• 28 اپریل, 2024

فقہی کارنر

حج پر جانے کی شرائط

ایک شخص نے (حضرت مسیح موعودؑ سے) عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟

فرمایا:
یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ دس سال مدینہ میں رہے۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے۔ لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟ اچھا یہ تمام مسلمان علماء اول ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آ ویں تو سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کر کے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آ تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تا کہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ نا حق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت ﷺ پر بھی پڑتا ہے کیونکہ آ نحضرت ﷺ نے بھی صرف آ خری سال میں حج کیا تھا۔

(بدر 8؍اگست 1907ء صفحہ8)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 نومبر 2022