• 28 اپریل, 2024

ہر شخص کے لئے موقع اور حالات کے لحاظ سے بڑا کام اور نیکی الگ ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ کسی گناہ کو بھی انسان چھوٹا نہ سمجھے۔ کیونکہ جب یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ یہ معمولی گناہ ہے تو پھر بیماری کا بیج ضائع نہیں ہوتا اور حالات کے مطابق یہ چھوٹے گناہ بھی بڑے گناہ بن جاتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے ہم سب کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو ہر چھوٹے گناہ کی بھی اور بڑے گناہ کی بھی بازپرس اور سزا رکھی ہے۔ پھر جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتے ہیں کہ آپ نے چھوٹے بڑے گناہ اور نیکی کی کس طرح تعریف اور وضاحت فرمائی ہے تو مختلف موقعوں اور مختلف لوگوں کے لئے آپ کے مختلف ارشادات ملتے ہیں۔ کہیں آپ نے یہ پوچھنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ فرمایا کہ ماں باپ کی خدمت کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ کسی شخص کو آپ بڑی نیکی کے بارے میں پوچھنے پر فرماتے ہیں کہ تہجد کی ادائیگی بہت بڑی نیکی ہے۔ کسی کے یہ پوچھنے پر کہ بڑی نیکی کیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں کہ تمہارے لئے بڑی نیکی یہ ہے کہ جہاد میں شامل ہو جاؤ۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ بڑی نیکی مختلف حالات اور مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہے۔

(ماخوذ ازخطبات محمود جلد 17صفحہ 339-340 خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍ مئی 1936ء)

جہاد کی نیکی کے بارے میں یہ بھی بتا دوں، ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ جہادنہیں کرتے۔ اُس زمانے میں جب اسلام پر ہر طرف سے تلوار سے حملے کئے جا رہے تھے تو تلوار کا جہاد ہی بہت بڑی نیکی تھا اور اُس میں بغیر کسی جائز عذر کے شامل نہ ہونے والوں کو اللہ تعالیٰ نے سزا کا مستوجب قرار دیا ہے۔ لیکن مسیح موعود کے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسیح موعود ’’یَضَعُ الْحَرب‘‘ کرے گا۔ جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم صفحہ 490 شائع کردہ قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی) کیونکہ دینِ اسلام پر حملے کے طریق بدل جائیں گے۔ اسلام پر بحیثیت دین تلوار سے حملہ نہیں کیا جائے گا اور لٹریچر، پریس، میڈیا یا جو اَور اس قسم کے مختلف ذرائع ہیں، ان کے ذریعہ سے اسلام پر حملہ ہو گا۔ اس لئے مسیح موعود اور اُس کی جماعت بھی یہی ہتھیار استعمال کرے گی جس سے اُن پر حملہ کیا جا رہا ہے اور اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ:

’’دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال‘‘

(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 77)

گویا یہ تلوار کے جہاد کی نیکی جو کسی زمانے میں اس لئے جائز بلکہ ضروری تھی کہ اسلام کو تلوار کے زور سے ختم کیا جا رہا تھا اور کوشش ہو رہی تھی لیکن اب وہ نیکی نہیں رہی بلکہ منع ہو گئی اور حرام ہو گئی، اُس وقت تک جب تک کہ تلوار نہ اُٹھائی جائے، اُس وقت تک جب تک اسلام کے خلاف اسلام مخالف طاقتیں ہتھیار نہ اُٹھائیں۔ اب جو نیکی اور جائز جہاد ہے وہ قرآنِ کریم کی تعلیم کو پھیلانے کا جہاد ہے۔ عِلم کا جہاد ہے۔ پریس، میڈیا اور لٹریچر کے ذریعہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کا جہاد ہے۔ اگر براہِ راست خود کوئی علمی جہاد میں حصہ نہیں لے رہا، اپنی کم علمی کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے، تو اشاعتِ لٹریچر اور تبلیغی سرگرمیوں کے لئے مالی قربانی کا جہاد ہے۔ لیکن یہ جہاد کرنے والا اگر اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا نہیں کر رہا اور اس طرح اُن کا خیال نہیں رکھ رہا تو اُس کے لئے بڑی نیکی یہ جہادنہیں بلکہ بڑی نیکی اُن حقوق کی ادائیگی ہے جو اُس پر فرض ہیں اور اُن کو اُن کے حق سے محروم کرنا، اُن کی تعلیم پر توجہ نہ دینا، اُس سے محروم رکھنا ایسے شخص کو پھر گناہ گار بنا دیتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باوجود جہاد کی فضیلت کے جیسا کہ مَیں نے بتایا آپ نے کسی کو بڑی نیکی ماں باپ کی خدمت بتائی ہے۔ پس ہر شخص اور ہر موقع اور حالات کے لحاظ سے بڑا کام اور نیکی الگ ہے۔

اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ غلط کاموں پر روپیہ لُٹانا ایک برائی ہے جس سے منع فرمایا گیا ہے۔ آجکل تو جوئے کی مشینیں ہیں، مختلف قسم کے جوئے کی قسمیں ہیں۔ کئی لوگ ہیں جو لاٹریوں کے بھی بڑے رسیا ہیں۔ جوئے کی مشینوں پر جاتے ہیں اور ویسے بھی جوأ کھیلتے ہیں۔ لیکن عام زندگی میں جھوٹ نہیں بولتے۔ عام آدمی کے ساتھ ظلم نہیں کرتے، قتل نہیں کرتے۔ اس لئے کہ یہ لوگ ان برائیوں کو بڑا گناہ سمجھتے ہیں لیکن جوئے اور غلط کاموں میں پیسے لٹانے اور ضائع کرنے کو یہ بُرا نہیں سمجھتے۔ تو ایسے شخص کے لئے غلط رنگ میں رقم لٹانا بڑا گناہ ہے۔ کیونکہ باقی گناہ تو وہ پہلے ہی گناہ سمجھتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 13؍دسمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مجلس خدام الاحمدیہ بنگلہ دیش کے 50 واں سالانہ نیشنل اجتماع

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2022