• 22 اگست, 2025

قرآنی انبیاء (قسط 27)

قرآنی انبیاء
ذوالقرنین حصہ اول
قسط 27

یہ حقیقت بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خورس کو جو ذوالقرنین تھا مسیح کہا گیا ہے اور مسیح موعود کو ذوالقرنین۔ ذوالقرنین کے حالات کے مشابہ حالات آخر ی زمانہ میں بھی ایک مثیل ذوالقرنین کے لئے مقدر ہیں اس لئے اس واقعہ کو قرآن کریم میں بطورپیشگوئی بیان کیا گیا ہے۔

ذوالقرنین کے متعلق قرآن کریم صرف ایک جگہ سورة الکہف کی اٹھارہ آیات میں ذکر ملتا ہے جو کہ اس سورة کی آیت نمبر 84 تا 102ہیں۔ ان آیات میں ایک صاحب الہام تاریخی شخصیت کا ذکر ہوا ہے۔ اسی طرح ذوالقرنین کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی ذوالقرنین کا لقب عطا فرمایا ہے۔ اس لئے اس موضوع کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے حصہ میں اس صاحب الہام تاریخی شخصیت کا ذکر کیا جائے گا اور دوسرے حصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذوالقرنین ہونے کا بیان کیاجائے گا ان شاء اللّٰہ۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَیَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنۡ ذِی الۡقَرۡنَیۡنِ ؕ قُلۡ سَاَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ مِّنۡہُ ذِکۡرًا ﴿ؕ۸۴﴾اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الۡاَرۡضِ وَاٰتَیۡنٰہُ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سَبَبًا ﴿ۙ۸۵﴾فَاَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۸۶﴾حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَغۡرِبَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَغۡرُبُ فِیۡ عَیۡنٍ حَمِئَۃٍ وَّوَجَدَ عِنۡدَہَا قَوۡمًا ۬ؕ قُلۡنَا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِمَّاۤ اَنۡ تُعَذِّبَ وَاِمَّاۤ اَنۡ تَتَّخِذَ فِیۡہِمۡ حُسۡنًا ﴿۸۷﴾قَالَ اَمَّا مَنۡ ظَلَمَ فَسَوۡفَ نُعَذِّبُہٗ ثُمَّ یُرَدُّ اِلٰی رَبِّہٖ فَیُعَذِّبُہٗ عَذَابًا نُّکۡرًا﴿۸۸﴾وَاَمَّا مَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآءَۨ الۡحُسۡنٰی ۚ وَسَنَقُوۡلُ لَہٗ مِنۡ اَمۡرِنَا یُسۡرًا ﴿ؕ۸۹﴾ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۹۰﴾حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ مَطۡلِعَ الشَّمۡسِ وَجَدَہَا تَطۡلُعُ عَلٰی قَوۡمٍ لَّمۡ نَجۡعَلۡ لَّہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہَا سِتۡرًا ﴿ۙ۹۱﴾کَذٰلِکَ ؕ وَقَدۡ اَحَطۡنَا بِمَا لَدَیۡہِ خُبۡرًا ﴿۹۲﴾ثُمَّ اَتۡبَعَ سَبَبًا ﴿۹۳﴾حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ بَیۡنَ السَّدَّیۡنِ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمَا قَوۡمًا ۙ لَّا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ قَوۡلًا ﴿۹۴﴾قَالُوۡا یٰذَا الۡقَرۡنَیۡنِ اِنَّ یَاۡجُوۡجَ وَمَاۡجُوۡجَ مُفۡسِدُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَہَلۡ نَجۡعَلُ لَکَ خَرۡجًا عَلٰۤی اَنۡ تَجۡعَلَ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَہُمۡ سَدًّا ﴿۹۵﴾قَالَ مَا مَکَّنِّیۡ فِیۡہِ رَبِّیۡ خَیۡرٌ فَاَعِیۡنُوۡنِیۡ بِقُوَّۃٍ اَجۡعَلۡ بَیۡنَکُمۡ وَبَیۡنَہُمۡ رَدۡمًا ﴿ۙ۹۶﴾اٰتُوۡنِیۡ زُبَرَ الۡحَدِیۡدِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا سَاوٰی بَیۡنَ الصَّدَفَیۡنِ قَالَ انۡفُخُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَعَلَہٗ نَارًا ۙ قَالَ اٰتُوۡنِیۡۤ اُفۡرِغۡ عَلَیۡہِ قِطۡرًا﴿ؕ۹۷﴾فَمَا اسۡطَاعُوۡۤا اَنۡ یَّظۡہَرُوۡہُ وَمَا اسۡتَطَاعُوۡا لَہٗ نَقۡبًا ﴿۹۸﴾قَالَ ہٰذَا رَحۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّیۡ ۚ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ رَبِّیۡ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ ۚ وَکَانَ وَعۡدُ رَبِّیۡ حَقًّا﴿ؕ۹۹﴾وَتَرَکۡنَا بَعۡضَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ یَّمُوۡجُ فِیۡ بَعۡضٍ وَّنُفِخَ فِی الصُّوۡرِ فَجَمَعۡنٰہُمۡ جَمۡعًا﴿ۙ۱۰۰﴾وَّعَرَضۡنَا جَہَنَّمَ یَوۡمَئِذٍ لِّلۡکٰفِرِیۡنَ عَرۡضَا ۣ﴿۱۰۱﴾ۙالَّذِیۡنَ کَانَتۡ اَعۡیُنُہُمۡ فِیۡ غِطَـآءٍ عَنۡ ذِکۡرِیۡ وَکَانُوۡا لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَمۡعًا ﴿۱۰۲﴾٪اَفَحَسِبَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا عِبَادِیۡ مِنۡ دُوۡنِیۡۤ اَوۡلِیَآءَ ؕ اِنَّـاۤ اَعۡتَدۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ نُزُلًا ﴿۱۰۳﴾قُلۡ ہَلۡ نُنَبِّئُکُمۡ بِالۡاَخۡسَرِیۡنَ اَعۡمَالًا ﴿۱۰۴﴾

(الکہف: 84-102)

اور وہ تجھ سے ذوالقرنین کے متعلق بھی سوال کرتے ہیں تو (انہیں) کہہ (کہ) میں ضرور اس کے متعلق کچھ ذکر تمہارے سامنے کروں گا۔ ہم نے یقیناً اسے زمین میں حکومت بخشی تھی اور ہم نے اسے ہر ایک چیز (کے حصول) کا ذریعہ عطا کیا تھا۔ تب وہ ایک راستہ پر چل پڑا۔ یہاں تک کہ وہ سورج ڈوبنے کے مقام پر پہنچا تو اس نے ایسا پایا کہ (گویا) وہ ایک گدلے چشمے میں ڈوب رہا ہے اور اس نے اس کے پاس کچھ لوگ (آباد) پائے (اس پر) ہم نے (اسے) کہا (کہ) اے ذوالقرنین! تجھے اجازت ہے کہ ان کو عذاب دے یا ان کے بارہ میں حسن سلوک سے کام لے۔ اس نے کہا (ہاں میں ایسا ہی کروں گا اور) جو ظلم کرے گا اسے تو ہم ضرور سزا دیں گے۔ پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا اور وہ اسے سخت سزا دے گا اور جو ایمان لائے گا اور نیک (اور مناسب حال) عمل کرے گا اس کے لئے (خدا کے ہاں اس کے اعمال کے بدلہ میں) اچھا انجام (مقدر) ہے اور ہم (بھی) ضرور اس کے لئے اپنے حکم سے آسانی والی بات کہیں گے۔ پھر وہ ایک راستہ پر چل پڑا۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج کے نکلنے کے مقام پر پہنچا تو اس نے اسے ایسے لوگوں پر چڑھتا پایا، جن کے لئے ہم نے (ان کے اور) اس (سورج) کے درمیان کوئی پردہ نہیں بنایا تھا۔ (یہ واقعہ ٹھیک) اسی طرح ہے اور ہم نے اس کے تمام حالات کا خوب پتا رکھا ہوا ہے۔ پھر وہ ایک راستہ پر چل پڑا۔ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا، تو اس نے ان کے ورے کچھ ایسے لوگ پائے جو بمشکل اس کی بات سمجھتے تھے۔ انہوں نے کہا (کہ) اے ذوالقرنین! یاجوج و ماجوج یقیناً اس ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں پس کیا ہم (لوگ) آپ کے لئے کچھ خراج اس شرط پر مقرر کر دیں کہ آپ ہمارے درمیان اور ان کے درمیان ایک روک بنا دیں۔ اس نے کہا (کہ) اس (قسم کے کاموں) کے متعلق میرے رب نے جو طاقت مجھے بخشی ہے وہ (دشمنوں کے سامانوں سے) بہت بہتر ہے اس لئے تم مجھے مقدور بھر مدد دو تا کہ میں تمہارے درمیان اور ان کے درمیان ایک روک بنادوں۔ تم مجھے لوہے کے ٹکڑے دو (چنانچہ وہ روک تیار ہونے لگی) یہاں تک کہ جب اس نے (پہاڑی کی) ان (دونوں) چوٹیوں کے درمیان برابری پیدا کر دی۔ تو اس نے (ان سے) کہا (کہ اب اس پر آگ) دھونکو۔ حتیٰ کہ جب اس نے اسے (بالکل) آگ (کی طرح) کر دیا تو (ان سے) کہا (کہ اب) مجھے (گلا ہوا) تانبا (لا) دو تا کہ میں (اسے) اس پر ڈال دوں۔ پس (جب وہ دیوار تیار ہو گئی تو) وہ (یعنی یاجوج ماجوج) اس پر چڑھ نہ سکے اور نہ اس میں کوئی سوراخ کرسکے۔ (اس پر) اس نے کہا (کہ) یہ (کام محض) میرے رب کے خاص احسان سے (ہوا) ہے پھر جب (عالمگیر عذاب کے متعلق) میرے رب کا وعدہ (پورا ہونے پر) آئے گا تو وہ اس (روک) کو (توڑ کر) زمین سے پیوست شدہ ایک ٹیلہ بنا دے گا اور میرے رب کا وعدہ (ضرور) پورا ہو کر رہنے والا ہے اور (جب اس کے پورا ہونے کا وقت آئے گا تو) اُس وقت ہم انہیں ایک دوسرے کے خلاف جوش سے حملہ آور ہوتے ہوئے چھوڑ دیں گے اور بگل بجایا جائے گا تب ہم ان (سب) کو اکٹھا کر دیں گے اور ہم اس دن جہنم کو کافروں کے بالکل سامنے لے آئیں گے۔ (وہ کافر) جن کی آنکھیں میرے ذکر (یعنی قرآن کریم) کی طرف سے (غفلت کے) پردہ میں تھیں اور وہ سننے کی طاقت (بھی) نہیں رکھتے تھے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’یہ ذوالقرنین کاواقعہ بھی ایساہے کہ خداتعالیٰ نے استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓ کواس کی طرف راہنمائی کرنے کافخر بخشا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مضمون پرزمانہ حال کے بعض دوسرے مصنفوں نے بھی روشنی ڈالی ہے اوراس غلط خیال کی تردید کی ہے کہ اس سے مراد سکندررومی ہے اور بعض نے ذوالقرنین کے یہ معنے کئے ہیں کہ ایک باد شاہ جس کی حکومت مشرقی اورمغربی ممالک میں پھیل گئی تھی۔ بلکہ ایک جرمن ڈاکٹر ہربیلاٹ مصنف ببلیااورنینٹل نے تویہ کہہ کر کہ اس سے مراد ایران کے ابتدائی بادشاہوں میں سے کو ئی ہے قریباً صداقت پرہاتھ جا مارا ہے۔ (ویریز کمنٹری آن قرآن) حضرت مولوی صاحب نے ذوالقرنین کے بارہ میں اپنی تحقیق کی بنیاد بائبل پررکھی ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ دانیال نبی کی ایک خواب بائبل میں لکھی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رویا میں ایک مینڈھا دیکھا جس کے دوسینگ تھے اور وہ پچھم اتردکن کی طرف سینگ مارتا تھا اور کوئی جانوراس کے سامنے نہ ٹھہر سکتا تھا اور وہ جو چاہتا تھا کرتا تھا۔ (دانیال باب 8 آیت3، 7) پھر لکھا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ وہ مینڈھا جسے تو نے دیکھا کہ اس کے دوسینگ ہیں سووہ مادہ اور فارس کے باد شاہ ہیں‘‘ (باب8 آیت20)۔ اس خواب کی بناء پر جس میں مادہ اورفارس کے بادشاہوں کودوسینگ والے مینڈھے کی شکل میں دکھایا گیاہے آپ فرماتے تھے کہ ذوالقرنین سے مراد مادہ اور فارس کا کوئی بادشاہ ہے۔ نیز آپ کایہ بھی خیال تھا کہ یہ بادشاہ کیقباد تھا۔‘‘

ذوالقرنین کا واقعہ بیان کرنے کی حکمت

سورۃ الکہف میں اسلام اور مسیحیت کے مقابلہ کا ذکر ہے خصوصاً اس حصہ کامقابلہ جو نیم سیاسی کہلا سکتا ہے یعنی ہے تو مذہبی مگر دونوں مذہبوں کی سیاسیات سے وابستہ ہے۔

سب سے پہلے اصحاب کہف کا واقعہ بیان کرکے بتایا کہ مسیحیت کی ابتداء کس طرح ہوئی اور وہ کس طرح بگڑے پھرموسیٰ علیہ السلام کے اسراء کے واقعہ کوبیان کرکے بتایا کہ اصحاب کہف کی نسلوں کی ترقی ایک حد تک جاکر رک گئی۔ کیونکہ موسیٰ کے اسراء میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ موسیٰؑ کی قوم ایک حد تک جاکر روحانی ترقی سے محروم ہوجائے گی اور اس وقت ایک اور نبی خداتعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوگا اور یہ بھی بتایا گیا تھا۔ کہ موسیٰ کی قوم سے مراد اس جگہ موسوی سلسلہ کا آخری حصہ ہے یعنی مسیحی۔ ورنہ خالص موسوی حصہ توپہلے ہی مردہ ہوچکا ہے۔ غرض اصحاب کہف کے واقعہ کے بعد اسراء موسیٰ کا واقعہ بیا ن کرکے مسیحی قوم کی پہلی ترقی کادورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ختم ہوجائےگا۔ چنانچہ بعدکے واقعات سے یہ پیشگوئی زبردست طور پر پوری ہوئی اور مومنوں کے ایمان کو اس سے بے انتہا تقویت ملی۔ کیونکہ مکی زندگی میں یہ خبر دینا کہ مسلمان عیسائیوں کو زک دیں گے ایک ایسی زبردست پیشگوئی ہے جس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ اس کے بعد ذوالقرنین کاواقعہ مسیحی قوم کے ترقی کے دوسرے دور کی خبر دینے کے لئے بیان کیا گیا ہے اگر کہا جائے کہ اس طریق کو اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی معمولی طور پر مسیحیت کی ساری ترقی کو اکٹھا بیان کر دیا جاتا۔ تو اس کا یہ جواب ہے کہ دنیاداروں کی نگاہ میں بے شک یہ معمولی بات ہے لیکن جو شخص دین کی اہمیت کو سمجھتا ہو وہ اسے کسی صورت میں جائز نہیں کہے گا۔ بلکہ قرآن کریم کے اختیار کئے ہوئے طریق کو ہی درست اور ضروری قراردے گا۔۔۔ ذوالقرنین ایک لحاظ سے یاجوج ماجوج یا دجالی فتنہ کے پیدا کرنے کا موجب ہوا۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسیحی ترقی کے اس دور کاذکر کرنے سے پہلے ذوالقرنین کا ذکر کیااور خصوصاً اس کے اس فعل کا جس کی وجہ سے یاجوج ماجوج کی ایک علیحدہ قومی اور سیاسی بنیاد پڑی۔

ذوالقرنین کا واقعہ بیان کرنے کی دوسری حکمت

ذوالقرنین کے ذکر میں ایک اور حکمت بھی ہے اور وہ یہ کہ ذوالقرنین ماوہ اورفارس کابادشاہ تھا۔ پس اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ یاجوج ماجوج کی پیدائش ایک فارسی نسل کے انسان کے ذریعہ سے ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو اس کے نیک بندے ہو ں جب ان کے کسی نیک فعل کے ثانوی ردعمل کے طور پر کوئی بدی پیدا ہو تو وہ انہی کی اولاد یاہموطن یا مثل کے ذریعہ سے اس بدی کو دور کرواتا ہے کہ اس کے نیک بندے کے نام سے ایک دورکا عیب بھی منسوب نہ ہو۔ پس ذوالقرنین کاذکر اس جگہ اس لئے کیا گیا تا اس خبر کو بطور پیشگوئی بیان کرکے ایک دوسرے ذوالقرنین کی خبر دی جاسکے جو فارسی الاصل ہوگا اور یاجوج ماجوج کامقابلہ کرکے اس کے زور کو توڑے گا اور اس طرح پہلے ذوالقرنین پر سے الزام کودور کر ے گا اور ذوالقرنین کانام اس وجہ سے پائے گا کہ اللہ تعالیٰ اسے دوقوتوں کاوارث بنائے گا۔ ایک مہدویت کی قوت اور ایک مسیحیت کی قوت۔ وہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کا وارث ہونے کی وجہ سے مہدی کہلائے گا اور حضرت مسیحؑ کی صفات کو اخذ کرنے کی وجہ سے مسیح کہلائے گا۔ جیساکہ حدیثوں میں ہے کہ ’’لَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيْسیٰ‘‘۔ پس ان دونوں قوتوں کے حاصل ہونے کے سبب اس کانا م ذوالقرنین ہو گا۔ نیز اس وجہ سے بھی کہ و ہ بعض پیشگوئیوں کے مطابق دوصدیوں کو پائے گا۔ یعنی ایک صدی کے خاتمہ پروہ خداتعالیٰ سے الہام پائے گااوردوسری صدی کے شروع ہونے پر اپناکام ختم کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھایا جائے گا۔ اسی کی طرف حدیث ابن ماجہ میں اشارہ ہے کہ ’’لَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيْسیٰ‘‘ یعنی آنے والا موعود ذوالقرنین ہوگا من جہت مہدی اورمن جہت عیسیٰ ہوگا۔

احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ یہ جو قرآن کریم میں آتاہے کہ ایک اور جماعت بھی ہو گی جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر قرآن پڑھائیں گے اس سے کیا مراد ہے۔ یعنی اگر آپ فوت ہوچکے ہو ں گے تویہ کام کس طرح کریں گے اس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسیؓ کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ’’وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ بِالثُّرَيَّا لَنَالَهٗ رِجَالٌ هٰٓؤُلَٓاءِ‘‘ (بخاری عن ابی ہریرہ) اور ابن مردویہ نے سعد ابن عبادہ سے جو روایت کی ہے۔ اس میں لکھا ہے ‘‘رِجَالٌ مِّنْ فَارِسَ’’ کہ فارسی لوگ پھر ایمان کو واپس لے آئیں گے اور بعض روایات میں ’’رَجُلٌ‘‘ کا لفظ بھی آتا ہے (بخاری) یعنی ایک خاص موعود کی طرف اشارہ کیا گیاہے۔ ان سب روایات کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص موعود شخص جو فارسی الاصل ہوگا آخری زمانہ میں ایمان کے اٹھ جانے کے بعد پھر ایمان کو واپس لائے گا اور اس کے اس کام میں بعض اور فارسی الاصل لوگ بھی اس کے مؤیدہوں گے۔

اس پیشگوئی کا یاجوج ماجوج سے تعلق

اب رہایہ سوال کہ اس کا یاجوج ماجوج کے زمانہ سے کیاتعلق ہے؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ قرآن کریم اور احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اسلام کی یہ حالت آخر ی زمانہ میں ہوگی جبکہ یاجوج ماجوج اور دجال کا ظہور ہوگا اوریہ بھی معلوم ہوتاہے کہ دونوں نام ایک ہی مذہب والوں کے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کالفظ سیاسی فتنہ پردلالت کرتاہے اور دجال کامذہبی فتنہ پر۔

پس دونوں قسم کی روایات کو ملا کریہ حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے کہ یاجوج ماجوج کے زمانہ میں جواشاعت کفر ہوگی اس کامقابلہ ایک فارسی مردکرے گا اور اس کے اس کام میں معاون بعض اور فارسی مرد بھی ہوں گے۔ پس فارسی الاصل ذوالقرنین کے فعل پر جواعتراض پڑتاتھا۔ اس کابھی اس کے تفصیلی حالات بیان کرکے ازالہ کردیا اوراس واقعہ کو قرآن کریم میں بطورپیشگوئی کے بیان کرکے یہ بھی بتادیا کہ اگر ایک ذوالقرنین نے دنیوی طور پر یاجوج ماجوج کے حملوں کی روک تھام کی تھی تو ایک اور ذوالقرنین ان کے مذہبی حملوں کی جوآئندہ زمانہ میں ہونے والے ہیں روک تھام کرے گا۔

ذوالقرنین کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓ کی تحقیق

سابق مفسرین اوریورپین محققین کا خیال ہے اور جیسا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ خلیفہ اول جماعت احمدیہ نے بیان کیا ہے۔ میرے نزدیک بھی ذوالقرنین ایرانی باد شاہوں میں سے کسی ایک باد شاہ کا نام ہے۔ حضرت مولوی صاحب رضی اللہ عنہ اس کانام کیقباد بتاتے تھے۔

بعض نے آپ کی تحقیق میں یہ فرق کردیا ہے کہ اس بادشاہ کو دارائے اول قرار دیا ہے۔ مگر میرے نزدیک ہمیں سب سے اول ان شرائط کو دیکھنا چاہیئے کہ جوقرآن کریم میں بیا ن ہوئی ہیں اورپھر اس بادشاہ کی تعیین کرنی چاہیئے۔ قرآن کریم سے معلو م ہوتاہے کہ (1) ذوالقرنین کو الہا م یا خوابیں آتی تھیں (2) وہ اپنے علاقہ سے توملک فتح کرتے ہوئے مغرب کی طرف چلا گیا جہاں ایک سیاہ چشمہ میں سورج ڈوب رہا تھا (3) اس کے بعد وہ مشرق کی طرف متوجہ ہوا اور مشرقی ممالک کو فتح کیا (4) پھر وہ ایک درمیانی علاقہ کی طرف گیا۔ جہاں سے یاجوج ماجوج حملہ کر رہے تھے اور اس نے وہاں دیوا ربنائی۔

ہمیں ذوالقرنین کی تعیین کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جوشخص ہمارے ذہن میں مُشَارٌ اِلَیْہ ذوالقرنین کہلانے کامستحق ہے اس میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں یانہیں۔ خصوصاً اس امر کو کہ وہ صاحب الہام اور خداتعالیٰ کا مقبول بھی ہے یا نہیں۔

یہ امرتوپہلے طے ہوچکا ہے کہ میدا اور فارس کے بادشاہوں میں سے ہی کوئی بادشاہ یہاں مراد ہے کیونکہ دانیال کی رویا نے ان ہی کو ذوالقرنین کا نام دیاہے ہم نے یہ دیکھناہے کہ ان میں سے کونسا بادشاہ یہ صفات اپنے اندر رکھتا ہے۔ سب سے اول اوراہم صفت الہام کی صفت ہے۔ اس بارہ میں ہم تاریخ کو دیکھتے ہیں تو فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ ہم کو ایسا ملتا ہے کہ جسے الہام ہوتا تھا اور جس کی نیکی اور تقویٰ کی تعریف ہم کو دوسرے انبیاء کے کلام سے بھی ملتی ہے اوریہ بادشاہ خورس ہے جسے انگریزی میں CYRUS لکھتے ہیں۔

یسعیاہ نبی اس بارہ میں لکھتے ہیں: ’’خداوند مسیح خورس کے حق میں یوں فرماتاہے کہ میں نے اس کا داہنا ہاتھ پکڑا کہ امتوں کو اس کے قابو میں کروں اور بادشاہوں کی کمریں کھلوا ڈالوں اور دہرائے ہوئے دروازے اس کے لئے کھول دوں اور وہ درواز ے بندنہ کئے جائیں گے میں تیرے آگے چلوں گا اور ٹیڑھی جگہوں کو سیدھا کروں گا میں پیتل کے دروازوں کے جداجداپُلوں کو ٹکڑے ٹکڑے کروں گا اور لوہے کے بینڈوں کو کاٹ ڈالوں گا اور میں گڑے ہوئے خزانے اورپوشیدہ مکانوں کے گنج تجھے دوں گاتاکہ توجانے کہ میں خداوند اسرائیل کا خدا ہوں جس نے تیرا نام لے کے بلایا ہے اور میں نے اپنے بندے یعقوب اور اپنے برگزیدے اسرائیل کے لئے تجھے تیرا نام صاف صاف لے کے بلایا۔ میں نے تجھے مہربانی سے پکاراکہ تومجھ کونہیں جانتا۔‘‘ (یسعیاہ باب 45 آیت 1 تا 4)

یسعیاہ نبی کے اس کلام سے ظاہر ہوتاہے کہ خورس نامی میدا اور فارس کابادشاہ خداتعالیٰ کی طرف سے برکت دیا گیا کیونکہ اسے مسیح کہا گیا ہے (یہ حقیقت یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خورس کو جو ذوالقرنین تھا مسیح کہا گیا ہے اور مسیح موعود کو ذوالقرنین)

پھر لکھا ہے کہ اسے حکومت اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے دی تھی۔ یہی قرآن کریم ذوالقرنین کی نسبت فرماتاہے اِنَّا مَکَّنَّا لَہٗ فِی الۡاَرۡضِ وَاٰتَیۡنٰہُ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ سَبَبًا (الكهف: 85) ہم نے اسے بادشاہت دی تھی اور ہر ضروری امرکوحاصل کرنے کے ذرائع بخشے تھے۔

اسی طرح لکھا ہے کہ میں تیرے آگے چلوں گا اور تیری ٹیڑھی جگہوں کوسیدھا کروں گا۔ جس سے اشارہ ہے کہ و ہ بہت سفر کرے گا۔ یہی قرآن کریم سے ظاہرہوتاہے۔

پھریسعیاہ کے الہام میں ہے کہ میں خداوند اسرائیل کاخداہوں جس نے تجھے نام لے کے بلایاہے۔ قرآن کریم میں بھی آتاہے قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ (الکہف: 87) ہم نے ذوالقرنین کو نام لے کر پکارا ہے۔

پھرلکھا ہے کہ گوتومجھے نہیں جانتا اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی پرستش تورات کے نامو ں سے نہیں کرتاتھا بلکہ دوسرے ناموں سے۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ زردشت نبی کاپیروتھا۔

تاریخ سے ذوالقرنین (خورس) کی بزرگی کا ثبوت

خورس کی بزرگی کاثبوت تمام تاریخوں سے ملتاہے۔ اس کے بارہ میں لکھاہے کہ اس کے دشمن بھی اس سے محبت کرتے تھے۔ بلکہ جب وہ کسی حکومت پرحملہ کرتاتواس کی نیکی اور اس کے انصاف کی وجہ سے شہر والے دروازے کھول کر اس سے جاکر مل جاتے اور اپنے بادشاہ کو چھو ڑدیتے۔ یسعیاہ نبی نے بھی اپنا الہام اس بارہ میں لکھا ہے جس کے یہ الفاظ ہیں۔ ‘‘خورس کے حق میں کہتا ہوں کہ یہ میرا چرواہا ہے وہ میری ساری مرضی پوری کرے گا۔’’ (باب 24آیت 28)

اس کی نیکی اوراس کے اخلا ق کے متعلق موٴرخین نے جوآراء ظاہر کی ہیں وہ یہ ہیں : ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ (HISTORIANS HISTORY OF THE WORLD) جلد2 صفحہ596 میں مشہور مورخ ڈینو فین کی رائے لکھی ہے کہ: ’’میں نے ایک دفعہ انسانی فطرت پرغورکیااوراس نتیجہ پرپہنچاکہ انسان کے لئے اپنی فطرت کے مطابق دوسرے جانوروں پرحکومت کرناآسان ہے، مگرانسان پرحکومت کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ میں نے غور کیا کہ کتنے ہی آقاہیں جن کے گھر میں تھوڑے یا زیادہ نوکر ہیں مگروہ اپنے نوکروں سے بھی اطاعت نہیں کرواسکتے۔ پس اس سے میرایہی خیا ل ہواکہ ایساایک بھی آدمی نہیں جو انسان پر حکومت کر سکتا ہو۔ دوسرے جانداروں پر حکومت کرنے والے کئی ہیں۔ مگریہ سوچتے سوچتے مجھے خورس بادشاہ کاخیال آیا جس نے میری رائے بدل دی اورمیں نے کہا کہ انسانوں پرحکومت کرنی مشکل نہیں۔ میں نے دیکھاکہ بعض ایسے لوگ تھے جنہوں نے خوشی سے سائرس کی ماتحتی اختیار کی۔ حالانکہ بعض ان میں ایسے تھے جواس سے دومہینے کی راہ پر بعض چار مہینے کی راہ پر تھے۔ بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے کبھی اسے دیکھاہی نہ تھا اورایسے بھی تھے جنہیں اسے دیکھنے کی توقع بھی نہ ہوسکتی تھی‘‘

پھر لکھا ہے ’’اس نے لوگوں کے دل میں ایک پرزورخواہش پیداکردی تھی کہ وہ اسے خوش رکھیں اوریہ کہ وہ ہمیشہ ان پرحکومت کرتارہے اس نے اتنی قوموں پرحکومت کی کہ ان کی تعداد کاشمار مشکل ہے مشرق سے مغرب تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی۔‘‘

پھر اسی کتاب میں موجودہ زمانہ کے مؤرخین کی رائے کا یہ خلاصہ لکھاہے۔ ’’اگر لڑائی انصاف کے لئے لڑنے بلکہ اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار رہنے کانام ہے تو وہ (یعنی خورس) بڑابادشاہ تھا۔‘‘

پھر لکھا ہے: ’’وہ محض اپنی ذات کے لئے کچھ نہ کرتاتھا۔ وہ ایساتھاکہ جب میدیا کی حکومت، بائبل کی حکومت اورمصر والوں نے اتفاق کرکے اس پرحملہ کیا توا س نے محض دفاع کی خاطر تلوار اٹھائی۔ سب سے بڑھ کریہ کہ و ہ رحم مجسم تھا۔ اس کی ڈھال پرناجائز خون کاقطرہ نہ گراتھا۔ نہ بھیانک انتقام یا ظلم سے اُس نے ہاتھ رنگے۔ اس نے مقدونیہ والے بادشاہ کی طرح کبھی شہر نہیں جلائے۔ اس نے دیگربادشاہوں کی طرح مغلوب بادشاہوں کے ہاتھ پاؤں نہیں توڑے اس نے یہودی بادشاہوں کی طرح کبھی دیواروں پر ان کو نہیں گھسیٹا نہ اس نے رومیوں کی طرح مغلوب بادشاہوں کو پھانسی دی۔ نہ اس نے یونانیوں کے پاگل خداسکندر کی طرح خونریزی کی۔ وہ بے شک ایشیائی تھا مگر وہ ایسے لوگوں میں سے تھا جواپنے زمانہ سے بہت پہلے پیداہوجاتے ہیں۔ وہ دوسرے انسانوں سے بہت نرم دل تھا۔ وہ اپنی قوم کے رواج اوردستورسے بہت آگے نکلا ہواتھا۔ انسانی عقل کی انتہائی ترقی جوآئندہ ہونے والی تھی اس پروہ قائم تھا۔ اس نے اپنی زبردست حکو مت کی بنیاد اس پر رکھی تھی کہ ملکوں کوفتح کرکے ان کے درجہ کوبڑھایاجائے اورمفتوحوں کو مساوی حقو ق دیئے جائیں۔ ٹائرکاوہ شہر جس نے نبوکدنضر اورسکندرکے آگے بڑے بڑے محاصروں کے بعد اپنے آپ کو سپرد کیا اس شہر نے اس کے جاتے ہی اپنی مرضی سے اپنے دروازے کھو ل دیئے۔‘‘

پھرلکھا ہے کہ: ’’وہ اپنے زمانہ کی پیداوارنہ تھا۔ بلکہ اس نے زمانہ کو پیدا کیا اوروہ اسکا باپ تھا۔ و ہ تاریخ انسانی میں ایک منفرد اوربے مثل بادشاہ تھا۔‘‘

(ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ جلد2 صفحہ597-600)

وہ خداتعالیٰ سے سچی خوابیں پانے کامدعی تھا

اسی کتاب میں لکھا ہے کہ و ہ ایک دفعہ ایک مہم پرجارہاتھاکہ اس نے خواب دیکھا۔ کہ دارا جو اس کارشتہ میں بھتیجا تھا۔ اس کے دوپر نکلے ہیں ایک یورپ پر پھیلاہواہے اور دوسرا ایشیا پر۔ اس نے صبح ا س کے باپ کو بلایا جو اس کے ساتھ تھااوراسے کہا تمہارالڑکامعلوم ہوتاہے میرےخلاف سازش کررہاہے۔ پھراس نے کہا کہ میں اس یقین کی وجہ بھی بتادیتاہوں اوروہ یہ کہ آج میں نے ایسا ایساخواب دیکھا ہے اورخداتعالیٰ کامیرے ساتھ اس محبت کی وجہ سے جو وہ مجھ سے رکھتاہے یہ سلوک ہے کہ ایسے تمام اہم امورجو میری ذات پرگہرااثر ڈالنے والے ہوں و ہ مجھے بتادیاکرتاہے۔

(ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ جلد2 صفحہ595)

اس خواب کی تعبیر میں گوا س نے غلطی کھا ئی اورسمجھا ہے کہ شائد دارا اس کے خلا ف کوئی ساز ش کرکررہاہے۔ لیکن جواس کی تعبیر تھی وہ اپنے وقت پرشاندار طورپر پور ی ہوئی اور و ہ اس طر ح کہ خورس کے بعد اس کابیٹابادشاہ ہوااوراسے لوگوں نے قتل کردیا۔ اس پردارانے چندشہزادوں کے ساتھ مل کر اس غاصب کوقتل کردیا اورآخر متفقہ فیصلہ سے داراکوبادشاہ بنایا گیا۔ جس نے یورپ اورایشیا کے بڑے حصے کوفتح کرکے ایرانی حکومت کو بہت بڑھادیا۔

بائبل سے بھی معلو م ہوتاہے کہ اسے الہام ہوتاتھا۔ کیونکہ بائبل میں لکھا ہے: ’’اور شاہ فارس خورس کی سلطنت کے پہلے برس میں اس خاطرکہ خداوند کاکلام جو یرمیاہ کے منہ سے نکلا تھا پورا ہوا۔ خداوند نے شاہ فارس خورس کادل اُبھارا کہ اس نے اپنی تمام مملکت میں منادی کرائی اور اسے قلمبند بھی کرکے یوں فرمایا۔ شاہ فارس خورس یوں فرماتاہے کہ خداوند آسمان کے خدانے زمین کی ساری مملکتیں مجھے بخشیں اورمجھے حکم کیا ہے کہ یروشلم کے بیچ جویہوواہ ہے اس کے لئے ایک مسکن بناؤں۔ پس اس کی ساری قوم میں سے تمہارے درمیان کون کون ہے اس کا خدااس کے ساتھ ہو اوروہ یروشلم کو جو شہریہوواہ ہے جائے اورخداوند اسرائیل کے خداکا گھربنائے جو یروشلم میں ہے‘‘۔ (عزراباب1 آیت 1 تا 3) گویا خدتعالیٰ نے اسے برگزیدہ کرکے اسے مملکتیں اورحکومتیں بخشیں پھر اسے الہام کرکے یروشلم کا مقدس گھربنانے اوریہودیوں کے قید سے رہاکرنے کاحکم دیا۔

قرآن کریم سے ذوالقرنین کی دوسری علامت

دوسری علامت قرآن کریم سے ذوالقرنین کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس کی فتوحات پہلے مغرب کی طرف شروع ہوئیں اوروہ ملک پرملک فتح کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ گیا۔ جہاں اس نے سورج کو ایک ایسے چشمہ میں ڈوبتے ہوئے دیکھا جس میں سیاہ مٹی ملی ہوئی تھی (یعنی اس کے پانی کارنگ سیاہ تھا اس سے مراد بحیرہ اسود ہے جسے انگریزی میں BLACK SEA کہتے ہیں) چنانچہ خورس کے ساتھ ایساہی معاملہ گذراہے۔ جب اسے اللہ تعالیٰ نے طاقت بخشی تومغربی ممالک کے بادشاہوں نے ایکاکرکے اس پر حملہ کردیا اوراس طرح اس کی فتوحات اپنے ملک سے باہرمغربی طرف شروع ہوئیں اور بابل، نینوا اور یونانی نوآبادیات جو ایشیائے کو چک کے شمال میں بحیرہ مامورا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ خورس نے فتح کرلیں اوراس طرح اس چشمہ تک پہنچا۔ جواس کے ملک کی مغرب کی طرف تھا اور جس کاپانی سیاہ تھا (یہ تمام علاقے تاریخ سے ثابت ہے کہ اس نے فتح کئے تھے)۔

(دیکھو ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ نیز جیؤش انسائیکلو پیڈیا جلد4 صفحہ403)

قرآن کریم سے ذوالقرنین کی تیسری علامت

تیسری علامت قرآ ن کریم نے یہ بیا ن فرمائی ہے کہ مغربی علاقوں کوفتح کرنے کے بعد ذوالقرنین نے مشرق کی طرف توجہ کی اور تاریخ سے اس امر کابھی پتہ ملتاہے کہ مغربی علاقوں کی فتح کے بعد خورس نے مشرقی ممالک کوفتح کیا اور افغانستان تک اوربخاراورثمر قند تک اس کی حکومت پھیل گئی۔

(ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ جلد2 صفحہ593)

قرآن کریم سے ذوالقرنین کی چوتھی علامت

چوتھی علامت قرآ ن کریم بتاتاہے کہ اس نے ان کے درمیا ن بعض علاقوں کی طرف توجہ کی اور وہاں ایک دیوار بنائی۔ کیونکہ یاجوج ماجوج وہاں سے حملے کرتے تھے تاریخ سے مندرجہ ذیل امور کا ثبوت ملتا ہے۔

اول۔ خورس کی جنگ یاجو ج ماجوج سے ہوئی ہے اوراس نے ان کے حملوں سے اپنی مملکت کے بعض علاقوں کو بچایا ہے۔

اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے پہلے یہ سمجھنا چاہیئے کہ یاجوج ماجوج کن قبائل کو کہتے ہیں۔ اس کے لئے بھی ہم کو بائبل سے مدد ملتی ہے بائبل میں یاجوج ماجوج کی نسبت لکھا ہے:
’’اے آدم زاد! توجوج کے مقابل جوماجوج کی سرزمین کا ہے اور روس اورمسک اورٹوبالسک کاسردارہے اپنا منہ کر اوراس کے برخلاف نبوت کر۔‘‘ (حزقیل باب38 آیت2)

اس سے معلوم ہوتاہے کہ بائبل جس نے سب سے پہلے ہمیں یاجوج ماجوج سے روشناس کرایا ہے شمالی علاقہ کے رہنے والے لوگوں کو یاجوج ماجوج کہتی ہے اور ان کامقام روس، ماسکو اور ٹوبالسک بتاتی ہے جو ساراعلاقہ شمالی ہے۔ اس کے بعد بائبل سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ان کامقابلہ فارس کاکوئی بادشاہ کرے گا کیونکہ لکھا ہے کہ وہ فارس پر قابض ہوگئے ہوئے ہیں چنانچہ لکھا ہے: ’’اور ان کے ساتھ فارس اور کوش اور فوط (ہیں)۔‘‘ (حزقیل باب38 آیت5)۔ یعنی جب یہ پیشگوئی کی گئی ہے۔ یاجوج کے ماتحت فارس کا علاقہ تھا۔

اب ہم تاریخوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ یاجوج ماجوج کی نسبت کیا رائے ظاہر کرتی ہیں۔ پرانے موٴرخوں میں سے جوزیفس کابیا ن ہے کہ یہ سیدین (SEYTHIENS) قبائل کانام ہے۔ تورات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ کیونکہ پیدائش باب 10 آیت 2 میں لکھا ہے کہ ’’یافث کے بیٹے یہ ہیں۔ جمر اور ماجوج اور مادی‘‘ جمر سِمّیرِ یَنْزْ (CIMMERIANS) کا نام ہے جو ایشیائے کوچک کے مشرقی طرف رہتے تھے اور ماد ی میدیا والوں کا نام ہے ان دونوں کے درمیان کا علاقہ میدینز ہی کاعلاقہ ہے۔ جیروم لکھتاہے کہ ماجوج کوہ قاف کے اوپر بحیرہ اخضر کے اوپر رہتے ہیں یہ بھی وہی شمالی علاقہ ہے جس میں سیدین رہتے تھے۔

(جیؤش انسائیکلو پیڈیا جلد6 صفحہ19)

اس تحقیق کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ جیساکہ بائبل نے لکھا ہے کہ یاجوج ماجوج اس زمانہ میں فارس پر قابض ہوگئے تھے۔ کیا سیدینز کے بارہ میں یہ امر ثابت ہے سوا س کے متعلق ہم تاریخ میں یہ لکھاپاتے ہیں۔ ’’تب جیسا کہ ہم لکھ آئے ہیں فارس سیدینز کے ہاتھو ں میں آگیا یادوسر ے لفظوں میں مادیوں کے بادشاہ کے ہاتھو ں میں آگیا (مادیاپر اس وقت سیدینز حکومت کررہے تھے) جس باد شاہ کاپایہء تخت اس وقت اکباتانا (ECBATANA) میں تھا جس کے ہاتھ سے فارس کو خورس اعظم نے چھڑوایا۔‘‘

(ہسٹورینز ہسٹری آف دی ورلڈ جلد2 صفحہ580)

اس واقعہ سے نہ صرف یہ معلو م ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج کاقبضہ فارس پر رہ چکاتھا بلکہ یہ بھی کہ خورس نے یاجوج ماجوج کو شکست دے کر فارس کو ان کے قبضہ سے آزاد کرایا تھا۔ ان کابار بار حملہ کرکے جنوبی اقوام کو تکلیف دینا بھی تاریخ سے ثابت ہے۔ چنانچہ ہیروڈیٹس لکھتاہے کہ سیدینز کوہ قاف اور بحیرہ اخضر کے درمیان سے درّہ دربندکے راستے شمالی ممالک کی طرف سے جنوبی ممالک پرحملہ کیاکرتے تھے۔

دوسری شق آخری علامت کی قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ذوالقرنین نے یاجوج ماجوج کے حملوں سے بچانے کے لئے ایک دیوار بنائی تھی۔

پہلے توہم دیکھتے ہیں کہ کیا اس علاقہ میں کسی دیوار کاپتہ ملتا ہے؟

اس کاجواب یہ ہے کہ ہاں عین اسی مقام پرجسے ہیروڈوٹس نے سید ینز کے حملہ کاراستہ بتایا ہے دیوار بنی ہوئی تھی۔ وہ دربند کی دیوار کے نام سے مشہورہے اور غالباً دربند اسی وجہ سے اس جگہ کانام پڑاہے کہ اس جگہ دیوار کھینچ کر سید ینزکوروکا گیا تھا۔ چنانچہ دربند کے متعلق انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں لکھا ہے کہ اس جگہ ایک دیوار تھی جواپنی تعمیر کے وقت 29فٹ اونچی تھی اوردس فٹ چوڑی تھی اس میں لوہے کے دروازے تھے اورتھوڑے تھوڑے فاصلہ پر نگرانوں کے لئے مینار بنے ہوئے تھے تاکہ وہاں سے نگرانی کرسکیں یہ پچاس میل لمبی ہے اور بحیرہ اخضر سے کوہ قاف تک چلی گئی ہے پھر انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے کہ یہ دیوار سکندر کی دیوار ہے۔ مگراسے قباد نے جوساسانی بادشاہ تھا دوبار ہ مرمت کروایا تھا۔

ان بیانات سے یہ تومعلوم ہوگیا کہ یہاں کوئی دیوار موجو د تھی۔ مگریہ کہ اس دیوار کو خورس نے بنایا تھا۔ اسکا ثبوت تاریخ سے اس وقت تک مجھے نہیں مل سکا۔ ہاں میں سمجھتاہوں کہ سکندرکااس دیوارکو بنانا بالکل خلاف عقل ہے۔ سکندر کے متعلق تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ 330قبل مسیح کی گرمی کے موسم میں اس نے دارا کو آخری شکست دی ہے اور دارا مارا گیا ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا برٹینکا جلد اول صفحہ 569) لیکن اس فتح سے اسے ایران پرقبضہ حاصل نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے مقابل پر کئی صوبوں کے لشکر ابھی موجود تھے اس لئے وہ بغیر دم لئے آگے بڑھتاگیا۔ لیکن جونہی وہ آگے بڑھا پچھلے علاقہ میں بغاوت ہوگئی اور اسے واپس آنا پڑا۔ بغاوت کوفروکرکے سکندر کابل کی طرف بڑھا جہاں اس کی فوج میں بغاوت شروع ہوگئی اور موٴرخین کے نزدیک 329قبل مسیح کی سردی کے موسم میں وہ ہندوستان کی طرف بڑھا۔ یہ سفراس قد رسرعت سے طے ہواکہ بعض مورخ اس کے متعلق شک ظاہر کرتے ہیں۔ بہرحال یہ امر ثابت ہے کہ سکندر راستہ میں کہیں ٹھہرانہیں۔ بلکہ لڑتا بھڑتا ہندوستان کی طرف چلاگیا ہے۔ جہاں سے وہ جہازوں کے راستہ واپس لوٹا اور 324قبل مسیح میں ایران پہنچا وہاں تھوڑاساعرصہ رہنے کے بعد جس میں اسے اپنی فوجوں کی بغاوت فروکرنے کی پھر ضرورت پیش آئی وہ گھرکوروانہ ہو ا اور 13؍جون 323قبل مسیح راستہ ہی میں مرگیا۔ ان حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اتنی بڑی دیوار بنانے کاہرگز موقع نہ مل سکتاتھا۔ پس معلوم ہوتاہے کہ یہ دھوکا اس امر اسے لگاہے کہ بعض مفسرین کاخیا ل تھا کہ سکند رذوالقرنین تھا۔ پس اس سے مسیحی مصنفوں نے دھوکا کھا کر اس دیوار کو سکند رکی دیوار سمجھ لیا۔

مگر صرف اتنا ثابت کرناکافی نہیں کہ سکندرنے یہ دیوار نہیں بنائی بلکہ اس سے زیادہ ایسے ثبوت کی ضرورت ہے جس سے معلوم ہوکہ یہ دیوار اگر یقینا نہیں توغالباً خورس نے بنائی تھی چونکہ تاریخ سے اس وقت تک کوئی ایساثبوت نہیں ملا جس سے قطعی طور پر ثابت ہوکہ یہ دیوا رخورس نے بنائی ہے۔ ہم قیاس سے ہی کام لے سکتے ہیں۔ چنانچہ میں نے تاریخی واقعات کی بناء پر یہ نتیجہ نکالاہے کہ یہ دیوار خورس ہی نے بنائی ہے اورمیرے دلائل یہ ہیں۔

(1)تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ دارانے جو خورس کے بیٹے کے بعد بادشاہ ہوااورجس کے متعلق خورس نے خواب دیکھی تھی کہ مشرق و مغر ب میں اس کی حکومت ہوگی۔ سیدینز کازورتوڑنے کے لئے یونان میں سے گزر کریورپ کی طرف سے جاکر سیدینز پرحملہ کیاتھا۔ اب یہ بات خلاف عقل معلوم ہوتی ہے کہ جبکہ سیدینز اس کے شمالی جانب اس کے ملک کے پاس ہی بستے تھے وہ ان پرحملہ کرنے کے لئے یورپ سے گیا ہو۔ پس اس واقعہ سے قیاس کیاجاسکتاہے کہ چونکہ خورس نے دربند کے پا س دیوار بنادی تھی اورایک بڑی فوج کو لے کر ان کے ملک پر صرف چند چھوٹے چھوٹے دروازوں سے حملہ کرنا خالی از خطرہ نہ تھا اور دیوار کوتوڑنا اوربھی پُرخطرتھا۔ پس دارانے سیدینز کازورتوڑنے کے لئے یورپ کی طرف سے جاکر حملہ کیا۔ تاکہ ایک طرف سے دیوار ان کوروک رہی ہو اوردوسری طرف سے اس کی فوجیں ان پر حملہ آور ہوجائیں۔

(2)دوسراامر جس سے اس بار ہ میں قیاس کیاجاسکتا ہے یہ ہے کہ اگر درّہ دربند میں داراسے پہلے دیوار موجودنہ تھی تودارائے اول جیسے عقل مند بادشاہ کی نسبت یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے ملک کوننگاچھوڑ کر ہزارمیل کاچکر کاٹ کر سیدینز پر حملہ کرنے کے لئے گیا تھا۔ کیونکہ اس صورت میں یہ صریح خطرہ موجود تھا کہ اس کے جانے کے بعد سیدینز بغل میں سے نکل کر اس کے ملک پرحملہ کردیتے اورنہ و ہ اپنے ملک کوہی بچاسکتا، نہ اس کاملک اس کی ضرورت پرمزید کمک بھجواسکتا۔ پس اس کااطمینان سے یورپ کی طرف سے جاکر حملہ کرنا بتاتاہے کہ دربند کی طرف سے اس سے پہلے دیوار موجود تھی اوروہ اس امر سے مطمئن تھا کہ سیدینز اس کے ملک پر دیوار کیوجہ سے اس طرف سے حملہ نہیں کرسکتے۔

میں سمجھتاہوں کہ اب میں چاروں علامتوں کو سوائے دیواروالے حصہ کے یقینی طورپر خورس کے حق میں ثابت کرچکاہوں اور دیوار والے حصہ کے متعلق بھی اس قدر ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوں کہ جہاں تک اس زمانہ کے واقعات سے (جودرحقیقت بہت کم ہم تک پہنچے ہیں ) قیاس کیاجاسکتاہے کہ خورس ہی دربند کے پاس دیوار بنانے والاتھا۔ خصوصاً جبکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یاجوج ماجوج خورس کے برسراقتدار آنے سے پہلے اس کے اپنے ملک پرقابض تھے اوران کے حملے فارس پر اوراس کی وسیع سلطنت پر برابر جاری تھے اور جبکہ ہم کو تاریخ سے یہ مزید ثبوت ملتاہے کہ دربند کی طرف سے سیدینز کے حملے خورس کے زمانہ کے بعد رک گئے تھے۔

خلاصہ یہ کہ یہ امر ایک ثابت شدہ حقیقت معلوم ہوتاہے کہ ذوالقرنین بادشاہ سے مراد قرآن کریم میں خورس بادشاہ ہی ہے۔

(باقی آئندہ منگل کو ان شاءاللہ)

(مرزا خلیل احمد بیگ۔ جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

حضرت مصلح موعودؓ کا درود پڑھنے کا طریق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 نومبر 2022