• 27 اپریل, 2024

ایک یادگار جلسہ سیرت النبیؐ

ایک یادگار جلسہ سیرت النبیؐ
صداقت حضرت مسیح موعودؑ کا اعجازی نشان

1990ء کی بات ہے کہ خاکسار لاہور میں رہائش پذیر تھی۔ وہاں ایک اسکول میں ٹیچنگ کی پیشکش آئی جس میں خاکسار کو ایک نئے پرائمری اسکول کی بنیاد رکھنے کے لئے پرنسپل کے طور پہ مقرر کیا گیا۔ اس ادارے کے مالک کے ساتھ یہ طے پایاکہ پارٹنرشپ پہ کام کرتے ہیں محنت میری اور سب انویسٹمنٹ وہ کریں گے۔ اور جو منافع ہوگا اس میں برابر حصہ داری ہوگی۔ ابا جان چوہدری احمد حیات مرحوم کی وفات کے بعدمجھے روزگار کی اشد ضرورت تھی اور بحیثیت احمدی خاکسار محنت سے کبھی گھبرائی نہیں۔ سو خاکسار نے پیشکش قبول کی اور سب پیپر ورک، ٹیچرز کو متعین کرنا،ایڈورٹائزمنٹ، بچوں کو داخل کرنا، ان کے والدین سے بات چیت، سب کچھ خاکسار ہی کی ذمہ داری تھی۔ قارئین میں سے جو لوگ ادارہ بنانے کے مرحلے سے گزرے ہوں ان کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ کتنی محنت اور مسلسل تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ ادارے کے سر بہت شریف انسان تھے سب کچھ خاکسار پہ چھوڑا ہوا تھا۔

سو خاکسار حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کو دعا کے لئے لکھتی رہی اور کام جاری رکھا۔ دو سال کی عرق ریزی اور جانفشانی و جہد ِمسلسل سے اسکول کامیابی سے چلنا شروع ہوگیا۔ شروع کے سال تو خرچہ ہی خرچہ تھا۔نفع کوئی نہیں تھا اور خاکسار بغیر اجرت کے محنت کرتی رہی اور نیک نیتی سے اسکول کو اسٹیبلش کیا۔دوسرے سال تقریبا 500 روپے اور تیسرے سال ہمیں ماہوار سب خرچے نکال کر ہزار روپے ماہانہ ملتے رہے اور خدا کے فضل سے سب علاقے والے بہت خوش تھے کہ اچھی پڑھائی ہے۔ بچوں پہ بہت محنت کی جاتی ہے اور تھوڑے عرصے میں اسکول کی ہر کلاس میں بچوں کی تعدادمکمل ہوگئی اور اس اسکول کا شمار اچھے اسکولوں میں ہونے لگا۔ الحمد للّٰہ علی ذالک

ایک مرتبہ ایک ٹیچر جو کہ خاکسار سے پہلے سے کوشش میں تھی کہ ادارہ قائم ہو۔ مگر اس کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکی تھی۔ اس نے خاکسار اور ادارے کے سربراہ کی ایک ماہ کی تنخواہ لکھی ہوئی دیکھ لی اس ماہ ہمیں بچت میں سے 1735 روپے ہر ایک کو ملے تھے۔ جبکہ اس دور میں پرائمری کی ٹیچر اس ایریا میں تنخواہ 500روپے سے زیادہ نہ تھی۔ اس کو تو بہت غصہ آیا اور اس نے سر سے اظہار بھی کیا کہ میں تو مس منزہ سے پہلے سے محنت کر رہی ہوں اور میری تنخواہ صرف پانچ سو اور ان کی ڈیڑھ ہزار سے زیادہ۔ سر نے بتایا کہ مس منزہ ہیڈ مسٹرس کے فرائض بھی سرانجام بھی دیتی ہیں اور کلاسز کو پڑھاتی بھی ہیں۔ سارا ادارہ چلا رہی ہیں۔ اگلے سال اسکول اور ترقی کرے گا تو سب کی تنخواہیں بڑھا دی جائیں گی۔ خیر وہ ٹیچر کسی طور اس بات کو ماننے کو تیار نہ ہوئی اور اس ٹوہ میں رہنے لگی کہ وہ کسی طرح میری جگہ لے۔ ان دنوں خاکسار بحیثیت سیکریٹری تعلیم حلقے میں خدمات کی توفیق پا رہی تھی۔ ہماری صدر صاحبہ کسی کام کے سلسلے میں حلقے میں دورے کے لئے مجھے اسکول سے لینے کے لئے آگئیں۔ اب ان کے ساتھ مجھے جاتے دیکھ کر اس ٹیچر کو معلوم ہو گیا کہ یہ احمدی ہے۔صدر صاحبہ یہاں پہ کافی عرصہ سے رہائش پذیر تھیں اور علاقے والوں کو معلوم تھا جبکہ ہم تھوڑا عرصہ پہلےآئےتھے۔سو وہ فورا ً سر کے پاس گئی کہ یہ تومرزائی ہے۔ ہم بالکل ان کے ساتھ کام نہیں کر سکتے۔ ساتھ اس نے ایک دواور ٹیچرز کو ملا لیا اور بہت مخالفت کرنے لگی۔ سر کی نیت میں بھی لگتا کھوٹ آگئی تھی کیوںکہ اسکول تو اللہ کے فضل سے ترقی کی جانب رواں دواں تھا۔ انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ معاملہ بہت سنگین ہو گیا ہے۔ سب مخالفت کر رہے ہیں مجھے خود استعفیٰ دےکر چلی جائیں اور ساتھ یہ کہ آپ اس ایریا میں اپنا اسکول نہیں کھول سکتیں اس قسم کا بیان لکھ کر انہوں نے دستخط کرا لئےاور میرا استعفیٰ لے لیا۔

خاکسار بہت رنجیدہ تھی۔ اتنی محنت کے بعد صرف مذہب کو بنیاد بنا کر نکال دیا گیا۔ بہت پریشانی میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کا موقع ملا۔ پیارے آقا کو دعائیہ خط لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ ہمارا پختہ یقین ہے کہ دعائیں کبھی ضائع نہیں ہوتیں اور ہر کام میں خدا تعالیٰ کی مصلحت ہوتی ہے۔ سو کچھ ہی عرصہ میں اسی ایریا میں خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل اور خلیفہٴ وقت کی دعاؤں سے نہ صرف خاکسار کو باعزت روزگار سے نوازا بلکہ یہاں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعجازی نشان کے طور پہ ایک یادگار اور منفرد و بےمثال جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کرانے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس جلسے میں پانچ سو کے لگ بھگ غیر از جماعت احباب و خواتین و بچے شامل تھے اور اصل خصوصیت یہ تھی کہ اس جلسے کے پروگرام میں سب نعتیہ کلام، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےپاکیزہ منظوم کلام اور جماعتی شعراء کے کلام سے منتخب کیا گیا تھا اور چونکہ پروگرام خاکسار نے ہی کرایا تو ہر نعت سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاکیزہ، عشق ِرسول ِمقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز تحاریر میں سے اقتباسات پیش کئے گئے۔ یہ ایک بہت ہی ایمان افروز و یادگارجلسہ تھا۔ اس جلسے کا آنکھوں دیکھا حال قارئین الفضل کے پیش خدمت ہے:

ہوا یوں کہ اسی ایریا میں ایک اور انگلش میڈیم اسکول تھا۔جس کے بارے مشہور تھا کہ وہاں کی پرنسپل بہت اصول پسند اور سخت ہے۔ عموماً ٹیچرز کو ہفتے دو بعد چھٹی کرا دی جاتی ہے۔ وہاں پہ جاب کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کا باعث ہوتا تھا۔

خاکسار نے وہاں رابطہ کیا۔جلد ہی مجھے نوکری مل گئی اور اصول و ضوابط سمجھا دئے گئے۔خاکسار کو نویں دسوی کلاس کی کلاس ٹیچر مقرر کیا گیا۔ واقعی یہاں پہ عام اسکولز سے بڑھ کر سخت اصول تھے۔ہم احمدیوں کے تو سب کام ہی دعاؤں سے ہوتے تھے۔ اس نئے اسکول میں روز دعا کرکےجاتی کہ یا اللہ! اپنے فضل سے ٹیچر کے طور پہ جو فرائض ہیں ان کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ سو اللہ کے فضل سے چھ ماہ خیریت سے گزر گئے۔ایک ٹیچر نےتو برملا اظہار بھی کر دیا کہ ٹیچر منزہ آپ خوش قسمت ہیں کہ پرنسپل صاحبہ کی بہت کوشش کے باوجود آپ کے انداز تدریس میں یا نظم و ضبط میں کمی کو اجاگر کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہو پائیں۔

اس اسکول میں سب اصول نرالے تھے۔ چھٹی کے بعد کلاس ورک اور ہوم ورک چیک کرنا پڑتا۔اس لئے چھٹی کے بعد قریبی ہوٹل سے کھانا منگوا کر سب ٹیچرزمل کر کھالیتیں۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ یہاں پہ بھی ہماری حلقہ صدر صاحبہ اکثر اسکول کے باہر کھڑی ہوتیں تھیں۔ جونہی مجھے چھٹی ہوتی فوراً ساتھ لیتیں اور ہم جماعتی دورے پہ چلے جاتے۔ پاکستان میں اس دور میں فون کی سہولت اتنی نہیں تھی۔ سو سب جماعتی کاموں کےلیےدورے کیےجاتے۔اجلاس کی اطلاع بھی گھروں میں جاکر دی جاتی تھی۔

مزید براں یہ کہ ہم احمدی اپنی خو بو سے بہرکیف پہچانے ہی جاتے ہیں۔ الحمد للّٰہ۔ ایک روز دوپہر کو اسکول میں میری ساتھی اور میں مل کر کھانا کھا رہے تھے۔ روز کسی نہ کسی موضوع پہ دوران طعام ہلکی پھلکی گپ شپ ہوجاتی تھی۔ ایک ٹیچر نے اسلام کا موضوع چھیڑ دیا۔ کہنے لگی کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں پر دیکھو! اخبار تو بیشمار اخلاقی گراوٹ کی حرکتوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ اس معاشرے کو کسی مصلح کی ضرورت ہے دوسری بولی واقعی ٹھیک کہہ رہی ہو خاکسار نے اضافہ کرتے ہوئے کہا بات یہ ہے کہ انسان اپنے پیدا کرنے والے پروردگار کو بھول چکا ہے اسی لئے برائیاں معاشرے میں بڑھ رہی ہیں۔ ہم اسلامی تعلیمات بھولتے جا رہے ہیں۔ قرآن کریم میں تو ہے کہ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ

ہم دین سے دور ہوچکے ہیں اس لئے یہ سب ہو رہا ہے۔ پہلی ٹیچر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، سنا ہے مرزائیوں نے نیا نبی بنا لیا ہے۔ ان کے ساتھ تو کھانا بھی حرام ہے۔ اور جو ٹیچرمیرے ساتھ ایک ہی رکابی میں کھانا کھا رہی تھی۔ بولی ہاں ہاں! ان کے ساتھ کھانا حرام ہے۔ اور نوالہ لگانے کے لیےمیری رکابی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ میں نے جھٹ رکابی کھینچ لی۔ اس نے حیرت زدہ لہجے سے پوچھا کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ حرام ہے تو پھر میرے ساتھ کیوں کھا رہی ہیں؟ کہتی ہیں آپ مرزائی تو نہیں ہو سکتیں میں نے پوچھا وہ کیوں؟ کہنے لگیں اس لئے کہ آپ کا اخلاق بہت اچھا ہے اور آپ گہرا دینی علم رکھتی ہیں۔ ہم اکثر مسائل کا حل آپ ہی سے دریافت کرتے ہیں۔

ہاں ہاں! ہمارا مولوی مرزائی نہیں ہو سکتا۔ پہلی ٹیچر نے بھی اس میں اضافہ کیا۔خاکسار نے کہا بھئی میں واقعی احمدی ہوں۔ سب اسٹاف ممبرز حیرت زدہ رہ گئیں۔ اور بات آئی گئی ہو گئی۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ اس روز ایسا، خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے ہوا تھا۔ میں چونکہ وہاں نئی تھی پھونک پھونک کر دعائیں کرتی ہوئی وقت گزار رہی تھی۔ ربیع الاول کے مہینہ کی آمد آمد تھی۔ اسٹاف روم میں پھر فکر اور پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔ پچھلے سال کی طرح اب پھر پتہ نہیں کون مشکل میں گرفتار ہوگا۔ کوئی کام میڈم کو پسند تو آتا نہیں۔ ہمیشہ کہتی ہیں کہ کچھ نیا اور منفرد اور دلچسپ ہونا چاہئے۔ میلاد کے دن پچھلی مرتبہ سب بچوں اور ان کے والدین اور سب مہمانوں کے سامنے پروگرام کی منتظمہ (موڈریٹر) کی بےعزتی کردی تھی۔ ان کوکسی کا احساس نہیں۔ سب نے باری باری دل کا غبار نکالا۔ سب ڈررہے تھے کہ ان کو کہیں میلاد کرانے کی ذمہ داری نہ مل جائے۔ خیر مجھے کوئی پریشانی نہ تھی کیوںکہ میرے خیال کے مطابق میں تو نئی تھی مجھے کیا؟ یہ لوگ جانیں اور ان کا کام۔

ٹیچرز کی میٹنگ تھی سب ڈرتے دعائیں کرتے ہوۓ گئے۔ میڈم نے توقعات کے مطابق وہی کہا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور اسکول میں میلاد کی روایت بہت پرانی ہے۔ پچھلے دو سال سے جو پروگرام ہو رہا ہے، میں بالکل مطمئن نہیں ہوں۔ سب معجزے جو بیان کئے گئے پرانے تھے۔ میں چاہتی ہوں اس مرتبہ کچھ نیا ہو۔ کچھ بالکل الگ ہو۔ پروگرام ایسا ہونا چاہئے کہ سب آنے والے عش عش کر اٹھیں۔ کیا خیال ہے کون ذمہ داری لے سکتا ہے؟ پورے کمرے میں ہو کا عالم طاری تھا۔ ہر طرف خاموشی۔ کوئی نہیں چاہتا تھاکہ اس مشکل میں گرفتار ہو۔

میڈم نے سکوت توڑا۔ بھئی! کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے۔ کیا آپ میں سے کسی کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں؟

اس جملے کے بعد، میں، جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق کا دم بھرنے والی جماعت سے تھی، کیسے خاموش رہ سکتی تھی! دل نے کہا حامی بھرلینی چاہئے۔ پھر خیال آیا پندرہ سولہ اسٹاف ممبرز جان چھڑا رہے ہیں۔ کہیں میڈم مطمئن نہ ہوئیں تو کیا ہو گا۔

مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری محبت اور وفا کا تقاضا تھا کہ فورا ًمیرا ہاتھ اٹھ گیا تھا اسی اثنا میں میڈم کی آواز گونجی کہ اس مرتبہ یہ کام میں، مس منزہ کے سپرد کر رہی ہوں۔ میں، جو کہ پہلے ہی دلی طور پہ عہد کر چکی تھی۔ فوراً اثبات میں سر ہلا دیا۔

ایک آواز کونے سے بلند ہوئی۔ میڈم! آپ کو معلوم ہے مس منزہ تو (شاید بتانا چاہ رہی تھیں کہ مرزائی ہیں) میرا خیال ہے ان کو کسی مدد گار کی بھی ضرورت نہیں مجھے یقین واثق ہے کہ مس منزہ اکیلے ہی میلاد بہت اچھا کرا لیں گی۔ پر خیال رہے کہ کچھ بھی پرانا نہ ہو۔ نعتیں، معجزے سب نیا ہونا چاہئے۔

معجزے کے نام پہ چند واقعات سن سن کر رٹ گئے ہیں (غیر از جماعت لوگوں نے کچھ معجزے گھڑے ہوئے ہیں۔ان کی طرف اشارہ تھا) بس آپ کچھ ایسا کریں کہ سب حیران رہ جائیں ۔میں نے ایک لمحے کو چپ سادھی۔دل میں خدا سے التجا کی کہ خدایا! تو ہی مددگار ہے۔ افوض امری الی اللّٰہ پڑھا اور حامی بھرلی۔ میٹنگ برخواست ہوئی تو سب کی سانس میں سانس آئی۔ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ سو ہما خاکسار کے سر پہ بٹھا دی گئی اور کسی کو مددکے لئے بھی نہیں کہا گیا۔ کسی نے کہا، جان بوجھ کر آپ کو مشکل میں ڈالا گیا ہے۔

پہلے تو سات ممبرز پر مشتمل بورڈ بنایا جاتا ہے۔اب تو پورا پروگرام ہی اناؤنسمنٹ سمیت آپ کے سپرد کر دیا ہے۔ لگتا ہے آپ کو نکالنے کا بہانہ سوچا گیا ہے۔ آپ جو مرضی کر لیں کبھی میڈم خوش نہیں ہوں گی۔ وغیرہ وغیرہ

خاکسار نےدل میں پختہ عزم کر لیا تھا۔ سو مطمئن تھی۔ ہمیشہ کی طرح پہلے اپنے امام وقت کو دعائیہ خط لکھا اور پھر صدقہ نکالا اور پروگرام کی تیاری شروع کردی اور ایسے لگا جیسے

؎غیب سے فضل کے سامان ہوئے جاتے ہیں
مرحلے سارے ہی آسان ہوئے جاتے ہیں

شروع میں تو بہت گھبراہٹ تھی نظموں اور نعتوں کی طرز بھی خود ہی سکھانی تھی اور گو مجھے نظمیں سننے اور گھر میں سُر لگانے کا شوق تھا مگر آواز سُریلی نہ تھی مگر یہاں تو سب کچھ خود ہی کرنا تھا۔ خاکسار نویں کلاس کی کلاس ٹیچر تھیں۔ دسویں کو بھی سائنس کے مضامین پڑھاتی تھیں۔ انہیں کلاسوں کے طلباء طالبات کو تلاوت، حمد اور نعتوں کے لئے منتخب کیا۔ روزانہ فری پیریڈ میں تیاری ہونے لگی۔حمد سکھانی شروع کی۔ کئی اچھی آواز والے بچے لئے۔ ٹیون سکھائی مگر کوئی بھی مجھے مطمئن نہیں کر پا رہا تھا۔ تلاوت اور نعتوں کی تیاری کرائی جا چکی تھی۔پرنسپل صاحبہ حسب معمول کبھی چھپ کر اور کبھی سامنے آکر جائزہ لیتی رہیں۔ ایک دن آئیں اور یوں گویا ہوئیں۔ آپ ماشاءاللّٰہ بہت محنت سے سب تیاری کرا رہی ہیں تلاوت اور نعتیں تو بچوں نے بہت اچھی سیکھ لی ہے۔ پر حمد، جیسے آپ گا رہی ہیں، کوئی سیکھ نہیں پا رہا۔ اس لئے پلیز حمد آپ خود پروگرام میں پیش کریں۔ میں نے پس و پیش کی کہ نہیں میڈم! اناؤنسمنٹ میری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں آپ سے زیادہ بہتر کوئی نہیں پڑھ پائے گا۔آخر مجھے حامی بھرنی پڑی۔نعتیں

؎محمد پر ہماری جاں فدا ہے
کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے

؎شانِ حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے
تیرے پانے سے ہی اُس ذات کو پایا ہم نے

؎حضرتِ سید ولد آدم، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم
سب نبیوں میں افضل و اکرم، صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم

سب بفضل خدا بہت عمدگی سے تیار ہو گئیں۔

میلاد کے روز اسکول کے بہت بڑے خوبصورت دالان میں تازہ رنگ کئے ہوئے پودوں کے گملے اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو چار سو پھیلی ہوئی تھی۔ مہمانوں کے لئے خوبصورت نشستیں لگائی جا چکی تھیں۔ اگلی پانچ قطاریں مہمانان خصوصی کے لئے مختص تھیں۔ کیونکہ بچوں کے والدین میں معزز آرمی آفیسر اور اسکولوں کے پرنسپلز، ڈاکٹرز وغیرہ اور والدین کو میلادکا منفرد اور دلکش دعوت نامہ جا چکا تھا۔

آج صبح سے ہوا بہت خوشگوار چل رہی تھی۔ کل تک سب پریشان تھے کہ اس بلا کی حدت میں تو بیٹھنا مشکل ہو جائے گا۔کہیں موسم کی شدت حاضری میں کمی کا باعث نہ بن جائے۔ دوسری طرف اسکول سے کچھ دور، گھر میں میری جان پہ بنی ہوئی تھی۔ دعائیں جاری تھیں۔ نویں اور دسویں کلاس کے سب بچے تو جیسے قسم کھا بیٹھے تھے کہ وہ اس میلاد کو کامیاب کرائے بغیر دم نہ لیں گے۔ خوش قسمتی سے دسویں جماعت کا میرا شاگرد عمران خطاط تھا وہ بڑے بڑے چارٹ لے کر ہمارے گھر روز آجاتا تھا اور یوں خوبصورت انداز میں چارٹ تیار کئے جا چکے تھے۔ آخر ہفتے کا بابرکت دن آگیا۔ مہمان آنا شروع ہوئے۔ پرنسپل صاحبہ اور اسٹاف ممبرز اسکول میں داخل ہوئے تو اسکول کچھ الگ ہی روحانی منظر پیش کر رہا تھا۔ ہر کمرے کے بلیک بورڈ اور وائٹ بورڈ پہ خوبصورت خطاطی میں اشعار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح سرائی کر رہے تھے۔ ایک بہت بڑا بینر آویزاں تھا جس پہ

؎وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا
نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے

؎تو میرے دل کا نور ہے، اے جانِ آرزو
روشن تجھی سے آنکھ ہے، اے نیرِ ہدٰی

؎ہم ہوئے خیر اُمم تجھ سے ہی اے خیر رُسلؐ
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے

؎آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام
مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے

الغرض جس طرف نگاہ اٹھتی، ایک منفرد انداز لئے، مدح حسن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشتمل حسین شہ پارہ روح کو معطر کر جاتا۔ اسٹیج کو بھی روایت سے ہٹ کر کچھ الگ انداز میں موتیے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ پورا دالان مہمانوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہیں تھیں۔ کبھی ہلکی سی پھوہار بھی پڑ جاتی جیسے کہ آسمان سے رحمت برس رہی ہو۔

سب ماؤں اور استادوں نے خصوصی طور پہ میلاد کے لئے بنوائے گئے رنگ برنگے، حسین اور رزق برق لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ اسٹیج پہ ہلکے نیلے رنگ کے سادہ ڈھیلے ڈھالے برقعے میں ملبوس پروقار اور پر اعتماد انداز میں خاکسار نے تلاوت قرآن پاک سے پروگرام کا آغاز کرایا اور اس دالان میں جس میں کہ بچوں بڑوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ ایسے سناٹا چھا گیا کہ جیسے چھٹی کے بعد عمارت خالی ہو۔ تلاوت کے بعد حمد میں نے خود پیش کی۔ (میں آج تک حیران ہوں کہ اس جیسی دلکش اور مترنم آواز میں پھر کبھی حمد نہیں پڑھ سکی۔) الحمد للّٰہ

؎حمد و ثنا اسی کو جو ذات جا ودانی
ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی

حمد کا ایک ایک شعر دلوں میں اتر رہا تھا۔ کچھ آنکھیں تو آغاز میں ہی اس دل نشیں کلام کو سن کر نم ہو گئیں۔ بعد ازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ:
وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مردےتھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑگئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا۔کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس امی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔

ایسی عظیم تحریر تھی کہ ایک ایک لفظ دلوں کو چھو رہا تھا۔ اکثریت کے دل آہستہ آہستہ پگھل رہے تھے۔

اس کے بعد نعت رسول مقبول بہت مترنم آواز میں پیش کی گئی:

؏ حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم

تمام فضا درود شریف کے ورد سے گونج اٹھی۔ سب چھوٹے بڑے صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ گنگنا رہے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ اس تحریر نے تو سب کے دل ہی موہ لئے۔

وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

جوں جوں پروگرام آگے بڑھ رہا تھا خاکسار کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ پر زیر لب دعاؤں سے پورے اعتماد سے ایک سےبڑھ کے ایک نئی اور اچھوتی نعت اور ایک سے ایک بڑھ کے نثر پاروں کی صورت میں موتی سب سماعتوں کی نظر کر رہی تھی اور نثرپاروں کے الفاظ جو سب کے لئے بالکل نئے تھے جو اس محفل میں موجود حاضرین وسامعین نےنہ کبھی پڑھے نہ کبھی سنے، سیدھے دل میں اتر رہے تھے جس کے زیر اثر آنسوؤں سے چہرے اور بھی نکھر گئےتھے۔ دل کی میلیں ختم ہو رہیں تھیں۔

اب محفل میلاد اپنے نقطہ عروج پر اور اختتام کے قریب تھی۔جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سلام پیش کیا جانا تھا۔ جوکہ غیر از جماعت لوگوں میں ان کا ایک مروجہ طریق ہوتا ہے کہ سب کھڑے ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خود رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لا ئے ہیں اور یہیں پہ میرا اصل امتحان تھا۔ اس مروجہ رسم کو ختم کرنے کا عزم لئے ہوئے خاکسار نے اعلان کیا کہ اب شان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم میں سلام و درود کا تحفہ پیش کیا جائے گا۔ مگر معزز حاضرین سے عاجزانہ گزارش ہے کہ اس دوران سب اپنی نشستوں پہ بیٹھے رہیں اور زیر لب درود شریف کا ورد جاری رکھیں۔

خوبصورت اور پر سوز آواز میں پانچ طالبات نے؎

بدر گاہ ذی شان خیر الانام
بصد عجز و منت بصد احترام
یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک غلام
کہ اے شاہ کونین عالی مقام
علیک الصلوة علیک السلام

پیش کیا۔ سب حاضرین وجد میں آگئے اور علیک الصلوة علیک السلام کے ورد سے فضا کو معطر کرتے رہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ پوری محفل فرشتوں کے حصار میں ہو۔

حاضرین پہ رو حانی خزائن کی تحاریر اور جماعتی منظوم کلام نے گہرا اثرکیا۔ بڑے بڑے سخت دلوں کو موم کر دیا تھا ان میں اکثریت کی تو باقاعدہ ہچکی بند ھ چکی تھی۔ اور پرنسپل صاحبہ کی آنکھیں چھلک کر باقاعدہ ساون بھادوں کا منظر پیش کر رہیں تھیں۔

پورے مجمع سے ایک ہی قسم کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں واہ واہ سبحان اللّٰہ، سبحان اللّٰہ! اتنے پیارے کلام کا خالق ضرور بہت ہی عظیم اور عارف باللہ انسان ہے اور لگتا ہے کہ کوئی بہت ہی پہنچے ہوئے اللہ والے بزرگ کا کلام ہے۔

وہ میڈم جن کے بارے کہا جا رہا تھا کہ ان کو کبھی کوئی پروگرام پسند نہیں آتا تھا، سب سے پہلے آئیں اور خاکسار کو روتے ہوئے گلے لگا لیا کہ آج عرصہ بعد ہمارے سر فخر سے بلند ہو گئے ہیں کہ اتنی باصلاحیت اور قابل شخصیت ہمارے ادارے کا حصہ ہیں۔ اتنا کامیاب پروگرام کرانے کا سہرا اکیلے آپ کے سر ہے۔ آپ نے تو کمال کر دیا۔

مزید براں یہ کہ آپ کے لئے خوشخبری ہے کہ بہت معزز اداروں کے سربراہان نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ان میلاد کرانے والی معزز ٹیچرسے درخواست کریں کہ ہمارے ہاں بھی میلاد کرانے کے لئے وقت نکالیں۔ خاکسار نے مسکرا کر دل میں سوچا کہ امام وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء سلسلہ کے بےمثال نثری اور منظوم کلام کاسحر ہے اور یہ میرا کمال سمجھ رہے ہیں۔ میں نے بڑے احترام سے عرض کیا۔ میڈم! یہ فائل جس میں سب نثری اور منظوم کلام ہے وہ آپ کاپی کراکے ان کو دے سکتی ہیں پر میں میلاد کرانے ہرگز کہیں نہیں جاؤں گی۔ یہ میں نے رضاکارانہ طور پہ صرف اپنے ادارے کے لئے کیا ہے۔

شان قدرت الٰہی ملاحظہ فرمائیں کہ بعد ازاں اسٹاف کی ایک پوائنٹ ایجنڈے پہ خصوصی میٹنگ رکھی گئی جس میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے (ان کی زبان میں میلاد) کے کامیاب انعقاد پہ اظہار تشکر کیا گیا۔ خاکسار کو پھولوں کا گلدستہ اور تحائف دئے گئے اور سب متحیر تھے کہ میڈم فرط مسرت سے لبریز جذبات کو چھپانے میں یکسرناکام ہو چکی تھیں اور ایک بار پھر ان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔میڈم نے پوچھا کہ اکثریت کی طرف سے یہ دریافت کیا گیا ہے کہ یہ اتنے بیمثل اور منفرد روحانیت سے بھرپور اقتباسات اور لاجواب منظوم کلام جن کا حرف حرف عشق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبا ہوا ہے۔ آپ نے لیا کہاں سے ہے؟

خاکسار نے بااعتماد لہجہ میں خوشی اور فخر سے عرض کیا یہ وقت کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے لیا گیا ہے۔ ایک حیرت زدہ آواز اٹھی جو کہ پہلے جماعت کی مخالفت کرنے میں پیش پیش تھےکہنے لگے اچھا مرزا صاحب کا کلام ہے۔ مزید بولے کہ ہم نے تو کچھ اور سنا ہوا ہے لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں اگر واقعی یہ کلام مرزا صاحب کا ہے تو یہ کلام ہر گز کسی جھوٹے کا ہو ہی نہیں سکتا۔ بلکہ عارف باللہ کا کلام ہے اور حیرت انگیز طورپہ اس بات کی سب اسٹاف ممبرز نے بیک زبان توثیق کی۔ الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ علی ذالک۔ خاکسار کا دل خدا کی حمد کے ترانے گا رہا تھا اور وہ قدرت کے کرشموں پہ غور کر رہی تھی کہ اس پروگرام سے قبل پورے سٹاف پہ میرے مذہب کا عیاں ہونا میرے لئے کتنے بڑے پیمانے پہ تبلیغ کا ذریعہ بن گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ عَلیٰ ذَالِک

میرے ہونٹوں پہ بےاختیار حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی کا یہ شعر آگیا۔

؎تیری تعلیم میں کیا جادو بھرا ہے مرزا
جس سے حیوان بھی انسان ہوئے جاتے ہیں

اس جلسے کی تفصیلی رپورٹ سے اس وقت کی ضلع کی صدر صاحبہ بہت خوش ہوئیں اور مرکز ربوہ میں بہت پذیرائی ہوئی جس سے خاکسار کا دل شکر کے جذبات سے لبریز ہو گیا اور خدا کی حمد و ثناء سے بھر گیا۔ یہ سراسر اسی کا فضل تھا کہ ایک غیر از جماعت ادارے میں بھر پور تبلیغ کا موقع عطا ہوا اور سب نے برملا حضرت مسیح موعود کے کلام کو سراہا اور اس پر اثر کلام کے اعجاز سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِک

؎ اپنے مسیح کی صداقت ظاہر کرنے کے واسطے
کھول دیتا ہے حق تعالیٰ کیسے کیسے راستے

(رپورٹ: منزہ سلیم۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 نومبر 2022