ جب کسی قوم میں اسراف پیدا ہو جائے تو وہ بھی یقینی طور پر تباہ و برباد ہو جاتی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے وَتَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا کہ تمہیں باپ دادا سے مال ملا ہے مگر بجائے اس کے کہ تم اسے ترقی دیتے اور اسے بڑھانے کی کوشش کرتے تم نے اسے تباہ کرنا شروع کر دیا۔ غرض اسراف بھی قومی تنزّل کی ایک بہت بڑی علامت ہے اور اس کے دو بڑے نقصان ہوتے ہیں۔ اوّلؔ یہ کہ انسان میں نکمّا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ باپ دادا کی طرح اگر وہ کام کرتا تو نکمّا پن اس میں پیدا نہ ہوتا مگر وہ محنت کو صرف روٹی کمانے کا ذریعہ سمجھ لیتا ہے اور جب اسے باپ دادا کی جائیداد پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے روٹی مل جاتی ہے تو وہ کوئی کام نہیں کرتا۔ جس قوم میں ایسے آدمی پیدا ہو جائیں کہ وہ کوئی کام نہ کریں وہ اس جونک کی طرح ہوتے ہیں جو جسم کا خون چوس لیتی ہے اور اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ مذمت کی جائے۔ اگر کسی قوم میں ہزاروں لوگ بھی کروڑ پتی ہوں لیکن وہ سب کے سب کام کر رہے ہوں اور ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ ہو جس کے اندر نکمّا پن پایا جاتا ہو تو وہ قوم کبھی تباہ نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ایک کروڑ پتی بھی ایسا ہے جو باپ دادا کی جائیداد لے کر بیٹھ گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب مجھے کسی کام یا کسی محنت کی ضرورت نہیں محنت تو اس لئے کی جاتی ہے کہ روٹی ملے میرے پاس روٹی کا کافی سامان ہے میں کیوں محنت کروں تو اس قوم کی تباہی کی بنیادی اینٹ وہ شخص اپنے ہاتھ سے رکھنے والا ہوتا ہے۔ پس محض کسی کروڑپتی کا قوم میں پایا جانا اس کی بربادی کی علامت نہیں کیونکہ گو وہ کروڑپتی ہو گا مگر نکمّا نہیں ہو گا بلکہ کام کر رہا ہو گا۔ نکمّا وہ ہے جو کہتا ہے کہ باپ کا ایک کروڑ روپیہ میرے پاس ہے مجھے اب محنت کی ضرورت نہیں۔ مجھے اب کام کی ضرورت نہیں میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ باپ کے روپیہ پر تصرّف رکھوں جس طرح جی میں آئے کروں۔ یوں تو انگلستان میں بھی کروڑ پتی پائے جاتے ہیں مگر وہ لوگ ایسے ہیں کہ باوجود کروڑ پتی ہونے کے محنت کرتے ہیں اور اپنے روپیہ کو برباد کرنے کی بجائے اس سے کوئی نہ کوئی کارخانہ جاری کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پچاس، سو، دو سو یا ہزار آدمیوں کو مزدوری مل جاتی ہے اور وہ روپیہ قوم کی ترقی کے کام آتا رہتا ہے۔ بے شک وہاں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو بنکوں میں اپنا روپیہ جمع کر دیتے ہیں مگر زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنے روپیہ سے کارخانہ جاری کر دیتے ہیں یا بنکوں میں روپیہ جمع کر کے خود کسی سوسائٹی کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری بن جاتے ہیں اور اس طرح آنریری طور پر قومی خدمات سرانجام دیتے ہیں اس لئے وہ قوم تباہ نہیں ہوتی۔ اس جگہ ایسے لوگوں کا ذکر نہیں بلکہ نکمّے امراء کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنے باپ دادا کے روپیہ کو کھاتے رہتے ہو اور خود ساری عمر نکمّاپن میں گزار دیتے ہو جس قوم میں ایسے منحوس لوگ پیدا ہو جائیں وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ دوسرےؔ خواہ تم اچھا کہو یا برا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں وہ قوم میں ضرور عزت حاصل کر لیتے ہیں اور اس وجہ سے ان سے اتر کر ان کی اولاد کو بھی کچھ نہ کچھ عزت قوم میں حاصل ہو جاتی ہے خواہ دنیا میں کتنی بغاوت ہو جائے، لوگ بالشوزم کے قائل ہو جائیں پھر بھی یہ بات کبھی مٹ نہیں سکتی کہ جب کوئی شخص قوم میں کوئی خاص اعزاز حاصل کر لیتا ہے تو کچھ نہ کچھ عزت اس کی اولاد کو بھی مل جاتی ہے۔ یہ ایک فطرتی چیز ہے جس کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا جس نے کوئی نمایاں کام کیا ہوتا ہے اس کی اولاد خواہ مستحق ہو یا نہ ہو مگر بہرحال اس عزت کا کچھ نہ کچھ حصہ اولاد کو بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اب یہ لازمی بات ہے کہ جب ایسے لوگوںمیں سستی پیدا ہو جائے گی تو چونکہ بڑے خاندان ہی لیڈر ہوتے ہیں ان کی سستی کا قوم پر اثر پڑے گا کہ اس کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا جب وہ لوگ جنہیں قوم میں عزت حاصل ہو جن کے ہاتھ میں لیڈری کی باگ ڈور ہو، باپ دادا کی جائیداد پر بیٹھے روٹیاں توڑ رہے ہوں تو یہ قدرتی بات ہے کہ اس قوم میں لیڈر کم ہو جائیں گے۔ بے شک کچھ نئے لیڈر بن جاتے ہیں مگر کچھ باپ دادا کی عزت اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے لیڈر سمجھے جاتے ہیں اگر ان میں اس قسم کی سستی پیدا ہو جائے تو ایک قسم کے لیڈر ہی رہ جائیں گے دوسری قسم کے لیڈر نہیں رہیں گے اور اس طرح قوم کے راہنما محدود ہو جائیں گے۔

چوتھی چیز محبت مال ہے۔ مال کی محبت حلال وحرام کا امتیاز اڑا کر انسان کو ظلم کی طرف مائل کر دیتی ہے جس شخص کے دل میں انتہائی طور پر مال کی محبت ہو گی وہ حلال اور حرام میں کوئی امتیاز نہیں کرے گا۔ حلال ذریعہ سے مال آئے گا تو اسے بھی لے لے گا، حرام ذریعہ سے مال آئے گا تو اسے بھی لے لے گا اور جس شخص میں حلال کا امتیاز نہ رہے وہ ظلم پر آمادہ ہو جاتا ہے اور جس قوم میں ظالم پیدا ہو جائیں اس کا شیرازہ کبھی متحد نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک لازمی اور طبعی بات ہے کہ جب انتہائی طور پر مال کی محبت پیدا ہو گی حلال و حرام کی تمیزجا تی رہے گی اور جب حلال و حرام کی تمیزنہ رہے گی تو انسان ظلم سے دریغ نہیں کرے گا اور جب قوم میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جن کو دوسروں کو لوٹنے میں مزا آتا ہو تو وہ قوم کبھی پنپ نہیں سکتی۔

دوسرےؔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم صنعتی ترقی سے محروم رہ جاتی ہے جس شخص کے دل میں مال کی شدید محبت ہو وہ بعض دفعہ روپیہ کو کام پر لگانے سے ڈرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شاید تجارت یا صنعت میں نقصان نہ ہو جائے بہتر یہی ہے کہ میں اس کو اپنے پاس محفوظ رکھوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال بھی نہیں بڑھتا اور غرباء کے حقوق کا بھی اتلاف ہوتا ہے۔ فرض کرو دس ہزار روپیہ سے یہ ایک کارخانہ جاری کرتا اور بیس پچیس مزدور اس کارخانہ میں کام کرنے والا ہوتا تو بیس پچیس خاندان اس روپیہ سے پرورش پانے لگ جاتے۔ آگے ایک خاندان میں اگر پانچ پانچ آدمی بھی فرض کر لئے جائیں تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ اس نے دس ہزار روپیہ خرچ کر کے سو سوا سو لوگوں کے لئے مزدوری مہیا کی۔ لیکن اگر وہ روپیہ خزانہ میں جمع کر دیتا ہے تو سو سوا سو آدمیوں کی روٹی ماری جاتی ہے۔ اسی طرح اگر قوم میں دس ہزار مالدار ہوں اور وہ اپنے روپیہ کو خزانہ میں محفوظ رکھیں تو لاکھوں لوگوں کی مزدوری ماری جائے گی اور صنعتی لحاظ سے قوم کو شدید نقصان پہنچے گا۔ پس دوسرا نقصان مال کی محبت کا یہ ہے کہ قوم صنعتی لحاظ سے ترقی سے محروم رہ جاتی ہے۔

تیسرا نقصان یہ ہے کہ حبّ مال کی وجہ سے قومی چندوں میں کمی آ جاتی ہے۔ جب بھی کوئی تحریک ہو مال کی محبت غالب آ جاتی ہے اور قومی تحریکات میں حصہ لینے کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا۔

چوتھےؔ اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جن کے دلوں مال کی محبت ہوتی ہے وہ قومی ایثار کے وقت دشمن کے غلبہ سے ڈر کر غدّار بن جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتِلۡکَ الۡاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیۡنَ النَّاسِ (آل عمران: 141) لڑائی میں کبھی ایک کا پلّہ بھاری ہو جاتا ہے اور کبھی دوسرے کا۔ اونچ نیچ ضرور ہوتی رہتی ہے ایسی حالت میں وہ شخص جس کے دل میں مال کی محبت ہوتی ہے اگر اسے ذرا بھی یہ پتہ لگے کہ دشمن غالب آنے والا ہے تو وہ چوری چھپے دشمن کے ساتھ ساز باز شروع کر دیتا ہے اور اپنی قوم سے غدّاری کرتا ہے محض اس لئے کہ اس کا مال محفوظ رہے۔

حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ انگریز سود لے کر بھی لوٹتے ہیں اور سود دے کر بھی لوٹتے ہیں پھر اس کے متعلق ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے اودھؔ کی اسلامی حکومت اس طرح تباہ ہوئی کہ پہلے انگریزوں نے لوگوں میں یہ تحریک شروع کر دی کہ اگر تم ہمارے بنک میں اپنا روپیہ جمع کرو تو تمہیں اڑھائی فیصدی نفع دیا جائے گا۔ یہ لالچ اتنا بڑا تھا کہ ان لوگوں نے اپنا تمام روپیہ کلکتہ کے انگریزی بنک میں جمع کرا دیا۔ عورتوں نے اپنے زیورات تک بیچ ڈالے اور روپیہ انگریزوں کے حوالے کر دیاکیونکہ انہیں آئندہ کے متعلق بڑی بڑی امیدیں دلائی گئی تھیں۔ انہیں کہا گیا تھا کہ تمہارا دس لاکھ روپیہ جمع ہوا تو تمہیں پچیس ہزار روپیہ سود دیا جائے گااور پھر تمہارا اصل مال بالکل محفوظ رہے گا جب تم مانگو گے روپیہ واپس دے دیا جائے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا سارے کا سارا روپیہ کلکتہ کے انگریزی بنک میں جمع ہو گیا اس کے بعد انگریزی فوج نے حملہ کر دیا۔ لکھنؤ جو اودھؔ کی حکومت کا دارالسلطنت تھا وہاں کے بڑے بڑے سرداروں سے انگریزوں نے کہہ دیا کہ خبردار! تم میں سے کوئی شخص بادشاہ کو یہ خبر نہ پہنچائے کہ انگریزی فوج حملہ کے لئے آ رہی ہے اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارا جو روپیہ بنک میں جمع ہے وہ ضبط ہو جائے گا۔ ان غدّار افسروں نے ایسا ہی کیا۔ بادشاہ مرغ لڑوا رہا تھا اور کنچنیوں کے ناچ گانے میں مشغول تھا کہ ایک شخص بول اٹھا اور کہنے لگا کہ حضور سنا ہے انگریزی فوج آ رہی ہے وہ افسر جو اندرونی طور پر انگریزوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے انہوں نے اس کو ڈانٹنا شروع کر دیا اور بادشاہ سے کہا حضور کے اقبال کے سامنے انگریزوں کی کیا مجال ہو سکتی ہے یہ ایک بے وقوف شخص یوں ہی بول پڑا ہے۔ حضور کے آرام اور مزے کا وقت تھا مگر اس نے سارا مزہ خراب کر دیا انگریزوں کی کیا مجال ہے کہ وہ حضور کی شاہی کو نقصان پہنچا سکیں۔

غرض بادشاہ کو انہوں نے ناچ گانوں اور مرغوں کے لڑوانے میں ہی مشغول رکھا اور انگریزی فوج لکھنؤ کے اندر داخل ہو گئی الغرض محبت مال قوم میں غدّاری پیدا کر دیتی ہے اس لئے اگر کوئی قوم ترقی کرنا چاہے تو اسے اپنے افراد کے قلوب میں سے مال کی محبت کو مٹا دینا چاہئے اس کے بغیر وہ حقیقی اور پائدار ترقی حاصل نہیں کر سکتی۔

چونکہ یہاں کفار کا ذکر تھا اور انہیں یہ بتایا جا رہا تھا کہ تم تباہ ہو جاؤ گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں یہ مضمون بیان کیا کہ تمہاری تباہی کے سامان مہیا کہیں باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ تمہارے اندر ہی تمہاری بربادی کے سامان موجود ہیں۔ لیکن محمدؐ رسول اللہ کی قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ اگر میں لڑائی میں مارا گیا تو مجھ سے بڑھ کر شفیق باپ میرے بچوں کے لئے موجود ہے۔ مسکین جانتا ہے ہے کہ اگر محمدؐ رسول اللہ کو طاقت ملی تو مجھے کھانا ملے گا، مجھے کپڑا ملے گا، مجھے بیماری کے وقت علاج میسر آئے گا اور مجھے فتوحات میں برابر کا حصہ ملے گا۔ باپ دادا سے ورثہ حاصل کرنے والا جانتا ہے کہ میں نے اپنے مال کو تلف نہیں کرنا بلکہ اسے قومی کاموں پر صرف کرنا اور اسے پہلے سے بھی زیادہ بڑھانا ہے تاکہ قوم کا قدم ترقی کی طرف بڑھے تنزل کی طرف نہ جھکے۔ اور اگر کسی کے پاس مال ہے تو اس سے محبت نہیں رکھتا۔ چندے کے وقت سارے کا سارا مال لے آتا ہے اور پھر اس بات کی احتیاط رکھتا ہے کہ اس کے مال میں کوئی حرام پیسہ نہ آ جائے جب ترقی کی تمام علامات محمدؐ رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں میں پائی جاتی ہیں اور تنزل کی تمام علامات تم میں موجود ہیں تو تمہیں یہ خیال ہی کس طرح کر سکتے ہو کہ تم غالب آ جاؤگے اور مسلمان مغلوب ہو جائیں گے۔ بے شک تعداد کے لحاظ سے تم زیادہ ہو مگر بہت سی چڑیاں باز پر فتح حاصل نہیں کر سکتیں۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جو یتامیٰ کی خبرگیری نہیں کرتا اور اس لئے وہ انتہائی طور پر بزدل اور ڈرپوک ہے۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جو غرباء کی اعانت نہیں کرتا اس لئے تمہیں قومی جنگوں کے وقت کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جسے اپنے باپ دادے سے جب ورثہ میں روپیہ ملتا ہے تو وہ اسے عیاشی میں برباد کر دیتا ہے۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جس کے دل میں مال کی انتہائی محبت پائی جاتی ہے اور اس وجہ سے جب قوم کے لئے مال کی ضرورت ہو تم میں سے کوئی شخص روپیہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ جب تمہاری یہ حالت ہے اور مسلمانوں کی وہ حالت تو یہ لازمی بات ہے کہ مسلمان جیتیں گے اور تم ہارو گے۔

یہی چیز ہے جو ہماری جماعت کے افراد کو اپنے مدنظر رکھنی چاہئے۔ اگر ہماری جماعت ترقی کرنا چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ یہ چار باتیں اپنے اندر پیدا کرلے اور پوری مضبوطی کے ساتھ ان پر قائم رہے۔ اگر ہمارے مبلغ اور ہمارے معلّم اور ہمارے صدر اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ہم نے یتامیٰ کی خبر گیری کرنی ہے ہم نے ان کو صرف کھانا ہی نہیں کھلانا بلکہ ان کا اکرام کرنا ہے، اگر وہ سمجھیں کہ ہم نے مساکین کو کھانا پینے کے لحاظ سے ہر قسم کی تکالیف سے محفوظ رکھنا ہے، اگر وہ خیال رکھیں کہ ہم نے لوگوں میں کام کرنے کی عادت پیدا کرنی ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے باپ دادا کی جائیداد لے کر بیٹھ جائے اور خود کام نہ کرے اگر ایک شخص کروڑ پتی بھی ہے مگر وہ صرف اپنے باپ دادا کی جائیداد پر بیٹھا ہوا ہے خود کوئی کام نہیں کرتا تو قوم کو اس کی ذرا بھی عزت نہیں کرنی چاہئے اس کے متعلق یہ نہیں کہنا چاہئے کہ وہ بڑا رئیس ہے بلکہ اسے چوہڑوں اور چماروں سے بھی زیادہ ذلیل اور بد تر سمجھنا چاہئے۔ اسی طرح قوم میں کوئی شخص ایسا ہو جو مال سے محبت رکھتا ہو تو جماعت کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ وہ شخص ہے جو کسی وقت ہمارے لئے غدّار ثابت ہو گا اور جب بھی اسے موقع ملے گا روپیہ کے ڈر کے مارے دشمن سے مل جائے گا۔ اگر یہ چار باتیں تم اپنے اندر پیدا کر لو تو چاہے تمہارے دشمن لاکھ ہوں، کروڑ ہوں، دس کروڑ ہو وہ کروڑ یا دس کروڑ چڑیاں ہوں گی اور تم ان کے مقابلہ میں باز ہو گے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ566 تا 574، پرنٹ ویل امرتسر 2010ء)

(خواجہ عبدالعظیم احمد۔ مبلغ سلسلہ نائیجیریا)

پچھلا پڑھیں

’’ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 اکتوبر 2022