دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ
قسط5
دل کی ایک حسرت
میں نہیں جانتا کہ دوسرے دوستوں کا کیا حال ہے لیکن میں تو جب ریل گاڑی میں بیٹھتا ہوں میرے دل میں حسرت ہوتی ہے کہ کاش! یہ ریل گاڑی احمدیوں کی بنائی ہوئی ہو، اور اس کی کمپنی کے وہ مالک ہوں اور جب میں جہاز میں بیٹھتا ہوں تو کہتا ہوں کاش! یہ جہاز احمدیوں کے بنائے ہوئے ہوں اور وہ اِن کمپنیوں کے مالک ہوں۔ میں پچھلے دنوں کراچی گیاتو اپنے دوستوں سے کہا کاش! کوئی دوست جہاز نہیں تو کشتی بنا کر ہی سمندر میں چلانے لگے اور میری یہ حسرت پوری کر دے اور میں اُس میں بیٹھ کر کہہ سکوں کہ آزاد سمندر میں یہ احمدیوں کی کشتی پھر رہی ہے۔ دوستوں سے میں نے یہ بھی کہا کاش! کوئی دس گز کا ہی جزیرہ ہو جس میں احمدی ہی احمدی ہوں اور ہم کہہ سکیں کہ یہ احمدیوں کا مُلک ہے کہ بڑے کاموں کی ابتداءچھوٹی ہی چیزوں سے ہوتی ہے۔
یہ ہیں میرے ارادے اور یہ ہیں میری تمنائیں۔ اِن کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم کام شروع کریں مگر یہ کام ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ ان جذبات کی لہریں ہر ایک احمدی کے دل میں پیدا نہ ہوں اور اِس کےلئے جس قربانی کی ضرورت ہے وہ نہ کی جائے۔ دنیا چونکہ صنعت و حرفت میں بہت ترقی کر چکی ہے، اِس لئے احمدی جو اشیاء اب بنائیں گے وہ شروع میں مہنگی پڑیں گی مگر باوجود اِس کے جماعت کا فرض ہے کہ اِنہیں خریدے۔
ایک دفعہ دیال باغ آگرہ والے لاہور اپنی اشیاءکی نمائش کرنے کے لئے آئے تو اُنہوں نے مجھے بھی دعوت دی۔ گورنر پنجاب کو اُنہوں نے ٹی پارٹی دینے کا انتظام کیا ہوا تھا اور اِس موقع پر چیزیں بھی فروخت کرتے تھے۔ اُس وقت ان کی چیزیں نسبتاً مہنگی تھیں مگر وہ کہتے تھے بےشک ہماری اشیاءمہنگی ہیں مگر اِن کے خریدنے سے غرباءکی مدد بھی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ لوگ اُن کا مال شوق سے خریدتے تھے اور خود میں نے بھی ایک اٹیچی کیس ان سے خریدا تھا۔
اگر دوسری قومیں اپنی جماعت کو بڑھانے کے لئے یہ قربانی کر سکتی ہیں تو کیوں احمدی ایسا نہیں کر سکتے۔
(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ79)
صابر کے ساتھ خدا ہوتا ہے
صابر کے معنی ہیں ایک بات پر قائم ہو جانے والا یعنی جو نیکیاں بھی اختیار کرے وہ اُس کی جزوِ بدن بن جائیں، اُس سے الگ نہ ہو سکیں۔ صابر بننے کے بعدہر وقت خداتعالیٰ اس کے ساتھ رہتا ہے۔ جس طرح یہ مجاہدہ میں مستقل رہ کر صابر بنتا ہے خداتعالیٰ بھی اُسے مستقل جلوہ دکھاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اس کا عجیب نقشہ کھینچا ہے۔ ایک کاپی پر آپ کا لکھا ہوا ایک نوٹ تھا جس میں لکھا تھا۔ دنیا مجھ سے چاہتی ہے کہ میں خداتعالیٰ کو چھوڑ دوں اور سب لوگ کوشش کرتے ہیں کہ میں اُس سے الگ ہو جاؤں مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ جب سارے کے سارے لوگ مجھے چھوڑ کر الگ ہو جاتے ہیں اور سب دنیا سو رہی ہوتی ہے تو خداتعالیٰ میرے پاس آتا ہے اور مجھے اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ پس وہ خدا جو مصائب کے اندھیروں اور مصیبتوں کی تاریکیوں میں میرا ساتھ نہیں چھوڑتا اُسے میں کس طرح چھوڑ دوں۔
(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ88-89)
آؤ! خدا کے حضور گر جائیں
گزشتہ جنگ عظیم کے دوران میں ایک موقع پر انگریزی کیبنٹ مشورہ کر رہی تھی کہ فلاں محاذ پر گولہ بارود کی جو کمی ہے اس کے متعلق کیا کیا جائے۔ اِس لئے وزراء مشورہ کر رہے تھے کہ لارڈ ینگ کمانڈر اِنچیف افواج کا تار وزیر اعظم کو ملا کہ اب آخری وقت آن پہنچا ہے، جرمنی نے پورے زور سے آخری حملہ کردیا ہے اور آپ کی امداد کا وقت نہیں رہا، اب آخری اورفیصلہ کن جنگ ہو رہی ہے۔ مسٹر لائڈ جارج نے جو اُس وقت وزیر اعظم تھے جب یہ تار پڑھا تو دوسرے وزراءسے مخاطب ہو کر کہا کہ دوستو! تدبیروں کا وقت جاتا رہا، اِس وقت ہماری فوج دیوار سے پیٹھ لگائے (یہ انگریزی محاورہ ہے آخری جِدوجُہد کے متعلق) مقابلہ کر رہی ہے اب سوائے خدا کے ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا، آؤ! اس سے التجاءکریں اور یہ کہہ کر وہ گھٹنوں کے بل گر کر دعا میں مشغول ہو گئے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو دہریہ کہلاتے ہیں اور جن کا خداتعالیٰ پر نہایت ہی قلیل ایمان ہے۔ ہمارے لئے اِس سے زیادہ خطرناک وقت اور کون سا آسکتا ہے۔ ایمان سے زیادہ قیمتی چیز اور کیا ہو سکتی ہے۔ دشمن اس پر حملہ آور ہو رہا ہے اور تمام طاقتیں مل کر حملہ کر رہی ہیں۔ حُکام میں سے بھی بعض اِن سے مل گئے ہیں اور رعایا میں سے بھی، عیسائی بھی، سکھ بھی، ہندو بھی، امراءبھی اور غرباءبھی، بڑے بھی اور چھوٹے بھی، پیشہ ور بھی اور علم والے بھی، کالجوں کے طالب علم بھی اور مدرسوں کے لڑکے بھی۔ غرض سب نے مل کر اِس چھوٹی سی جماعت پر حملہ کر دیا ہے۔ اب خدا کے نام پر آؤ! ہم بھی خداتعالیٰ کے حضورگر جائیں اور کہیں الٰہی! جو کچھ ہم کر سکتے تھے وہ ہم نے کیا مگر ہمارے ہاتھ ٹوٹ چکے ہیں اور ہماری طاقتیں شل ہو گئی ہیں۔ اے خدا! تو ہی ہماری مدد کر۔ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں اُس کے لئے تو ہی توفیق دے اور ہماری مدد فرما کیونکہ تیرے سِوا اور کوئی طاقت نہیں جو ہمیں مدد دے سکے۔ پس تو آسمان سے فرشتے ہماری مدد کے لئے بھیج۔ ہم بے کس اور بے قوٰی ہیں لیکن ہماری ذمہ داری بہت بڑی ہے، ہم کمزور اور ناطاقت ہیں لیکن کام بہت مشکل ہے تو ہی ہماری مدد کر کہ تیرے سوا کوئی مدد کرنے والا نہیں۔
(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ95)
موقع شناس
ملکہ سبا جو ایک عورت تھی، میں اُس کی عقل کو جب دیکھتا ہوں اور اُس کے مقابلہ میں آپ لوگوں میں سے بعض کی عقل کو دیکھتا ہوں تو حیرت آجاتی ہے کہ کیونکر اس عورت کی عقل وہاں تک پہنچ گئی تھی جہاں آپ لوگوں میں سے بعض کی عقل ابھی تک نہیں پہنچی۔
جب حضرت سلیمان علیہ الصلوٰة والسلام کا خط اُسے ملا تو اُس نے اپنی سلطنت کے اکابر سے مشورہ لیا۔ اُن سب نے کہا کہ ہم ملک کی خدمت کے لئے تیار اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہیں، آپ جو حکم دینا چاہتی ہیں دیں۔ تو اُس نے جواب دیا کہ ہماری موت سے ملک کو کیا فائدہ پہنچے گا۔ دیکھنا صرف یہ نہیں کہ لوگ جنگ کے لئے آمادہ ہیں یا نہیں، بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری موت ہمیں کوئی نفع پہنچائے گی یا نہیں؟ اگر ہم زندہ رہیں اور سلیمان کی بادشاہت قبول کر لیں تو یہ زیادہ مفید ہو گا یا یہ زیادہ مفید ہو گا کہ ہم لڑیں اور مر جائیں اور سلیمان ہمارے ملک پر قابض ہو جائے؟ غرض حکومت کا کُلّی تغیّرہم پر زیادہ اثر اندازہو سکتا ہے یا اُس کا جُزوی تغیّر؟ ایک تغیّر تو یہ ہے کہ سلیمان کو اس ملک کی عظمت اور بڑائی حاصل ہو جائے، بادشاہت ہمارے پاس ہی رہے ہم صرف اس کے باجگذار ہو جائیں اور ایک تغیر یہ ہے کہ ہم مارے جائیں اور ملک بھی سلیمان کے قبضہ میں چلا جائے۔
اِن تمام امور پر غور کرکے وہ جو کچھ کہتی ہے وہ یہ ہے کہ اِنَّ الْمَلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً افْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْۤااَعِزَّۃَ اھْلِھَآ اَذِلَّۃ ً کہ جب کسی ملک میں کوئی نئی بادشاہت آیا کرتی ہے تو جَعَلُوْۤااَعِزَّۃَ اھْلِھَآ اَذِلَّۃً وہ اس ملک کے معززین کو ذلیل کر دیا کرتی ہے۔
(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ132-133)
اللہ تعالیٰ کے انبیاء دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں
جبلة بن الایھم غسّانی شام کا مشہور رئیس بلکہ اپنے علاقہ کا بادشاہ تھا جو اپنی قوم کے ساٹھ ہزار عیسائیوں کو لے کر مسلمان ہو گیا۔
ایک دفعہ اُس کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ حج کر آؤں۔ دراصل اُسے اسلام سے کوئی واقفیت نہ تھی وہ صرف شوکتِ اسلام کو دیکھ کر ایمان لے آیا تھا ایمان کی حقیقت سے واقف نہیں تھا۔ حج کے لئے مکہ پہنچا تو اُس نے ایک بڑا سا لمبا جُبّہ پہنا ہوا تھا جس طرح آجکل عزت کا معیار یہ سمجھا جاتا ہے کہ کوٹ چھوٹا ہو اور جتنا زیادہ کوئی شخص اپنے آپ کو معزز سمجھتا ہے اُتنا ہی وہ کوٹ چھوٹاکر لیتا ہے۔ اِسی طرح اُس زمانہ میں عزت کا معیار یہ سمجھا جاتا تھا کہ کوٹ لمبا ہو اور جتنا زیادہ کوئی شخص اپنے آپ کو معزز سمجھتا تھا اُتنا ہی زیادہ وہ کوٹ لمبا بنالیتا تھا اِسی کے مطابق وہ بھی ایک لمبا سا جُبّہ پہن کر آیا۔ ایک جگہ وہ جُبّہ پھیلا کر یوں بیٹھا ہوا تھا جیسے مرغی اپنے پَر پھیلا کر بیٹھتی ہے کہ اتفاقاً ایک غریب مسلمان پاس سے گزرا اور اُس کا پیر اُس کے جُبّہ پر پڑ گیا۔ جبلہ نے دیکھا تو زور سے اُسے ایک مکا مارا اور کہا شرم نہیں آتی تیرے جیسا رذیل آدمی میرے جُبّہ پر اپنا پاؤں رکھتا ہے۔ خیر وہ مسلمان تو چلا گیا لیکن کسی اَور نے اُسے کہا کہ تُو نے یہ سخت بُری حرکت کی ہے۔ اگر عمر (رضی اللہ عنہ) کو پتہ لگ گیا تو وہ تجھے سزا دئیے بغیر نہیں رہیں گے۔ وہ کہنے لگا کیا جبلہ کو بھی سزا دی جا سکتی ہے؟ اس مسلمان نے جواب دیا کہ اسلام نے جو قانون مقرر کیا ہے وہ سب کے لئے ہے امیر اور غریب کااِس میں کوئی فرق نہیں۔ جبلہ کہنے لگا میں تو بادشاہ ہوں کیا میرے لئے بھی رعایت نہ ہو گی؟ اُس نے کہا اسلام کا قانون سب کے لئے ہے بادشاہ بھی اُس سے مستثنیٰ نہیں ہوتے۔ چونکہ یہ گفتگو سُن کر اُس کے دل میں کچھ خَلش سی پیدا ہو گئی تھی۔ وہ تھوڑی دیر کے بعد خود ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا کہ پوچھے تو سہی بات کیا ہے۔ چنانچہ حضرت عمرؓ سے کہنے لگا اگر کوئی بڑا آدمی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو آیا اُس کی بھی کچھ سزا ہے؟ حضرت عمرؓ نے کہا جبلہ! کہیں تُو نے تو ایسی حرکت نہیں کی؟ یاد رکھ اگرتو نے کسی غریب مسلمان کو مارا ہے تو اِس کی سزا مَیں تجھے ضرور دوں گا۔ جبلہ کہنے لگا مَیں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے خود تو کسی کونہیں مارا۔ یہ کہہ کر وہ کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے باہر نکلا اور اپنی قوم کو لے کر چلا گیا اور پھر عیسائی لشکر کے ساتھ شامل ہو گیا اور سالہا سال اُن سے مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتا رہا۔
تو اسلام نے تمدنوں کو بدلا، اسلام نے چھوٹی قوموں کو اونچا کیا اور دُنیا کے لئے اُنہیں مفید اورکار آمد بنایا۔ کہاں غسّان کا بادشاہ اور کہاں مکہ یا مدینہ کا ایک غریب عرب۔ اسلام نے اس غریب کو اونچا کر دیا اور دوسرے مُلکوں کے بادشاہوں کو بھی نیچا کر دیا۔ پس اللہ تعالیٰ کے مامورین جب آتے ہیں تو دُنیا کا نقشہ بدلنے کے لئے آتے ہیں۔ وہ صرف افراد کی ہدایت کے لئے نہیں آتے۔ اگر افراد کی ہدایت ہی اللہ تعالیٰ کے مدنظر ہوتی تو ایک ایک فرشتہ ہر ایک شخص پر نازل ہوتا اور اُسے خواب کے ذریعہ ہدایت کا راستہ دکھادیتا لیکن خداتعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے مامور بھیجے اور دُنیا کو یہ دعوت دے کر کہ اُس کے ہاتھ پر سب جمع ہو جائیں دُنیا میں ایک شور مچا دیا۔ پس خداتعالیٰ کے انبیاءاِس لئے نہیں آتے کہ وہ افراد کو ہدایت دیں بلکہ اِس لئے آتے ہیں کہ دُنیا کا نقشہ بدل دیں۔ اس لئے آتے ہیں کہ تنظیم کریں، اِس لئے آتے ہیں کہ ایک روحانی فوج تیار کریں اور اُس کے ذریعہ دُنیا کو فتح کریں۔
(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ135-136)
یورپی فلسفہ پر اسلام کی برتری
میں دیکھتا ہوں کہ اگر کسی کے دل میں عملی تغیر کے متعلق جوش بھی پیدا ہوتا ہے تو وہ اسلام کی تعلیم کے ماتحت نہیں بلکہ یورپین مصنفین کی کتابیں پڑھ کر۔ حالانکہ ان مصنفین کی دونوں تعلیمیں لعنتی ہیں۔ وہ بھی لعنتی ہے جو امراءکی تائید میں ہے اور وہ بھی لعنتی ہے جو غرباءکی تائید میں ہے۔ اُس میں بھی جھوٹ ہے اور اِس میں بھی جھوٹ ہے۔ اُس میں بھی گند ہے اور اِس میں بھی گند ہے۔
اُن کی تہذیب کی مثال بالکل ویسی ہے جیسے کسی نے ایک اونٹ سے پوچھا تھا کہ پہاڑ کی اُترائی اچھی ہے یا چڑھائی؟ تو وہ کہنے لگا ہر دو لعنت۔
ان میں سے بعض بے وقوف بھی یورپ کی سوشلزم کی کتابیں پڑھتے اور اُنہیں پڑھ کر کہتے ہیں غرباءکے متعلق اُن میں جو نظریہ پیش کیا گیا ہے یہ بالکل اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے حالانکہ اسلام کی تعلیم اور اُن کی تعلیم میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے۔ پھر ان میں سے دوسرے بیوقوف جو امراء کے نکتہ نگاہ کے حامی ہوتے ہیں جب کیپٹل ازم (یعنی اِستکثارِ مال) کے متعلق یورپین نظریہ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں یہ بالکل ٹھیک ہے یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہے حالانکہ یہ بھی جھوٹ ہوتا ہے۔غرض یورپ کی دونوں تعلیمیں غلط ہیں اور اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کی تعلیم بالکل جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ اگر یورپ کے فلاسفر اس تعلیم کو اپنی عقلوں سے سمجھ سکتے تو محمدﷺکی بعثت اور قرآن مجید کے نازل کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اسلام تو تعلیمات کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس کی جزئیات سے بھی یورپین لوگ واقف نہیں۔
مثلاً دیکھ لو یورپ میں طلاق کا مسئلہ رائج ہو گیا لیکن کیا یہ وہی طلاق ہے جس کی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعلیم دی، اگر کوئی شخص غور کرے تو اُسے معلوم ہو گا کہ گو نام کے لحاظ سے یہ طلاق ہے اور اسلام کے پیش کردہ مسئلہ سے اس کا نام ملتا ہے لیکن تفصیلات بالکل اور ہیں اور اب جو یورپ میں طلاق کا رواج ہے اس کی کوئی حد بندی ہی نہیں رہی۔ایسی ایسی تمسخر آمیز طلاقوں کی وارداتیں ہوتی ہیں کہ سُن کر حیرت آتی ہے اور انسان کہتا ہے کہ یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں۔
ٹائمز آف لنڈن میں ایک دفعہ میں نے پڑھا کہ ایک ایسی عورت کی وفات ہوئی ہے جو 17 خاوند کر چکی تھی اور گیارہ زندہ خاوند اُس کے جنازے میں شامل تھے۔ اُن خاوندوں سے جو طلاق کی وجوہ لکھی تھیں وہ بھی عجیب و غریب تھیں۔ ایک خاوند سے تو اُس نے اِس لئے طلاق لی کہ اُسے شکوہ تھا کہ جب وہ گھر میں آتا ہے تو مجھے بوسہ نہیں دیتا۔ عدالت میں مقدمہ گیا اور عدالت نے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ بہت بڑا ظلم ہے اور اب دونوں کا نباہ مشکل ہے، طلاق ہو جانی چاہئے۔
پھر ایک اور خاوند سے طلاق لینے کی وجہ یہ لکھی تھی کہ اس عورت نے کہا میں نے ایک ناول لکھا ہے اور میرا خاوند اسے چھپوانے کی اجازت نہیں دیتا۔ عدالت میں یہ مقدمہ پیش ہوا اور عدالت نے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ بہت بڑا ظلم ہے، اس صورت میں طلاق ضرور مل جانی چاہئے۔
تو محض اس لئے کہ یورپین مصنفین کی کتابوں میں طلاق کا لفظ آگیا یہ سمجھ لینا کہ اسلامی طلاق اور وہ طلاق ایک ہی ہے یا محض اس لئے کہ ان کتابوں میں مساوات کا لفظ آگیا یہ خیال کر لینا کہ اسلامی مساوات اور ان کی مساوات ایک ہی چیز ہے، بہت بڑی غلطی ہے۔ دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے اور یہ نادانی ہو گی اگر خیال کر لیا جائے کہ امراءکے متعلق جو اسلام نے تعلیم دی ہے وہی فلاں یورپین فلاسفر نے بھی پیش کی ہے۔ اُس فلاسفر نے جو کچھ کہا ہو گا نامکمل اور ناقص ہو گا اور وہ کچھ نہیں کہا ہو گا جو اسلام دُنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔
(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ138-140)
فتوحات کے لئے یقین اور تیاری کی ضرورت
صرف یقین کی بات ہوتی ہے وہ پیدا ہو جائے تو نا ممکن نظر آنے والے امور بھی ممکن بن جاتے ہیں۔
مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ہے تو وہ لطیفہ مگر اس سے کم از کم یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اُس شخص کو حضرت خلیفہ اوّلؓ کی ذات پر کس قدر اعتماد تھا۔ یہاں ایک نیم عقل کا آدمی ہو ا کرتا تھا۔ میاں بگّا اُس کا نام تھا، اُس کی بیوی فوت ہو گئی۔ بیوی کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ کے سامنے وہ جب کبھی آتا آپ فرماتے۔ میاں بگّا شادی کرنی ہے وہ کہتا ’’سوچ دے ہاں‘‘ ایک دن حضرت خلیفہ اوّلؓ کہیں سے آرہے تھے، میاں بگّا آپ کے ساتھ تھا۔ میں بھی اُس وقت اتفاقاً مسجدکی سیڑھیوں سے اُتر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے۔ لو میاں! بگّےکی شادی کا انتظام ہو گیا۔ پھر فرمانے لگے یہ ابھی مجھے ملا ہے اور اِس نے آکر کہا ہے کہ میری شادی کا پختہ انتظام ہو گیا ہے تھوڑی سی کسر باقی ہے وہ آپ پوری کر دیں۔ جب میں (حضرت خلیفہ اوّلؓ) نے اُس سے پوچھا کہ مبارک ہو کہاں انتظام ہوا اور کیا ہوا ہے۔ تو اُس نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ نکاح کے لئے مَیں بھی راضی ہو گیا ہوں اور میری والدہ بھی راضی ہو گئی ہے اب آپ صرف لڑکی اور روپے کا انتظام کر دیں، تو شادی ہو جائے گی۔
یہ ہے تو ہنسی کی بات مگر اِس سے اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ اُسے یہ خیال تھا کہ صرف میری رضا کی ہی ضرورت ہے، ورنہ حضرت خلیفہ اوّلؓ اس کی شادی کہیں ضرور کرا دیں گے۔ اگر اُس نیم مجنوں کو حضرت خلیفةالمسیح الاوّلؓ کی ذات پر اس قدر اعتماد ہو سکتا تھا تو کیا ہمیں خداتعالیٰ کے وعدوں پر اتنا اعتماد بھی نہیں رہا؟ ہمارا خدا کہتا ہے کہ مسیح موعودؑ کے ماننے والوں کو ہم دُنیا پر حکمران کر دیں گے اور اُن کے ذریعہ ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں گے۔ دُنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی بات پر یقین ہوتا ہے تو ہم اُس کے مطابق تیاری شروع کر دیتے ہیں۔
چنانچہ دیکھ لو جب تمہارا کوئی دوست تمہارے پاس آتا اور آکر کہتا ہے کہ میں نے یہ یہ سامان تمہیں تحفہ کے طور پر بھجوایا ہے تو تم سامان آنے سے پہلے ہی اُس کے لئے تیاری شروع کر دیتے ہو۔ مثلاً اگر اُس نے گوشت کی ران تحفہ بھیجنے کو کہا ہو تو تم فوراً گھر آکر کہہ دیتے ہو کہ بی بی! آج گوشت نہ منگوانا، فلاں دوست کے گھر سے گوشت کی ران تحفۃً آئے گی۔یا اگر وہ چاولوں کا تاجر ہے اور اُس نے بیس تیس من چاول تحفہ کے طور پر بھجوا دئیے ہوں تو تم گھر آکر کہتے ہو بیوی! اب کے فراغت ہو گئی چاول اس سال ہم نہیں خریدیں گے کیونکہ فلاں دوست تحفۃًاتنے من چاول بھیجنے والا ہے۔ غرض تم فوراً اُس کے لئے تیاری شروع کر دیتے ہو اور اگر سامان زیادہ ہو تو اُس کو رکھوانے کے لئے کمرہ خالی کرا دیتے ہو لیکن اس کے مقابلہ میں جب تمہیں کوئی پاگل ملتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تحفۃً گوشت بھیج رہا ہوں تو آپ کہہ دیتے ہیں شکریہ شکریہ! اور اس کی بات کو کچھ اہمیت نہیں دیتے لیکن جو عقلمند دوست ہوتا ہے اس کی بات سُن کر معاً تیاری شروع کر دیتے ہیں۔
اِس مثال کے مطابق اب آپ لوگ خداتعالیٰ کے وعدوں اور اپنی تیاریوں کو دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے کہا کہ وہ آپ کو فتوحات اور کامیابیاں عطا فرمائے گا۔ اب آپ خود ہی اپنے حالات کو دیکھیں کہ کیا کامیابی کی دُلہن لانے کے لئے آپ نے اُسی قسم کی تیاریاں شروع کر دی ہیں جس قسم کی تیاریاں کرنی چاہئیں؟ یا خداتعالیٰ کی بات کو آپ نے ایک پاگل کی بَڑ جیسا سمجھا ہے اور اُس کے مطابق کوئی تیاری نہیں کی؟ اگر کامیابی کی دُلہن کے استقبال کے لئے آپ لوگوں نے تیاری کی ہے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ لوگ خداتعالیٰ کے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اگر تیاری نہیں کی تو یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ نے خداتعالیٰ کی بات کو نعوذبِاللّٰہ ایک پاگل اور مجنون کی بَڑ سمجھا۔
(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ143-145)
عقل خدا کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے
اچھا بھلا عقلمند آدمی ہوتا ہے اُس سے جب خدا اپنی عقل کی نعمت واپس لے لیتا ہے تو کیسا پاگل ہو جاتا اور بہکی بہکی باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔
میں ایک دفعہ پاگل خانہ دیکھنے گیا۔ بچپن کی عمر تھی۔ وہاں مجھے ایک شخص کے متعلق بتایا گیا کہ یہ مولوی صاحب ہیں اورپاگل ہیں۔ میں اُس کے پاس کھڑا ہو گیا۔ اُس نے مجھ سے گفتگو شروع کر دی اور ایسی ایسی معقول باتیں کیں کہ میں حیران رہ گیا کہ اُسے پاگل خانہ میں کس طرح داخل کر دیا گیا ہے۔ اُس نے بتایا کہ پٹیالہ کے جو مولوی عبدالحق صاحب ہیں اُن کا وہ رشتہ دار ہے اور کوئی جائیداد کا معاملہ تھا جس میں دشمنی ہو جانے کی وجہ سے اُس کے رشتہ داروں نے اُسے پاگل خانہ میں بھجوا دیا۔ ڈاکٹر اُس کا اِتنا معتقد کہ وہ کہے یہ ولی اللہ ہیں۔
پھر اِسی اثناء میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا ذکر شروع کر دیا اور کہا کہ مرزا صاحب بڑے بزرگ ہیں۔ میں نے ان کی کتاب براہین احمدیہ سب پڑھی ہے اور براہین احمدیہ کے زمانہ سے ہی مجھے اُن پر اعتقاد چلا آرہا ہے۔ اس کے بعد ازالہ اوہام چھپی تو وہ مَیں نے پڑھی۔ غرض ایسی ایسی سمجھ کی باتیں کیں کہ مجھے یقین آگیا کہ جو کچھ اِس نے شروع میں کہا ہے یہ درست ہے اور اسے دشمنی سے ہی کسی نے پاگل خانہ میں بھجوا دیا ہے مگر یہیں تک گفتگو پہنچی تھی کہ وہ کھڑے ہو کر کہنے لگا۔ ایک بات بتاؤں مرزا صاحب سے ایک غلطی ہو گئی ہے۔ میں نے سمجھا کہ جب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا مرید نہیں تو واقعہ میں سمجھتا ہو گا کہ آپ سے غلطی ہوئی ہے۔ میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت تو قرآن مجید سے ثابت ہے اور یہ بالکل درست ہے مگر یٰعِیْسٰۤی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ میں مُتَوَفِّیْکَ کے معنے موت کے نہیں۔ اس پر میں نے پھر سمجھا یہ مولوی آدمی ہے مُتَوَفِّیْکَ کے معنے یہی سمجھتا ہو گا کہ میں پورا کروں گا اور خیال کرتا ہوگا کہ اس کے معنے بِلاواسطہ موت کے نہیں لیکن جب اُس کے معنے سُنے تو میں حیران رہ گیا۔ وہ کہنے لگا دراصل اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کے یہ معنے ہیں کہ اے عیسیٰ! میں تیرے چہلم کی روٹی کروں گا۔ تب میں نے سمجھا کہ میں نے اس پر جس قدر حُسنِ ظنی کی تھی وہ سب غلط تھی۔ دراصل یہ پاگل ہی ہے۔
چنانچہ ابھی باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک دوسرا پاگل آگیا، جو پاگل اچھے ہو رہے ہوتے ہیں اُنہیں آپس میں ملنے کی افسر اجازت دے دیتے ہیں، وہ بھی اُسے ملنے آگیا اور کہنے لگا مجھ سے تم نے جو پیسے لئے تھے (جو غالباً چھ تھے) وہ مجھے واپس کرو۔ اُس نے کہا میرے پاس ہے نہیں۔وہ کہنے لگا میں تو لے کر ہٹوں گا۔ اِس پر آپس میں تکرار ہو گئی۔ میں نے جھگڑا بڑھتے دیکھا تو جیب میں ہاتھ ڈالا اور پیسے نکال کر اُس کو دے دئیے۔ یہ پیسے دینے تھے کہ مولوی صاحب جلال میں آگئے۔ ڈاکٹر کو مخاطب ہو کر کہنے لگے، ابھی جا کر ان کی دعوت کرو اور انہیں پانچ روپے نذر دو۔ یہ محمود غزنوی ہیں، محمود غزنوی۔ انہوں نے ہی بٹھنڈہ فتح کیا تھا۔
ڈاکٹر نے جب دیکھا کہ مولوی صاحب کو جلال آرہا ہے تو اُس نے مجھے کہا اب آپ تشریف لے چلیں اب ان کے پاس کھڑا ہونا مناسب نہیں۔ تو دماغ کی کَل ذرا سی بِگڑ جائے تو اچھا بھلا، پڑھا لکھا عقلمند انسان کہاں کا کہاں پہنچ جاتا ہے۔
وہیں میں نے ایک ایم۔ اے دیکھا جو پاگل تھا۔ وہ بالکل بولتا نہیں تھا اور زبردستی نلکی کے ذریعہ اُس کے معدہ میں غذا پہنچائی جاتی تھی۔ وہ ایک جج کا بیٹا تھا اور ایم۔اے میں تمام یونیورسٹی میں اول رہا۔ جب وہ یونیورسٹی میں سے فرسٹ نکلا ہوگا تو اُس کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے کتنا فخر کیا ہو گا لیکن خداتعالیٰ نے اُس کی عقل واپس لے کر بتا دیا کہ یہ چیز اِس کی نہیں تھی، خدا کی تھی۔
پس وہ صحت جس سے ہم کام کرتے ہیں، وہ اعضاءجن سے ہم چلتے پھرتے ہیں، وہ عقل جس کو ہم استعمال کرتے ہیں، وہ حافظہ جس سے ہم مدد لیتے ہیں، یہ سب چیزیں خداتعالیٰ کی طرف سے انعام بطور پیشگی تنخواہ ہیں لیکن ہم ایک نادہند مزدور کی طرح پیشگی تنخواہ لینے کے باوجود کام نہیں کرتے اور اُس کے کام چھوڑ کر جو پیشگی تنخواہ دیتا ہے اُس کا کام کرنے لگ جاتے ہیں جو کام لینے کے بعد تنخواہ دیتا ہے۔ نادہند مزدور کا یہی طریق ہوتا ہے کہ وہ کہیں سے پیشگی مثلاً آٹھ آنے لے لیتا ہے اور پھر اُس کا کام کرنے کی بجائے کسی اور کے وعدہ پر چلا جاتا ہے۔ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں نادہندمزدور کی طرح عمل کرتے اور اُس کے احسانات اور انعامات کو دیکھنے کے باوجود دوسرے کے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ آپ سلسلہ کی اہمیت کو سمجھیں اور اپنے اندر تغیر پیدا کریں۔
(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ147-149)
نرم خو
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے کہ راجہ رنجیت سنگھ کے دربار میں ایک مسلمان بھی وزیر تھے۔ وہ وزیر ہونے کے علاوہ طبیب بھی تھے اور بڑے نرم دل تھے۔ ایک دفعہ اُن کے پاس کوئی فقیر آیا اور اس نے سوال کیا کہ مجھے کچھ دیجئے۔ اُس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت سخت خراب تھی اور اُن کے پاس سینکڑوں فقراء آتے تھے جن کی وہ تھوڑی تھوڑی رقم سے امداد کر دیتے تھے کیونکہ ایک تو اُس زمانہ میں تنخواہیں کم ہوتی تھیں، دوسرے مسلمان زبوں حالی کی وجہ سے سینکڑوں بطور سائل کے اُن کے پاس آتے رہتے تھے۔ چنانچہ اس فقیر کو بھی انہوں نے آٹھ آنہ دینے کا حکم دیا وہ آٹھ آنے لے کر کہنے لگا دیکھئے ہم سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اب یہ بھی کیا مساوات ہے کہ ایک بھائی کے پاس تو ہزاروں روپے ہوں اور ایک کے پاس صرف اٹھنی۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ صرف تُو ہی ایک بھائی نہیں بلکہ اور بھی ہزاروں بھائی ہیں۔ اگر سب میں مَیں اٹھنی اٹھنی تقسیم کرنے لگوں تو پھر یہ اٹھنی بھی حصہ میں نہیں آئے گی۔ پس تم کو اپنے حصہ سے زیادہ ہی مل گیا ہے مگر اُس نے اصرار کیا نہیں کچھ اَور بھی دیں۔ اُنہیں ضروری کام تھا اور وہ چاہتے تھے کہ جلدی چھٹکارا ہو مگر وہ پیچھا نہ چھوڑتا۔ آخر وہ اپنے نوکر سے کہنے لگے
’’اِنہاں فقیر صاحب نوں پولے پولے دھکّے دے کر باہر کڈھ دیو‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال ہمیشہ اس ضمن میں سنایا کرتے تھے کہ نرم دل انسان کو غصہ بھی آتا ہے تو اس میں بھی نرمی کا پہلو جھلک رہا ہوتا ہے۔ اب دھکّے دِلوانا غصہ کی ایک علامت تھی مگر ‘‘پولے پولے دھکّے’’ کہنا ان کی نرم طبیعت کا اظہار تھا۔
(خطبات شوریٰ جلد2 صفحہ163)
(محمد انور شہزاد)