• 29 اپریل, 2024

مختصر تاریخ لجنہ اماء اللہ آسٹریلیا (قسط دوم آخری)

مختصر تاریخ لجنہ اماء اللہ آسٹریلیا
آسٹریلیا میں جماعتِ احمدیہ کا قیام
قسط دوم آخری

امة الاعلیٰ زہرہ

جب ہم پانچ سال پہلے ایک نئے گھر میں منتقل ہوئے تو ہمارے مالی حالات اتنے اچھے نہیں تھے اور یہاں تک کہ گھر کا کرایہ بھی ہمارے لیے کافی بڑی رقم تھی اور میرے پاس صرف اتنی ہی رقم تھی جسے میں گھر کی ضروریات کی خریداری میں بمشکل استعمال کر سکتی تھی۔ تاہم چندہ کے لیے مالی سال ختم ہونے کے فوراً بعد میں نے اللہ تعالیٰ پر اپنا بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے واجبات ادا کر دیے اور دعا کی کہ ہمیں کسی سے مدد مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور اللہ میری مشکلات کو آسان فرمائے اور میری ضرورتوں کے ذرائع مہیا فرمائے۔ اس شام میرے شوہر میرے لیے کچھ پیسے لے کر آئے۔ جب میں نے پوچھا کہ ان کے پاس پیسے کہاں سے آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ رقم ہے جو میرے باس نے مجھے بونس کے طور پر دی تھی اور جو صرف مجھے ملی ہے اور وہ رقم چندہ سے دگنی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا سراسر فضل اور ہماری چندہ اداکرنے کی برکت تھی۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور عقیدت مندوں کو کبھی بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔ الحمدللّٰہ

بلیک ٹاؤن سڈنی منیبہ رحمان

شادی کے 6 سال بعد تک میرے اولاد نہیں تھی۔ پھر ایک دن ایک خطبہ میں سنا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ وقف جدید اور تحریک جدید کے لیے کی جانے والی مالی قربانیوں کے بدلے میں بے شمار برکتیں نازل فرماتا ہے۔ دل کی خواہشات اور اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے بچوں کے تصوراتی نام سے چندہ دینا شروع کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیک وقت ایک نہیں بلکہ دونعمتیں عطا فرمائیں۔ دوسرے لفظوں میں اللہ نے مجھے جڑواں بیٹوں سے نوازا۔ الحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ

(رپورٹ سے ماخوذ)

پچھلے سالوں میں ہم تحریک جدید اور وقف جدید کی کم رقم ادا کرتے تھے۔ اس سال اگرچہ میں شروع میں کام نہیں کر رہی تھی، میں نے اپنے شوہر سے اس پر بات کی اور زیادہ چندہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ہم نے اپنے خاندان کی طرف سے 4000$ دینے کا وعدہ کر دیا۔ (میرے شوہر، خود اور 4 بیٹیاں)۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑی رقم تھی، اور ہم اپنے اس وقت کے مالی حالات کے پیش نظر اتنی رقم عطیہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ اچانک، مجھے میری موجودہ کمپنی نے اگست 2021ء میں خصوصی طور پر گھر سے کام کرنے کی پیشکش کی تھی۔ یہ لچک ایک بہت بڑی نعمت تھی کیونکہ میرا چھوٹا بچہ صرف 3 ماہ کا تھا۔ الحمدللّٰہ، 1 سال 2 ماہ ہو گئے ہیں اور میں کبھی اپنے دفتر نہیں گئی اور اپنے گھر سے کام کرتی ہوں۔

(رپورٹ سے ماخوذ)

رمضان المبارک 2022ء کے دوران، سیکرٹری تحریک جدید اور وقف جدید نے لوگوں کو یاد دلایا کہ جو لوگ رمضان میں چندہ ادا کرتے ہیں ان کے نام خصوصی دعاؤں کے لیے حضور انور کی خدمت میں بھیجے جائیں گے۔ ہم ہمیشہ چندہ سال کے آخر میں ادا کیا کرتے تھےاور کبھی رمضان میں نہیں دے سکے لیکن اس سال میں نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا کہ ہم رمضان کے دوران اپنی اس بچت سےچندہ ادا کریں گے، جو گھر خریدنے کے لئے کی جارہی تھی۔انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا اور ہم نے رمضان کے دوران اپنے تمام واجبات ادا کر دیے۔ اسی ہفتے کے اندر ایک پارسل ہمارے گھر پہ ڈیلیور ہوا۔ سب سے پہلے، ہم نے سوچا کہ یہ میری کمپنی کی طرف سے ہے کیونکہ اس پر بھیجنے والوں کا نام نہیں تھا۔ ہم نے اسے کھولا اور دیکھا کہ اس میں بہت خوبصورت سرخ گلاب، کستوری کے ذائقے والی موم بتیاں، کچھ چاکلیٹ اور پھولوں کا گلدستہ تھا۔ ہم حیران تھے کیونکہ ہمیں اس طرح کی کسی چیز کی توقع نہیں تھی۔ اس میں ایک کارڈ تھا جس پر گریس نامی کو سالگرہ کے لیے مخاطب کیا گیا تھا۔ میں نے پھول فروش کو فون کیا جس نے مجھے بتایا کہ ہمارا پتہ وہی ہے جو بھیجنے والے نے دیا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ غلطی ہوسکتی ہے، لہٰذا انہوں نے مجھے اگلے دن کی شام تک انتظار کرنے کو کہا۔ دریں اثنا، وہ بھیجنے والے سے رابطہ کریں گے اور اسے بتائیں گے کہ اسے غلط ایڈریس پر پہنچایا گیا ہے اور اگر وہ چاہے تو اسے واپس لے جا سکتا ہے میں نے اپنے پڑوسی سے یہ بھی پوچھا کہ کیا ہم سے پہلے ہمارے پتے پر کوئی ’’گریس‘‘ رہتی تھی اس نے کہانہیں۔ ہم نے اگلے دن کی شام تک انتظار کیا اور پھول والے کودوبارہ کال کی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ نہ بھیجنے والے اور نہ ہی تحفہ وصول کرنے ولے نے اس سے واپس رابطہ کیا۔ گل فروش نے کہا کہ پھولوں سے لطف اٹھائیں۔ میرے شوہر نے مجھے ہنستے ہوئے کہا کہ اللہ نے ہمیں وہ پھول اس لیے بھیجے ہیں کہ ہم نے چندہ ادا کیا ہے۔

اس دن سے ہمیں خود پراللہ کی رحمتیں نظر آنے لگیں۔ ہم گھر کی رقم جمع کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ عید کے ایک دن بعد، میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ وہ اپنے ایک دوست سے پوچھیں مالی طور پر مستحکم ہیں کہ وہ ہمیں ڈپازٹ کے لئے کچھ رقم ادھار دے سکتے ہیں؟ میرے شوہر نے جھجکتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں کوئی بھی ایسا نہیں کرے گا اور وہ دوسری جائیداد میں سرمایہ کاری کرنا پسند کرتے ہیں۔ میں نے اصرار کیا کہ پوچھنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہم نے اس سے پوچھنے سےپہلے دعا کی۔ جیسے ہی میرے شوہر نے اپنے دوست سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ تمہیں کتنا چاہیے؟ میرے شوہر نے اس سے کہا کہ ہمیں 100 ہزار ڈالر بطور ڈپازٹ درکار ہے۔ اس کے بعد اس نے صرف بینک کی تفصیلات بھیجنے کو کہا۔ ہم حیران تھے! الحمدللّٰہ! ایک معاہدے پر دستخط ہوئے، اور ہمیں رقم مل گئی۔ الحمدللّٰہ، ہم اب اپنا قرض بھی واپس کرنے کے قابل ہیں۔ ان شاء اللّٰہ، ہم اگلے سال کے شروع میں گھر خریدنے کا ارادہ کر رہے ہیں

(رپورٹ سے ماخوذ)

ایک جوڑے کی چھوٹی بیٹی شدید بیمار ہوگئی اور ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کے زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں۔ تاہم والدین نے محسوس کیا کہ احمدی ہونے کے ناطے انہیں پُر امید رہنا چاہیے اور دعا کرتے رہنا چاہیے۔ انہوں نے اپنے وقف جدید چندہ کو اضافے کے ساتھ ادا کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے چھوٹی بچی نہ صرف بچ گئی بلکہ وہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گئی اور اب ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ الحمد للّٰہ۔

(رپورٹ سے ماخوذ)

میرا نام لبنیٰ عطا زوجہ عطاء القیوم عارف ہے۔ 2012ء میں جب بیت المسرور مسجد برسبن کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے امیر صاحب آسٹریلیا برسبین آئے، اس وقت جماعت کی جانب سے مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ دینے کی تحریک کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو قربانی کا موقع دیا۔ میں نے اللہ کی راہ میں اپنی 8 سونے کی چوڑیاں، ایک سونے کا ہار اور کانوں کی بالیوں کا ایک جوڑا عطیہ کیا۔

میں نے یہ زیور بذات خود اس وقت کے امیر صاحب مولانا محمود احمد شاہد صاحب (مرحوم) کے حوالے کیا۔ 2015ء میں مجھے مرکز سڈنی آسٹریلیا سے موجودہ امیر صاحب آسٹریلیا مولانا انعام الحق کوثر صاحب کی طرف سے فروخت کی مکمل تفصیل اور رسید کے ساتھ ایک خط موصول ہوا۔ موصول ہونے والی تفصیلات کے مطابق زیورات AUD:20، 542 میں فروخت ہوئے تھے۔

اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس نے مجھے یہ مالی قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے اور میرے بچوں کو ہمیشہ اپنی پیاری جماعت کے لیے مزید قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(لبنیٰ عطا۔لوگن ویسٹ جماعت)

کوئنز لینڈ آسٹریلیا

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے مریم شادی فنڈ کا اعلان کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بابرکت سکیم کے لیے اپنا 2.5 تولہ (29گرام) سونا عطیہ کرنے کا موقع دیا۔ الحمدللّٰہ

(امت الملک نجم اختر سڈنی آسٹریلیا)

خواتین کی طرف سے جان کی قربانی

میرا نام عابدہ چوہدری ہے اور خاکسار محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1996ء – 2001ء سے لے کر آج کے دن تک مختلف جماعتی ذمہ داریوں مثلاً پاکستان میں بطور صدر لجنہ اماء اللہ پتوکی ضلع قصور، نائب صدر ضلع قصور، صدر لجنہ اماء اللہ کوئنز لینڈ آسٹریلیا 2003ء – 2009ء، نیشنل سیکریٹری تعلیم لجنہ آسٹریلیا 2013ء – 2015ء، نیشنل سیکریٹری تعلیم القرآن و وقف عارضی لجنہ آسٹریلیا 2015ء – 2018ء اور گزشتہ چار سال (ستمبر 2018ء) سےنیشنل صدر لجنہ اماء اللہ آسٹریلیا کے طور پرخدمت دین کی سعادت پارہی ہے۔ الحمد للّٰہ علی ذالک ثم الحمد للّٰہ۔

خدمت دین کا یہ ستائیس سالہ سفر میری زندگی کا حاصل ہے۔اس سفر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار نے ہمیشہ جان مال وقت اور اولاد کی قربانی نیز دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اللہ تعالیٰ میرے عرقِ انفعال کے قطرے محض اپنی شان کریمی سے موتی جان کر چنتا رہا ہے الحمدللّٰہ۔ خداتعالیٰ کے دین کی خاطرجان کی قربانی کے ضمن میں پیش آنے والے کئی واقعات میں سےایک قابل ذکر واقعہ پیشِ خدمت ہے:

خاکسار پاکستان میں سکول ٹیچر تھی اور اس دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سےاپنے شہر پتوکی، کی صدر اور نائب صدر ضلع قصورکی خدمت کی بھی توفیق پارہی تھی۔ہمارے شہر کی لجنہ کو تبلیغ اورخدمت ِخلق کے شعبہ میں نمایاں کام کی توفیق مل رہی تھی اور ہم مختلف گاؤں میں میڈیکل کیمپ لگا کر لجنہ لاہور کے لیئے بھی تبلیغ کا ذریعہ فراہم کررہی تھیں۔ میں سال 2000ء میں پتوکی شہر سے سات کلو میٹر کے فاصلے پر جاگووالا چک 4 ضلع قصور میں تعینات تھی۔ وہاں کی ہیڈ مسٹریس نے ذاتی رنجش کی بناپر گاؤں کے لوگوں کو ساتھ ملا کر مجھ پر دو مقدمات کر دیئے ایک کی مدعیہ خود ہیڈ مسٹریس تھیں اور دوسرے مقدمےکے مدعی گاؤں کے بیس سے زائد لوگوں کو بنادیا۔ پرویز مشرف کا دور تھا اور جگہ جگہ آرمی مانیٹرنگ سیل کام کررہے تھے۔ معاندین نے ایک ہی مضمون کی درخواستیں ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، انتظامی مجسٹریٹ اور تحصیل چونیاں کے آرمی مانیٹرنگ سیل میں دے دیں کہ میں قادیانی ہوں اپنی تنظیم کی صدر ہوں اور میں خود اور میری فیملی ہر وقت قادیانیت کی تبلیغ وترقی کے لئے مصروف عمل ہے۔ میں سکول میں قادیانیت کی تبلیغ کرتی ہوں، اور میں نے نعوذ باللّٰہ قران مجید کی توہین کی ہے لہذا اس کے خلاف 295 سی۔ کا مقدمہ قائم کیا جائے نیز اس کا یہاں سے فی الفور تبادلہ کیا جائے۔

ان درخواستوں میں سے میرے خلاف سب سے پہلا ایکشن ڈپٹی کمشنر ضلع قصورکی طرف سے لیا گیا اور انہوں نے ہیڈ مسٹریس اور گاؤں والوں کی دونوں درخواستیں ایک دوسرے مجسٹریٹ محبوب عالم صاحب کی عدالت میں بھیج دیں جبکہ آرمی مانیٹرنگ سیل والی درخواستیں انتظامی مجسٹریٹ سید زاہد حسین جعفری کی عدالت میں تھیں۔اس سے پہلے کہ مجھے مقدمات کا پتہ چلتا عدالت سے دو سمن جاری ہو چکے تھے جنہیں مخالفین نے راستے میں غائب کروا دیا تھا۔ تیسرا سمن جاری ہوا اور مخالفین کا پروگرام تھا کہ یہ بھی مجھ تک نہ پہنچے تاکہ عدالتی سمن کی عدم تعمیل کے باعث براہ راست گرفتاری کروائی جاسکی لیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر یہ سمن ہم تک پہنچا دیا اور ان کی گھناؤنی سازش تو کامیاب نہ ہو سکی لیکن آئے روز عدالتوں کے چکروں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ تاریخ پہ تاریخ، کبھی ایک عدالت میں تو کبھی دوسری میں۔ آخر سید زاہد حسین جعفری جو کہ ایک شریف النفس مجسٹریٹ تھےانہوں نے اپنی عدالت میں رجسٹرڈ کیس کی سماعت کے لئےمیرے سکول میں عدالت لگانے کی تاریخ دے دی۔ اس روز گاؤں کی دومساجد میں مجسٹریٹ کی طرف سے لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کروایا گیا کہ جس قادیانی ٹیچر کے خلاف مقدمہ ہےاس کی سماعت آج گرلز ہائی سکول میں ہو رہی ہے۔جس کسی کو اس کے خلاف شکایت ہے وہ آکر اپنا بیان یا گواہی دے سکتا ہے۔ یوں سارا سکول گاؤں کے آدمیوں سے بھر گیا۔ گرمیوں کی چھٹیاں تھیں صرف ہیڈ مسٹریس اپنے دفتر میں اور سٹاف میں سے صرف آٹھ ٹیچرز میرے حق میں گواہی دینے کے لئے ایک دوسرے کمرےمیں موجود تھیں۔ سٹاف روم جسے اس روزکمرہ عدالت قرار دیا گیا تھا اس کے باہر پولیس اور اندر ایک بہت لمبے ٹیبل کی ایک طرف بیس سے زائد جھوٹےمدعیان اور گواہ۔۔۔اور ٹیبل کی دوسری طرف میں اکیلی۔۔۔ ٹیبل کے سرے پہ مجسٹریٹ اور ان کے ریڈر صاحب بیٹھے تھے۔ مجسٹریٹ کی ایک ذاتی ہدایت کے پیش نظرہم نے وکیل نہیں کیا تھاتاکہ مخالفین بھی اپنا وکیل مقرر کرنے کی طرف متوجہ نہ ہوں اور مقدمہ طول پکڑنے سے بچ جائے۔

اس عارضی کمرہ عدالت میں جس میں میرا وقت کبھی ہوم ورک کی کاپیوں کے ڈھیر کے ساتھ، کبھی امتحانی پرچہ جات کی چیکنگ میں اور کبھی لنچ بریکس میں کولیگز کے ساتھ خوش گپیوں میں گزرا تھا، آج اسی کمرے میں، گاؤں کے بیسیوں آدمیوں کے سامنے کٹہرے میں، میں اکیلی برقع میں لپٹی، ملزم بنی بیٹھی تھی اور ساتھ والے آفس میں ہیڈ مسٹریس صاحبہ اپنی اتھارٹی کے زعم اور جماعتی وجہ سے میری نازک پوزیشن دیکھ کر بہت خوش اور مطمئن بیٹھی تھیں۔

جو عدالتی کارروائی ہوئی وہ اپنی جگہ پہ ایک بہت دلچسپ کہانی ہے جس کی شاید یہاں گنجائش نہیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی برکت سے اور آپ ہی کے الہام کے صداقت کے مطابق جب ایک ایک کر چھ مدعیان کو دعویٰ اور جوابِ دعویٰ کی کاروائی میں جھوٹا ثابت کر کے میں نے ان کے منہ بند کر دیئے تو باقی مدعیان کی جرات ہی نہ ہوئی کہ وہ مزید جھوٹ بول سکتے۔ ہیڈ مسٹریس کو جب بلایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق ہی نہ دی کہ وہ آفس سے اٹھ کر ساتھ والے کمرے میں جو اس وقت کمرہ عدالت تھا، آتی اور کوئی دعوی ٰکرتیں یا میرے خلاف گواہی دیتی۔ اس نے کہا مجھ سے میرے آفس میں آکر اکیلے میں بیان لے لیں۔ جو کہ قانون کے خلاف تھایوں آفیشلی اس کابیان ریکارڈ نہ ہوا اور اس کی درخواست بھی ختم ہو گئی۔ ٹیچرز نے میرے حق میں گواہی دی اور گاؤں کے دونوں نمبرداروں اور کچھ دیگر معززین جن سےہم نے اس مقصد کی خاطر رابطہ کیا تھا اور وہ بھی سکول کے گراوٴنڈ میں موجود تھے انہوں نے بھی گواہی دی کہ ہم اس مقدمے سے پہلے بالکل نہیں جانتے تھے کہ سکول میں کوئی قادیانی ٹیچر ہے یا ہماری بچیوں کو تبلیغ کرتی ہے وغیرہ۔یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کیس کا فیصلہ میرے حق میں ہو گیا ہے اور اسی فیصلے کو بنیاد بنا کر، خاص طور پر دونوں مساجد میں ہونے والے اعلان کی بنا پر کہ ہر متعلقہ شخص کو اس دن عدالت نے اپنی شکایت بیان کرنےکاموقع دیا تھا، ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سےدوسری عدالتوں سے بھی مقدمات خارج کروالئے۔ ایک پورا سال لگا ان معاملات میں۔ جماعتی مخالفت اور ہمارے خاندان پہ دیگر جماعتی مقدمات کی وجہ سے ہم دو تین سال پہلےسے ہی ترکِ وطن کی کوشش کررہے تھے۔ آخری فیصلہ آنے کے چھ دن بعد ہمیں ہجرت کر کے آسٹریلیا آنے کا موقع مل گیا اور یوں خدا تعالیٰ نے اس امتحان سے مجھے سرخرو کر کےنکال دیا اللہ تعالیٰ میری اس حقیر قربانی کو محبت سے قبول فرمائے۔اور ہماری ہجرت کو حقیقی معنوں میں میرے اور میرے بچوں کی اپنی طرف ہجرت بنا کر قبول فرمائے۔ آمین

خواتین کی طرف سے اولاد کی قربانی
نیز خواتین کی طرف سے تربیت اولاد کی فکر

آج سے چونتیس سال پہلے جب میں اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ آسٹریلیا مستقل رہائش کی غرض سے آئی تو سب سے پہلا مسئلہ بچوں کے سکول داخلے کا تھا کیونکہ ابھی یہاں کی مستقل رہائش نہیں ہوئی تھی سو قانون کے مطابق یہاں کے علاقے کے مخصوص سکول میں جو کہ سرکاری بھی تھا داخلہ نہ مل سکا۔جوکہ یقیناً بہت پریشانی کا باعث بھی ہوا۔ پرائیویٹ سکولوں میں ہی داخلہ کی دوسری صورت تھی۔ اس وقت پرائیویٹ سکول بہت کم ہوتے تھے اور جو تھے وہاں پر عیسائیت کی تعلیم بھی سب بچوں کے لئے حاصل کرنا لازمی تھی اور اس چیز کے لئے میرے دل میں خوف تھا کہ سنا تھا کہ یہ لوگ دینی تعلیم اس طرح سے پڑھاتے ہیں کہ جو بچوں کے ذہن پر اس طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ وہ عیسائیت سے متاٴثر ہونے لگتے ہیں اور میں اس بات سے بہت خوفزدہ تھی کہ باہر کے ممالک میں آکر ہم بچوں کی صحیح تربیت نہ کرکے اگر انہیں ہی دین سے دور کر بیٹھے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے ہمارے پاس۔

بہت دعا کی اور سوچا بھی، آخر بہت کوشش کے باوجود گورنمنٹ سکول میں داخلہ کی بات بنتی نظر نہ آئی تو مجبوراً سوچا کہ چلو! پرائیویٹ سکول جاکر ان سے بات ہو جائے۔ آخر پرائیویٹ سکول گئی اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ تو انتظامیہ نے بتایا کہ ہاں ہم ضرور داخلہ دینے کو تیار ہیں۔ جس کے لئے ایک شرط تو بھاری رقم میں فیس دینی تھی جوکہ پوری کر ہی لی جاتی لیکن دوسری شرط یہ تھی کہ بچوں کو عیسائیت کے بارے میں یعنی (scripture) تعلیم دی جائے گی اور جو لازمی ہوگی۔ اس بات کو سن کر مجھے اس قدر گھبراہٹ ہوئی کہ فوری طور پر انہیں انکار کرکے وہاں سے اٹھ آئی یہ سوچے بغیر کہ اب بچوں کے سکول میں داخلہ کا کیا ہوگا۔آخر پھر دعاؤں کا سہارا لیتے ہوئے پھر سرکاری سکول میں داخلہ کی کوشش کا سوچا اور دوبارہ سکول جاکر سکول کے پرنسپل سے بات کی اور اپنے رہائشی سٹیٹس کے بارے میں تفصیل سے بتایا تو خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے پرنسپل صاحب نے کمال مہربانی سے پوری بات کو سن کر محکمہ تعلیم سے خاص طور پر ہمارے بچوں کے لئے اجازت لینے کا وعدہ کیا اور پھر کچھ دن کے بعد آنے کا کہا اور پھر معجزانہ طور خدا تعالیٰ نے فضل فرمایا اور بچوں کو داخلہ بھی مل گیا بلکہ بعد میں بھی پرنسپل صاحب نے بچوں کے ساتھ بہت محبت اور شفقت کا سلوک فرما رکھا اور ہمیشہ بہت خوشی سے بچوں کی تعریف بھی کرتے اور بعد میں ہماری مسجد میں بھی ایک دو مواقع پر تشریف لائے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد اس سکول میں ہماری جماعت احمدیہ کے بچوں کو ان کی مستقل رہائش نہ ہونے کے باوجود بھی پرنسپل صاحب کی طرف سے داخلہ کی اجازت ملنے لگی اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ سب خلیفہٴ وقت کی دعائیں، جماعت کی برکات اور سب سے بڑھ کر میرے پیارے خدا تعالیٰ کا کرم تھا کہ جس نے نہ صرف اس موقعہ بلکہ زندگی کے ہر مقام پر بارہا اس طرح مدد فرمائی کہ دل اس کی حمد سے لبریز ہو گیا الحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ۔

امة الحفیظ خان۔ سڈنی

ایک دن جماعت کی طرف سے کچھ موضوعات پر اپنے واقعات لکھنے کے لئے پیغام ملا، تینوں موضوعات کو خاکسار نے ہمیشہ اپنی زندگی کے لئے راہ عمل بنایا۔یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ اس کا حق ادا کیا لیکن اپنے خالق کو گواہ رکھ کر یہ ضرور کہتی ہوں کہ اپنی ہمت سے بڑھ کر کوشش کی اور ہمت دینے والا بھی وہی خالق ومالک ہے اس کے فضل سے ہی سب ممکن ہے، گھر میں دینی ماحول تھا بہت بچپن میں جب احادیث یاد کروائی جاتی تھیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عہد اور ایک دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دینا کہ زندگی میں ہرکھڑکی اذان کے لئے ہی کھلے، تبلیغ کا شوق بھی ابوجان کی وجہ سے بچپن سے ہی تھا ابوجان نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھل بھی حاصل کئےدن رات احمدیت زندہ باد سے ہماری بیٹھک گونج رہی ہوتی تھی ابوجان اسیر راہ مولیٰ بھی رہے تو یہ جذبہ اور پھر ہماری عمر کے لوگ اچھے سے جانتے ہیں کہ جب جذبات کے پلنے کی عمر تھی تو کلام طاہر نے ہمیں ایک ایسے عشق میں مبتلا کیا کہ اس کا بیان ممکن نہیں۔

خاکسار کا نام نبیلہ عارفہ ہے میاں کا نام گلفام احمد گوندل ہے۔ہماری شادی 14؍فروری 1998ء میں ہوئی اور شادی کے بعد میں نے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو خط لکھا کہ خاکسار اپنی ساری اولاد کو وقف نو کے تحت وقف کرنا چاہتی ہے اور میرے خاوند نے بھی خوشی سےاس کی اجازت دی ہے، پیارے آقا سے اجازت چاہتی ہوں، جواب میں پیارے آقا کا دعاؤں بھرا خط موصول ہوا جس کے بیان کے لئے الفاظ ناکافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے عطا کئے اور ہم نے تینوں وقف کر دیئے۔ جب حضرت خلیفة المسیح الخامس خلیفہ منتخب ہوئے تو خاکسار نے ایک بار پھر اپنے پیارے امام کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور اس وقت میں امید سے بھی تھی، پیارے امام کے دوخط موصول ہوئے جس کو سوچ کر آج بھی اللہ تعالیٰ کی حمد اور خلافت سے محبت میں سرشار ہوجاتی ہوں کہ ایک خط کے جواب میں دوخط، ایک خط میں انمول دعاؤں کا تحفہ اور ایک خط میں پیدا ہونے والے بچے کا نام اور منظوری، الحمد للّٰہ ثم الحمد للّٰہ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے 2002ء میں آسٹریلیا آئی تھی اور اسی سال نیشنل اسسٹنٹ سیکرٹری تبلیغ کے طور پر 4سال کام کیا یہاں داعیات کی کلاسز شروع کیں، تب میرے دو بچے تھے تو سارا دن پمفلٹ لے کر پارکس میں کھڑی رہتی تھی بس کھانا کھانے گھر آتی تھی اس وقت 11/9 کی وجہ سے حالات کافی خراب تھے لوگ اکثر پمفلٹ لینے سے انکار کردیتے تھے، میرے میاں مجھے کہتے تھے مجھے تم پر ترس آتا ہے جب لوگ تمہیں انکار کرتے ہیں تو تم بہت اداس ہوجاتی ہو حالانکہ خود انہوں نے سیالکوٹ میں 8 بیعتیں کروائی تھیں اور پھر اتنی مخالفت ہوئی کہ بھاگنا پڑا رات کے اندھیرے میں اور 6 ماہ گیمبیا میں رہے تب میرا ایک بیٹا گود میں تھا اور ایک پیدا ہونے والا تھا۔میں بس اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے نفس کو مار دے کہ مجھے کچھ بھی برا نہ لگے چاہے لوگ کچھ بھی کہیں مجھے بہرحال تبلیغ کرنی ہے۔

2005ء کے جلسہ سالانہ پر پیارے امام کے محبت بھرے پیغام میں یہ حکم بھی تھا کہ کنٹری سائیڈ کے لوگوں تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا جائے اس پیغام کے ضمن میں سال کے آخر پر مرحوم امیر صاحب سے میں نے درخواست کی کہ اگر مجھے جماعت کے تعارف کے ساتھ نئے سال کی مبارکباد کے کارڈز دے دیے جائیں تو میں ان شاءاللّٰہ یہ کام کروں گی، اللہ تعالیٰ ہمارے مرحوم امیر صاحب کے درجات بلند فرمائے، انہوں نے اسی سال یہ بندوبست کیا اور میں نے اپنے بچوں کو وقف نوکا یونیفارم پہنا کر گاڑی چاکلیٹ سے بھری اور مسجد سے آگے کنٹری سائیڈ گھر گھرجاکر پیارے امام اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کہ در بدر فقیروں کی طرح پھر کر سچے دین کی اشاعت کا کام کریں پوری کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش کی۔ اب الحمد للّٰہ نئے سال کے کارڈز جماعت کی طرف سے فری ملتے ہیں لیکن پہلے سال میں ایک ایک ڈالر میں خریدےتھے اور خود 71 کارڈز لیکر کنٹری سائیڈ گئی تھی، سب سے پہلے مسجد جاکر مرحوم امیر صاحب کو گفٹس دکھائے اور ایک گفٹ پیش کیا لیکن امیر صاحب نے فرمایا کہ یہ ان کی طرف سے غیر از جماعت کو ہی دےدیا جائے اور ہمیں دعا کرواکر رخصت کیا اور، آج الحمد للّٰہ 17 سال ہوگئے ہیں، میرے بچے جوان ہوچکے ہیں تو الحمد للّٰہ یہ کوشش بھی پھلنے لگی۔

اس سال الحمد للّٰہ ہزاروں لوگوں تک 15 دن میں پیغام پہنچایا الحمد للّٰہ الحمد للّٰہ الحمد للّٰہ۔ اس نئے سال کے پہلے دن اور گزشتہ سال کا آخری عشرہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام احمدیت کا پیغام مختلف لوگوں تک پہنچانے کی توفیق ملی الحمد للّٰہ علی ذالک۔

ویسے تو ہر سال اپنی مجلس کے تمام اسکولز، آفسز، میڈکل سنٹر، نرسنگ ہوم، چلڈرن ہسپتال میں اور اپنے 40 ہمسائیوں اور ایک دودن ضرور ہی لانگ ڈرائیو کنٹری سائیڈ ڈور ٹو ڈور جاتے ہیں، لیکن اس بار الحمد للّٰہ یہ سوچا کہ ایک پورے ٹاؤن میں در بدر پھر کر ہر گھر تک اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا جائے، دو بیٹے عزیزم احتشام احمد اور عزیزم ہشام احمد ہمارے ساتھ تھے اور بینڈن، Linden اورSt Houbart Island کے ہرگھر میں پیغام پہنچایا اور بہت اچھے لوگوں سے رابطہ ہوا، اسی طرح کٹومبا کے تقریباً 300 گھر کمیونٹی سنٹر اور تمام شاپس پر جماعت کے کارڈ تعارف کے ساتھ پمفلٹ دئیے میں صرف 100 لوگوں تک پہنچے وہاں کچھ لوگوں نے چاکلیٹ لینے سے انکار کیا اور کچھ نے صرف کارڈز لے لئے لیکن پمفلٹ نہیں لئے جس پر بچے چونکہ اب کچھ بڑے ہوچکے ہیں تو ان کو ذرا سی پریشانی ہوئی لیکن انہیں کہا کہ ان لوگوں نے آپ کو شکریہ کہہ کر انکار کیا ہے ذرا طائف کا سفر ذہن میں لائیں تو… نہ کوئی غنڈے پیچھے دوڑے نہ پتھر پڑے نہ خون سے جوتے بھرے اور نہ باغ میں پناہ لینی پڑی، انگریزی بھی آتی ہے (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں انگریزی سکھادے…تو بچوں کو یاد دلاتی رہتی ہوں کہ آپ کو تو انگریزی آتی ہے) تو رکنے کا کیا جواز الحمد للّٰہ الحمد للّٰہ بچوں نے جوش جذبے سے کام کیا اور آئندہ کے لئے ارادہ کیا کہ اب اسی طرح ہر چھٹی پر وہ ایک ایک علاقہ تک پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے دعا کی درخواست ہے اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول کرے اور لوگوں کے دل نرم کرے اور وہ شرک سے بچ جائیں اور ہمیں آئندہ بھی اس سے کہیں بڑھ کر اس کی توفیق ملے آمین اللّٰھم آمین

خاکسار نے 2013ء میں پیارے آقا سے ملاقات میں اپنی زندگی وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جس پر پیارے حضور مسکراتے ہوئے ماشاءاللّٰہ 5 بچوں کی طرف دیکھ رہے تھے فرمایا آپ تو پہلے ہی وقف ہیں پھر میں نے درخواست کی کہ مجھے ان کی طرح وقف ہونا ہے تو پھر مسکراتے ہوئے جواب آیا کہ وقف نو تو آپ نہیں بن سکتی کیونکہ آپ کافی دیر سے پیدا ہوچکی ہیں اور پھر جب میں پھر بھی نہیں رکی کہ پیارے حضور! بس! آپ میری بات سمجھیں مجھے وقف زندگی بننا ہے آپ اجازت دیں تو فرمایا اجازت ہے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِک

اللہ تعالیٰ کے فضل سے 4 بیٹے اور 1 بیٹی ہے سب ماشاءاللّٰہ وقف نو ہیں اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک جماعت کے ہر پروگرام میں 100 فی صد حاضری کے ساتھ ہر مقابلے میں حصہ لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے تلاوت ،نظم ،اذان، تقریر ،کوئز اور بیت بازی میں بھی سب پوزیشن لے آتے ہیں الحمد للّٰہ مسجد سے مسجد تک ہی رہتے ہیں، بلکہ ہم چھٹیاں بھی مسجد میں کیمپ کرکے گزارتے رہے ہیں صبح جاتے تھے اور عشاء پڑھ کر آتے تھے کھانا ساتھ لے جاتی تھی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ حال تھا کہ مجھے مشکل سے ان کو مسجد سے لانا پڑتا ہے، ان کا دل نہیں چاہتا وہاں سے نکلیں خاکسار مسرور اکیڈمی جو پہلے سنڈے کلاس کہلاتی تھی کہ سب سے پرانی ٹیچر ہے سوفیصد حاضری کے ساتھ الحمد للّٰہ علی ذالک، پانچ سال مسرور اکیڈمی کے بچوں کے لئے ریفریشمنٹ میں سینڈوچز اور پاستہ بناتی رہی ہوں جو سوادوسو بچوں سے شروع ہوکر ایک مجلس کے علیحدہ کلاس کرنے کی وجہ سے ڈیڑھ سو تک رہی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلسل پانچ سال یہ سعادت ملی کرونا کی وجہ سے اس میں رکاوٹ آئی، بچے اور بچوں کی مائیں یہی کہتی ہیں کہ بچے گھر پر نبیلہ آنٹی کے سنڈوچز اور پاستہ کھانے کی فرمائش کرتے ہیں اور ان معصوم مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی محبت مجھے کبھی تھکنے نہیں دیتی جب مائیں پوچھتی ہیں کہ کیا سیکرٹ ہے تو میرا جواب ہوتا ہے محبت، میں واقعی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے لئے ہمیشہ محبت سے ہی کھانا بناتی ہوں اور بدلے میں محبت سمیٹتی ہوں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِک

اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب مربیان اورجماعت کے لوگ بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور تعریف بھی بہت کرتے ہیں، جیسے ہی کسی کی طرف سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ کے بچے بہت اچھے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ میرے مولیٰ کی طرف سے ایک گلاب کا تحفہ ملا ہے اور میں شکرانے کے ساتھ لیتی ہوں،

اللہ تعالیٰ ہماری عاجزانہ کوششوں میں مزید برکت ڈالے اور ہمیں قبول فرمائے۔ آمین اللّٰھم آمین

(نبیلہ عارفہ مجلس گلینڈیننگ سڈنی)

محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے مجھے دو جڑواں بیٹوں سے نوازا الحمدللّٰہ ثم الحمدللّٰہ۔ جو شادی کے 6 سال بعد ہوئے جب اپنوں نے ہی مایوسی کا اظہار کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہنا شروع کردیا کہ اب تو دعا کر کر کے تھک گئے ہیں۔ مگر اللہ دعائیں سننے والا ہے اس نے سنیں اور مجھے دو پیارے بچوں سے نوازا جن کو ہم دونوں میاں بیوی اللہ کے فضل سے پیدائش سے پہلے ہی وقف کر چکے تھے اب دونوں ماشاءاللّٰہ 22 سال کے ہونے والے ہیں اور الحمدللّٰہ الحمدللّٰہ اپنے وقف کو پہچانتے ہیں اور اب بھی ان کا یہی مقصد ہے کہ ایسی تعلیم حاصل کی جائے جو جماعت کے کام آسکے اللہ ان کو اس مقصد میں کامیابی عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

ان کی تربیت کیلئے میں نے ہمیشہ یہی دعا کی کہ خدا مجھے توفیق دے کہ جیسی تو چاہتا ہے میں ان کی ویسی تربیت کر سکوں ان کو اپنا عاشق بنادے آمین ثم آمین۔ ان کو ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا سکھایا ہر دکھ، سکھ، غم، تکلیف پریشانی میں صدقہ کے ساتھ ساتھ صرف اور صرف خدا کے حضور جھکنے کی نصیحت اور تاکید کی۔ امتحان ہوں یا کچھ اور کبھی نماز قرآن میں سستی کی اجازت نہیں دی۔ جب چھوٹے تھے تو ہر اجلاس میں بھیجتی کبھی ناغہ نہیں کرنے دیا یہاں تک کہ ایک مرتبہ امتحان کی وجہ سے ہی کہا کہ آج نہ جاوٴ اجلاس پر کل پیپر ہے تو دونوں نے ہی کہا ’’اماں! آپ تو کہتی تھی کہ اجلاس پر جانے سے پیپر اچھا ہوتا ہے اور اب خود روک رہی ہیں‘‘ اور یہ سن کر مجھے بے انتہا خوشی اور اطمینان ہوا۔گھر ہوں تو تمام نمازیں باجماعت کرواتے ہیں رمضان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی نہ کسی کتاب کا درس ان سے دلواتی ہوں وہ بھی اردو میں کیونکہ یہاں آسٹریلیا آ کے اردو بھولنے لگے تھے۔ اللہ کے فضل سے جماعت کے کام میں پیش پیش ہوتے ہیں کبھی پیچھے نہیں ہوتے اور حتی الوسع کوشش کرتے ہیں کہ جو ذمہ داری سونپی جائے پوری ایمانداری سے کریں۔ جماعت کے کام کو بوجھ سمجھ کے نہیں بلکہ سعادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ چندوں کی اہمیت کا بھی ان کو خوب ادراک ہے اپنا حساب صاف رکھتے ہیں کبھی غلط حساب نہیں لکھوایا نہ چندہ کم کرنے کیلئے غلط بیانی سے کام لیا۔

ہم دونوں میاں بیوی نے اپنے بچوں سے ایسا تعلق رکھا ہے کہ ہر بات ہم سے کر لیتے ہیں خاص طور پر مجھ سے، ان کو ایسا ماحول میسر ہے کہ ہر بات گھر میں کر سکتے ہیں کسی بیرونی سہارے کی ان کو ضرورت نہیں اللہ کے فضل سے۔ خلیفہٴ وقت کی اطاعت ہی زندگی کا حاصل ہے اس بات کا بھی ان کو خوب ادراک ہے۔ بچپن سے ہی اچھی طرح ذہن نشین کروایا کہ جب پیارے حضور خطاب کر رہے ہوں تو اور کچھ نہیں کرنا صرف ان کو سننا ہے پوری توجہ اور احترام سے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی جوان ہونے پر بھی جب بھی پیارے آقا کا خطاب آتا ہے یا حضور کا کوئی پروگرام آرہا ہو تو سب کچھ چھوڑ کر صرف وہی سنتے ہیں۔ خطبہ جمعہ کے وقت جب پیارے آقا سلام کرتے ہیں تو با آواز بلند وعلیکم السلام کہنے کی عادت ڈالی ہے کہ اس وقت پیارے آقا لائیو ہوتے ہیں گویا ہم میں موجود ہوتے ہیں اس لیے وعلیکم السلام کہنا چاہئے۔ رات جس وقت بھی سوئیں پوری کوشش ہوتی ہے کہ صبح فجر پر ضرور اٹھیں پھر چاہے دیر تک سوئیں پر نماز نہیں قضا کرنی۔ اللہ کرے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت احسن رنگ میں کر سکیں اور ان کو حقیقی احمدی مسلمان بنا سکیں آمین ثم آمین۔

(نفیسہ محمود مجلس بلیک ٹاؤن۔ سڈنی)

خواتین کی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی مثالیں

میرا خدا گواہ ہے کہ 1996ء کے بعد سے میں نے اپنی زندگی کے پچیس سال ایک واقف زندگی کی طرح سے گزارے ہیں۔

اور خاکسار محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1996ء سے لے کر آج کے دن تک مختلف جماعتی ذمہ داریوں مثلاً پاکستان میں بطور صدر لجنہ اماء اللہ پتوکی ضلع قصور، نائب صدر ضلع قصور، صدر لجنہ اماللہ کوئنز لینڈ آسٹریلیا2003ء – 2009ء نیشنل سیکریٹری تعلیم لجنہ آسٹریلیا2013ء – 2015ء نیشنل سیکریٹری تعلیم القران ووقف عارضی لجنہ آسٹریلیا 2015ء- 2018ء اور گزشتہ چار سال (ستمبر 2018ء) سےنیشنل صدر لجنہ اماء اللہ آسٹریلیا کے طور پرخدمت دین کی سعادت پارہی ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِک ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔

میرے دن رات اس سوچ، فکر اور کوشش میں گزرے ہیں کہ کس طرح بہتر سے بہتر منصوبے اور پروگرام بنا کر خود بھی اور اپنی ساتھی بہنوں کو بھی بہترین طریقے سے تعلیم و تربیت نیزخدمت دین کے مواقع فراہم کر سکوں۔ ذاتی طور پر بھی میں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ذہنی، جسمانی،قلبی ہر طاقت اس کے دین کی خاطر خرچ کرنے کی توفیق پارہی ہوں۔ سارے دیگر علمی وادبی مشاغل، ملازمت سب چھوڑ چھاڑ کر گھر اور جماعت، جماعت اور گھر بس۔ لجنہ کی ترقی اور عروج کے لئے بے شمار خواب ہیں جو بعض اوقات نیندیں بھی اپنے ساتھ اڑائے لئے جاتے ہیں۔ میرا قدیر خدا اس میں سے جو جماعت کے لئے بہتر ہے پورا فرمائے۔ دل ہے کہ اس پہ بھی چاہتا ہے کہ میرا آخری ذرہ بھی اسی راستے میں فدا ہو، میرا خدا میرے اسی جذبہ قربانی کو میری اولاد کے لئے دعا بنا کرقبول فرمائے اور وہ بھی دین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی ہوں نیز نسلا ًبعد نسلٍ خلافت سے وابستہ رہیں، اسلام احمدیت کے لئےجان مال وقت اولاد سب قربان کرنے والے ہوں۔ آمین ثم آمین

(تحقیق و تحریر: عابدہ چوہدری۔ صدر لجنہ ا ماءاللہ آسٹریلیا باتعاون لجنہ سیکشن مرکزی لندن)

پچھلا پڑھیں

مالی قربانی کا ایک ایمان افروز نظارہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 دسمبر 2022