• 30 اپریل, 2024

دعا کی اہمیت

بزم ناصرات
دعا کی اہمیت

’’قصّہ ہے کہ ایک شخص تھا جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد یاد نہیں تھا کہ ہر کام سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ کر خداتعالیٰ کی مدد اور نصرت طلب کیا کرو۔ اس کی جیب میں پیسے تھے اور ان کی وجہ سے وہ اترارہا تھا۔ ایک دفعہ اسے ایک گدھا خریدنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ قریب شہر میں منڈی لگی ہوئی تھی۔ چنانچہ وہ گدھا خریدنے کے لئے گھر سے نکلا لیکن گھر سے باہر نکلتے ہوئے اس نے خدا تعالیٰ کو یاد نہ کیا۔ نہ اس نے خدا تعالیٰ سے دعا کی۔ وہ شہر کی طرف جارہا تھا کہ رستہ میں اس کا ایک دوست ملا۔ اس نے اس سے دریافت کیا۔ تم اس وقت کدھر جارہے ہو؟ اس نے کہا۔ میں منڈی سے ایک گدھا خریدنے جارہا ہوں۔ منڈی میں بہت سے گدھے ہوں گے۔ ان میں سے مَیں اپنی پسند کا ایک گدھا خریدلوں گا۔ اس دوست نے کہا۔ بھئی! تم نے یہ فقرے بڑے آرام سے کہہ دیئے ہیں لیکن خدا تعالیٰ سے دعا نہیں کی۔ تم خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں تمہاری پسند کا اوربرکت والا گدھا مہیا کردے۔ اس جاہل آدمی نے جواب دیا۔ مجھے دعا کی کیا ضرورت ہے؟ روپے میری جیب میں ہیں اور گدھا منڈی میں موجود ہے اور پھر میری مرضی بھی گدھا خریدنے کی ہے۔ سو مَیں منڈی کی طرف جارہا ہوں۔ وہاں سے میں اپنی پسند کا ایک گدھا خریدلوں گا۔ اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرنے اور بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنے یا ان شاء اللّٰہ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ بہرحال اس نے ایک بڑہانکی، کبروغرور کا مظاہرہ کیا۔ خداتعالیٰ کے مقابلہ میں ایک رنگ میں اِباء کا پہلو اختیار کیا۔ منڈیوں میں ایسے لوگوں کی تلاش میں اور ان کو سبق دینے کے لئے جیب کترے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ شخص منڈی گیا تو ایک جیب کترے نے اس کی جیب کترلی اور اس کا سارا روپیہ نکال لیا اور اُسے اس کا علم بھی نہ ہوا۔ اس نے منڈی میں گھوم پھر کر اپنی پسند کا ایک گدھا منتخب کیا۔ وہ بڑا خوش تھا کہ اسے اس کی پسند کا گدھا مل گیا ہے۔ اس نے سودا چکایا۔ گدھے کا مالک بھی اس کے ہاتھ وہ گدھا فروخت کرنے پر تیار ہوگیا۔ لیکن جب اس نے رقم نکالنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ رقم چوری ہو چکی تھی۔ اس نے اپنا سر نیچے گرایا اور بغیر گدھا خریدے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوگیا۔ رستہ میں اس کا دوست ملا تو وہ کہنے لگا۔ میاں! تم منڈی سے گدھا خریدنے گئے تھے لیکن خالی ہاتھ واپس آرہے ہو۔ کیا بات ہے؟۔ اس نے جواب دیا۔ ان شاء اللّٰہ میں منڈی سے گدھا خریدنے گیا تھا۔ ان شاء اللّٰہ ایک جیب کترے نے میری جیب کترلی۔ ان شاء اللّٰہ میری ساری رقم چوری ہوگئی۔ ان شاء اللّٰہ میں اپنی پسند کا گدھا نہیں خریدسکا۔ اس لئے ان شاء اللّٰہ مَیں بغیر گدھا خریدے اپنے گھر واپس جارہا ہوں۔‘‘

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ یہ قصہ سنا کر اس کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ایک اس واقعہ میں بتایا گیا ہے کہ اس شخص نے چونکہ کبر اور غرور کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنے اس کبر اور غرور کی وجہ سے اس نے خدا تعالیٰ سے دعا اور مدد ونصرت مانگنے کی ضرورت نہ سمجھی تھی۔ اس نے خیال کیا تھاکہ جب روپے میرے پاس ہیں اور گدھے منڈی میں موجود ہیں تو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنے، خداتعالیٰ سے دعا مانگنے اور اس کی مدد ونصرت چاہنے کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اسے ایک سبق سکھا دیا اور اگر یہ واقعہ سچا ہے تو ہوسکتا ہے کہ اس شخص کی یہ حقیر سی ناکامی اُسے آئندہ کے لئے عبودیت کے مقام پر قائم رکھنے والی ثابت ہوئی ہو۔‘‘

(مشعل راہ جلددوم صفحہ10-11)

(مرسلہ: درثمین احمد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 8 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 11)