• 29 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 12)

سیّدنا امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کا دورہ امریکہ 2022ء
7؍اکتوبر 2022ء بروز جمعہ
قسط 12

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجکر دس منٹ پر مسجد بیت الاکرام میں تشریف لا کر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔

آج جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ آج امریکہ کی اسٹیٹ ٹیکساس کے شہر ڈیلس(Dallas) میں حضور انور کے خطبہ جمعہ کے ساتھ نئی مرکزی مسجد ’’مسجد بیت الاکرام‘‘ کا افتتاح ہو رہا تھا۔

نماز جمعہ میں جماعت ڈیلس (Dallas) کے علاوہ امریکہ بھر کی جماعتوں سے احباب بڑے لمبے اور طویل سفر کر کے پہنچے تھے۔ امریکہ کی مختلف جماعتوں

Houston, Queens, Austin, Georgia, Tulsa, North Virgina, Marry Land, Fort Worth, San Jose, San Diego, South Virginia, Bay Point, Central Jersey, Lehigh Valley, Richmond, Port Land, North Jersey, Osh Kosh, Brooklyn, Buffalo, Milwaukee, Charlotte, York, Chicago, Detroit, Boston, Kansas City, Long Island, Philadelphia, Pittsburg, Sacramento, Albana, Albany, Baltimore, Cleveland, Hawaii, Miami, Phoeniy, Tuscon, Syracus, Willingbord

اور دیگر جماعتوں سے آئے تھے۔

پھر بعض جماعتوں سے احباب بڑے لمبے اور طویل فاصلے طے کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے پہنچے تھے۔

MarryLand سے آنے والے احباب 1367میل، لاس اینجلس سے آنے والے احباب 1578میل کا سفر طے کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے آئے تھے۔

پھر ایک بڑی دور کی جماعت سیاٹل (Seattle) سے آنے والے احباب 2095میل کا طویل ترین سفر طے اپنے پیارے آقا کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے پہنچے تھے۔

نماز جمعہ میں شامل ہونے والوں کی تعداد اڑھائی ہزار سے زائد تھی۔

خطبہ جمعہ

پروگرام کے مطابق ایک بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت الاکرام‘‘ میں تشریف لا کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ اعراف کی آیات 30تا32 کی تلاوت فرمائی اور درج ذیل ترجمہ پیش فرمایا:
’’تو کہہ دے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے۔ نیز یہ کہ تم ہر مسجد میں اپنی توجہات اللہ کی طرف سیدھی رکھو اور دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے اسی کو پکارا کرو۔ جس طرح اس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا اسی طرح تم مرنے کے بعد لوٹو گے۔ ایک گروہ کو اس نے ہدایت بخشی اور ایک گروہ پر گمراہی لازم ہو گئی۔ یقیناً یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا اور یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت یعنی لباس تقویٰ ساتھ لے جایا کرو اور کھاؤ پیو لیکن حد سے تجاوز نہ کرو۔ یقیناً وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:
آج آپ کو اپنی مسجد کے افتتاح کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما رہا ہے۔ تو اس کی تعمیر تو کچھ عرصہ پہلے مکمل ہو گئی تھی لیکن اس کا اب رسمی افتتاح ہو رہا ہے۔ یہاں مسجد کے طور شروع میں ایک ہال بنایا گیا تھا لیکن اب باقاعدہ مسجد آپ نے بنائی ہے۔ بہر حال اب ایک خوبصورت اچھی مسجد بن گئی ہے اور گنجائش کے لحاظ سے بھی کافی وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس مسجد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جنہوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ مسجد آپ نے خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے بنائی ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے فیض پانے والے ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے لیے ویسا ہی گھر بنائے گا۔

حضور انور نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بنائی ہوئی مسجد کا کام مسجد کی تعمیر کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا انسان تبھی حامل بنتا ہے جب اس کے حکموں پر چلنے والا ہو۔ اس کی عبادت کا حق ادا کرنے والا ہو۔ حقوق العباد ادا کرنے والا ہو۔ وفا اور اخلاص سے دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا ہو۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو مانا ہے۔

حضور انور نے فرمایا:
ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننا اور آپ کی بیعت میں آنا ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے۔ ہمارا کام آپ علیہ السلام کی بیعت میں آکر ختم نہیں ہو گیا بلکہ پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ تبھی ہم انعامات کے وارث ٹھہریں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا ہے۔ پس اپنی ذمہ داریوں کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنا ہو گا۔ اس مسجد کو آباد رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ آپس میں پیار و محبت سے رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ رواداری اور بھائی چارے کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام دنیا کو دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ مسلسل دعاؤں سے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ اپنی نسلوں کی اصلاح کی فکر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ تبھی ہم مسجد کا حق بھی ادا کر سکیں گے۔

حضور انور نے فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقعے پر فرمایا کہ جہاں اسلام کا تعارف کروانا مقصود ہو وہاں مسجد بنا دو۔ اب اس مسجد کے بننے سے ظاہری طور پر تو اسلام کا تعارف اس علاقے میں ہو جائے گا۔ بعض ہمسائے آئے بھی اور انہوں نے اچھے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ چند دن ہوئے باوجود آجکل زیادہ لوگوں کے آنے اور رش اور پھر شور کے ایک بالکل ساتھ والے ہمسائے ملنے آئے تھے تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم خوش ہیں کہ ہمیں آپ لوگوں کی ہمسائیگی مل گئی لیکن ہمیں بہر حال اپنے ہمسائیوں کا خیال رکھنا چاہئےاور غیر ضروری شور اور ہنگامہ یہاں نہیں کرنا چاہیے اور قانون کے دائرے میں رہ کر سب کام کرنے چاہئیں۔

تو بہر حال مسجد سے تعارف ہمسایوں کو بھی ہو گا اور یہاں سڑک پر سے گزرنے والوں کو بھی ہو گا اور یہ جو تعارف کا راستہ کھلا ہے اس سے آپ کے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے۔ پس ہر احمدی کو اسلام کی تعلیم کا نمونہ بھی بننا پڑے گا اور بننا چاہئے۔ دنیا کو ایک واضح فرق نظر آنا چاہئے کہ اس دنیادار معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے کام کرتے ہوئے پھر دین کو دنیا کو مقدم کرنے والے بھی ہیں اور اپنے پیدا کرنے والے قادر و توانا خدا سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں اور مخلوق کی ہمدردی کرنے والے بھی ہیں اور مخلوق کے کام آنے والے بھی ہیں۔ جب یہ چیز دنیا دار دیکھتے ہیں تو ان میں تجسس پیدا ہوتا ہے اور پھر یہی اسلام کی تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔ پس اب ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر اسلام کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کی ضرورت ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے مساجد کے ساتھ منسلک ہونے والوں کی بعض ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انصاف قائم کرو اور انصاف کرنے کے بارے میں دوسری جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے دور نہ کرے۔ اب یہ معیار جو انصاف کا قائم کرنے والا ہے وہ کسی دوسرے کے متعلق غلط سوچ رکھ ہی نہیں سکتا۔ کسی کو نقصان پہنچانے کا تو سوال ہی نہیں۔ ایسا شخص تو موقع تلاش کرے گا کہ میں کس طرح دوسروں کو فائدہ پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہوں اور جب انسان ایسے حقوق قائم کرنے والا ہو تو یقینا ماحول پر ایک نیک اثر ڈالتا ہے اور یہی نیک اثر پھر تبلیغ کے راستے کھولتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے حقیقی مومنوں کو مسجد میں آنے والوں کو مسجد کے حوالے سے پہلی نصیحت یہ فرمائی کہ حققوق العباد کی ادائیگی کے سامان کرو اور اس کے لیے سب سے اہم چیز انصاف قائم کرنا ہے۔ اب جہاں اللہ تعالیٰ غیروں اور دشمنوں سے بھی انصاف قائم کرنے کا حکم دے رہا ہو تو ہمیں اپنوں سے کس قدر پیار و محبت سے رہنا چاہئے اور جب یہ حالت ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی ایسے لوگوں پر پڑتی ہے۔ جب یہ لوگ مسجد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے داخل ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی عبادت کو قبول فرماتا ہے۔ لیکن اگر ایک شخص اپنے گھر میں اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں کر رہا، ہر وقت اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ بچے اس سے علیحدہ خوف زدہ ہیں اور پھر وہ اپنے عمل سے بچوں کو دین سے دوری کا باعث بھی بن رہا ہے تو پھر ایسے شخص کے نہ ہی جماعتی کام اور نہ ہی عبادتیں اللہ تعالیٰ کے حضور قابل قبول ہوتے ہیں۔ اس دو عملی کی وجہ سے دھوکہ ہے جو انسان کسی اور کو نہیں دے رہا ہوتا بلکہ اپنے آپ کو دے رہا ہوتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس حقیقی مومن وہی ہے جو اندر اور باہرانصاف قائم کرنے والا ہے۔ جس کا قول و فعل اندر اور باہر ایک جیسا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں مسجد کی آبادی کا حق ادا کرنے والے ہیں کیونکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے پُر ہیں۔ پس یہ معیار حاصل کرنا ہمارا کام ہے ورنہ صرف مسجد بنا دینا اور یہاں آکر اپنے سر سے بوجھ اتارنے کے لیے جلدی جلدی نمازیں پڑھ لینا یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور جب انسان یہ معیار حاصل کر لیتا ہےتو پھر وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک معصوم بچے کی طرح ہے۔ اس کا انجام بخیر ہے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ بندوں کے حق بھی ادا کر رہا ہے۔ پس کسی کو اس بات پر ہی ناز نہیں ہونا چاہئے کہ میں بہت نماز پڑھنے والا ہوں۔ پانچ وقت مسجد میں آجاتا ہوں اور جماعت کے کام بھی کر رہا ہوں تو یہ کافی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا نہیں کرتا۔ پس کسی خوش فہمی میں ہمیں نہیں رہنا چاہئے۔ حقیقی عابد اور مسجدوں کو آباد کرنے والا وہی ہےجو خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت اپنے اندر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والا ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دوبارہ زور دے کر فرمایا کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہ کیا۔ دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرتے ہوئے اپنی حالتوں کو صحیح راستوں پر چلانے کے لیے بھر پور کوشش نہ کی، توبہ اور استغفار کی طرف سے مستقل توجہ نہ کی، تو شیطان تم پر غالب آجائے گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے توبہ اور استغفار کی طرف مستقل توجہ رکھو۔ آج کل کے اس دنیا داری کے ماحول میں تو خاص طور پر اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے تبھی کامیابی ملے گی۔ تبھی ایک معصوم بچے کی طرح اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے۔ مسلمانوں کی حالت بگڑنے کی وجہ سے ہی اسلام کا زوال شروع ہوا۔ جب انہوں نے انصاف اور عبادتوں کو دکھاوا بنا لیا یا اس کا حق ادا نہیں کیا اور پھر سب کچھ ضائع ہو گیا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: خوبصورت مسجدیں تو بے شک بناتے رہے اور بنا رہے ہیں اور احمدیوں کی مسجدوں کو آج کل پاکستان میں تو گرانے کا بھی زور ہے۔ اس لیے کہ احمدیوں کی مساجد کی ہماری مسجدوں جیسی شکل نہ ہو، ان کے منارے نہ ہوں، ان کی محرابیں نہ ہوں لیکن ان میں عباد الرحمن نہیں پیدا ہوئے۔ اسی بات کو یہ فخر سمجھتے ہیں کہ ہم احمدیوں پر ظلم کر رہے ہیں یا ان کے زعم میں ان کو صحیح راستے پر چلانے کی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہر حال پہلے زمانے میں بھی یہ زوال ہوا۔ اسی لیے ہوا کہ مسجدوں کی آبادی ظاہری تھی۔ خال خال جگہوں پر حقیقی مسلمان بھی نظر آتے تھے لیکن عمومی طور پر زوال تھا۔ بہر حال یہ سب کچھ ہونا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں آگاہ فرما دیا تھا لیکن اس ظلمت کے زمانے کے بعد جو روشنی کا زمانہ مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس غلام صادق کی ہم نے بیعت کی توفیق پائی ہے اس عہد کے ساتھ کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور قرآن کریم کے حکموں پر چلیں گے تو پھر جیسا کہ میں نے کہا ہمیں اپنی حالتوں پر بہت توجہ دینی ہو گی۔ ان غیروں جیسی مسجدوں کی حالت سے اپنی مسجدوں کو بچانا ہو گا۔ جس کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور انہی میں لوٹ جائیں گے اور یہی کچھ ہم آج کل اکثر مسلمانوں کی مساجد میں دیکھ رہے ہیں۔ تو یہ حالت جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں یہ ہمیں ہوشیار کرنے والی ہے۔ ان میں تو فتنوں کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا صرف زور ہے تو یہ کہ جماعت کی مسجدوں کے مینار گراؤ۔ (یہ تو مسجد نہیں عبادت گاہیں کہتے ہیں) ان کی محرابیں گرا دو۔ ان کی اور کوئی دین کی خدمت نہیں ہے۔ کوئی انصاف نہیں ہے۔ بہر حال یہ باتیں ہمیں سبق دیتی ہیں کہ کس طرح ہم نے خالص ہو کر مسجدوں کے اور بندوں کے حق ادا کرنے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان آیات میں سے پہلی آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی ظاہری اور جسمانی صورت میں بھی ضعف آگیا ہے۔ وہ قوت و شوکت اسلامی سلطنت کو حاصل نہیں اور دینی طور پر بھی وہ بات جو مخلصین لہ الدین میں سکھائی گئی تھی اس کا نمونہ نظر نہیں آتا۔ اندرونی طور پر اسلام کی حالت بہت ضعیف ہو گئی ہے اور بیرونی حملہ آور چاہتے ہیں کہ اسلام کو نابود کر دیں۔ان کے نزدیک مسلمان کتوں اور خنزیروں سے بھی بدتر ہیں۔ ان کی غرض اور ارادے یہی ہیں کہ وہ اسلام کو تباہ کر دیں اور مسلمانوں کو ہلاک کر دیں۔ اب خدا کی کتاب کے بغیر اور اس کی تائید اور روشن نشانوں کے سوا ان کا مقابلہ ممکن نہیں اور اس غرض کے لیے خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس ایسے حالات میں اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والے ہی ہیں جنہوں نے اپنی حالتوں کو اپنا حق بیعت نبھاتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق درست نہ کیا اور اپنی حالتوں پر ہمیشہ نظر نہ رکھی تو پھر ہم ان لوگوں میں شمار نہیں ہو سکیں گے جنہوں نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے اس دور میں اپنی بیعت کا حق ادا کرنا تھا۔ ہم ہی ہیں جنہوں نے اسلام کی کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ قائم کرنا ہے۔ جو نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھینچا ہے یہ بہت خوفناک نقشہ ہے اور عملاً یہی نظر آتا ہے۔ دنیا کو ہم نے بتانا ہے کہ تم جو اسلام کو اور مسلمانوں کو حقیر سمجھتے ہو اور تمہارے نزدیک یہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ لیکن یاد رکھو یہی لوگ ہیں جن کی تعلیم پر عمل سے دنیا کی بقا ہے۔ پس مکمل خود اعتمادی کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے آگے جھکتے ہوئے مانگتے ہوئے ہمیں دنیا کی رہنمائی کا کام کرنا ہو گا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس ہمیں اس بات پر نظر رکھنی ہے کہ ہم نے کس طرح خدا تعالیٰ کے حق ادا کرنے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کا حق ادا کیا جائے۔ مسجد ہم نے بنائی ہے تو اس کا حق ادا کریں۔ اس میں خالص ہو کر اس کی عبادت کے لیے آئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ االسلام اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے یعنی مَیں نے پرستش کے لئے ہی جنّ و انس کو پیدا کیا ہے۔ ہاں یہ پرستش اورحضرت عزّت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجز محبتِ ذاتیہ کے ممکن نہیں اور محبت سے مراد یک طرفہ محبت نہیں بلکہ خالق و مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں تا بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اُس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام رُوحانی وجود پر قبضہ کر لیں۔ پس دائمی توجہ کے ساتھ مستقل توجہ کے ساتھ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی ہو گی اور اسی وقت یہ ہو گا جب اللہ تعالیٰ سے محبت ہو۔ ایسی ذاتی محبت ہو جو کسی اور سے نہ ہو تب اللہ تعالیٰ کی محبت اور انسان کی اللہ سے محبت، بندے کی اللہ سےمحبت وہ نتائج پیدا کرتی ہے جو ایک انقلاب لے آتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس جو لوگ تھوڑی سی دعا کے بعد تھک جاتے ہیں یا جو دعا کا فلسفہ معلوم کرنا چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اس حوالے پر غور کرنا چاہئے۔ صرف ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ کے دروازے پر مانگنے نہ جائیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ایک ذاتی محبت پیدا کریں پھر اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کی مکمل اطاعت کی جائے۔ اللہ کے رسول سے محبت کرنا بھی ضروری ہے اور محبت کے جذبے سے اطاعت کی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار ہوتا ہے اور جب یہ دو محبتیں ملتی ہیں تو پھر جیسا کہ فرمایا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وہ بارش برستی ہے جو انسان کی سوچ سے بھی بالا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلے اور اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ڈھالے، اپنی عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرے، اسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کی ضروریات بھی مل جاتی ہیں۔ ہاں دنیاوی لالچ کی خواہشات بڑھتی جاتی ہیں اور اگر یہ بڑھ جائیں تو یہ ایسی آگ ہے جو کبھی بجھتی نہیں ہے۔ اگر انسان دین پر قائم ہو تو پھر ہر وقت دنیاوی خواہشات کی یہ بھڑک نہیں رہتی کیونکہ یہ آگ تو ایسی ہے جو کبھی نہیں بجھتی اور انسان اس میں بھسم ہو جاتا ہے اور آخرت جو حقیقی زندگی ہے، میں بھی کچھ نہیں ملتا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اللہ کی مساجد کو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں۔ پس ہمیں ان ایمان لانے والوں میں سے ہونا چاہیے جو مسجدوں کو آباد کرنے والے ہیں اور مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ ایک نماز سے دوسری نماز تک انتظار کرتے ہیں کہ کب وقت ہو اور ہم نماز کے لیے جائیں۔ پس یہ مقصد ہے مسجد کی تعمیر کا کہ اسے آباد کرنا ہے اور کس طرح آباد کرنا ہے۔ پس اب یہ مسجد بنانے کے بعد یہاں کے رہنے والوں کا کام ہے کہ اسے آباد بھی کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کا اپنی بھی اصلاح کرنے کا اور اپنی نسلوں کو بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ جوڑنے کا یہی طریق ہے۔ ورنہ موجودہ زمانے کی چمک دمک ہماری نسلوں کو دین سے دور لے جائے گی۔ بچپن سے ہی انہیں مسجد کے ساتھ جوڑنے اور دین کی اہمیت بتانے کی ضرورت ہے اور یہ ماں باپ دونوں کا کام ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھیں کہ مسجد کے بننے سے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا اور اب افتتاح سے جماعت کا مزید تعارف ہو گا۔ مسجد کا اور اسلام کا تعارف ہو گا تو تبلیغ کے راستے کھلیں گے۔ مزید رابطے بھی ہوں گے۔ پس ان سے فائدہ اٹھا کر اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچانا بھی ہر احمدی کا کام ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ خانہ خدا ہوتا ہے۔ جس گاؤں یا شہر میں ہماری مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔ محض للہ اسے کیا جاوے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرمایا:
پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے مسجد سے جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑگئی۔ اگر یہاں کے احمدیوں کی کوششیں اخلاص سے ہوں گی۔ عبادتوں کے معیار ہوں گے تو سمجھیں اب جماعت کی ترقی کی یہاں بھی بنیاد پڑ گئی۔ ان شاء اللہ

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اپنی عبادتوں اور اخلاص کے معیار بڑھاتے چلے جائیں۔ اپنی نسلوں میں بھی اس اخلاص اور دعا کی اہمیت اور عبادت کی اہمیت کو منتقل کرتے چلے جائیں تو اس مادی دنیا کے دلدادوں میں بھی ہم انقلاب پیدا ہوتا دیکھیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ ان نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ اخلاص کے ساتھ نمازیں پڑھنے والے ہوں اور اس مسجد کو آباد کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں اور عبادتوں کو بھی قبول فرمائے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطبہ جمعہ کا مکمل متن حسب طریق علیحدہ شائع ہو گا۔

حضور انور کا یہ خطبہ جمعہ پہلی مرتبہ ڈیلس (Dallas) ٹیکساس سٹیٹ سے MTA انٹرنیشنل کے ذریعہ براہ راست ساری دنیا میں Live نشر ہوا۔

• حضور انور کا یہ خطبہ جمعہ دو بجے تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انور نے نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

مسجد بیت القیوم کی تختی کی نقاب کشائی

• آج کے پروگرام کے مطابق Dallas سے جماعت Fort Worth کے لیے روانگی تھی۔ ڈیلس سے فورٹ ورتھ کا فاصلہ 53میل ہے۔

• چھ بج کر پانچ منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے اور Fort Worth کے لئے روانگی ہوئی۔ پولیس کی گاڑیوں نے قافلہ کو Escort کیا اور ساتھ ساتھ راستہ کلیرکرتے رہے۔

قریباً ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد 7 بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مسجد بیت القیوم Fort Worth میں ورود مسعود ہوا۔

جونہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی گاڑی سے باہر تشریف لائے تو مقامی جماعت کے صدر مکرم سعید چوہدری صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔ احباب جماعت مسلسل نعرے بلند کر رہے تھے۔ خواتین اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے شرف زیارت سے فیض یاب ہو رہی تھیں۔ بچے اور بچیاں خوبصورت لباس میں ملبوس دعائیہ نظمیں اور استقبالیہ گیت پیش کر رہے تھے۔ حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کر کے سب کو السلام علیکم کہا۔ہر طرف سے خوشی و مسرت سے ہاتھ بلند تھے۔ السلام علیکم حضور! اور انی معک یا مسرور! کی صدائیں ہر طرف سے بلند ہو رہی تھیں۔ اس جماعت کے لیے یہ انتہائی مبارک اور بابرکت لمحات تھے۔ ان کے پیارے آقا کے مبارک قدم پہلی بار اس جماعت کی سرزمین پر پڑے تھے۔ ان کے لیے ایک ایسی خوشی کا سماں تھا۔ جو بیان نہیں کی جا سکتی۔ بہتوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔ حضور انور ان احباب کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا ہاتھ بلند کر کے ان کے نعروں اور السلام علیکم کا جواب دیتے رہے۔

• بعد ازاں حضور انور نے ’’مسجد بیت القیوم‘‘ کی بیرونی دیوار پر لگی تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔ اس کے بعد حضور انور نے مسجد کی بیرونی احاطہ میں ایک پودا لگایا۔

• بعد ازاں حضور انور نے اس عمارت کا معائنہ فرمایا۔ مسجد کی Lobby میں اس عمارت کے دو بڑے نقشہ جات آویزاں کئے گئے تھے۔ صدر جماعت نے حضور انور کی خدمت میں عرض کی کہ اس عمارت کے دائیں اور بائیں دو مینار تعمیر کئے جائیں گے اور اس طرح ایک گنبد بھی بنایا جائے گا۔ مینار اور گنبد نقشہ میں ظاہر کئے گئے تھے۔ اس کے بعد مسجد کے مردانہ ہال اور خواتین کا معائنہ فرمایا۔ بعد ازاں حضور انور لائبریری کے اندر تشریف لے گئے۔ علاوہ ازیں جماعتی دفاتر، میٹنگ روم اور تبلیغی روم بھی دیکھے اور ملٹی پرپز ہال اور لجنہ کے ہال میں بھی تشریف لے گئے۔ مسجد بیت القیوم کی یہ عمارت اور 4.7 ایکڑ رقبہ پر مشتمل یہ قطعہ زمین سال 2018ء میں 7 لاکھ 75 ہزار ڈالرز کی قیمت میں خریدا گیا تھا۔ یہاں پر جو تعمیرات موجود ہیں ان کاایریا 13 ہزار مربع فٹ ہے۔ اس عمارت میں جماعتی دفاتر کی تعداد 8 ہے۔ اس کے علاوہ ایک Gym (فٹنس روم) بھی بنایا گیا ہے۔

مسجد کے مردانہ اورخواتین ہال میں 300 افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اگر اس عمارت کے باقی ہالز اور لابیز وغیرہ شامل کئے جائیں تو ہزار کے لگ بھگ لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔

• حضور انور مسجد کے بیرونی احاطہ پارکنگ ایریا کی طرف بھی تشریف لے گئے اور زمین کی حد بندی کے بارے میں دریافت فرمایا۔ بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ہال میں تشریف لے آئےجہاں ایک میز پر مسجد کے دو مختلف نقشہ جات پرنٹ کر کے رکھے گئے تھے اور 2 میناروں کے سنگ بنیاد کے لیے 2 اینٹیں بھی رکھی گئی تھیں۔ علاوہ ازیں ایک باسکٹ بال بھی رکھا گیا تھا۔ خدام یہاں باسکٹ بال بھی کھیلتے ہیں۔ مقامی صدر جماعت کی درخواست پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت دونوں نقشوں پر اپنے دستخط فرمائے اور میناروں کی تعمیر کے لیے دونوں اینٹوں پر اپنی ’’الیس اللہ بکاف عبدہ‘‘ والی انگوٹھی مَس کر کے دعا کی۔ بعد ازاں حضور انور کچھ دیر کے لیے دفتر تشریف لے گئے۔

• اس دوران تمام مقامی احباب ہال میں بیٹھ چکے تھے۔ خواتین ایک دوسرے ہال میں جمع ہو چکی تھیں۔

• ساڑھے سات بجے حضور انور ہال میں تشریف لائے۔ ہال کے دروازہ پر ایک مقامی امریکن خاتون اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔ موصوفہ اس شہر کی زوننگ آفیسر ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کے لیے آئی تھیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ ازراہ شفقت کچھ دیر کے لیے ان کے پاس کھڑے ہوئے اور گفتگو فرمائی۔

احباب جماعت کی حضور کے ساتھ نشست

• بعد ازاں پروگرام شروع ہوا۔ حضور انور نے احباب سے دریافت فرمایا۔ یہاں کتنے اسائیلم سیکرز ہیں؟ ہاتھ کھڑا کریں۔ حضور انور نے فرمایا۔ کیا سب نے کام شروع کر دیا ہے۔ جس پر سبھی نے کہا کہ ہم نے کام شروع کر دیا ہے۔ پھر حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے دل یہاں لگ گئے ہیں۔ اگر نہیں لگے تو لگانے پڑیں گے۔

• بعد ازاں حضور انور نے دریافت فرمایا کہ جو لوگ مجھے مل چکے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ اس پر احباب نے اپنے ہاتھ کھڑے کئے تو حضور انور نے فرمایا: اسائیلم سیکرز سے زیادہ تعداد ہے جو مجھے مل چکی ہے۔ اس کے بعد سیکرٹری وقف نو جو سیکرٹری تعلیم القرآن و وقف عارضی بھی ہیں نے اپنا تعارف کروایا۔ حضور انور نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہاں آپ کی مقامی جماعت میں کتنے واقف نو بچے ہیں۔ کیا تعداد ہے؟ موصوف نے بتایا کہ دس بچے ہیں اور جو لڑکیاں ہیں ان کے پروگرام وغیرہ لجنہ کرتی ہے۔ اس پر حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ خواہ لجنہ پروگرام کرتی ہو۔ لیکن ریکارڈ آپ کے پاس بحیثیت سیکرٹری ہونا چاہئے۔ اس پر موصوف نے بتایا کہ بچیوں کی تعداد 13 ہے۔اس طرح کل 23ہیں۔

• حضور انور نے فرمایا آپ تعلیم القرآن، وقف عارضی کے سیکریڑی بھی ہیں۔ وقف عارضی کے پروگرام بنائیں، تبلیغ کریں، لڑیچر دیں، باہر نکلیں، لوگوں سے رابطے کریں اور یہاں اپنے مرکز آنے کی دعوت دیں۔ ہر مہینے میں مختلف جگہوں سے پندرہ بیس لوگ مل جائیں گے تو پورے علاقے میں اسلام کا تعارف کروا سکتے ہیں۔ حضور انور نے فرمایا جو جو وسائل یہاں مہیا ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے جو جو کام ہو سکتا ہے آپ لوگوں کو کرنا چاہئے۔

• بعد ازاں سیکریڑی تبلیغ سے حضور انورنے دریافت فرمایا کہ تبلیغ کا پلان کیا ہے؟ اس پر موصوف نےعرض کیا کہ ہم نے ہفتہ وار پروگرام شروع کیے ہوئے ہیں۔ باہر سے مہمان اپنے سینٹر میں بلاتے ہیں اور ان سے بات چیت کرتے ہیں۔

• حضور انور نے فرمایا: جو آپ کے یہاں ہمسائے ہیں ان کو بھی بلائیں، بروشرز، لیف لیٹس تقسیم کرنے کا پروگرام بنائیں۔ اپنے شہر کی آبادی کا جائزہ لیں۔ کتنی آبادی ہے کون کون سے لوگ یہاں رہتے ہیں؟ وائٹ امریکن، افریقن امریکن، ایشین، لاطینی امریکن یہ کتنی کتنی تعداد میں آباد ہیں؟ پہلے سارا جائزہ لیں اور پھر ہر ایک Etnic گروپ کے حساب سے اپنا تبلیغی پروگرام بنائیں۔

• سیکرٹریتربیت نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے یہ مسئلہ ہے کہ لوگوں کو مسجد لانے کے لیے بہت کوشش کرنی پڑ رہی ہے۔

• حضور انور نے فرمایا مسلسل محنت کرنی پڑے گی۔ جو نہیں آ رہے ان کو روزانہ یاد دہانی کروائیں۔

• بعد ازاں صدر جماعت Fort worth نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کاشکریہ ادا کیا کہ حضور انور کی آمد کے ساتھ آج ہمیں یہ دن دیکھنے کو ملا ہے۔

• اس پر حضور انور نے فرمایا کہ شکریہ تب ہو گا۔ جب مسجد کو آباد کریں گے۔ صدر صاحب نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ مسجد سے پندرہ منٹ تک کے فاصلہ پر تیس چالیس فیصد احمدی آباد ہیں۔ حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ فجر اور مغرب عشاء پر حاضری پچاس فیصد ہونی چاہئے اور یہ کم ازکم ٹارگٹ رکھیں اور اس کو بڑھاتے چلے جائیں۔ ویسے تو سو فیصد ہونا چاہئے۔

حضور انور نے فرمایا: پٹرول مسجد آنے کے لیے رکھیں اور باقی اپنی شاپنگ کے لیے خرید و فروخت کے لیے پیدل جائیں۔

ممبرات لجنہ سے گفتگو اور نصائح

• خواتین کی طرف سے ایک غیر ملکی خاتون نے سوال کیا کہ عورتوں کے خاص ایام میں نماز،قرآن کریم کی تلاوت وغیرہ کےبارہ میں کیا حکم ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا: یہ تو محدود دن ہیں ان میں نماز نہیں پڑھی جاتی اور نہ تلاوت قرآن کریم کی جاتی ہے۔ لیکن ذکر الٰہی کر سکتے ہیں،دعائیں کر سکتے ہیں،حدیث میں دعائیں کر سکتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کو یاد رکھ سکتی ہیں۔

• صدر لجنہ مجلس Fort Worth نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ خواتین کی تجنید 70 ہے اور ان میں زیادہ تعداد مستعد اور فعال ہے جب کہ ایک حصہ فعال نہیں ہے۔ حضور انور نے فرمایا آپ عورتوں کی تربیت کا پروگرام ایسا بنائیں کہ وہ آگے اپنے بچوں کی تربیت کر سکیں۔

• حضور انور نے فرمایا: اگر لجنہ کی عاملہ Active ہو جائے تو مسجد میں آنے والوں کی حاضری بڑھ سکتی ہے۔ اپنے مردوں کو مسجد بھیجیں۔ اس طرح مقامی جماعت کی عاملہ کے ممبران، خدام، انصار کی عاملہ کے ممبران Active ہوں اورباقاعدہ نمازوں پر آنے والے ہوں تو مسجد کی حاضری بہت بڑھ جائے گی۔

• اس کے بعد مقامی جماعت کی مجلس عاملہ نے حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس انصار اللہ کی عاملہ نے بھی حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف پایا۔

• ایک دوست فراز احمد نے مسجد اور اس کی کمپلیکس کی Renovation میں بہت زیادہ خدمات سر انجام دی ہیں اور سارا کام طوعی طور پر کیا ہے۔ موصوف کو بھی حضور انور کے ساتھ تصویر بنوانے کا شرف نصیب ہوا۔

• یہ پروگرام سات بج کرپچاس منٹ پر ختم ہوا۔

بعد ازاں حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ کچھ دیر کے لیے لجنہ ہال میں تشریف لے گئے۔ جہاں خواتین شرف زیارت سے فیض یاب ہوئیں۔

آٹھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’مسجد بیت القیوم‘‘ تشریف لا کر نماز مغرب و عشاء جمع کر کے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد اب یہاں سے واپس ڈیلس (Dallas) کے لیے روانگی کا پروگرام تھا۔

’’مسجد بیت القیوم‘‘ اور اس سارے کمپلیکس کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔ بہت ہی خوبصورت منظر تھا۔ ان روشنیوں کی وجہ سے مسجد کے اردگرد کا سارا علاقہ روشن تھا اور سارے ماحول میں ایک خوشی کا سماں تھا۔ آٹھ بج کر بیس منٹ پر یہاں سے ڈیلس کے لیے روانگی ہوئی۔ پولیس کی گاڑیوں نے قافلہ کو Escort کیا اور جگہ جگہ دوسری گاڑیوں کو روک کر راستہ کلیرکرتے رہے۔

قریباً ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد نو بج کر پچیس منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مسجد بیت الاکرام ڈیلس آمد ہوئی۔ مسجد کے بیرونی احاطہ میں احباب جماعت مرد و خواتین حضور انور کے واپس آنے کے انتظار میں کھڑے تھے۔ ان سبھی نے اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔

بعد ازاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پرتشریف لے گئے۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِ مَا مَنا بِرُوْ حِ الْقُدُسِ وَ بَا رِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِ ہٖ وَ اَمْرِہٖ

(کمپوزڈ بائی: صدف علیم صدیقی۔ کینیڈا)

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

احکام خداوندی (قسط 61)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 9 نومبر 2022