• 28 اپریل, 2024

وہ نمونہ جس کی توقع حضرت مسیح موعودؑ نے جماعت سے کی

یہ وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھنے کی
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت سے توقع کی ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

آپ علیہ السلام ہم سے کیا توقعات اور امید رکھتے ہیں۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہمیشہ اپنے قول اور فعل کو درست اور مطابق رکھو۔ جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگیوں میں کر کے دکھایا، ایسا ہی تم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر اپنے صدق اور وفا کے نمونے دکھاؤ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نمونہ ہمیشہ اپنے سامنے رکھو۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ248 ایڈیشن 2003ء)

پس جب ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں عجیب نمونے نظر آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے نمونے کی بات کی۔ آپ کی زندگی میں ہم صدق و وفا کے جو نمونے دیکھتے ہیں اُن میں ایک عجیب شان نظر آتی ہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ میں نبی ہوں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی سوال کے کہا کہ میں آپ کو خدا تعالیٰ کا نبی مانتا ہوں۔

(دلائل النبوۃ جلد1 صفحہ24 باب دلائل النبوۃ فی اسلام ابوبکر مطبوعہ دارالکتب بیروت 2002ء)

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے دینی ضروریات کے لئے چندے کی ضرورت ہے، مومنوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مال میں سے دینی ضروریات کے لئے مال دیں تو حضرت ابوبکر صدیق نے اپنے گھر کا سارا مال لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔

(شرح العلامۃ الزرقانی جلد4 صفحہ69 باب ثم غزوۃ تبوک مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کفار کے ظلموں کی وجہ سے اب مجھے لڑائی کا حکم ہوا ہے، اُن کا سختی سے جواب دینے کا حکم ہوا ہے، اُن کے خلاف تلوار اُٹھانے کا حکم ہوا ہے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار لے کر آ گئے کہ میں حاضر ہوں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوری طور پر صلح حدیبیہ کے موقع پر فیصلہ بدل کر اپنی اس منشاء کا اظہار کیا کہ لڑائی نہ کی جائے بلکہ صلح کی جائے تو سب بڑے بڑے صحابہ اُس وقت بے چین ہوئے، بعض کے ماتھے پر شکنیں آنے لگیں کہ یہ کیا ہونے لگا ہے مگر حضرت ابوبکر صدیق نے کہا بالکل ٹھیک ہے، صلح ہی ہونی چاہئے۔

(ماخوذ ازصحیح البخاری کتاب الجزیۃ والمواعدۃ باب منہ حدیث3182)

پس یہ وہ نمونہ ہے جس کو سامنے رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت سے توقع کی ہے۔ یہ معیار سامنے رہیں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات کو پورا کرنے کی روح قائم رہے گی۔ جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک جلسہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات اور توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو کس قدر تکلیف ہوئی اور کس قدر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

(مجموعہ اشتہارات جلد1 صفحہ360 اشتہار نمبر117)

تو طبیعت بے چین ہو جاتی ہے۔ پس آج اس زمانے میں ہم نے اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کا حصہ بننا ہے تو ہمیں آپ کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے اور اُس طاقت اور جوش کی ضرورت ہے جس کا نمونہ صحابہ نے جنگِ حُنین میں دکھایا تھا۔ کیونکہ اس جذبے کے بغیر نہ ہم لغویات سے بچ سکتے ہیں، نہ ہم دنیا کی لالچوں سے بچ سکتے ہیں نہ ہم اپنے نفس کی اصلاح کر سکتے ہیں، نہ ہم جلسوں میں شامل ہونے کی روح کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو سمجھ سکتے ہیں، نہ ہمارے اندر اسلام کی خدمت کے جذبے کی حقیقی روح پیدا ہو سکتی ہے۔

(خطبہ جمعہ 27؍دسمبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

تاریخ ساز پہلا جلسہ سالانہ لگزمبرگ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 دسمبر 2022