• 29 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 10)

سیّدنا امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کا دورہ امریکہ 2022ء
5؍اکتوبر 2022ء بروز بدھ
قسط 10

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجکر دس منٹ پر مسجد بیت الاکرام میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور ہدایات سے نوازا۔ حضور انور کی مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

ملاقاتیں

پروگرام کے مطابق گیارہ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لائے اور فیملی ملاقاتوں کا پروگرام شروع ہوا۔ آج صبح کے اس سیشن میں 31 خاندانوں کے 105 افراد نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ ملاقات کی سعادت پائی۔ حضور انور نے ازراہ شفقت تعلیم حاصل کرنے والے طلباء وطالبات کو قلم عطا فرمائے اور جو چھوٹی عمر کے بچے اور بچیاں تھے انہیں چوکلیٹ عطا فرمائیں۔

• آج Dallas کی مقامی جماعت کے علاوہ درج ذیل دس جماعتوں سے احباب جماعت اور فیملی ملاقات کے لیے پہنچی تھیں۔

Fort Worth, Sacramento, Houston, Georgia, Austin, Las Vegas, Silicon Valley, Los Angeles, Kensas City, Kentucky.

آج بھی بعض احباب اور فیملیز بڑے لمبے اور طویل سفر طے کر کے اپنے آقا کے ساتھ ملاقات کے لیے پہنچی تھیں۔ ان میں سے Las Vegas سے آنے والی 1221 میل اور Cilicon Valley سے آنے والی1701 میل جبکہ لاس اینجلس سے آنے والے احباب اور فیملی 1433 میل کا طویل سفر طے کر کے پہنچی تھیں۔ علاوہ ازیں پاکستان سے آنے والے بعض احباب نے بھی شرف ملاقات پایا۔

• آج بھی ملاقات کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو اپنی زندگی میں پہلی بار حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے مل رہے تھے اور انہیں اپنے آقا کے قرب میں چند گھڑیاں گزارنے کی سعادت نصیب ہو رہی تھی۔

تاثرات

• ایک دوست سیّد عرفان احمد صاحب جن کا تعلق جہلم پاکستان سے ہے کہنے لگے کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میری حضور انور سے ملاقات ہوئی ہے۔ آج یہاں آنا میرے لیے ایک معجزہ ہے۔ کیونکہ میرا ویزا تین دفعہ ریجیکٹ ہوا تھا لیکن حضور انور کے دورہٴ امریکہ سے پہلے میرا ویزا لگ گیا۔ جو میرے لئے کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ آج میری حضور انور سے زندگی میں پہلی ملاقات تھی۔ حضور نے باوجود وقت کم ہونے کے میری ساری باتیں سنیں اور ہر بات کا جواب دیا اور رہنمائی فرمائی۔ آج میں بہت خوش ہوں۔

• ایک دوست سید فہیم احمد صاحب کہنے لگے کہ جب ہم ملاقات کے لیے دفتر میں داخل ہوئے تو صرف ہمیں دیکھ کر اور تعلق پوچھ کر حضور انور کو سارا پتہ لگ گیا تھا کہ ہمارا کونسا خاندان ہے اور میرا خاندانی پس منظر کیا ہے۔ میں نے بعض امور میں حضورانور سے رہنمائی لی۔حضور انور نے فرمایا آپ فکر نہ کریں ان شاءاللّٰہ کام ہو جائے گا۔ مجھے بہت تسلی ہوئی۔ میں حضور انور سے دعائیں لے کر واپس آگیا۔

• ایک دوست آصف احمد شیخ صاحب نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میں ملاقات کا احوال کیسے بیان کروں۔ ہم غانا میں تین سال رہے۔ حضور انور نے اس بارہ میں ہم سے پوچھا۔ میرے والد شہید ہوگئے تھے تو پھر ہم ماموں کے ساتھ رہے۔ حضور انور نے ہمیں غانا بھجوایا تھا۔ حضور کو سب کچھ یاد تھا۔ یہ میری زندگی کی پہلی ملاقات تھی۔ میں نے اس سے قبل حضور سے کبھی ملاقات نہیں کی تھی۔ میرے والد 2006ء میں کراچی میں شہید ہوئے تھے۔ 2007ء میں میرے والد کے ماموں شہید ہوگئے تھے اور اسی سال میرے چچا بھی شہید ہو گئے تھے۔ ہمارے خاندان کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ ہم سب جماعت کے فعال رکن تھے۔ ہم خلافت کی برکتوں سے ہی امریکہ پہنچے ہیں اور آج ہمیں ملاقات کی یہ عظیم نعمت عطا ہوئی۔

• ایک دوست طاہر سیّد صاحب نے عرض کیا کہ آج حضور انور سے ملاقات میری زندگی کی پہلی ملاقات تھی۔ میں اسے کبھی بھلا نہیں سکتا۔ یہ میری زندگی کا سرمایہ ہے۔ میں نے چند لمحات اپنے آقا کے ساتھ گزارے ہیں تو مجھے بہت سکون اور راحت ملی ہے۔ میرا دل تسکین سے بھر گیا ہے۔

• ایک خاتون امینہ ریحان صاحبہ کہنے لگی کہ جب ہماری باری آئی تو میرا دل دھڑک رہا تھا۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ میں کس طرح حضور کو دیکھ سکوں گی۔ اس نورانی چہرہ کو کیسے دیکھوں گی۔ ہمیں تو ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم جنت میں آگئے ہیں۔ ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔ میں اپنی کیفیت بیان نہیں کر سکتی۔ میرا جسم اور ہاتھ اسی وقت ہی کانپنے لگے تھے جب ہمیں اطلاع ملی تھی کہ ہماری ملاقات ہوگی اور ہم حضور کے پاس جارہے ہیں۔

• ایک دوست روحان اللہ خان شاہد صاحب جماعت Kentucky سے آئے تھے کہنے لگے کہ میں نے اپنے پیارے آقا کا مبارک چہرہ دیکھنے کے لیے 15 گھنٹے کا سفر کیا۔ دل میں سوچ کے آئے تھے کہ حضور سے یہ یہ بات کریں گے۔ لیکن یہاں آکر کچھ نہیں کہا گیا۔بس ہم حضور کا چہرہ دیکھتے رہے۔ حضور باتیں کرتے رہے۔یہ خلیفہ کا پیار ہے جو آج ہمیں نصیب ہوا ہے۔

• ایک نو جوان سلمان داؤد منیر صاحب ہیوسٹن سے آئے تھے۔ کہنے لگے کہ 15 سال بعد ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ حضور نے ازراہ شفقت ہمارے خاندان کے ہر فرد سے بات کی۔ میں گزشتہ تین سال سے ہیوسٹن کا قائد خدام الاحمدیہ ہوں۔ میں نے ہیوسٹن کے خدام کے لیے دعا کی درخواست کی۔ مجھے اپنی آنکھوں میں کوئی مسئلہ درپیش ہے اس کے لئے میں نے حضور سے دعا کی درخواست کی۔ اب مجھے دل میں سکون اور اطمینان ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور مجھے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

• ہیوسٹن سے ایک دوست Colbura Tucker صاحب ملاقات کے لیے آئے تھے۔ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میں ایک کیتھولک تھا۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے احمدیت قبول کی ہے۔ پوپ کو ملنا تو بہت مشکل ہے۔پوپ تک رسائی آسان نہیں ہے جبکہ حضور کو ملنا آسان ہے۔ ہر ایک احمدی حضور سے مل سکتا ہے۔

احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن امریکہ کے عہدیداران کی حضور سے ملاقات اور ہدایات

• ملاقاتوں کے اس پروگرام کے بعد ’’احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن امریکہ‘‘ کے عہدیداران نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی سعادت پائی۔عہدیداران میں ڈاکٹر فیضان عبداللہ ہاگورا صاحب پریذیڈنٹ میڈیکل ایسوسی ایشن، ڈاکٹر نعیم لغمانی صاحب وائس پریذیڈنٹ، ڈاکٹر مبشر احمد ممتاز صاحب جنرل سیکرٹری اور ڈاکٹر ناصر تنولی صاحب فنانس سیکرٹری شامل تھے۔

• حضور انور کی خدمت میں ایسوسی ایشن کی طرف سے رپورٹ پیش کی گئی کہ اس وقت امریکہ میں ہمارے ڈاکٹرز کی تعداد 544 ہے۔ گزشتہ تین ہفتوں میں 70 ڈاکٹر ہماری تجنید میں شامل ہوئے ہیں۔

اس پر حضور انور نے فرمایا۔ آپ کی ممبر شپ میں ان شاءاللّٰہ مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستان سے کئی ڈاکٹرز ابھی حال ہی میں آئے ہیں اور مجھ سے ملے بھی ہیں۔ اس طرح بہت سارے میڈیکل اسٹوڈنٹ بھی اپنی پڑھائی مکمل کر رہے ہیں۔

• حضور انور نے فرمایا احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن آسٹریلیا بہت عمدہ رنگ میں کام کر رہی ہے۔ خصوصا ملائیشیا، تھائی لینڈ میں وہ اسائلم سیکرز کے علاج وغیرہ کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔ وہ باقاعدہ ماہانہ رقم بھی بھجواتے ہیں اور بعض مریضوں کے علاج آپریشن وغیرہ پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔ میڈیکل ایسوسی ایشن آسٹریلیا یہ بھی برداشت کر رہی ہے۔

حضور انور نے فرمایا اس طرح طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مشینری اور آلات وغیرہ بھی بھجواتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا آپ امریکہ کی ایسوسی ایشن زیادہ بڑی اور مضبوط ہے اور زیادہ مالی فراخی اور کشائش رکھتے ہیں آپ کو بھی ان ممالک میں ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہئے۔

• حضور انور نے فرمایا میڈیکل ایسوسی ایشن امریکہ صرف گوئٹےمالا پر ہی توجہ نہ دے بلکہ آپ نے افریقہ اور ربوہ پر بھی توجہ دینی ہے۔

حضور انور نے فرمایا مغربی اور مشرقی افریقہ میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں مدد کی ضرورت ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ آپ کی ایسوسی ایشن شعبہ وقف نو سے بھی رابطہ رکھے اور واقفین نو کی شعبہ میڈیسن میں کیرئیر پلاننگ کے حوالہ سے رہنمائی کرے۔

• صدر صاحب میڈیکل ایسوسی ایشن نے عرض کیا کہ کیا احمدی خواتین ڈاکٹرز کی علیحدہ ایسوسی ایشن بنائی جائے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا علیحدہ ایسوسی ایشن بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ آپ کی ایسوسی ایشن کا حصہ ہیں۔ اس بارہ میں احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن یو کے کو Follow کریں۔

حضور انور نے فرمایا ہماری خواتین ڈاکٹرز پروفیشنل ہیں اور ان کو آپ اپنی ایسوسی ایشن میں کوئی آفس عہدہ دے سکتے ہیں۔ صدر لجنہ اور سیکرٹری امور عامہ سے تصدیق کے بعد ہی عہدہ دینے کے لیے خواتین کی نامزدگی ہوگی۔ الیکشن نہیں ہوگا۔

• صدر صاحب ایسوسی ایشن نے عرض کیا کہ ہم اپنی کانسی ٹیوشن کو اپ ڈیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ آپ نے جو بھی تبدیلیاں اضافہ تجویز کرنا ہے وہ کر کے مجھے منظوری کے لیے بھجوائیں۔

• حضور انور نے فرمایا: اپنے ڈاکٹرز کو فعال کرنے کے لیے وقف عارضی کی تحریک کریں۔

• حضور انور نے فرمایا کہ آپ اپنے خدمت کے پروگراموں کے لیے ہیومینٹی فرسٹ سے بھی رابطہ کریں اور تعاون کریں۔

• حضور انور نے فرمایا کہ ریجنل سطح پر یا اسٹیٹ کی سطح پر آپ کو جو کوآرڈینیٹر کی ضرورت ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مرد ہو یا عورت بس قابل اور محنتی ہونے چاہئیں۔ کچھ علاقوں میں خواتین کو اور کچھ علاقوں میں مرد ڈاکٹر حضرات کو کوآرڈینیٹر کے طور پر رکھا جا سکتا ہے۔

• حضور انور نے تاکیدا ًہدایت فرمائی کہ وہ لوگ جو نمازیں ادا کرتے ہیں۔ اپنے چندے ادا کرتے ہیں۔ انہیں ایسوسی ایشن کے عہدے پر منتخب کیا جانا چاہئے۔یہ نہ ہو کہ جو نماز ہی نہیں پڑھتے یا چندہ نہیں دیتے انہیں عہدے دار بنا دیا جائے۔

• حضور نے فرمایا ایسوسی ایشن کا پروفیشنل باڈی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مذہبی ذمہ داریوں سے آزاد ہیں۔

• ایک سوال کے جواب میں حضور نے ہدایت فرمائی کہ نرسوں اور دوسرے ایڈمن اسٹاف ممبران کو عاملہ میں عہدہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ان کی کامیابیوں اور ان کے لئے ایک خاص معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی جماعت کی خدمات میں ان کوسرٹیفکیٹ دیے جاسکتے ہیں۔

• احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن یو ایس اے کی یہ ملاقات ایک بج کر تیس منٹ تک جاری رہی۔ بعدازاں انتظامیہ نے حضور انور کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت پائی۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد بیت الاکرام تشریف لا کر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

واقفات نو کی حضور سے ملاقات

پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد بیت الا کرام کے مردانہ ہال میں تشریف لائے جہاں واقفات نو کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔ امریکہ کی 22 جماعتوں سے 84 واقفات اس کلاس میں شامل ہوئیں۔

• پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ فزّہ احمد صاحبہ نے کی اور اس کا اردو ترجمہ سعدیہ چوہدری صاحبہ نے پیش کیا۔ بعد ازاں امة العلیم زین وہاب کریم صاحبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ اور اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

حدیث مبارکہ کا درج ذیل اردو ترجمہ عزیز عائشہ سمیع صاحبہ نے پیش کیا۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین باتیں جس میں ہوں وہ ایمان کا مزہ پا لیتا ہے۔ وہ شخص جس کو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم دوسرے تمام چیزوں سے بڑھ کر پیارے ہوں اور وہ جو کسی شخص سے محبت رکھے اور محض اللہ تعالیٰ ہی کے لئے اس سے محبت رکھے اور وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے کفر سے چھڑایا ہو اور پھر اس کے بعد وہ کفر میں لوٹنا ایسا ہی ناپسند کرے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔

اس کے بعد عزیزہ امۃ الشافی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
• ’’غرض یہ بات اب بخوبی سمجھ آ سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہونا انسان کی زندگی کی غرض و غایت ہونی چاہئے۔ کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کا محبوب نہ ہو اور خدا کی محبت نہ ملے۔ کامیابی کی زندگی بسر نہیں کر سکتا اور یہ امر پیدا نہیں ہوتا جب تک رسول اللہ کی سچی اطاعت اور متابعت نہ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے دکھا دیا ہے کہ اسلام کیا ہے؟۔ پس تم وہ اسلام اپنے اندر پیدا کرو تاکہ تم خدا کے محبوب بنو۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ70)

• بعد ازاں عزیزہ نشیتا خند کار صاحبہ نے اس کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

• اس کے بعد سیدہ سلمانہ محمود صاحبہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا منظوم کلام

وہ بھی ہیں کچھ جو کہ تیرے عشق سے مخمور ہیں
دنیوی آلائشوں سے پاک ہیں اور دور ہیں

خوش الحانی سے پیش کیا۔ اردو نظم کا انگریزی ترجمہ عزیزہ فریحہ احمد صاحبہ نے پیش کیا۔

واقفات نو کے حضور انور سے سوالات
اور ان کے جوابات

• ایک واقفہ نوردا ایمان احمد نے یہ سوال پوچھا کہ پیارے حضور نے وباء کے بعد پہلے ملک امریکہ تشریف لانے کا فیصلہ کیا۔ پیارے حضور کس طرح فیصلہ کرتے ہیں کہ کن ممالک کا دورہ کرنا ہے اور کب؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میرے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ مجھے صرف جماعت احمدیہ امریکہ نے بلایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ زائن مسجد اورڈیلس مسجد کے افتتاح کا پروگرام ہے۔ اس لیے مجھے یہاں کا دورہ کرنا چاہئے۔ تو یہی وجہ ہے جس کی بنیاد پر میں امریکہ آیا ہوں۔اگر کوئی اور جماعت مجھے دعوت دیتی تو میں امریکہ سے پہلےوہاں ہی جاتا۔ تو اس میں کچھ خاص نہیں ہے۔ صرف آپ کی دعوت خاص ہے۔ اس لیے آپ لوگ خاص ہیں۔

• ایک واقفہ نو سیدہ وسیمہ صدف نےسوال کیا کہ کیا واقفات نو کے لیے سائیکلوجی (Psychology) اور کونسلنگ (Counseling) کی تعلیم حاصل کرنا جائز ہے؟ یا ڈاکٹر اوراساتذہ بننا بہتر ہے؟

• اس پر حضور انور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر کوئی تعلیم جو دنیا کے لیے مفید ہے واقفات نو کے لئے جائز ہے۔

Counseling اور Psychology کی آج کل بہت ضرورت ہے کیونکہ اس دور میں بہت سے مسائل ہیں جن کا لڑکیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور جب وہ ان مسائل کا سامنا کرتی ہیں تو انہیں ان کے علاج کے لیے کسی Psychiatrist یا Psychologist کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں کسی ایسے ماہر کی ضرورت ہے جو ان کی بات سنے اور ان کے معاملات کو سنبھالے۔ اس لئے اس میدان میں جانا جماعت کے لیے بہت مفید ہے۔

• ایک واقفہ منیفہ ایمان طارق نے سوال کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ فرشتے ایک دوسرے سے کیسے رابطہ یا Communicate کرتے ہیں؟

• اس پر حضور انور نے جواب فرمایا کہ وہ کس طریقے سے آپس میں بات کرتے ہیں وہ مجھے نہیں معلوم۔ لیکن فرشتوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام بھی ہیں۔ اسرافیل علیہ السلام بھی ہیں اور بھی کافی تعداد میں فرشتے ہیں جو ان کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔ تو وہ آپس میں کیسے بات چیت کرتے ہیں خدا بہتر جانتا ہے۔ لیکن ایک نظام ہے جس میں وہ اپنے ماتحتوں سے کہتے ہیں کہ یہ پیغام اس کو یا اس تک پہنچا دیں۔ لہٰذا صرف ایک سیکنڈ میں اگر وہ اپنا پیغام پوری دنیا میں ہر جگہ جہاں دن ہو یا رات پہنچانا چاہیں تو فرشتے اپنے فرائض ادا کردیں گے۔ وہ یہ کیسے کرتے ہیں؟ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔

• ایک واقفہ نو نبا احمد نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ نیکی یا برائی کے اختیار کو کیسے استعمال کرتا ہے کیا اللہ نے جانوروں کو بھی Free Will سے پیدا کیا ہے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزادی دی ہے اور آپ کو واضح بتا دیا ہے کہ یہ بری چیزیں ہیں اور یہ اچھی چیزیں ہیں۔ اگر تم اچھے کام کرو گے تو تمہیں اجر ملے گا۔ یہ برے کام ہے اگر تم یہ برے کام کرو گے تو اس کا مطلب ہے کہ تم شیطان کی پیروی کر رہے ہو۔تمہیں اس کی سزا ملے گی یا اللہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے۔ لیکن جانوروں کے لیے کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ ان کی فطرت میں ہے کہ انہیں وہی کرنا ہے جس کے لیے اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے بکری اپنی فطرت کی پیروی کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتی اور شیر اپنی جبلت کی پیروی کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔ شیر کی فطرت ہے کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دوسروں پر حملہ کرتا ہے۔ یہ بکری کی فطرت ہے کہ وہ گھاس چرتی ہے۔ پھر اللہ نے جانوروں کو انسانوں کی خوراک کے طور پر پیدا کیا۔ گائے سے آپ کو دودھ اور گوشت ملتا ہے۔ چنانچہ ہر جانور کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے استعمال کے لیے پیدا کیا ہے۔

• ایک واقفہ نو ماہین وڑائچ احمد نے سوال کیا کہ ہم اللہ کی صفات کو اپنی زندگیوں میں کیسے اپنا سکتے ہیں ؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر آپ اللہ کی صفات کو دہراتے رہیں گے اور ان کے معنی جان لیں گے تو یہ آپ کی عادت بن جائیگی۔ پھر اسی طرح ذکر الہی کی عادت ہو جائے گی۔ اور جب آپ کو اللہ کی مدد کی ضرورت ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ کسی خاص معاملے میں آپ کی دعا قبول کرے تو آپ اس خاص صفت کو دہرائیں جو اس معاملے سے متعلق ہے۔ اس لئے جب بھی آپ دعا کر رہے ہیں تو آپ ان صفات میں سے کسی ایک کو اپنا لیں جس کی آپ کو اس خاص لمحے میں ضرورت ہے اس طرح آپ اسے اپنی روزمرہ کی زندگی کی عادت بنا سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ یہ سب ذکر الٰہی پر منحصر ہے۔ نیز اگر آپ روزانہ ذکر الٰہی کر رہے ہیں، پانچ وقت نماز پڑھ رہے ہیں، اگر آپ اپنے سجدے میں زور سے دعا کر رہے ہیں کہ اللہ آپ کی تمام مشکلات اور پریشانیوں کو دور کرے اور اس صفت کو بھی استعمال کریں جو آپ کے خیال میں آپ کے مسئلہ کے متعلق ہے تو اس طرح آپ صفات الٰہی کو کثرت سے پڑھنے کے عادی ہوجائیں گے۔

• ایک واقفہ نو فاتحہ عطیۃ الحق احمد نے سوال کیا کہ جب کسی کی وفات ہوتی ہے تو ہم اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡن کہتے ہیں جب ہم کوئی مادی چیز کھو دیتے ہیں تو ہم یہ کیوں کہتے ہیں؟

• اس پر حضور انور نے فرمایاکہ کیا آپ اس کا مطلب جانتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کے ہی ہیں اور اللہ کی طرف لوٹ جائیں گے۔ تو قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ محض کسی کی وفات پر یہ کہنا چاہئے۔ جب بھی آپ کوئی مسئلہ میں ہیں یا آپ کچھ کھو دیتے ہیں جب آپ یہ الفاظ دہرائیں گی تو یہ آپ کو اللہ کی قدرت یاد دلائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہمیشہ رہے گا لیکن باقی ہر چیز کو یا تو مرنا ہے کھو جانا ہے۔ اس لئے ہم اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ کہتے ہیں۔ اس کا بہت گہرا مطلب اور اثر ہے۔ یہ میرے ساتھ اور کئی لوگوں کے ساتھ ہوا ہے کہ جب کبھی آپ کچھ کھو دیتے ہیں یا بھول جاتے ہیں کہاں ہے تو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھ کے فوراً چیز مل جاتی ہے یا ہمارے ذہن میں آتا ہے کہ ہاں میں نے وہ چیز اس جگہ رکھی تھی۔ تو یہ ایک ایسی دعا ہے کہ جب کسی کی وفات ہو جائے اور آپ سوچتے ہیں کہ میں مرحوم پر انحصار کر رہا تھا اب کیا ہوگا تو یہ دعا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھنے سے سکون ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے میری حفاظت کرے۔ ایسا ہی واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہوا تھا۔ جب آپ کے والد فوت ہوئے وہ بہت پریشان ہو گئے تھے کیونکہ وہ کہیں کام نہیں کر رہے تھے اور آپ کی آمدنی کا ذریعہ والد صاحب ہی تھے۔ اس پریشانی کی حالت میں آپ نے دعا کی کہ اے اللہ !میں کیا کروں اور اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا تو پھر فورا اللہ کی طرف سے آپ پر وحی نازل ہوئی۔ الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ۔ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے۔ تم اللہ کے بندے ہو اللہ تمہارے لیے کافی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی۔ اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک دعا ہے جس سے ہمیں سکون ملتا ہے۔

• ایک واقفہ نو سمیرہ سہیل نے سوال کیا کہ احمدی مسلمانوں کے لیے ملکہ انگلینڈ جیسی شخصیات کی وفات پر افسوس کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟

• اس پر حضور انورنے فرمایا دیکھیں وہ انسان ہے۔ جب کسی بھی انسان کی وفات ہوتی ہے تو ہم تعزیت کرتے ہیں۔ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کو تسلی دیتے ہیں۔ میں نے ملکہ انگلینڈ کی وفات پر بادشاہ چارلس کو تعزیت کا پیغام بھیجا ہے اور یہ ان کے اخبار میں بھی شائع ہوا ہے۔ تو ہم دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ ان پر رحم کرے۔ ہم ان مرحومین کے لئے اللہ کی رحمت کے لیے دعا کر سکتے ہیں۔ اللہ یہ کہتا ہے کہ جو کافر ہیں میں انہیں معاف نہیں کروں گا لیکن پھر بھی اللہ معاف کرنے کی طاقت بھی رکھتا ہے۔ لیکن اللہ کہتا ہے کہ ہمیں ان کے لیے دعا نہیں کرنی چاہئے۔ اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے اللہ نے ہمیں ان کی وفات پر دعا کرنے سے نہیں روکا۔ ہم صرف کافروں کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے لیکن کم از کم ہمدردی کا اظہار تو کر سکتے ہیں۔ ہم مرحومین کے عزیزوں سے افسوس کا اظہار کر سکتے ہیں۔ ورنہ ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں؟ محبت یہ ہے کہ ہم تمام انسانوں سے محبت کریں اور کسی کی وفات پر تعزیت محبت کے اظہار کا ایک طریقہ ہے۔

• ایک واقفہ نو صبا اعجاز نے سوال کیا کہ صوفی اپنے رسمی طریقوں سے اللہ کے قرب حاصل کرنے کا دعوی کرتے ہیں کیا ان صوفی رسومات میں فائدے ہیں؟

• اس پر حضور انورنے فرمایا کہ دیکھیں! کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تصوف موجود تھا؟ نہیں تھا۔ کیا خلفائے راشدین کے زمانے میں تصوف کا کوئی تصور تھا؟ نہیں تھا۔ تو صدیوں بعد یہ چیز شروع ہوئی اور جب شروع ہوئی تو اس لئے کہ اس وقت خلافت روحانی خلافت نہیں تھی۔ وہ دنیاوی خلافت تھی اور اس وقت کے خلفاء دنیاوی فائدے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور خلیفہ کا انتخاب کسی جماعت نے نہیں کیا تھا بلکہ انہیں وراثت میں ملا تھا۔ اس لیے اس وقت لوگوں کا ایک گروہ کھڑا ہوگیا تھا اور کہتا تھا کہ ہم روحانی لوگ ہیں اور انہوں نے لوگوں کو سکھایا کہ اصل میں تمہارے دین کی روح کیا ہے؟ اور نماز کی روح کیا ہے؟ اور تمہیں نماز پڑھنی چاہئےاللہ کے سامنے کیسے جھکنا چاہئے ؟آپ کو قرآن پاک میں دیے گئے احکامات پر عمل کیسے کرنا چاہئے؟ تو یہ اس طرح شروع ہوا اور وہ قرآن پاک کی تعلیم کے مختلف طریقے بتانے لگے۔ لیکن اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کے بعد جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق دین اسلام کو زندہ کرنے کے لیے تشریف لائے۔ اب کسی صوفی کی ضرورت نہیں۔ کسی اور کی پیروی کی ضرورت نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنے خطبہ میں آیت اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ کی تفسیر بیان کی۔ اس کے بعد ایک نو مبائع عرب احمدی نے ایک خط لکھا اور بتایا کہ میں تصوف کا پیرو تھا اور آپ کا خطبہ سن کر اب میں کہہ سکتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑا کوئی صوفی نہیں ہے اور اب خلافت احمدیہ ہی خلافت حقہ ہے اور خلافت راشدہ ہی ہے تو جب تک خلافت احمدیہ رہے گی کسی صوفی کی ضرورت نہیں ہے۔ تو یہ ماضی کا تقاضہ تھا، اب حال کا نہیں ہے۔

• ایک واقفہ نو سجیلہ احمد نے سوال کیا کہ میں ایک واقفہ نو ہوں اور ایک واقف نو بیٹے کی والدہ بھی ہوں۔ اپنے بیٹے کے لئے مجھے کیا کرنا چاہئے کہ وہ بڑا ہو کر اپنا وقف کا عہدہ نبھائے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کی عمر کیا ہے؟ والدہ نے جواب دیا تقریبا پندرہ ماہ۔ پھر حضور نے فرمایا کہ پہلی بات یہ ہے کہ آپ اپنی پانچوں نمازوں میں اس کے لیے دعا کریں اور اس کے لیے دو رکعت نفل پڑھیں، اللہ اسے حقیقی وقف نو بنائے اور پھر جب وہ بڑا ہوتا ہے تو آپ اسے قرآن کریم پڑھائیں اور اسلام کی تعلیم سکھائیں۔ آپ کو اپنی مثال بھی دکھانی چاہئے۔ میاں بیوی دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے اپنی مثال قائم کریں تاکہ وہ جان لیں کہ ہمارے والدین ہمیشہ روزانہ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں۔ وہ قرآن کریم پڑھتے ہیں۔ وہ قرآن پاک کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ قرآن کریم اور اسلام کی تعلیم کی مکمل مثال ہیں اور وہ اسلام احمدیت کے سچے پیروکار ہیں اور پھر جب بچے اس ماحول میں تربیت پائیں گے تو وہ ایک اچھے وقف نو بن جائیں گے۔

• ایک واقفہ نو امة النور ردا نے سوال کیا کہ احمدی لڑکی کو دوستوں کے ساتھ باہر جاتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ باہر کہاں جا رہی ہیں؟ اگر رات گزارنی ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں اگر دن کے وقت ہو تو پھر ٹھیک ہے آپ جا سکتی ہیں۔ اگر آپ باہر جا رہی ہیں تو بس یاد رکھیں کہ احمدی لڑکی کی حیثیت سے آپ کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ آپ پہلے فجر کی نماز پڑھیں۔ قرآن کریم کے ایک حصہ کی تلاوت کریں اور پھر باہر نکلیں۔ جب ظہر یا عصر کی نماز کا وقت ہوجائے تو نماز پڑھیں۔ اگر مغرب عشاء کا وقت آ جائے تو نماز پڑھ لیں۔ ہمیشہ باوقار انداز میں بات کریں۔ نامناسب باتیں نہ کیا کریں۔ کوئی احمدی لڑکا یا لڑکی نہ مناسب باتوں میں ملوث نہ ہو اور اگر آپ اپنی مثال قائم کریں گی تو لڑکیاں جان جائیں گی کہ اگر آپ نے روحانیت اور دین کو سیکھنا ہے تو آپ امۃ النور سے جا کر سیکھیں۔

• ایک واقفہ امۃ النور زین وہاب کریم کے سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ دیکھیں! اگر نسلی اور بین الثقافتی شادیاں ہوں تو یہ اچھی بات ہے۔ لیکن دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے ساتھ برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپ ایسے ساتھی کا انتخاب کریں جو روحانی طور پر اچھا ہو۔ جو اچھی مذہبی معلومات رکھتا ہو۔ایک پختہ مسلمان ہو۔اگر آپ دین کو ترجیح دیں گے تو پھر آپ کسی سے بھی شادی کرلی آپ شریک حیات کے ساتھ اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں گے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا۔ ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خامیاں ہوتی ہیں۔ برداشت کا مطلب اپنی آنکھیں، کان اور منہ بند کرنا ہے۔ اپنے ساتھی میں عیب تلاش مت کرو، ان کے بارے میں کوئی بری بات نہ سنو اور ایک دوسرے کو برا نہ کہو۔ اگر احمدیت میں مختلف ثقافتیں آپس میں مل جائیں تو یہ اچھی بات ہے۔ یہی احمدی ماحول ہوگا اور یہی وہ ماحول ہے جو ہمیں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مسئلہ تب آتا ہے جب ہم رشتہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں تو ہم دنیاوی فوائد کو مدنظر رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لڑکا بہت کماتا ہے اچھی جاب ہے۔ لڑکی بہت اچھی کماتی ہے۔ اس لئے ان سب چیزوں کو دیکھنے کے بجائے ہمیں یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اخلاق کیسے ہیں۔ دینی حالت کیسی ہے۔

• ایک واقفہ نو رامیہ چوہدری نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا کہ میں روس میں اپنی جماعت کو ریت کے ذروں کی طرح دیکھتا ہوں اس کو پورا کرنے کے لئے ایک وقف نو کیا کر سکتا ہے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آپ وقف نو ہیں اور آپ کو ہمیشہ یہ خیال رکھنا چاہئے کہ آپ کے فرائض کیا ہیں۔ میں نے تقریبا پانچ سات سال قبل کینیڈا میں وقف نو کے فرائض کے بارے میں ایک بہت مفصل خطبہ دیا تھا۔ پہلے اپنی مثال قائم کرو۔ روحانی اور اخلاقی مثال قائم کریں ا۔ور ہر کام میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیں اور پھر آپ کا کام بھی تبلیغ کرنا ہے۔ اس لیے اگر آپ کو روس جانے کا موقع ملتا ہے، اللہ کرے کہ ہم اس جنگ سے بچ جائیں تو اس کے بعد میرے خیال میں روسی بھی کوئی ایسا نظام تلاش کرنے کی کوشش کریں گے جو ان کے لیے اچھا ہو۔ اور اس وقت ہمیں ان کو تبلیغ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پہلی چیز اپنی اصلاح ہے اور دوسری بات تبلیغ کرنا ہے۔

• ایک واقفہ نو فاطمہ ظفر نے سوال کیا کہ میں ایک نرس بننے کی کوشش کر رہی ہیں کیا یہ فیلڈ جماعت کی خدمت کرنے کے لیے اچھی فیلڈ ہے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جو بھی فیلڈ انسانیت کے لیے اچھی ہو وہ اچھی ہے۔ اگر آپ اس فیلڈ میں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں تو جماعت کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ اگر آپ ڈاکٹر ہیں، نرس ہیں یا کوئی اور خدمت جس سے آپ انسانوں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں تو یہ واقفات نو کے لیے اچھی فیلڈ ہے۔ لیکن آپ کا اصل مقصد یہ ہونا چاہئے کہ آپ اپنی اصلاح کریں۔ اپنے آپ میں بڑی تبدیلی آنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق ہونا چاہئے۔ آپ کو روحانی اور اخلاقی طور پر دوسروں کے لئے ایک مثال بننا چاہئے۔

• ایک واقفہ نو ہبة السبوح ہارون ملک نے سوال کیا کہ اچھے دوست بنانے کے لئے اور اچھے دوست بننے کے لیے حضور انور کی کیا نصیحت ہے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ ایک احمدی لڑکی ہیں، ایک احمدی مسلمان لڑکی کی حیثیت سے آپ اچھے اور برے میں فرق جانتی ہیں۔ آپ اپنے فرائض جانتی ہیں کہ اللہ کے احکامات کیا ہیں۔ آپ جانتی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دو مقاصد کے لئے دنیا میں ظاہر ہوئے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ اگر آپ یہ سب کچھ کر رہی ہیں تو آپ ایک اچھی لڑکی ہیں۔ اگر آپ میں یہ خوبیاں ہیں تو جب آپ دوست بنائیں گی تو آپ ان لڑکیوں کو دوست بنائیں گی جو اچھی فطرت کی ہوں۔ آپ کبھی بھی بری لڑکیوں سے دوستی کرنے کی کوشش نہیں کریں گی۔ اور وہی چیز آپ پر بھی لاگو ہو گی۔ جب آپ میں یہ تمام خوبیاں ہوں گی تو لڑکیاں آپ کو اچھا دوست سمجھیں گی۔

• ایک واقفہ نو ملاحت خان نے یہ سوال پوچھا کہ اس معاشرے میں ماں لڑکوں کی پرورش کیسے کرے؟

• اس پر حضور انورنے فرمایا کہ میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ بچے کی پرورش کیسے کی جائے تو آپ کے لئے بھی یہی رہنمائی ہے۔ اگر آپ اس رہنمائی پر عمل کریں جو میں نے پہلے دی ہے تو یہ آپ کے لئے بہتر اور فائدہ مند ہوگا۔

واقفین نو کی کلاس

• بعد ازاں سات بجے پروگرام کے مطابق واقفین نو کی حضور انور کے ساتھ کلاس شروع ہوئی۔ 24 جماعتوں سے 92 واقفین نوشامل ہوئے۔

• کلاس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم ولید احمد صاحب نے کی اور اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔ تلاوت کا اردو ترجمہ عزیزم لبیب احمد زاہد نے پیش کیا۔

• بعد ازاں عزیزم اسامہ ظفر اعوان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ پیش کی۔

حدیث مبارکہ کا درج ذیل اردو ترجمہ عزیزم احد احمد خان نے پیش کیا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبریل علیہ السلام کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر وہ آسمان میں آواز دیتے ہیں کہ اللہ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ چنانچہ اہل آسمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور اس طرح روئے زمین میں اسے مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد عزیزم قمر احمد خان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پیش کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’منافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سچا تعلق نہ ہونے کی وجہ سے آخر بے ایمان رہے۔ ان کو سچی محبت اور اخلاص پیدا نہ ہوا۔ اس لیے ظاہری لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ان کے کام نہ آیا۔ تو تعلقات کو بڑھانا بڑا ضروری امر ہے۔ اگر ان تعلقات کو وہ طالب نہیں بڑھاتا اور کوشش نہیں کرتا تو اس کا شکوہ اور افسوس بے فائدہ ہے۔ محبت و اخلاص کا تعلق بڑھانا چاہئے۔ جہاں تک ممکن ہو۔ اس انسان (مرشد) کے ہم رنگ ہو۔ طریقوں میں اور اعتقاد میں۔ نفس لمبی عمر کے وعدے دیتا ہے۔ یہ دھوکا ہے عمر کا اعتبار نہیں ہے۔ جلدی راست بازی اور عبادت کی طرف جھکنا چاہئے اورصبح سے لے کر شام تک حساب کرنا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 5)

• اس اقتباس کا انگریزی ترجمہ عزیزم فائز احمد نے پیش کیا۔

• اس کے بعد عزیزم جلیس احمد نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام

تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو
کِبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو

خوش الحانی سے پیش کیا اور اردو نظم کا انگریزی ترجمہ عزیزم عازش احمد غنی نے پیش کیا۔

واقفین نو کے حضور انور سے سوالات
اور ان کے جوابات

• ایک واقف نو نعمان احمد فرید نے یہ سوال کیا کہ میرے خطوط کے بہت سے جوابات میں حضور نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ نماز میں پابندی اور تلاوت قرآن کریم کامیابی کی کنجی ہیں۔ تو Elon Musk اور Jeff Bezos جو نماز نہیں ادا کرتے اور ذکر الٰہی نہیں کرتے اتنے کامیاب اور دولت مند کیوں ہیں؟

• اس پر حضور انورنے فرمایا کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ہے۔ میں نے اپنے پچھلے خطبہ جمعہ میں ہی اس بارے میں بیان کیا تھا۔ ان دنیاوی لوگوں کی زندگی کا مقصد ایک دنیاوی مقام حاصل کرنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا اس وقت شیطان نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ اس کا تکبر اور اس کی دنیاوی خواہشات تھی اور پھر اس نے اللہ کو چیلنج کیا کہ اکثر لوگ میری پیروی کریں گے اور میں انہیں سیدھے راستے سے بھٹکا دوں گا اور اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ تم ایسا نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ چند لوگ ایسے ہوں گے جو نیک ہوں گے۔ وہ میرے انبیاء کو تسلیم کریں گے۔ اگرچہ تعداد میں کم ہوں گے لیکن آخر کامیاب ہوں گے اور تم ان پر غلبہ نہیں پاؤ گے۔

• حضور انور نے فرمایا:
آپ کا مقصد دنیاوی خواہشات کی پیروی نہیں ہے، آپ کا مقصد اللہ کی محبت حاصل کرنا ہے اور ایک مومن متقی ہمیشہ موت کے بعد کی زندگی کے لئے اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ نیک انسان کو آخرت میں اجر ملے گا اور ان دنیاداروں کو دنیا میں ہی اجر ملے گا۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی دائیں آنکھ اندھی ہے۔ دینی علم کی آنکھ اندھی ہے۔ ان کی بائیں آنکھ کام کر رہی ہے تاکہ وہ دنیاوی معاملات میں بڑھیں۔ اس لیے اگر آپ کی خواہش صرف دنیاوی فائدے کی ہے تو یقیناً آپ اللہ اور اسلام کو چھوڑ کر جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو یقین ہے کہ موت کے بعد زندگی ہے اور وہ ابدی زندگی ہے تو آپ کو اللہ کی محبت یہاں دنیا اور آخرت میں حاصل ہوگی۔ کیا آپ اسکول نہیں جا رہے؟ کیا آپ اپنی پڑھائی میں اچھے ہیں؟ کیا آپ کو اپنی دنیاوی ضروریات حاصل کرنے کے لیے کسی پریشانی کا سامنا ہے؟۔ آپ کو روزانہ کا کھانا مل رہا ہے آپ ناشتہ کے بعد دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں اور اچھے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اس لئے دنیا کی ہر چیز آپ کے لیے دستیاب ہے اور آپ دعا کر رہے ہیں۔

• حضور انور نے دریافت فرمایا آپ مستقبل میں کیا بننا چاہتے ہیں؟

اس پر واقف نو نے جواب دیا کہ ’’دل کا سرجن‘‘

• اس پر حضور انورنے فرمایا اس لئے اگر آپ نے یہ ہدف حاصل کر لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی دنیاوی خواہش حاصل کرلی ہے اور اس کے علاوہ روزانہ پانچ بار اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے سے آپ کو آخرت میں اجر ملے گا۔ جب کہ ان لوگوں کو یہ کبھی نہیں ملے گا۔ لہذا یہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کو انتخاب کرنا ہے۔ آپ دونوں اجر چاہتے ہویا صرف ایک۔ محض اس دنیا کے یا دنیا اور آخرت دونوں کے اجر۔ تو ہم ان لوگوں سے بہتر ہیں وہ صرف دنیاوی فائدے حاصل کر رہے ہیں اور ہمیں اللہ نے بتایا ہے کہ ہمیں دنیا اور آخرت میں فائدہ ملے گا۔ بس ہمارا مقصد دنیا نہیں ہے۔ مومن کا مقصد اللہ کی محبت حاصل کرنا ہے اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے آپ کو روحانی معیار کی بلندی اور انسانیت کی خدمت کے لئے بھی محنت کرنی ہوگی۔

• ایک واقف نو عزیزم دانیال جنجوعہ نے یہ نے سوال کیا کہ واقفین نو کو کون سے پیشوں یا خاص فیلڈ کا انتخاب کرنا چاہئے؟ کیا انہیں اپنے ذاتی مفادات پر جماعت کے تقاضوں کو ترجیح دینی چاہئے؟

• اس کے جواب میں حضور انور نے فرمایا آپ کی ذاتی دلچسپی کیا ہے؟ اگر آپ جماعت کی مدد اور مسجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر کے لئے اور اچھی جگہ پلاٹ حاصل کرنے کے لیے ریئل اسٹیٹ ایجنٹ پیشہ کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ آپ کے لئے اچھا ہے۔

آپ وقف نو ہیں تو وقف کا مطلب ہے کہ آپ کو اللہ کی راہ میں کام کرنا پڑے گا۔ وقف نو ہونے کے ناطے آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہئے کہ وہ کیریئر چنیں جو جماعت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہو اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ یہ فرض ادا نہیں کر سکتے اور آپ وقف کی اس شرط کو پورا نہیں کر سکتے تو آپ جو چاہیں کریں۔ لیکن اس کے لیے آپ کو مرکز سے اجازت لینی پڑے گی۔ مجھے لکھو پھر میں آپ کو بتا دوں گا۔ لیکن اگر آپ ریئل اسٹیٹ ایجنٹ بننا چاہتے ہیں تو کم از کم آپ دین سیکھیں اور اپنے دینی علم میں اضافہ کریں اور دین کے بارے میں مزید جانیں، نماز پڑھیں، قرآن کریم پڑھیں، قرآن کا مطلب سیکھیں اور پھر اسلام کی تبلیغ کریں۔ اپنے بزنس کے دوران بھی آپ تبلیغ کر سکتے ہیں۔ کافی تعداد میں لوگ آپ کے پاس آئیں گے۔ اس لیے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ براہ راست جماعت کے تحت کام کرتے ہیں یا بلا واسطہ جہاں بھی کام کریں لیکن آپ کا اصل مقصد اللہ کے پیغام کی تبلیغ ہونا چاہئے۔ آپ کو اللہ کے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی اور دین کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اپنی پانچ نمازیں پڑھ کر اللہ کے ساتھ اچھا تعلق قائم کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔

• ایک واقف نو عزیزم رمیس مرزا نے یہ سوال پوچھا کہ میں نماز پڑھنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ لیکن زیادہ تر میں اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے ان چیزوں کے کرنے کی پابندی ہے۔ اس لئے نہیں کہ مجھے یہ پسند ہیں میں ان چیزوں سے محبت کرنا اور ان چیزوں میں خوشی محسوس کرنا کی سے سیکھوں؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ فجر کی ادائیگی میں کتنا وقت لگاتے ہیں؟ کیا نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں کبھی اللہ کے سامنے رونے کا موقع ملا ہے؟ کیا نماز پڑھتے ہوئے آپ کے دل میں اطمینان پیدا ہوتا ہے؟ ضروری نہیں کہ ہر وقت ایک ہی معیار کی نماز پڑھو۔ اتار چڑھاؤ انسانی فطرت کا حصہ ہے لیکن اگر آپ ایک بار نماز پڑھنے کی لذت چکھ چکے ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ آپ کو اس قسم کا سوال اٹھانا چاہئے۔ آپ کہتے ہیں کہ آپ نماز پڑھتے ہیں، آپ نے اپنے سجدے کا لطف اٹھایا اور اطمینان محسوس کیا۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ نماز کے بعد آپ کے دل میں اطمینان پیدا ہوا۔

اس پر واقف نو نے جواب دیا کہ سکون اور اطمینان تو ہے لیکن اکثر مجھے یہ لگتا ہے کہ میں مجبور اً کر رہا ہوں۔

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ اپنی دن کی تمام نمازوں کے لئے زیادہ سے زیادہ 40-45 منٹ صرف کرتے ہیں۔ جبکہ ہوم ورک کے لیے اسکول کے بعد اپنی پڑھائی کے لئے آپ دن میں دو یا تین یا چار گھنٹے پڑھتے ہیں۔ اس لیے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ اپنی نمازوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں۔ یہ ایک Process ہے۔ اس میں وقت لگے گا۔ اگر آپ نماز جاری رکھیں تو سجدے میں اللہ سے یہ مانگیں کہ ’’میرے روحانی درجات کو بڑھا دے میرے دل میں اطمینان عطا فرما اور مجھے ہمیشہ اپنے قریب رکھ۔‘‘ اگر آپ اس طرح اللہ کا قرب حاصل کرتے رہیں اور اس سے مانگتے رہتے ہیں تو ایک دن آپ زیادہ اطمینان محسوس کریں گے۔ یہ ایک Process ہے۔ انبیاء کو بھی 25 سال کی عمر میں نہیں بلکہ چالیس سال کی عمر میں نبوت کا درجہ مل جاتا ہے، اس لیے آپ کو ثابت قدم رہنا چاہئے۔ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا اللہ سے اچھا تعلق اور آپ اللہ سے دعا کے بغیر نہیں جی سکتے۔

• ایک واقف نو عزیزم عبدالمقیط خان نے یہ سوال کیا کہ مجھے جامعہ کی تیاری کے لیے کیا کرنا چاہئے؟ جہاں جانے کی اپنی خواہش پر پورا اترنے کے لیے میں کون سی دعائیں پڑھوں؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کیا آپ روزانہ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، آپ کو نماز کے معنی معلوم ہیں، سجدے میں اللہ سے اچھے مربی بننے کے لئے دعا کرتے ہیں، کیا آپ قرآن کریم پڑھنا جانتے ہیں، کیا آپ روزانہ تلاوت قرآن کریم کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر آپ روزانہ ایک یا دو رکوع پڑھیں اور اس کے معنی بھی جاننے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ کیا آپ کے اخلاق اچھے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کا کچھ حصہ روزانہ پڑھنے کی کوشش کریں۔ Essence of Islam کتاب سے اقتباسات پڑھا کریں۔ جس مضمون کو آپ پڑھ رہے ہیں اسے جذب کرنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ تب آپ کو معلوم ہوگا کہ دین کیا ہے۔ آپ کو سورۃ فاتحہ کا مطلب معلوم ہونا چاہئے۔ قرآن پاک پڑھیں۔ یہ جامعہ کے طالب علم کے لئے بنیادی طور پر ضروری ہے۔ اور آپ کو احمدیت کے بارے میں عمومی علم ہونا چاہئے۔ آپ کو احمدیت کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے کب مسیح ہونے کادعویٰ کیا، آپ نے پہلی بیعت کب لی، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کب پیدا ہوئے۔ احمدیت کی تاریخ کا علم ہونا چاہئے۔ یہ دعا بھی پڑھا کریں رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ مجھے یہ دعا پسند ہے اور آپ کو بھی پڑھنی چاہئے۔

• ایک واقف نو عزیزم سلطان خلیل الرحمٰن نے سوال کیا کہ مفید ہنر کیا ہیں جو جماعت کے نوجوان ممکنہ جنگ کی تیاری کے لیئے سیکھ سکتے ہیں؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا نو جوان ہوں یا بوڑھے۔ سب سے پہلے آپ کو دعا کرنی چاہئے کہ آپ کی زندگی میں جنگ کا کوئی ایسا واقعہ نہ ہو، کم ازکم اس میں تاخیر ہو جائے۔ تو دوسری بات یہ کہ آپ اپنے آپ کو اسلام کی تبلیغ کے لیے تیار کریں اور یہ عہد کریں کہ جب آپ بڑے ہو جائیں گے تو اسلام کا پیغام پھیلائیں گے۔ نیز اگر آپ لوگوں کو یہ سمجھا دیں کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور انہیں زندگی کیسے گزارنی چاہئے اور اللہ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تو پھر کم از کم اگر جنگ کے امکان سے مکمل طور پر چھٹکارہ حاصل نہ بھی کیا جا سکے تو اس میں کچھ وقت کے لئے تا خیر ہو سکتی ہے۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہر خاندان کو اپنے گھر میں کچھ مہینوں کے لئے راشن بھی محفوظ رکھنا چاہئے۔ نوجوان بھی اپنے گھر والوں کی مدد کریں اور اللہ سے دعا بھی کریں۔ اگر آپ کا مطلب ہے کہ ہم دنیا کو جنگ سے کیسے بچا سکتے ہیں تو اللہ سے دعا کریں کیونکہ اس کے علاوہ ہم اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اگردنیا خود کو تباہ کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے اور لیڈر سمجھدار بننے کی کوشش نہیں کر رہے تو آپ کچھ نہیں کر سکتے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔

• ایک واقف نو ابراہیم سید احمد نے یہ سوال پوچھا کہ جب ہمارے دوست اور کلاس فیلو ہمارے عقائد اور اخلاق کو ناپسند کرتے ہیں اور پھر ہمیں طعنہ بھی دیتے ہیں تو ہم ان کے سامنے اپنی شناخت کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں اور اپنے مذہب کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں؟

• اس کے جواب میں حضور انورنے فرمایا: بات یہ ہے کہ خود اعتمادی ہونی چاہئے۔ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ ہم ٹھیک ہیں یا غلط ہیں۔ ان کے مذاق کو کچھ نہ سمجھو بلکہ الٹا تم ان کو کہو کہ ہم تو ٹھیک ہیں تم اپنے آپ کو کیوں تباہ و برباد کر رہے ہو۔ آپ میں اعتماد ہونا چاہئے۔ جب ہم ٹھیک ہیں اور ہمارا Claim ہے کہ ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے پھر کیوں فکر کرتے ہو۔

خلیفۃ المسیح کے لئے کیا دعا کریں

• ایک واقف نو عزیزم روحان الرحمٰن ظفر نے یہ سوال کیا کہ جب ہم خلیفۃ المسیح کے لیے دعا کرتے ہیں تو خاص طور پر کیا دعا کرنی چاہئے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا آپ دعا کریں کہ اللہ خلیفہٴ وقت کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں مدد فرمائے تاکہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہٴ وقت کے کندھوں پر جو ذمہ داریاں ڈالیں ہیں وہ صحیح طریقے سے ادا ہوں۔ اللہ خلیفہٴ وقت کو طاقت اور صحت دے تاکہ وہ اسلام اور احمدیت کے لئے بھرپور طریقہ سے اپنے فرائض کی بجاآوری کرسکے۔ یہ دعا کرو کہ خلیفہٴ وقت کے ذہن میں جو بھی منصوبے ہوتے ہیں وہ اللہ کی مدد سے کم سے کم وقت میں اور بہترین طریقے سے مکمل ہوں۔یہ دعا کرو کہ اللہ اسے مدد گار یعنی سلطان نصیر عطا فرمائے تاکہ مددگاروں کی ٹیم بھی خلیفہٴ وقت کی مدد کر سکے۔ یہ دعا کرو اللہ ہمیں خلیفہٴ وقت کے سلطان نصیر بنائےکہ وقف نو کے طور پر ہم خلیفہٴ وقت کے کاموں پروگراموں اور منصوبوں کی تکمیل میں خلیفہ کی مدد کرکے اپنے فرائض بھی ادا کریں۔

• ایک واقف نو مشہود احمد نے یہ سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب رسالہ وصیت میں یہ لکھتے ہیں کہ جو وصیت کرتا ہےاسے اپنی دولت کا کم ازکم دسواں حصہ لینا چاہئے اگر میں طالب علم ہوں تو کیا میں وصیت کر سکتا ہوں؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا کیا آپ کو کچھ جیب خرچ ملتا ہے۔ طلبا کو اپنی جیب سے وصیت کرنے کی اجازت ہے۔ نیز اگر آپ کو ایک سو ڈالر یا پچاس ڈالر ملتے ہیں تو آپ اس کا دسواں حصہ دے سکتے ہیں اور جب آپ اپنی پڑھائی مکمل کر کے اچھی جاب حاصل کرلیں اللہ آپ کو اچھی نوکری دےآپ اپنا چندہ اپنی تنخواہ کے مطابق ادا کریں۔ طلبا اپنی جیب خرچ سے وصیت کر سکتے ہیں۔

• ایک واقف نو عزیزم توفیق خالد احمد نے یہ سوال کیا کہ حضور انور کا کیا مشورہ ہے کہ مالی مشکلات میں بھی چندہ کی ادائیگی کیسے جاری رکھی جائے؟

• اس پر حضور انورنے فرمایا آپ کافی صحت مند لگتے ہیں آپ دن میں تین بار یا کتنی بار کھاتے ہیں۔ ان تینوں وقتوں میں آپ اطمینان سے کھاتے ہیں۔ آپ موصی بھی ہیں۔ آپ کام بھی کر رہے ہیں۔ میں آپ سے آمدنی نہیں پوچھنا چاہتا لیکن آپ کو قربانی اور وصیت کی اہمیت معلوم ہونی چاہئے۔ آپ اپنے کھانے پر روزانہ کتنے پیسے خرچ کرتے ہیں؟

اس پر واقف نو نے بتایا کہ پچاس ڈالرز اور حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ باہر سے بھی کھاتا ہوں اور روزانہ 10 ڈالر خرچ کرتا ہوں۔

اس پر حضور انورنے فرمایا آپ باہر سے کھائے بغیر جی سکتے ہیں کیونکہ آپ کے گھر میں کھانا ہے۔ تو اگر آپ باہر سے جنک فوڈ پر 10 ڈالر خرچ نہیں کرتے تو آپ کو روزانہ 10 ڈالر کی بچت ہو گی۔ توآپ25 دنوں میں 250ڈالرز کی بچت کریں گے اور 12مہینوں میں آپ 3000ڈالرز کی بچت کریں گے۔ اس طرح کم از کم صرف باہر کا کھانا بند کرکے آپ سالانہ تین ہزار ڈالر بچا سکتے ہیں۔ اس لئے آپ فیصلہ کریں کہ اللہ کی راہ میں مال کی قربانی آپ کی زندگی میں کتنی اہم ہے۔ قربانی کا مطلب ہے اپنی ذاتی خواہشات کو چھوڑنا اور اپنی پسند کی چیز ترک کرنا تا کہ اللہ آپ کو اس کے بدلہ میں جزا دے۔

• حضور انور نے فرمایا میں نے قربانی کے بارے میں یوکے میں خدام یا انصار کے اجتماع سے خطاب بھی کیا تھا تو آپ اس خطاب کو سنیں۔ اس لیے اگر آپ قربانی کے معنی اور اہمیت جانتے ہیں تو آپ یہ سوال نہیں اٹھا سکتے کہ اگر ہم مالی مشکلات میں ہیں توہم چندہ کیسے ادا کر سکتے ہیں۔ آپ نے اپنی زندگی سے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی کم نہیں کیا تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ مالی تنگی میں ہیں۔

• ایک واقف نو عزیزم منار احمد نے یہ سوال کیا کہ حضور کیا آپ کو لگتا ہےکہ Psychokinesis ممکن ہے؟یعنی کہ صرف ذہنی کوشش سے اشیاء کو منتقل کرنے یا تبدیل کرنے کی طاقت ممکن ہے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا: ہاں یہ ممکن ہے۔ اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں لکھا ہے۔ لیکن آپ نے واضح کیا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس شخص کے پاس وہ طاقت ہے جو خدا کے پاس ہے۔ آپ علیہ السلام نے ذکر کیا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو ارتکاز (Concentration) کی طاقت سے ایسا کر سکتے ہیں۔ وہ اس میز کو نہ صرف ہلاسکتے ہیں بلکہ میز پر بیٹھے لوگوں کو بھی ہلاسکتے ہیں۔ لیکن یہ ایک عارضی Process ہے۔ جب بھی وہ اپنا ارتکاز کھو دیتے ہیں تو یہ چیز رک جائے گی۔ اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس اس کی طاقت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ ان کے پاس وہی حیثیت ہے جو نبی کو دی گئی ہے۔ ازالہ اوہام کتاب پڑھیں آپ کو اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی۔

• ایک واقف نو عزیزم لبیب احمد زاہد نے یہ کہا کہ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا اللہ حقیقی ہے ؟ اللہ کے وجود کا یقین کرنے کے لئے مجھے کیا کرنا چاہئے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ جسمانی طور پر اللہ کو نہیں دیکھ سکتے۔ آپ جانتے ہیں کہ اللہ نور ہے۔ کیا آپ روزانہ پانچ بار نماز پڑھتے ہیں؟ کیا آپ نے کبھی دعا کی قبولیت کا تجربہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ دعا قبول کرکے اپنے وجود اور اپنی ہستی کو ثابت کرتا ہے، ظاہر کرتا ہے۔ جب آپ اللہ سے دعا کرتے ہیں اور وہ اسے قبول کرتا ہے تو آپ کو واضح معلوم ہو جاتا ہے کہ آپ نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ اللہ سے ہی اس دعا کی قبولیت سے ہے اور جب آپ نماز پڑھتے ہیں اور آپ سجدے میں ہوتے ہیں اور کبھی کبھار آپ بہت زور سے روتے ہیں اور آپ کو دل میں اطمینان ہوتا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ اب میری دعائیں قبول ہو گئی ہیں کہ اللہ میرا بھلا کرے گا۔ احمدیوں کا ہمیشہ اللہ کے ساتھ یہ تجربہ ہوتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی دعا کی قبولیت کا تجربہ کیا ہے؟

اس پر موصوف نے عرض کیا کہ تجربہ کیا ہے۔

تو اس پر حضور نے فرمایا کہ پھر آپ یہ سوال کیوں کر رہے ہیں۔ کیونکہ اللہ نے خود آپ کو اپنا چہرہ دکھایا ہے۔ اس طرح اللہ اپنا چہرہ دکھاتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کے پاس اس سلسلے میں کچھ اور سوالات ہیں توآپ پوچھ سکتے ہیں۔

اس پر واقف نو نے پوچھالیکن کبھی کبھی میں اللہ سے دعا کرتا ہوں اور میری دعا پوری نہیں ہوتی۔

• اس پر حضور نے فرمایا یہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی ہر دعا قبول کرے۔ اللہ تعالیٰ مالک ہے۔ کبھی آپ کی کچھ دعائیں جو آپ مانگتے ہیں آپ کے لیے اچھی نہیں ہوتیں۔ لیکن وہ یہ دعائیں بھی ضائع نہیں ہونے دے گا۔ اس دعا کا فائدہ آپ کے حساب میں جمع ہو جائے گا۔ جب بھی آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو گی اللہ آپ کو ان دعاؤں کا فائدہ دے گا۔

• ایک واقف نو عزیزم جاذب احمد بھٹی نے یہ سوال کیا کہ آج کے مادہ پرست معاشرے میں لڑکیوں کی اکثریت کیریئر کی طرف مائل ہے ایک ایسا واقف نو لڑکا جو ایک بااخلاق اور ایسی شریک حیات کی تلاش میں ہے جو اپنے کیریئر کی نسبت اپنے گھر کی طرف زیادہ توجہ دینے والی ہو۔ حضور انور کی اس کے بارے میں کیا نصیحت ہے؟

• اس پر حضور انور نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب آپ شادی کے حوالہ سے کوئی رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں تو آپ لڑکی کی خوبصورتی، اس کی دولت اور اس کی خاندانی حیثیت کی بنا پر شادی کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک متقی مومن کو ایسی لڑکی کا انتخاب کرنا چاہئے جو اچھی مومن بھی ہو، جو اپنے دین میں بہترین ہو۔ آپ نیک لڑکی چاہتے ہیں تو آپ کو خود بھی نیک ہونا پڑے گا۔ جب آپ خود روزانہ پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھتے تو آپ نیک لڑکی سے شادی کی خواہش کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ دونوں روحانی اور دینی طور پر معیاری ہیں تو پھر گھر میں امن اور ہم آہنگی رہے گی اور آپ کی آنے والی نسلیں بھی اچھے ہاتھوں میں پرورش پائیں گی۔

• حضور انور نے واقفین نو کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ
تمام دنیاوی تعلیم اور اپنی خواہشات کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ پھر بھی ایک اچھے مسلمان بن سکتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کے والدین نےآپ کو پیدائش سے پہلے ہی جماعت کی خدمت کرنے کے لیے پیش کیا تھا۔ اگر آپ ان کے وعدے کو پورا کرنا اور نبھانا چاہتے ہیں تو آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ وقف نو کے کیا فرائض ہیں ؟ اور میں نے کینیڈا میں چند سال پہلے وقف نو کی ذمہ داریوں کے متعلق خطبہ جمعہ دیا تھا۔ اس خطبے میں جو میں نے ہدایات دی ہیں آپ ان پر عمل کریں۔ دوسری بات اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ وقف کی ذمہ داریاں نہیں نبھا سکتے تو آپ جو چاہے کریں۔ جو بھی معاملہ ہو آپ احمد ی ہیں۔ روحانی اور اخلاقی معیار بڑھانا آپ کا فرض ہے اور دنیاوی تعلیم اور دنیاوی پڑھائی بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اللہ ہمیشہ آپ کو دیکھ رہا ہے۔ کبھی برا کام نہ کرو کیونکہ اگر آپ کو آخرت کی زندگی پر یقین ہے تو آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ نے اچھا کام نہیں کیا تو آپ کو آخرت میں اس کی سزا مل سکتی ہے۔

• واقفین نو کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ یہ کلاس 8 بج کر 5 منٹ پر ختم ہوئی۔

• بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لئے اپنے دفتر تشریف لے گئے۔

• ساڑھے آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد بیت الاکرام تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے گئے۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَ اَمْرِہٖ

(کمپوزڈ بائی: عائشہ چوہدری۔ جرمنی)

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

آخری گھر اللہ کا گھر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 نومبر 2022