لجنہ اماء اللہ کا پس منظراور سو سالہ ترقیات کا سفر
1922ء۔2022ء
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں خواتین کی قربانی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا زمانہ تاریخ اسلام کا تاریک ترین زمانہ تھا۔ دنیا قرآن کو بھول چکی تھی۔ اسلام پر اس قدر زوال آچکا تھا کہ اس کی ترقی کا خیال بھی بظاہر مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے دلوں پر پورے طور پر مایوسی چھا چکی تھی۔ عیسائیت اپنے تما م ہتھیاروں سے اسلام پر حملہ آوار تھی۔ مسلمان اپنے کو مسلمان کہلاتے ہوئے شرماتا تھا۔ مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ رہ کر وہی طریق معاشرت اختیار کر لیا تھا۔ نہ عورتوں میں تعلیم تھی نہ ذمہ داری کا احساس۔ نہ حقوق حاصل کرنے کا احساس جو اسلام نے ان کو دیے تھے۔ شرک، جہالت، بزدلی، رسم پرستی، بدعات، جھاڑ پھونک، کون سے برائی تھی جو اُس زمانہ کی خواتین میں پائی نہ جاتی تھی۔ ان کے حقوق روندے جا چکے تھے۔ ایک طرح سے ان کو زندہ درگور کر دیا گیا تھا۔ لیکن خود ان کو بھی احساس نہ تھا۔
اس اندھیرے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ نور کی ایک شمع روشن ہوئی۔ آپؑ نے عورتوں کو شرک و بدعات سے منع فرمایا۔ ان کے حقوق کی طرف توجہ دلائی۔ ان کو احساس دلایا کہ ان کی بھی ذمہ داریاں ہیں۔ آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے حق کی متلاشی روحیں آپؑ کی طرف کھینچنے لگیں۔ ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں۔ خدا کے فرشتے ان کو کھینچ کھینچ کراس طرف لا رہے تھے۔ بہت سی عورتیں ایسی تھیں جن کو احمدیت کی نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کے ذریعہ نصیب ہوئی اور انہوں نے اٰمَنَّا وَ صَدَّ قْنَا کہتے ہوئے آپؑ کی بیعت کر لی۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ1-2)
لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا مختصر تعارف
اور قیام کے اغراض و مقاصد
اس سے پہلے کہ میں اس تنظیم کا تعارف یا اغراض و مقاصد بیان کروں میں اس پہلے اس لفظ کا مطلب بتانا چاہوں گی تاکہ ہم جان سکیں کہ یہ لفظ ہے کیا؟
لجنہ اماء اللہ یہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خدمتگار کنیزوں (بندیوں) کی تنظیم یا جماعت۔
(تاریخی معلومات لجنہ اماء اللہ صفحہ5)
اس تنظیم کا قیام حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر ہدایت 1922ء میں عمل میں لایا گیا۔ یہ مجلس ایک خالصۃ ً مذہبی مجلس ہے۔ اس تنظیم میں ہر سال پندرہ سال سے اوپر کی عمر کی احمدی خاتون شامل ہوتی ہے۔ ہر ایسی جماعت میں جہاں تین تک احمدی عورتیں ہوں وہاں لجنہ قائم ہو سکتی ہے۔ جہاں تین سے کم ہوں وہاں لجنہ تو قائم نہ ہو گی البتہ وہ لجنہ اماء اللہ کی ممبر بن سکتی ہیں۔ جن کا نام مرکزی لجنہ کے رجسٹر میں درج ہو گا۔ سات سے پندرہ سال کی احمدی لڑکیاں ناصرات الاحمدیہ کی ممبر ہوں گی۔
لجنہ اماء اللہ کے اغراض و مقاصد جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بیان فرمائے ان کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ:
- وہ کلمہ، نماز با ترجمہ اور قرآن کریم سیکھیں اور اپنی اپنی صلاحیت کی بناء پر ترجمہ پڑھیں اور تفسیر سیکھیں۔
- وہ اردو لکھنا پڑھنا سیکھیں تاکہ سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کر کے دوسروں پر اپنے نظریات واضح کر سکیں۔
- عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں۔
- اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے پینے، پہننے تک اپنی توجہ محدود نہ رکھو۔
- اس امر کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے۔ صبر و ہمت اور پیار سے اصلاح کی کوشش کی جائے۔
- اس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لیے جو بھی خلیفۂ وقت ہو اس کی تیار کردہ سکیم اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کاروائیاں ہوں اور اتحادِ جماعت کو بڑھانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہو۔
- بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داریوں کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بد دل اور سست بنانے کی بجائے چست، ہو شیار اور تکلیف برداشت کرنے والے بناؤ۔
- اس تنظیم میں امیر و غریب کی کوئی تفریق نہ ہو۔ بلکہ امیر اور غریب دونوں میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ان کی خدمت کے لیے تجاویز سوچی جائیں۔
- ضرورت اس امر کی ہے کہ سلسلہ کے کام سے عورتوں کو واقف رکھا جائے۔ صنعت و حرفت کی طرف غریب عورتوں کو متوجہ کیا جائے اور انہیں کام پر لگایا جائے۔ یہاں تک کہ کوئی بیوہ اور یتیم عورت ایسی نہ ہو جو خود کام کر کے روزی نہ کماتی ہو۔
- اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ بے حد دعائیں کرنے کی عادت ڈالیں۔ دعائیں کریں۔ کیونکہ سب مدد اور برکت خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔
ان ہدایات کے ساتھ سیدنا حضرت فضل عمرؓ نے 15؍دسمبر 1922ء کو لجنہ کی تنظیم کی بنیاد ڈالی۔
(لائحہ عمل صفحہ1)
لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا باقاعدہ اعلان
احمدی مستورات کی تاریخ میں 25؍دسمبر 1922ء کا دن خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لجنہ اماء اللہ جیسی عالمگیر تحریک کی بنیاد رکھی۔ 25؍دسمبر 1922ء کو جب سورج طلوع ہوا ہو گا تو کسے معلوم تھا کہ یہ تحریک ایک عظیم تحریک بن جائے گی اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچ کر اسلام اور احمدیت اور جماعت کی ترقی کا باعث ہو گی جس کے نتیجے میں احمدی عورتیں تعلیمی، ذہنی، فکری اور عملی ہر لحاظ سے ترقی کر کے دنیا کی مسلمان خواتین کی صف اول میں نظر آئیں اور اس کے نتیجہ میں ان میں قربانی کا ایک ایسا عظیم الشان جذبہ پیدا ہو جائے گا جو ایک زند ہ جماعت کی فعال خواتین کے لیے ضروری ہوتا ہے اور جس کے نتیجہ میں ان کے ذریعہ کفرستان کے مرکزوں میں خدائے واحد کا نام پوری شان و شوکت سے بلند ہو گا۔ پس 25؍دسمبر 1922ء کا دن بڑا ہی مبارک دن تھا جس دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ لجنہ اماء اللہ کی بنیاد پڑی۔
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ73)
عہد لجنہ اماء اللہ
اَشھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِ لَّا للّٰہُ وَحْدَ ہُ لَآ شَرِ یْکَ لَہُ وَ اَ شْھَدُ اَ نَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ
’’میں اقرا ر کرتی ہوں کہ اپنے مذہب اور قوم کی خاطر اپنی جان، مال،وقت اور اولاد کو قربان کرنے کے لئے تیار رہوں گی۔ نیز سچائی پر ہمیشہ قائم رہوں گی ان شاء اللّٰہ۔‘‘
لجنہ اماء اللہ کا تنظیمی ڈھانچہ
یہ بہت وسیع ہے۔ ہر قسم کی تربیت کے لیے باقاعدہ علیحدہ شعبہ قائم ہے جو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے کام سر انجام دیتا ہے۔
زیر نظر مضمون تین شعبہ جات کی وضاحت طلب کرتا ہے۔ جس میں:
- شعبہ تربیت جو نماز کی ادائیگی کے متعلق ہے۔
- خدمت قرآن کی نگرانی شعبہ تعلیم کے ذمہ ہے۔
- مالی قربانی کا ریکارڈ شعبہ مال رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ شعبہ اعتماد، اصلاح و ارشاد، تربیت نو مبائعات، خدمت خلق، تحریک جدید، وقف جدید، اشاعت، صنعت و دستکاری، صحت جسمانی، ناصرات، واقفات نو، امور طالبات اور شعبہ تجنید شامل ہیں۔ صرف مختصراً بیان کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ ان کی نگرانی کون کرتا ہے اور ان کو کیسے چلایا جاتا ہے۔
یہ مختصر سا تعارف ہے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کا۔ اسی تنظیم کی ایک ممبر ہونے کی حیثیت سے میں یہ مضمون لکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارے مقصد میں کامیاب کرے۔ آمین
حضرت مسیح موعودؑ کو عورتوں کی تربیت کی فکر
آپؓ فرماتے ہیں:
’’انسان کو چاہیے کہ عورتوں کے دل میں یہ بات جما دے کہ وہ کوئی ایسا کام جو دین کے خلاف ہو کبھی بھی پسند نہیں کر سکتا اور ساتھ ہی وہ ایسا جابر اور ستم شعار نہیں کہ اس کی کسی غلطی پر چشم پوشی نہیں کر سکتا۔‘‘
پھر فرمایا:
’’اگر تم اپنی اصلاح چاہتے ہو تو یہ لازمی امر ہے کہ گھر کی عورتوں کی اصلاح کی جائے۔‘‘
(تاریخ لجنہ حصہ اول صفحہ3)
عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’خاوندوں سے وہ تقاضے نہ کرو جو ان کی حیثیت سے باہر ہیں۔ کوشش کرو کہ تا تم معصوم اور پاک دامن ہونے کی حالت میں قبروں میں داخل ہو۔ خدا کے فرائض نماز، زکوۃ وغیرہ میں سستی مت کرو۔ اپنے خاوندوں کی دل و جان سے مطیع رہو۔ بہت سا حصہ ان کی عزت کا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ سو تم اپنی ذمہ داری کو ایسی عمدگی سے ادا کرو کہ خدا کے نزدیک صالحات، قانتات میں گنی جاؤ۔ اسراف نہ کرو اور خاوندوں کے مالوں کو بیجا طور پر خرچ نہ کرو۔ خیانت نہ کرو چوری نہ کرو۔ گلہ نہ کرو۔ ایک عورت دوسری عورت پر بہتان نہ لگائے۔
(کشتی نوح صفحہ81)
ان تمام اشادات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو عورتوں کی تربیت کی کتنی فکر تھی۔ ہر موقع پر مردوں کو نصیحت فرماتے کہ عورتوں سے حسن معاشرت سے پیش آؤ اور عورتوں کو خاوندوں کی عزت کرنے اور ان کو دل و جان سے مطیع رہنے کی نصیحت کرتے۔اُس وقت کوئی تنظیم تو قائم نہ تھی لیکن تربیت کی فکر تھی اسی لیے ہر موقع پر کچھ نہ کچھ تربیت کی باتیں ضرور بتاتے۔
خلفاء کو عورتوں کی تربیت کی فکر
خاکسار اب ان تمام خلفائے کرام کا ذکر کرنا چاہے گی جنہوں نے اس تنظیم کو قائم کیا۔ بعد میں آنے والے خلفاء مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تربیت کا اہتمام فرمایا اور موجودہ خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے لجنہ کی تربیت میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے اور کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پیارے امام کے ہر حکم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
خلافت کا قیام
26؍مئی 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں وفات ہوئی۔ 27؍مئی 1908ء کو آپؑ کی تدفین ہوئی۔ آپؑ کی نماز جنازہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ نے پڑھائی۔ آپؓ کو جماعت نے اپنا پہلا خلیفہ منتخب فرمایا۔
- خلیفۃ المسیح الاوّل حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحبؓ 1908ء تا 1914ء
- خلیفۃ المسیح الثانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ 1914ء تا 1965ء
- حضرت خلیفۃ المسیح الثالث حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ؒ 1965ء تا 1982ء
- حضرت خلیفۃ المسیح الرابع حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ 1982ء تا2003ء
- موجودہ پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
(کامیابی کی راہیں صفحہ44-58)
سب خلفاء مسیح موعود نے اپنی جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے مختلف موقع جات پر جو نصائح فرمائیں ان کا مختصر ذکر کروں گی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ اور عورتوں کی تربیت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد خدائی وعدہ کے مطابق جماعت کے مرد اور عورتیں سب نے حضرت حکیم مولوی نورالدینؓ صاحب کی بیعت کر لی اور آپ جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفۃ المسیح چنے گئے۔
آپ کو بھی حضرت مسیح موعودؑ کی طرح عورتوں کی تربیت کی فکر رہتی تھی۔ آپؓ کی کوشش تھی کہ عورتیں دین سے واقف ہوں۔ قرآن کریم سیکھیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے واقف ہوں اور ان پر عمل بھی کریں۔ چنانچہ حضورؓ عورتوں میں اکثر قرآن مجید اور حدیث کا درس دیا کرتے تھے۔ آپؓ کی آخری وصیت بھی یہی تھی کہ
’’عورتوں کا درس جاری رہے‘‘
آپؓ نے باقاعدہ یہ وصیت اپنی بیٹی سیّدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ کو لکھوا دی۔ حضرت سیّدہ امۃ الحئی بیگم صاحبہ نے یہ وصیت ایک خط میں لکھ کر حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کو بھجوا دی۔ (نوٹ اس خط کا ذکر آگے آئے گا۔)
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ17)
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی عورتوں کو نصائح
آپؓ کا 29؍دسمبر 1914ء کے جلسہ سالانہ کا خطاب جوش اسلام سے لبریز تھا۔ عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
’’عورتوں نے اپنے آپ کو خود ہی ذلیل اور کم درجہ سمجھ لیا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے تو ان کو بھی آدمی پیدا کیا تھا ……کان، دل، زبان جو علم کے حصول کے لیے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی دیے ہیں جیسے مردوں کو مگر انہوں نے خود ہی سمجھ رکھا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتیں۔ کم علم ہیں ناقص العقل ہیں۔‘‘
حضورؓ نے فرمایا:
’’یہ خیالات غلط ہیں تم اپنی اولادوں پر رحم کرو۔انہیں دین اسلام سکھاؤ کیوں کہ پہلا مدرسہ والدہ کی گود ہے۔ اپنے خاوندوں، اپنے بھائیوں، اپنے بیٹوں کو مجبور کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی کتاب سکھائیں۔ اسلام کے لئے دل میں درد پیدا کرو۔ اسلام مردہ ہے تمہارے دروازے پر تڑپ رہا ہے۔ للہ ! اس پر رحم کرو۔ احمدیت میں کامل ہو جاؤ۔تمہارے دین پر دشمنوں نے کئی اعتراض کیے ہیں۔ اس کے جوابات ذہن نشین کرو۔ کیا تم سکھ کی نیند سو ؤگی اگر کوئی تمہارا کوئی بچہ تڑپ رہا ہو۔ اسی طرح اسلام پیاس بھوکا تڑپتا ہے اس کی خبر گیری کرو!‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اول صفحہ32-33)
یہی نصیحت عورتوں کو جگانے کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو آج یہ عورت لجنہ اماء اللہ بن کر خدمت قرآن میں ہمہ تن مصروف ہے کہ کسی طرح اسلام کو زندہ جاوید کر سکے۔ اُس کی بھوک پیاس مٹا سکے۔ کسی حد تک اس اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہو رہی ہے۔
حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کی عورتوں کو نصائح
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی عجیب موقع بہم پہنچایا ہے۔ آپ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی نسلوں میں قرآن کریم کا عشق اس طرح بھر دیں کے دنیا کی کوئی لذت اور کوئی سرور انہیں اپنی طرف متوجہ نہ کرے۔وہ ساری توجہ کے ساتھ قرآن کریم کے عاشق ہو جائیں اور وہ ہر خیر اس سے حاصل کرنے والے ہوں اور وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بنیں تا قیامت تک آپ کے نام زندہ رہیں اور آنے والی نسلیں حیران ہو کر آپ کی تاریخ پڑھیں اور کہیں کہ کیسی عورتیں تھیں اس زمانہ کی جنہوں نے دنیا کے تمام لالچوں کے باوجود، دنیا کے تمام بد اثرات کے باوجود دنیا کو ٹھکرا دیا اور دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہوئے نور کو اپنے گرد اس طرح لپیٹا کہ وہ جہاں بھی رہیں اور جہاں بھی گئیں وہ اور ان کا ماحول اس نور سے منور رہا اور جگمگاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور ہم کو بھی ہمیشہ اس کی توفیق عطا کرتا رہے۔‘‘
(المصابیح۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے خطبات کا مجموعہ صفحہ31)
ایک اور موقع پر خطاب کرتے ہوئے لجنہ کے قیام کی غرض بیان کرتے ہوئے آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لجنہ اماء اللہ کا قیام اس غرض سے ہےکہ تا احمدی مستورات اور احمدی بہنیں اپنی زندگی منظم ہوکر اس طرح گزاریں کہ ان کے قدم ہمیشہ جنت کی زمین کو چومنے والے ہوں اور جہنم کی آگ اور اس کی تپش اور اس کی تکالیف کا جھونکا بھی ان تک نہ پہنچنے پائے۔‘‘
(المصابیح۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے خطبات کا مجموعہ صفحہ18)
حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی عورتوں کو ہدایات
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ’’جنت تمہاری ماؤں کے قدموں تلے ہے‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’جنت کی خوشخبری سے یہ مراد نہیں کہ لازماً ہر ماں کے پاؤں تلے جنت ہے۔ مراد یہ ہے کہ خدا توقع رکھتا ہے کہ اے مسلمان عورتو! تمہارے پاؤں تلے سے جنت پھوٹا کرے اور جہاں تمہارے قدم پڑیں وہ برکت کے قدم پڑیں اور تمہاری اولادیں اور تم سے تربیت پانے والے ایک جنت نشان معاشرے کی تربیت کریں۔ پس اس نقطہٴ نگاہ سے احمدی خواتین کو بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ بہت کچھ فکر کی ضرورت ہے اور جتنی اسلامی تعلیمات بعض عیوب سے تعلق رکھتی ہیں۔ یعنی عورت کو بعض باتیں کرنے سے روکتی ہیں اور بعض ادائیں اختیار کرنے سے منع فرماتی ہیں۔ ان کا اس حدیث کے مضمون سے بلاشبہ ایک گہرا تعلق ہے۔ وہ سب باتیں وہ ہیں جو جنت کو جہنم میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘
(لجنہ اماء اللہ سے خطاب جلسہ سالانہ قادیان 27؍دسمبر 1991ء کتابچہ صفحہ نمبر4)
حضرت خلیفة المسیح الخامس کی عورتوں کو نصیحت
حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ عبادتیں اللہ تعالیٰ کے مقام کو بلند نہیں کرتیں بلکہ عبادت کرنے والے کی خود اس کی دنیا و آخرت کو سنوارتی ہیں۔پس آپ جن کے ہاتھ میں مستقبل کی نسلوں کو سنوارنے کی ذمہ داری ہے آپ کا کام ہے کہ اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کریں۔ اپنے آپ کو ایک خدا کی عبادت کرنے والا بنائیں اور اپنے بچوں کے لئے بھی یہ نیک نمونہ قائم کرتے ہوئے ان کی بھی نگرانی کریں کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو رہا ہے۔
پھر فرمایا:
ہر عورت بھی اگر اس بات کا خیال رکھے گی کہ میں نے زمانے کے امام کے ساتھ عہد کیا ہے کہ میں نے اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور اپنی اولاد کے اندر بھی پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے اور اس کے لیے اپنی پوری کوشش صرف کر دینی ہے تو ان شاءاللّٰہ ایسی عورتیں اور ایسی بچیاں معاشرے میں ایک مقام حاصل کرنے والی ہوں گی تو پھر اللہ تعالیٰ آپ میں ہو پاک تبدیلیاں پیدا کردے گا جس سے آپ کا معاشرے میں ایسا مقام ہوگا جہاں آپ کا اور آپ کے بچوں کا نام بڑے احترام سے لیا جائے گا۔خدا تعالیٰ آپ سب کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ہماری آئندہ نسلوں کی پاکیزگی کی ضمانت ہو۔ اور ہم اس زمانے کے امام سے کئے ہوئے عہد کو ہمیشہ پورا کرنے والے ہوں۔
(الازہار لذوات الخمار جلد سوم حصہ دوم مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ آسٹریلیا صفحہ نمبر21-26)
جماعت احمدیہ کے روشن مستقبل کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیش گوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت و برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ اس دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا۔ جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس کے مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ نمبر66)
لجنہ اماء اللہ کا سو سالہ سفر قیام نماز
قیام نماز کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا
(النساء: 104)
ترجمہ: یقینا نماز مومنوں پر ایک وقت مقررہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔
(ترجمہ القرآن از حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ)
سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 46 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ
ترجمہ: یقیناً نماز بے حیائی اور ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے۔
نماز کو تمام نیکیوں سے بڑھ کر فوقیت دی گئی ہے۔ اسی لئے لجنہ اماءاللہ نے بھی اپنی تمام تر لجنات کو اس طرف خصوصی توجہ دلائی ہے۔ اسی لئے اللہ کے فضل سے اب نمازی لجنہ کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کا سہرا پیارے آقا اور پیاری عاملہ کو جاتا ہے۔
ہمارے پیارے نبیؐ نماز کے متعلق فرماتے ہیں:
إنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاۃِ
ترجمہ: نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کر دیتا ہے۔
(حدیقۃ الصالحین صفحہ194)
مَثَلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ كَمَثَلِ نَهْرٍ جَارٍ غَمْرٍ على بَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ مِنْهُ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَ مَرَّاتٍ
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:پانچ نمازوں کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کسی کے دروازے کے پاس پانی سے بھری ہوئی نہر چل رہی ہو اور وہ اس میں دن میں پانچ مرتبہ نہائے یعنی جیسے اس شخص کے بدن پر میل نہیں رہ سکتی اسی طرح پانچ نمازیں پڑھنے والے کی روح پر میل نہیں رہ سکتی۔
(حدیقۃ الصالحین صفحہ196)
ہر مسلمان کو نماز کی اہمیت اور فضیلت کو اپنے ہر کام پر ترجیح دینی چاہیے۔ یہی لجنہ اماء اللہ کی ترجیح ہے کہ سب احمدی ممبرات پنجوقتہ نماز کی پابند ہو جائیں تاکہ ان احادیث پر عمل کرنے والی بن سکیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’سو اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ22-23)
آپ علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
’’یہ کہ بلاناغہ پنج وقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روزہ ورد بنائے گا۔
(اشتہار تکمیل تبلیغ 12جنوری 1989ء)
یہی آپ کی بیعت کی شرط نمبر 3 ہے۔ ہر بیعت کرنے والے کو اس شرط پر مکمل ایمان لا کر اس پر عمل کرنا ہوگا۔
ارشادات خلفاء کرام
• حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ قیام نماز کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’اللہ پر ایمان لانا آخرت پر ایمان لانے کے لیے ضروری ہے۔ پھر اس ایمان کا اثر اعمال پر یوں پڑتا ہے کہ ایسے مومن اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہیں ضائع نہیں ہونے دیتے۔ پس یاد رکھو کہ جو شخص لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا دعوی کرے اور بایں نماز کا تارک ہو۔اور قرآن کریم کی اتباع میں سستی کرے وہ اپنے اس لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے دعوے میں سچا نہیں۔‘‘
(مرقات الیقین فی حیات نورالدین صفحہ44-45)
• حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ قیام نماز کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’تربیت میں سب سے پہلی چیز نماز ہے اور دوسرا ان کو دین سے واقف کرنا ہے۔اس لئے ہر شخص اس بات کو اپنے فرائض میں داخل کر لے کہ اولاد کو نماز کی تعلیم دینی ہے۔ بلکہ بچوں کو نماز میں ساتھ لائے۔
(خطبات محمود جلد13 صفحہ644)
• حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ قیام نماز کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’عورتوں کے دل یاد الٰہی سے معمور رہتے ہیں اور وہ معرفت کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہیں۔ ہر بات میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتی ہیں۔ذکر الٰہی فرض کے طور پر بھی ہے اور نفل کے طور پر بھی۔ نماز اس کے اندر ہی آ جاتی ہے۔ یعنی وہ جو نمازوں کو پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنے والی ہیں اور اس کے علاوہ بھی ہر وقت اپنے رب کو یاد کرنے والی ہیں اور اللہ کی رحمت اور فضل سے وہ ان فیوض کو حاصل کرنے والی ہیں کہ جب وہ فیوض کسی انسان کو مل جاتے ہیں تو اس کے متعلق جائز طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے اپنے رب سے اجر عظیم کو پا لیا۔
(المصابیح صفحہ49-50)
• حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ قیام نماز کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’اسماعیل کی ایک بہت پیاری عادت یہ تھی کہ وہ اپنے اہل کو نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی تعلیم دیا کرتا تھا اور خدا کو بہت پیارا لگتا تھا۔
کَانَ عِنۡدَ رَبِّہٖ مَرۡضِیًّا اس کی یہ ادائیں اللہ کو بہت پسند تھیں کہ وہ ہمیشہ باقاعدگی کے ساتھ اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دیتا تھا۔ اس میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ نمازوں کا قیام اور ان کا استحکام گھروں سے شروع ہوتا ہے۔‘‘
(خطبات طاہر جلد اول صفحہ284-285)
• حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قیام نماز کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یہ بھی میرے نزدیک انتہائی اہم باتوں میں سے ایک بلکہ سب سے اہم بات ہے کہ بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں۔کیونکہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین نہیں۔ اس کی عادت بھی بچوں کو ڈالنی چاہیے اور اس کے لیے سب سے بڑا والدین کا اپنا نمونہ ہے۔ اگر خود وہ نمازی ہوں گے تو بچے بھی نمازی بنیں گے۔ نہیں تو صرف ان کی کھوکھلی نصیحتوں کا بچوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔‘‘
(خطبات مسرور جلد اول صفحہ144)
الغرض بات یہاں مکمل ہوتی ہے کہ لجنہ اماء اللہ نے ان سب نصائح کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔ ہر ایک بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا لائحہ عمل بناتی ہیں اور پھر ان پر عمل کی بھی پوری کوشش کی جاتی ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں بہترین سے بہترین تیار ہوں۔
دیہاتی مجالس کے لائحہ عمل کے تحت نماز سادہ ہر ممبر کو یاد ہونی چاہئے۔ اس طرف خصوصی توجہ دیں۔ کوشش کریں کہ سال کے اندر اندر ممبرات کو نماز مکمل یاد ہو جائے۔
نماز با ترجمہ:حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہر احمدی خاتون اور بچی کو نماز باترجمہ آنی چاہیے۔اس طرف توجہ دیں۔سوفیصد ممبران کو نماز کا ترجمہ سکھائیں خواہ ان کی مقامی زبان میں ہو۔
1922ء لجنہ اماء اللہ کے قیام کا سال
25؍دسمبر 1922ء کا دن مستورات کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس دن لجنہ اماء اللہ جیسی عالمگیر تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔ تاکہ احمدی عورتیں تعلیمی، ذہنی، فکری اور عملی ہر لحاظ سے ترقی کرکے دنیا کی مسلمان خواتین کی صف اوّل میں نظر آئیں گی اور اس کے نتیجہ میں ان میں قربانی کا ایک ایسا عظیم الشان جذبہ پیدا ہو جائے گا جو ایک زندہ جماعت کی فعال خواتین کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
اس سال میں لجنہ کی سب سے پہلی قربانی چندہ مسجد برلن کے لیے تھی۔ چندہ بہت سی لجنہ نے دیا لیکن ایک پٹھان عورت کا واقعہ سننے والا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’ایک پٹھان عورت جو نہایت مسکین ہے اور جو اپنے ملک کے بھیڑیوں کی سی طبیعت رکھنے والے مولویوں کے مظالم سے تنگ آکر قادیان ہجرت کر کے آئی ہے اور جو بوجہ ضعف کے سوٹا لے کر چلتی ہے۔ اس نے دو روپیہ چندہ دیا۔ ایک اور پٹھان عورت جو نہایت ضعیف ہے اور چلتے وقت بالکل پاس قدم رکھ کر چلتی ہے۔میرے پاس آئی اور اس نے دو روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیے …..اس کی زبان پشتو ہے اور اردو کے چند الفاظ ہی بول سکتی ہے۔ اپنی ٹوٹی ہوئی زبان میں اپنے ایک ایک کپڑے کو ہاتھ لگا کر کہنا شروع کیا کہ یہ دوپٹہ دفتر کا ہے۔ یہ پاجامہ دفتر کا ہے۔ یہ جوتی دفتر کا ہے۔ میرا قرآن بھی دفتر کا ہے۔ یعنی میرے پاس کچھ نہیں میری ہر ایک چیز مجھے بیت المال سے ملی ہے…… پھر فرمایا: خدایا! تیرا یہ مسیح کس شان کا تھا، جس نے ان پٹھانوں کی جو دوسروں کا مال لوٹ لیا کرتے تھے۔ اس طرح کا یا پلٹی کہ وہ تیرے دین کے لئے اپنے ملک اور اپنے عزیز اور مال قربان کر دینے کو ایک نعمت سمجھتے ہیں۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ73-99)
مسجد برلن کے لیے
چندہ دینے والی لجنات کی فہرست
- حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔پانچ سو روپے
- حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ۔1000 روپے
- سیدہ نواب امة الحفیظ بیگم صاحبہ۔300 روپے
- بیگم صاحبہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب۔300روپے
- اہلیہ صاحبہ مرزا سلطان احمد صاحب۔100 روپے
- اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر فضل دین صاحب۔200 روپے
- اہلیہ صاحبہ شیخ رحمت اللہ صاحب اور سنز۔200 روپے
- اہلیہ صاحبہ و دختران شیخ یعقوب علی عرفانیؓ ۔250 روپے
- اہلیہ صاحبہ قاضی امیر حسین صاحب۔100 روپے
- اہلیہ صاحبہ ملک محمد حسین صاحب بٹ۔100 روپے
- حامدہ دختر پیر منظور محمد صاحبؓ ۔105 روپے
- اہلیہ صاحبہ میر محمد اسحاق صاحبؓ ۔50 روپے
- اہلیہ صاحبہ مولوی غلام احمد صاحبؓ ۔50 روپے
- حضرت سیّدہ امّ ناصر صاحبہ۔200 روپے
- حضرت سیّدہ امۃ الحئی صاحبہؓ ۔100 روپے
- حضرت سیّدہ اُم طاہر احمد صاحبہؓ ۔ طلائی گلوبند جو 136 روپے کا تھا14+ =50 روپے
- دختران حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ۔150 روپے
- اہلیہ صاحبہ کپتان عبد الکریم صاحب۔1000 روپے کا زیور اور کپڑے۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ99-100)
یہ صرف قادیان کی لجنہ کی فہرست ہے۔
بیرونی مجالس سے مسجد برلن کے لئے مالی قربانی
قادیان سے باہر مستورات کو تحریک کی گئی تو بے مثال قربانیاں دینے والی سامنے آئیں، جن میں اہلیہ صاحبہ چوہدری حاکم علی صاحب نے 100روپے چندہ دیا۔ اہلیہ محمد عامل بھاگلپوری کی بیوی دو بکریاں لے کر آ گئی کہ ہمارے پاس اور کچھ نہیں یہی چندہ میں لے لو۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ100-101)
ڈاکٹر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی ایڈیٹر روزنامہ اتفاق خود تحریر فرماتے ہیں:
’’جمعہ کی نماز جماعت دہلی خاکسار کے دفتر میں پڑھتی ہےجو لبِ سڑک واقع ہے۔گزشتہ جمعہ کو حضرت اقدس کا خطبہ جو الفضل میں چھپا ہوا تھا سنایا۔ یہاں سوائے میری اہلیہ کے باقی تمام مرد تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ بعد نماز بیگم سے کہوں گا کہ مسجد کے لیے آپ اپنی پازیب دے دیں کہ اتنے میں دروازہ کی کھٹ کھٹاہٹ میرے کان میں آئی اور میں گھر گیا جہاں وہ مصّلے پر بیٹھی ہوئی خطبہ سن رہی تھیں اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ کچھ بات نہیں کی اور اپنے گلے سے پنج لڑا طلائی ہار جو غالباً تین سو روپے کا تھا مجھے دیا۔میں نے اسی وقت خطیب صاحب کو دے دیا۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ نمبر104)
مزید لجنہ جو مالی قربانی کرنے والی تھیں ان کا مختصر ذکر کرتی ہوں۔
- اہلیہ صاحبہ جنرل اوصاف علی خان صاحب 200 کا زیور دیا۔
- اہلیہ صاحبہ سردار لیفٹیننٹ بہادر محمد ایوب خان پینشنر مراد آبادی 108 روپے۔
- بیگم صاحبہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب 300روپے
- اہلیہ صاحبہ بابونصر اللہ صاحب نوشہرہ اور میاں کمال الدین صاحب کی بہنوں نے 108 روپے۔
- چوہدری محمد حسین صاحب سیالکوٹ کے گھر کی خواتین نے اپنا تمام زیور جو غالباً دو ہزار روپے کا تھا۔
- اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر محمد عظیم اللہ صاحب نے زیورات دیے 500 روپے۔
- اہلیہ خان بہادر محمد علی خان صاحب 15 سو روپے۔
- مستورات لاہور نے 1800 روپے۔
- صاحبزادی سیٹھ ابراہیم صاحب نے اپنے تمام زیورات 1000 روپے۔
- بیوی،بیٹی اور بہو میاں عبداللہ صاحب سنوری نقد اور زیور 200 روپے۔
- اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر اعظم علی صاحب 500روپے۔
- اہلیہ صاحبہ خان بہادر خان صاحب نون 500روپے
- ڈاکٹر کرم الٰہی صاحب امیر جماعت امرتسر کے خاندان کی عورتوں نے 350روپے۔
- میاں محمد دین صاحب کی اہلیہ اور بیٹیوں نے سو روپے سے زائد۔
- لاہور کی لجنہ نے مزید چندہ دیا 900 جو کل 2700 ہوگیا۔
- سیالکوٹ کی جماعت نے زیورات اور رقم دی دو ہزار پانچ سو روپے۔
اسی طرح بہت سی لجنات نے اس مالی قربانی میں حصہ لیا جن کی تعداد 5؍مارچ 1923ء کے الفضل میں 396درج کی ہے۔
اس مالی قربانی نے 1923ء میں 25 مستورات کو داخل سلسلہ ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔انہوں نے مسجد برلن کی اہمیت سمجھ کر چندہ پیش کیا لیکن انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ یہ چندہ صرف احمدی خواتین کے سوا کسی اور دوسرے سے نہیں لیا جاتا تو انہوں نے احمدیت کے اخلاص کی روح کو محسوس و مشہود کیا اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ نمبر105-109)
مسجد برلن کی مالی تحریک کے ثمرات
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے 9؍مارچ 1923ء کے خطبہ جمعہ میں مسجد برلن کی مالی تحریک کے ثمرات بیان فرمائے۔
’’وہ فضل جو مسجد برلن کی تحریک کے ذریعہ خدا کی طرف سے ہوا۔اس کے ذریعہ 9 اور آدمیوں نے بیعت کی ہے۔ یہ ایک گھر کا گھر ہے جو احمدی ہوا ہے۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ109)
15؍مارچ 1923ء کی الفضل میں خبر شائع ہوئی کہ 135 نئے افراد داخل سلسلہ ہو چکے ہیں اور چندہ نقدی اور زیورات کی صورت میں 32ہزار روپیہ جمع ہو چکا ہے۔
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ109)
حضرت عرفانی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’برلن مسجد کی تحریک ایسی بابرکت ہوئی ہے کہ اس نے احمدی خواتین کی مخفی ایمانی قوتوں کو نمایاں کر دیا ہے اور اُن میں خدمت دین اور اشاعت سلسلہ کا ایسا جوش پایا جاتا ہے کہ مردوں میں بھی اس کی نظیر کم ملے گی۔‘‘
(تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ110)
(باقی آئندہ کل ان شاء اللّٰہ)