جماعت احمدیہ عالمگیر کی خواتین کی عالمی ذیلی تنظیم، انجمن لجنہ اللہ اماء اللہ کی تاسیس سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 25؍دسمبر 1922ء کو رکھی۔
چنانچہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر 25؍دسمبر 1922ء کو حضرت اماں جانؓ اور دیگر خواتین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے گھر جمع ہوئیں ۔ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح ثانیؓ نے بھی خطاب فرمایا اس میں لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔ تنظیم کا نام لجنہ اماءِ اللہ، اللہ کی لونڈیوں کی انجمن تجویز فرمایا۔ آپؓ نے لجنہ کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کرکے کئی مشورے دیے اور نصیحتیں کیں۔ حضرت اماں جانؓ لجنہ کی پہلی پریزیڈنٹ منتخب ہوئیں۔ منتخب ہونے کے بعد آپؓ نے حضرت سیدہ اُم ناصر صاحبہ کا ہاتھ پکڑ کر کرسیٔ صدارت پر بٹھا دیا۔
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس ذیلی تنظیم کا نام لجنہ اماء اللہ رکھا۔ چنانچہ حضورؓ نے فرمایا:
’’ہندوستان میں ایک انجمن ہے جو اپنے آپ کو خادمان ہند کہتے ہیں۔ ہم تو کسی قوم کے خادم نہیں ہم اللہ کے خادم اور غلام ہیں۔لجنہ اماء اللہ یعنی اللہ کی لونڈیوں کی انجمن اس لئے میں نے یہ نام اس انجمن کا رکھا ہے۔‘‘
لجنہ اماء اللہ گولڈکوسٹ گھانا کا قیام
گولڈکوسٹ موجودہ گھانا میں لجنہ اماء اللہ کا ابتدائی تعارف اور انفرادی اجلاسات اور تربیتی کلاسوں کااجراء 1923ء تا 1929ء اور پھر 1933ء تا 1935ء کے دورہ میں گولڈکوسٹ کے دوسرے مبلغ الحاج حکیم فضل الرحمن صاحبؓ نے شروع کردیا تھا۔ تاہم آپ کے بعدکے مبلغین حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب اور حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کے زمانہ میں لجنہ اماء کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں مزید وسعت آگئی اور جوں جوں گھانا کی جماعتیں منظم ہوتی گئیں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم بھی یہاں منظم ہوتی گئی۔
گویا گھانا میں لجنہ اماء اللہ کا قیام 1930ء میں ہو چکا تھا اور اس وقت مسٹر بنیامین کیلسن (جنرل سیکرٹری جماعت گولڈکوسٹ) کی اہلیہ صاحبہ اس کی صدر مقرر ہوئیں۔ابتداء حضرت مولانا حکیم فضل الرحمن صاحب کے دور میں سالٹ پانڈ سینٹرل ریجن (سابقہ ہیڈکوارٹر جماعت احمدیہ گھانا) اور کماسی، اشانٹی ریجن کی لجنہ اماء اللہ کو خاص طور پر کام کی توفیق ملی۔ ابتدائی مبلغین اور واقفین زندگی اساتذہ کرام کی بیگمات نے بھی مقامی لجنات کی تعلیم و تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
چنانچہ 1938ء میں بھی گولڈ کوسٹ میں لجنہ کی تنظیم کے ذریعہ احمدی عورتوں کی تربیت کا اہم کام کیا جا رہا تھا۔ ایک تعلیم یافتہ احمدی خاتون سعیدہ بنت جمال جانسن خصوصیت سے احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت میں فعال کردار ادا کر رہی تھیں۔یہ کاوشیں اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوئیں اور اس ملک میں جماعت تیزی سے ترقی کرنے لگی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ گھانا میں لجنہ اماء اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیموں کا قیام نسبتاً ابتدائی دنوں میں ہو گیا تھا۔ البتہ 1980ء کے قریب اس تنظیم کی مساعی میں وسعت پیدا ہوئی۔
گولڈ کوسٹ مشن میں خواتین کیلئے سکول کا اجراء
گولڈ کوسٹ کی احمدی جماعتوں کے افراد کے دلوں میں احمدیت گھر کر چکی تھی اور اخلاص اور قربانی کے اس درجہ پر تھے جب اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد دین کی خدمت اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنا ہوتا ہے۔ تبلیغ کو وسعت دینے کے لئے مبلغین کا کلاسز جاری کرنا اور پھر اس میں زیادہ سے زیادہ طلباء کو داخل کرنے کی تجویز پاس کرنا نہایت ہی خوشکن اور قابل تعریف امر تھا۔ چنانچہ احباب جماعت نے ایک جلسہ میں دوسری تجاویز کے علاوہ یہ تجویز بھی پیش کی کہ:
چوتھی تجویز زنانہ سکول کا جاری کرنا ہے۔ یہ بھی جماعت کی دینی تعلیم و تربیت اور استحکام کے لئے نہایت ضروری ہے اور جب اس علاقہ کی خواتین میں بھی تعلیم پھیل جائے گی اور وہ دینی امور اور جماعتی ضروریات سے واقف ہو جائیں گی تو ان شاء اللّٰہ تعالیٰ احمدیت نہ صرف احمدی خاندانوں میں مستقل طور پر قائم ہو جائے گی بلکہ سرعت کے ساتھ سارے ملک میں بھی پھیل جائے گی اسی طرح مرکزی مسجد کی تعمیر بھی نہایت بابرکت ہے۔ غرض ساری کی ساری تجاویز نہایت اہم ہیں اور مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی انتھک خدمات کی کامیابی کا ثبوت اور علاقہ گولڈکوسٹ کے احمدی احباب کے اخلاص کا شاندار ثبوت پیش کر رہی ہیں۔ احباب جماعت دعا فرمائیں کہ خداتعالیٰ مولوی صاحب موصوف کو پیش از پیش خدمات کی توفیق بخشے اور گولڈکوسٹ کے احمدی احباب کے اخلاص میں روزبروز اضافہ فرمائے۔
جیساکہ محولہ بالا سالانہ رپورٹ سے ظاہر کہ1944ء میں جماعت احمدیہ گولڈ کوسٹ نے زنانہ سکول کے جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔چنانچہ ایک احمدی نے پندرہ ہزار روپے کی زمین اس کے لئے وقف کر دی۔ لجنہ اماء اللہ گولڈ کوسٹ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ ہندوستان کی احمدی بہنیں بھی اس کام میں ہماری مدد کریں۔ چنانچہ حضور کی تحریک پر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے چار ہزار روپے بھجوانے کا وعدہ کیا جس میں سے پندر سو کا وعدہ تو لجنہ اماء اللہ دہلی نے مکرم چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی معرفت کیا اور باقی رقم ملک کی دوسری مختلف لجنہ اماء اللہ پر ڈال دی گئی۔
1947ء: لجنہ اماء اللہ کماسی گھانا اور وا
جیساکہ ذکر کیا گیا کہ 1930ء کے عشرہ میں گولڈ کوسٹ میں دیہی و شہری جماعتوں میں محدود پیمانے پر لجنہ کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ تاہم گھانا میں یہ لجنہ اماءاللہ کی ابھی ابتداء تھی۔ اسی طرح اشانٹی کماسی اور وا میں لجنہ اماء اللہ کی تنظیم سازی کا کام عمل میں آچکا تھا۔ جیساکہ کماسی اشانٹی اور علاقہ وا کے اس وقت کے مبلغ مکرم ملک احسان اللہ صاحب مرحوم نے بھی لجنہ کی تشکیل و تربیت میں کام کیا۔ چنانچہ مکرم ملک احسان اللہ صاحب اپنی مئی 1947ء کی ایک رپورٹ میں تحریر کرتے ہیں کہ جماعت کماسی کے بچوں اور بوڑھی عورتوں تک تبلیغی حوالے قرآن و حدیث کے یاد کرائے گئے۔ بحث سے پہلے قاعدہ یسرنا القرآن کی کلاس باقاعدہ لگتی رہی۔ لجنہ نے خدمت خلق کے پروگرام پر عمل کرنا شروع کیا اور ہر ایک نے ہفتہ وار رپورٹ دینی شروع کی۔ چار عورتوں نے تقریر کی مشق کرنے کے لئے نام لکھوائے۔
مکرم ملک صاحب مزید لکھتے ہیں:
12؍مئی 1947ء کو محترم رئیس التبلیغ صاحب (مولانا نذیر احمد مبشر) محترم مولوی عبد الخالق صاحب کو تبدیلی آب و ہوا اور خوراک اور بہتر علاج معالجہ کے خیال سے کماسی میں لے کر آئے اور حلقہ اشانٹی ان کا نگران بنا دیا۔ میں چونکہ کلیو میں پہلے کام کرچکا تھا اس لئے محترم مولوی بشارت احمد نسیم فاضل کو کلیو اور مجھے ان کی جگہ Wa علاقہ ہائے شمالی میں ان سے تبدیل فرمایا۔ محترم موصوف 17؍مئی 1947ء کو کماسی سے مجھے ساتھ لے کر Wa روانہ ہوئے۔ 19؍مئی 1947ء صبح سات بجے کے قریب آپہنچے۔ 20/19 کو وا شہر کے رئیس التبلیغ کی زیر قیادت علاقہ کے چیف اور D.C کو ملنے گئے اور محترم مولوی بشارت احمد نسیم فاضل کے زیر تبلیغ احباب کو ملنے گئے۔ محترم رئیس التبلیغ صاحب نے علاقہ وا میں خدام لجنہ اور اطفال کا پروگرام مرتب کیا اور مناسب نصائح فرمائیں۔
1952ء: کماسی میں لجنہ اماء اللہ کا جلسہ
فروری 1952ء میں کماسی اشانٹی ریجن لجنہ اماءاللہ کا جلسہ ہوا جس میں اہلیہ سعود احمد خان صاحب اور مکرمہ شمسہ سفیر (اہلیہ ڈاکٹر سفیر الدین بشیر احمد صاحب سابق پرنسپل ٹی آئی احمدیہ سکول کماسی) نے لجنہ کے مقاصد پر تقاریر کیں۔ پھر لجنہ اماء اللہ کے قواعد و ضوابط پڑھ کر سنائے گئے۔ حاضر خواتین نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کی درخواست بھجوائی۔
جب فروری 1952ء میں کماسی اشانٹی ریجن لجنہ اماءاللہ کاباقاعدہ انتخاب کے ذریعہ لجنہ کا قیام عمل میں آیا اور 1953ء میں اسے لجنہ مرکزیہ سے منسلک کردیا گیا۔ امسال ہر ماہ ایک دو مرتبہ لجنہ کے عام اجلاس ہوتے رہے جن میں مختلف تربیتی اور اصلاحی مضامین سنائے جاتے رہے۔ ایک ہفتہ دینیات کلاس کھولی گئی جو بعد از نماز جمعہ اڑھائی گھنٹے تک جاری رہتی۔ اس کلاس کا نتیجہ بہت خوشکن رہا۔ سیکرٹری محترمہ عائشہ ہر اتوار کو تبلیغی وفد بنا کر بھیجتی رہیں یہ وفد زبانی اور تقسیم لٹریچرکے ذریعہ تبلیغ کرتا رہا۔ چندہ ممبری باقاعدگی سے وصول کرکے مرکز بھجوایا جاتا رہا۔
حضرت اماں جانؓ کی وفات پر
1952ء میں تعزیتی قراردد
حضرت مصلح موعودؓ کے صدقہ کےلئے اور دفتر مرکزیہ کی کرسیوں کے لئے بھی رقوم بھجوائی گئیں۔ خدمت خلق کے لئے کام کئے گئے۔ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کی وفات پر 1952ء میں تعزیتی قرارداد بھجوائی گئی۔ ایک چیف کو کھانے کی دعوت دی گئی۔ ایک مبلغ کی روانگی پر الوداعی پارٹی کا انتظام کیا گیا۔
صدر لجنہ اماء اللہ کماسی
1950ء کے عشرہ میں کماسی اشانٹی ریجن میں لجنہ اماءاللہ کا قیام عمل میں آچکا تھا اور اس وقت مکرمہ شمسہ سفیر (اہلیہ ڈاکٹر سفیر الدین صاحب سابق پرنسپل ٹی آئی احمدیہ سکول کماسی) بطور صدر لجنہ اماء اللہ کماسی کے طور پر خدمات کی توفیق پا رہی تھیں جیساکہ ذیل کی رپورٹ سے ظاہر ہے۔ جنوری 1954ء میں ایک مخلص احمدی اپنی منگیتر کو جو کہ ایک بت پرست تھی اور بچپن سے اس کی منگنی اس سے ہو چکی تھی بغرض دینی تعلیم نماز قرآن مجید وغیرہ سکھانے کے لئے محترمہ شمسہ سفیر اہلیہ ڈاکٹر سفیر الدین صاحب صدر لجنہ اماء اللہ کماسی کے پاس لایا۔ چنانچہ اس خاتون کو بڑی محنت اور محبت سے مذکورہ تعلیم سکھائی۔ اسے یسرنا القرآن ختم کروایا۔ قرآن مجید کی تلاوت اور چند ایک خاص رکوعات کا ترجمہ سکھایا۔ نماز کے آداب، نماز باترجمہ، فقہ، سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ، عربی لکھنا، لائف آف محمدؐ اور مختلف انبیاء کی لائف ہسٹری، سلسلہ احمدیہ کی بنیاد اور اس کا مقصد، حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی سیرت، خانہ داری کے متعلق امور، بچوں کی پرورش کے متعلق، فرسٹ ایڈ، مشین کی سلائی اور کشیدہ کاری وغیرہ سکھائے گئے۔ اسی طرح اس وقت اہلیہ مکرم پروفیسر سعود احمد خان صاحب سابق وائس پرنسپل ٹی آئی احمدیہ سیکنڈری سکول کماسی کی اہلیہ بھی لجنہ اماء اللہ کے کاموں میں خاصی متحرک رہیں۔
لجنہ اماء اللہ گھانا کےلئے کام کرنے والی خواتین
لجنہ اماء اللہ گھانا کے لئے جن خواتین نے ابتداء میں خدمت کی توفیق پائی ان میں سے مکرمہ آمنہ مبشر صاحبہ اہلیہ مولوی نذیر احمد مبشر، اہلیہ صاحبہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب، اہلیہ صاحبہ سعود احمد خانصاحب۔ مکرمہ شمسہ سفیر اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر سفیر الدین صاحب، اہلیہ صاحبہ مولوی عطاء اللہ کلیم صاحب، مریم وہاب صاحبہ اہلیہ مولوی عبدالوہاب صاحب، اہلیہ صاحبہ مولوی نصیر احمد خان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ابتدائی دنوں میں مولوی نذیر احمد علی صاحب کی اہلیہ صاحبہ نے بھی لجنہ اماء اللہ کے سلسلے میں کام کیا۔ نیز مکرم مولوی بشارت احمد بشیر صاحب نے اپنے پہلے قیام گھانا کے دوران سویڈرو میں لجنہ اماء اللہ قائم کی۔ اسی طرح مکرمہ فرزانہ تبسم صاحبہ بھی شامل ہیں۔
لجنہ اماء اللہ کا ابتدائی جلسہ
1957ء گھاناکی ایک رپورٹ کے مطابق گولڈ کو سٹ کی مستورات کا جلسہ سالانہ جنوری 1957ء میں سالٹ پانڈ کے مقام پر ہوا۔ جس میں دور دراز علاقوں سے احمدی عورتیں بھی خاصی تعداد میں جلسہ میں شامل ہوئیں۔ پہلے دو دن عورتوں نے مردانہ جلسہ میں تقاریر سنیں جبکہ جلسہ سالانہ کے تیسرے دن باہر جنوری کو مسجد احمدیہ سالٹ پانڈمیں عورتوں کا الگ جلسہ ہوا جس میں کئی سو عورتوں نے شرکت کی۔مسجد بھری ہوئی تھی تلاوت قرآن مجید کے بعد مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر نے انگریزی میں تقریر کی جس میں انہوں نے دیگر مذاہب کے مقابلہ میں اسلام میں عورتوں کے حقوق بیان کئے۔ اس کے بعد امۃ الرشید صاحبہ اہلیہ پروفیسر سعود احمد خان صاحب نے جلسہ سالانہ کے مقاصد کو اپنی تقریر میں واضح کیا۔ آخر میں آمنہ بیگم صاحبہ نے مسجد ہالینڈ کے لیے چندہ کی تحریکیں اس پر کافی چندہ جمع ہوا۔دعا کے ساتھ یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا۔
اسی طرح 1958ء میں گھانا کی احمدی جماعتوں کا سالانہ جلسہ 16 سے 18؍جنوری کو منعقد ہوا تاہم اب کی دفعہ بعض وجوہات کی بنا پر خواتین کا علیحدہ جلسہ نہ ہوسکا۔تاہم مردانہ جلسہ میں خواتین کے دو مضمون پڑھ کر سنائے گئے۔ پہلا مضمون اہلیہ مولوی نذیراحمدمبشر صاحب تربیت اولاد کے بارے میں تھا جبکہ دوسرا مضمون اہلیہ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب پرنسپل ٹی آئی میں سکول کماسی کا تھا جنہوں نے مسلمان عورتوں کی ذمہ داریوں کی طرف احمدی خواتین کو توجہ دلائی۔ ہر دو مضامین کو بہت پسند کیا گیا۔ 1970ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ٹیچی مان میں لجنہ اماء اللہ کے ہال کی بنیاد اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی۔ 1976ء میں لجنہ اماء اللہ وا کی ریجنل کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 12000 سیڈی چندہ اکٹھا ہوا۔
لجنہ اماء اللہ ٹیچی مان کے ہال کا سنگ بنیاد
22؍اپریل 1970ء کی صبح کو نو بجے کے قریب حضور کماسی سے شمال کی طرف 75میل دورٹیچی مان Techiman کیلئے روانہ ہوئے ٹیچی مان پہنچ کر ساڑھے بارہ بجے حضور یہاں کی نئی تعمیر شدہ مسجد کے افتتاح کیلئے تشریف لے گئے اس تقریب میں احمدی احباب کے علاوہ اس علاقے کے کئی ایک پیراماؤنٹ چیفس اپنے روائتی لباسوں میں ملبوس تشریف فرما تھے۔ تلاوت قرآن کریم کے بعد ریجنل مبلغ مولوی عبدالوہاب صاحب نے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا۔پھر ٹیچی مان کے پیراماؤنٹ چیف نے ایڈریس پیش کیا بعد ازاں حضور نے حاضرین سے خطاب فرمایا۔ حضور کا خطاب ایک مجسم دعا تھی جس سے دلوں کے زنگ دھل گئے اور ایمانوں میں تجدید پیدا ہوئی۔ پھر مسجد میں افتتاحی تختی نصب فرمانے کے بعد حضور نے دعا کرائی پھر قریب ہی حضور نے لجنہ اماء اللہ کے ہال کا سنگ بنیاد نصب فرمائی۔ ظہر اور عصر کی نمازیں مسجد میں ادا کیں بعد میں شہر میں سلیمان جوئی SULEMAN JWI کے مکان پر تشریف لے جا کر کھانا تناول فرمایا اور واپس کماسی کیلئے روانہ ہو گئے۔ جہاں حضور ساڑھے پانچ بجے شام پہنچے۔
اللہ تعالیٰ نے مسٹر جمال جانسٹن کو سترہ بچوں سے نوازا تھا، ان میں سے نو بچے اس وقت حیات ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی، مسز سعیدہ فرید مینیہ Menyah، ابتدائی عمر میں ہی قرآن پاک پڑھنا سیکھ گئی اور اس کی عبارتیں پڑھتی تھیں اور کبھی کبھار اہم مذہبی مجلس میں قرآنی آیات کی تلاوت بھی کرتیں۔ بعد میں وہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ تک نیشنل لجنہ اماء اللہ کی سیکرٹری تعلیم بن گئیں۔
ان کے بڑے بیٹے مسٹر صادق جمال جانسٹن نے بھی چھوٹی عمر ہی میں ہی قرآن پاک پڑھنا سیکھ لیا اور کئی حصے انہیں زبانی یاد تھے۔ سالٹ پانڈ احمدیہ اسکول میں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے عربی، تقابل ادیان، فرانسیسی، لاطینی اور دیگر مضامین کی تعلیم حاصل کی۔ سول سروس میں خدمات کیں اور آخر کار 1978ء میں گھانا پوسٹل سروس کے ڈائریکٹر کے عہدے پر سے سبکدوش ہوئے ۔
انہوں نے نجی ٹیوشن کے ذریعہ لندن میٹرک کی سطح تک تعلیم حاصل کی اور سرکاری ملازمت کے دوران ہی آپ نے احمدیہ مشن کیلئے آڈیٹر جنرل خدمت کرنے میں جز وی قربانی پیش کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد تیرہ سال احمدیہ مشن پریس کے ساتھ نیشنل ہیڈ کوارٹر اکرا میں رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔
مسٹر مسعود جمال جانسٹن مرحوم، ان کے بھائی، عبدالرحیم جمال جانسٹن، ان کی بہنیں، مسز حمیدہ آڈو Addo (اب اپنے شوہر کے ساتھ لندن میں مقیم ہیں) اور مسز سلامت Barnieh مرحوم جمال کے بچوں میں شامل ہیں جنہوں نے اساتذہ کی حیثیت سے تربیت حاصل کی اور ایک طویل عرصے تک احمدیہ مسلم مشن کی خدمت کی۔اس سے پہلے مسٹر مسعود جانسٹن کئی سال تک جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے اور احمدیہ ایجوکیشن یونٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد ریجنل ایجوکیشن منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے تھے۔
جبکہ مسز سلامت برنیہ Barnieh نے لجنہ اماء اللہ گھانا میں اپنا فعال کردار ادا کیا اور اب بھی اس میں اپنا فعال کردار ادا کررہی ہیں۔ مکرم جمال جانسٹن مرحوم کی ایک اور پوتی مسز خدیجہ براؤن، نرسنگ کے شعبہ میں تھیں اور کچھ سال پہلے ٹیما Tema میں پورٹس اینڈ ہاربرز اتھارٹی کلینک میں سینئر نرسنگ سسٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہوگئیں۔ انہوں نے بھی شعبہ لجنہ میں اپنا فعال کردار ادا کیا اور یہ خدمت اب بھی جاری ہے۔ وہ 1993ء سے 1996ء تک لجنہ گھانا کی نیشنل نائب صدر کے عہدے پر فائز رہیں۔
یہاں مسٹر مسعود جمال جانسن مرحوم کے صاحبزادے نورالدین جانسٹن کا ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا جو اس وقت Kasoa کاسووا سنٹر میں احمدیہ مشن کے نیشنل مبلغ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور اسی طرح مسز حنّہ Hannah کا بھی۔ جو حافظ جبرائیل سعید مرحوم سابق نائب صدر سوم کی اہلیہ ہیں اور جمال جانسٹن کی پوتی ہیں جنہیں سلسلہ کی خدمات کی توفیق ملی نیز نائب صدر لجنہ کے طور پر بھی کام کی توفیق پائی۔
برانگ اہافو Brong Ahafo ریجن میں
لجنہ اماء اللہ کا قیام
Brong-Ahafo جنوبی گھانا کا ایک علاقہ ہے جس کے شمال میں بلیک وولٹا دریا اور مشرق میں وولٹا جھیل اور جنوب میں مشرقی و مغربی اشانٹی ریجنوں سے متصل ہے۔ جس کا صدر مقام سنیانی Sunyani ہے۔ 1967ء میں برانگ اہافوریجن میں لجنہ اماء اللہ کا باقاعدہ طور پر آغاز ہوا جس میں محترم منیر شکیل صاحب (جو بعد میں آسٹریلیا میں بھی مبلغ رہے) اور ان کی اہلیہ مکرمہ نعیمہ صاحبہ کی کوششوں کے نتیجے میں ہوا۔ اُس وقت مولوی عبد الوہاب وہاب بن آدم صاحب یہاں ریجنل مشنری کے طور پر 1969ء سے کام کررہے تھے۔ ایک دفعہ آپ معمول کے مطابق سنیانی دورہ پر گئے اور احباب جماعت کو نصیحت کی کہ وہ منیر شکیل صاحب اور اُن کی اہلیہ نعیمہ صاحبہ سے رابطہ قائم کریں۔ مکرم منیر شکیل صاحب اور اُن کی بیگم نعیمہ صاحبہ پاکستانی اساتذہ تھے اور سنیانی سیکنڈری سکول میں پڑھاتے تھے۔ آپ دونوں مخلص احمدی تھے اور ان کا سنیانی جماعت کے قیام میں بہت اہم کردار تھا۔ محترم منیر صاحب بعد میں سنیانی Sunyani جماعت کے امام بنے اور نعیمہ صاحبہ نے وہاں کے خواتین کو منظم کیا۔
مولانا عبد الوہاب آدم صاحب مرحوم گھانا میں لجنہ اماء اللہ کے قیام کے بارہ میں لکھتے ہیں:
میں نے ضروری سمجھا کہ جماعت کی لجنہ اماء اللہ کی تنظیم کو برونگ اہافو کی جماعت احمدیہ سے متعارف کرایا جائے۔ واضح رہے کہ 1950ء کی دہائی میں احمدیہ مسلم کالج کماسی میں ایک طالب علم کی حیثیت سے تھا جب ڈاکٹر سفیر الدین احمد اور جناب سعود احمد صاحب کی بیگمات، جنہیں Mama (ماں) اور آپا (بہن) کہا جاتا تھا، نے پہلی بار کماسی میں احمدی مسلم خواتین کو لجنہ اماء اللہ میں منظم کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں پہلی [مقامی] صدر لجنہ دادی نانا سلامت مقرر ہوئیں جو صرف کماسی تک محدود تھی۔
مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کی طرح جماعت کی خواتین ابھی تک محدود پیمانے پر منظم تھیں۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جماعت کے بین الاقوامی ہیڈ کوارٹر میں لجنہ اماء اللہ نے ایک شعوری کوشش کے ذریعے شرح خواندگی 100 فیصد حاصل کی ہے۔ کماسی میں لجنہ کی تنظیم کو متعارف کرانے کی کوشش ایک قابل تعریف کوشش تھی۔ برونگ اہافو ریجن کی ذمہ داری کے ساتھ ایک ریجنل مشنری کی حیثیت سے، میں نے اپنا فرض سمجھا کہ تمام ذیلی تنظیموں کو بین الاقوامی ہیڈکوارٹرز ربوہ میں متعارف کرایا جائے۔ چنانچہ میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے مسٹر شکیل منیر اور مسز نعیمہ منیر جیسے مخلص اور مستعد مددگار ملے جو دونوں احمدی بطور سائنس ٹیچر سنیانی سیکنڈری اسکول میں، جو ٹیچی مان سے تقریباً 40 میل دور تھے۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ برونگ اہافو جماعت جلد ہی ایک نظم و ضبط والی جماعت میں تبدیل ہو گئی۔
لجنہ اماء اللہ گھانا کی اولین خواتین
محترمہ نعیمہ منیر شکیل صاحبہ نے گھانا میں احمدی خواتین کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور بعد میں علاقائی ہیڈکوارٹر فیاپرے Fiapre میں بھی لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا۔ اُس وقت سوآترے کے مسٹر صادق ڈونکر اس علاقے کے مقامی مبلغ تھے اور مسٹر ابراہیم ایڈوماکو سنیانی جماعت کے صدر کے طور پر خدمت کر رہے تھے جبکہ اس سے قبل آپ فیاپرے کے ہی صدر رہ چکے تھے۔ اُس وقت محترمہ فاطمہ عیسو اور محترمہ حوا ایڈوماکو Adomako جماعت کی خواتین تھیں اور انتظامیہ ممبرات میں محترمہ حبیبہ ایوب صاحبہ، جنرل سیکریٹری۔ محترمہ مریم صادق ڈونکر صاحبہ، سیکریٹری مال۔ محترمہ امینہ ڈونکر صاحبہ، سیکریٹری تعلیم شامل تھیں۔
ابتداء میں لجنہ گھانا کی پندرہ ممبرات تھیں۔ ان کے اجلاس ہر پندرہ دن کے بعد منعقد ہوتے تھے اور ہر ممبر 5 پیسے چندہ ادا کرتی تھی اور یہ ادائیگی ہر اجلاس کے موقع پر ہی کر دی جاتی تھی۔ تاکہ تنظیم کا کام احسن طریق پر چل سکے۔ جماعتی خواتین کے تعاون اور محترمہ نعیمہ منیر صاحبہ کی ہدایات کے مطابق لکڑیوں کے تختوں سے لجنہ کا دفتر تعمیر کیا گیا۔ لجنہ کے مرکز کا سرکاری طور پر افتتاح برونگ اہافو کے وزیر مسٹر لائر اوؤسُو کی موجودگی میں ہوا۔ حاضرین میں اُس علاقے کے مبلغ محترم عبدالوہاب آدم صاحب کے علاوہ فیا پرے کے چیف نانا کو فی یے بوآ بھی شامل تھے۔ محترمہ نعیمہ منیر صاحبہ نے کچھ مخلص ممبرات کے تعاون سے سنیانی کے ایک قریبی قصبہ سوآترے Nsuatre میں 20ممبرات سے جماعت قائم کی۔
ٹیچی مان میں لجنہ کا قیام
اس کے بعد 1969ء میں جب جماعت کی تعداد بڑھ گئی تو محترمہ نعیمہ منیر شکیل صاحبہ کی کوشش سے ٹیچی مان میں (جو جماعت احمدیہ کا علاقائی دفتر تھا) لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا۔ محترمہ نعیمہ منیر صاحبہ نے محترمہ حنا قاسم صاحبہ کو انچارج مقرر کیا جنہوں نے ممبرات کی حوصلہ افزائی کی تاکہ وہ اُس علاقے میں مخلص اور فعال ممبرات بن سکیں۔
برونگ اہافو کے علاقے میں دوسرا لجنہ ہال ٹیچی مان کے علاقے میں تعمیر کیا گیا جس پر 600 سیڈی لاگت آئی جو آج کے حساب سے6 لاکھ سیڈی کے برابر ہے۔ علاقائی ہیڈکوارٹر میں تنظیم کی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے پہلے انتخابات عمل میں آئے تاکہ تمام امور چلانے کے لیے انتظامی مجلس قائم ہو۔ درج ذیل ممبرات منتخب ہوئی۔
حنّا قاسم صاحبہ، صدر۔حلیمہ جبریل صاحبہ، نائب صدر۔ مریم وہاب آدم صاحبہ، سیکرٹری۔ ہاجرہ احمد اُپُکو صاحبہ، سیکریٹری مال۔ ہاجرہ حکیم اڈیجے صاحبہ، سیکریٹری ناصرات زینب ابوبکر صاحبہ، متفرق امور۔
1970ء میں جب ٹیچی مان میں پہلی ریجنل کانفرنس میں منعقد ہوئی تو اس کے بعد لجنہ اماء اللہ گھانا دوسرے علاقوں میں پھیل گئی۔ اس وقت کے ریجنل مبلغ محترم عبدالوہاب آدم صاحب نے اعلان کیا کہ برونگ اہافو میں لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ اب دوسرے علاقوں کو بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے۔
1977ء میں اشانٹی ریجن کے شہر کماسی میں ایک گول میز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں تمام علاقوں سے لجنہ کی نمائندہ خواتین شامل ہوئیں۔ سابق امیر و مشنری انچارج مولانا عبدالوہاب آدم صاحب کی اہلیہ محترمہ مریم وہاب صاحبہ لجنہ اماءاللہ گھانا کی پہلی صدر منتخب ہوئی۔ جبکہ حاجیہ ڈاکٹر عائشہ سلیم صاحبہ کو جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا۔ ایک سال کے بعد علاقہ اشانٹی کے شہر کماسی میں پہلی قومی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔
عہدیداران لجنہ اماء اللہ
- مریم وہاب آدم صاحبہ صدر لجنہ گھانا
MRS. MARYAM WAHAB ADAM
2. مسز زینب ڈازی۔ سیکرٹری لجنہ گھانا
MRS. ZAINAB DADZIE
3. مسز خدیجہ جانسن۔ سیکرٹری تعلیم
MRS. KHADIJA JOHNSTON
4. مسز مریم نور ین۔ سیکرٹری ناصرات
MRS. MARYAM NURAIN
5.مسز زینب جیسی
MRS. ZAINAB GYASI
6.مسز ہانا جانسن۔ سوشل ویلفیئر سیکرٹری
MRS. HANNAH JOHNSTON
7.مسز سعیدہ حسن عطاء۔ سیکرٹری مال
MRS. SAEED HASAN ATTAH
صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کا دورہ گھانا
1987ء پرایک طائرانہ نظر
صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ حضرت مریم صدیقہ صاحبہؒ کی
لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں شمولیت
جماعت گھانا کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ حرم حضرت مصلح موعودؓ ، حضرت مریم صدیقہ صاحبہ نے نائیجیریا کے دورہ کے بعد گھانا کا دورہ کیا اور لجنہ کی کئی تقریبات میں شامل ہوئیں۔ آپ لجنہ اماء اللہ گھانا کے دسویں سالانہ اجتماع منعقدہ کماسی میں شرکت کرنے کیلئے تشریف لائیں جس کا پروگرام پہلے ہی ایک پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا۔آپ کی آمد کیلئے تفصیلی پروگراموں کو کئی ماہ پہلے ہی مکرم امیر صاحب گھانا اور مکرم صدر لجنہ گھانا کی ہدایات کی روشنی میں ترتیب دیا جاچکا تھا۔اگرچہ پروگرام بیس ایام پر مشتمل تھا تاہم حسب ارشاد اسے محدود کیا گیا۔اس دورہ میں قیام و طعام کے سلسلہ میں مکرم ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحب اور ان کی اہلیہ نیز مکرم سید قاسم احمدشاہ صاحب نے بھی اپنی خدمات پیش کیں۔
1987ء میں کماسی کے منعقد ہونے والے اجتماع میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی صدر شرکت فرمائی۔اور گھانا کے مختلف شہروں کا دورہ کیا۔ آپ 29؍اگست کو نائیجیریا سے گھانا پہنچیں۔ احمدیہ مسلم مشن ہاؤس اکرا کی مسجد میں لجنہ گھانا نے آپ کی خدمات میں سپاسنامہ پیش کیا۔ آپ نے قصبہ منگواسی Manguase تشریف لے جا کر لجنہ اماء اللہ سے خطاب کیا۔ آپ سالٹ پانڈ، اکرافو اور اسارچر بھی تشریف لے گئیں۔ علاقہ اشانٹی میں کماسی میں لجنات کے اجتماع کا 4؍ستمبرکو افتتاح فرمایا اور 5؍ستمبر کو لجنہ و ناصرات الاحمدیہ میں انعامات تقسیم فرمائے۔ علاقہ اشانٹی میں قیام کے دوران آپ آسو کورے بھی تشریف لے گئیں جہاں آپ نے احمدیہ ہسپتال کا دورہ کیا۔ 7؍ستمبر کو آپ گھانا سے لندن کیلئے روانہ ہوگئیں۔ روانگی سے قبل ایک تقریب میں مرکزیہ صدر لجنہ کی خدمت میں لجنہ اماء اللہ گھانا کی طرف سے تحائف بھی پیش کئے گئے۔ مکرم صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ مرکزیہ 8؍ستمبر کو لندن پہنچ گئیں اور 23؍ستمبر کو پاکستان کیلئے روانہ ہوگئیں۔
خدیجہ میگیزین کا اجراء
احمدیہ مسلم صدسالہ جشن تشکر جو 23؍مارچ 1989ء کو جماعت احمدیہ نے عالمگیر سطح پر منایا، کو موقع پر مختلف ممالک میں کئی اہم پروگرام بنائے اور نئے اخبارات و رسائل بھی شکرانے کے طور شروع کئے گئے۔ لجنہ اماء اللہ گھانا نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی منظوری خدیجہ میگزین جاری کیا۔ گھانا کا یہ پہلا مسلم میگزین تھا۔ اس سے قبل گھانا میں کسی بھی مسلمان فرقہ کی طرف سے کوئی رسالہ موجود نہ تھا۔ لجنہ گھانا یہ یہ رسالہ آج بھی بفضلہ تعالیٰ ششماہی رسالہ کے طور پر جاری ہے۔
اس کا پہلا شمارہ مئی 1989ء میں نکلا۔ تاہم اسے باقاعدہ طور اگست 1989ء میں لانج کیا گیا۔ اس کے بارہ میں اس کی پہلی ایڈیٹر مس سکینہ بونسو صاحبہ تحریر کرتی ہیں:
On Friday, 4th August 1989 the Khadija Magazine was launched at a simple but impressive ceremony at the National Headquarters of the Ahmadiyya Muslim Mission, Ghana as the first Muslim Women’s Magazine to be launched in Ghana. The launch was performed by the renowned Ghanaian lady and one-time Minister of Communication, Miss Joyce Aryee, now the Chief Executive Officer of the Ghana Chamber of Mines.
خواتین گھانا کے عطیات سے
تعمیر کردہ مساجد کی تعداد
2019ء میں محترم امیر صاحب گھانا نے اعلان کیا کہ لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کو نومبائعات کے لیے مساجد بنانے کے لیے رقم اکٹھی کرنی ہے جو 1800000 GHS ہونی چاہیے تو لجنہ گھانا نے اس آواز پر لبیک کہا اور ارادہ کیا کہ گھانا کے شمالی علاقوں میں 12 نئی مساجد احمدی خواتین کے لیے تعمیر کروائیں گی۔ کچھ خواتین نے اکیلے ہی مساجد کی تعمیر کروا دی۔
نام | تعداد مساجد |
حاجیہ سارہ بونسو صاحبہ | 1 |
حاجیہ محمد ثانی صاحبہ | 3 |
حاجیہ سلمی فاروق صاحبہ | 2 |
حاجیہ آسیہ ثانی محمود صاحبہ | 1 |
حاجیہ صادقہ یبوعا صاحبہ | 3 |
حاجیہ فتیحہ مبینہ اُدوسی ڈونکر صاحبہ | 1 |
حاجیہ نبیلہ حمند صاحبہ | 1 |
اس کے علاوہ 8 ممبرات نے مل کر ایک اور مسجد تعمیر کروائی۔ کچھ اور ممبرات نے بھی مساجد تعمیر کروائیں مگر رپورٹ نہ کی۔ لجنہ کی بہت سی مزید ممبرات نے مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانی کی۔ اس کا آغاز تین سال قبل ہوا تھا اوراب تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ لجنہ اماء اللہ کی بہت سی ممبرات نے مالی قربانی میں حصہ لیا اور کل رقم جو اکٹھی کی گئی وہ GHS 81672600 ہے۔ ابھی بھی خواتین اس مالی قربانی میں حصہ لے رہی ہیں تاکہ سال کے آخر تک یہ منصوبہ پایہٴ تکمیل کو پہنچ سکے۔
گریٹر اکرا کی لجنہ اماء اللہ نے گھانا کے جامعۃ المبشرين کے لئے ایک جدید طرز کے باورچی خانہ کی تعمیر کے لیے مالی معاونت کا وعدہ کر رکھا ہے۔ الحمدللہ اس کے زمینی حصے کے لیے خواتین نے کثیر مالی قربانی دی لیکن پہلی منزل کے لئے جاری نہ رکھا جا سکا۔
خلفاء سلسلہ کے ارشادات کے مطابق
لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانیاں
وہ احمدی خواتین جو کام کرتی ہیں وہ چندہ عام یا چندہ حصہ آمد ادا کریں۔
لجنہ کی خواتین نے کوفوریروآ کی مسجد کی تعمیر کے لیے مالی قربانی دی۔
لجنہ کی خواتین نے نیشنل ہیڈکوارٹر کے لیے رقم فراہم کی۔
لجنہ کی خواتین تحریکِ جدید کی مدد سے بڑی قربانیاں پیش کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پچھلے تین سالوں سے تحریکِ جدید میں پہلی اور دوسری سب سے زیادہ ادائیگی کرنے والی خواتین اشا نٹی کے علاقے سے تعلق رکھتی ہیں۔
خلافتِ خامسہ کے دور میں لجنہ گھانا کی کامیابیاں
نیشنل، علاقائی، ضلعی اور مجلس کی سطح پر لجنات کے اجتماعات و اجلاسات میں باقاعدگی کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ نیز علمی و ورزشی مقابلہ جات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق 2019ء میں مغربی افریقہ کے ممالک کے لئے ایک ورک شاپ کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے بعد عہدہ داران کے لیے مزید تربیتی پروگرام منعقد ہوئے تا کہ وہ بہتر طریقے سے کارکردگی کی رپورٹ پیش کر سکیں۔ ان تربیتی پروگراموں کے نتیجے میں پچھلے دو سالوں سے وقتِ مقررہ پراور باقاعدگی سے رپورٹیں مرکز کو بھیجی جاتی ہیں۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لئے منعقد تربیتی پروگرام کے نتیجے میں سب عہدہ دار خواتین ای میل اور میڈیا کا استعمال کرسکتی ہیں اور اپنا کام بہتر طور پر سرانجام دیتی ہیں۔ مختلف پروگراموں میں ناصرات کی شمولیت میں 40 فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ حضورانور ایدہ اللہ کے خطبات دیکھنے اور آگے پہنچانے میں بھی بہتری آئی ہے۔ تربیتی کلاسز کی وجہ سے ایم ٹی اے دیکھنے کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا اور بہت سے گھروں میں ایم ٹی اے لگانے کے باعث بچوں کے ساتھ ایم ٹی اے دیکھا جاتا ہے۔ مرکز سے موصول شدہ تمام ہدایات کو ترتیب سے رکھا جاتا ہے۔ اس طرح لجنہ اماء اللہ کا اسلامی تعلیمات کی طرف رجحان بہتر ہوا ہے۔مثلاً قرآن کریم سیکھنے، خلافت احمدیہ سے زندہ رابطہ رکھنے میں نیز پردہ سے متعلق بہت سی خواتین میں بہتری آئی ہے اور مزید خواتین اس طرف توجہ دے رہی ہیں۔یونیورسٹی کی طالبات نے بھی اپنے اداروں میں حجاب یا مکمل پردہ شروع کر دیا ہے۔
اسی طرح لجنہ اماء اللہ گھانانے چندہ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے بارے میں بہتر معلومات فراہم کی ہیں اور مزید خواتین اور ناصرات اس میں ادائیگی کر رہی ہیں اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
مالی قربانیاں اور لجنہ اماء اللہ کا اخلاص
اللہ کے فضل سے عاملہ میٹنگ میں باقاعدہ مالی رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ ادائیگیاں ہمیشہ رسیدوں کے ذریعے ہوتی ہیں اور ان ادائیگیوں کی پڑتال زونل آڈیٹر کرتے ہیں۔ ہر مہینہ اس بارے میں رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔ الحمدللّٰہ بہت سی خواتین نے مختلف مالی قربانیوں میں حصہ لیا۔ مثال کے طور پروقفِ جدید اور تحریکِ جدید میں:
2020ء – 2021ء: لجنہ کی ادائیگی GHS 415 40661
2020ء- 2021ء: ناصرات کی ادائیگی GHS 114 46261
2021ء – 2022ء: لجنہ کی ادائیگی GHS 494 11461
2021ء – 2022ء: ناصرات کی ادائیگی GHS 70 20990
خواتین ظاہراً بھی اور پوشیدہ طور پر بھی مالی قربانی میں حصہ لیتی ہیں۔ حاجیہ سارہ بونسو صاحبہ نے 60 ہزار گھانا سیڈی پیش کئے جو اس وقت بہت بڑی رقم تھی جس سے کوفوریڈوا کی مسجد کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ یہ مسجد احمدی خواتین کی پیش کردہ رقم سے ہی تعمیر کی گئی۔ حاجیہ محمد ثانی صاحبہ نے GHS 2600000 پیش کئے تاکہ لجنہ اماء اللہ کے اجتماع کے موقع پر نومبائعات (نئی احمدی خواتین) کے کھانے کا انتظام کیا جائے۔ جب سابقہ صدر رُقیہ خالد صاحبہ مرحومہ نے قومی ہیڈکوارٹر کے لیے چندہ کی درخواست کی تو مسنررحیمہ لارتے وہ خاتون تھی جنہوں نے GHS 500000 کی رقم پیش کی تاکہ لجنہ کے ہیڈ کوارٹر کا ابتدائی کام کیا جا سکے۔
سالانہ اجتماعات لجنہ اماء اللہ گھانا
1940ء سے لے کر 1977ء تک لجنہ اماء اللہ گولڈکوسٹ گھانا کے کئی اجتماعات اور جلسے ہوئے اور1950ء کے عشرہ سے 1977ء تک جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک دن کےلئے لجنہ اماء اللہ جلسہ سالٹ میں منعقد ہوتا رہا جس میں ملک بھر سے سینکڑوں خواتین شامل ہوتی ہیں۔ اس دور میں بطور صدر لجنہ اماء اللہ پاکستانی مبلغین یا پاکستانی اساتذہ کی بیگمات خدمات بجالاتی رہیں۔ جیساکہ اس دور کی متعدد رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے۔
تاہم جب پہلے گھانین امیر مولانا عبد الوہاب کا 1975ء میں تقرر ہوا اور پھر 1977ءمیں پہلی گھانین صدر لجنہ اماء اللہ گھانا مکرمہ مریم وہاب صاحبہ مقرر ہوئیں تو پھر 1978ء میں لجنہ اماء اللہ گھانا کا پہلا مرکزی اجتماع منعقد ہوا۔ جسے پہلا مرکزی اجتماع قرار دیا گیا۔
پہلی و دوسری نیشنل لجنہ اماء اللہ کانفرنس
نیشنل سطح پر لجنہ اماء اللہ کی پہلی کانفرنس 1978ء کو منعقد ہوئی۔ دوسری کانفرنس نومبر1979ء میں ٹیچی مان میں منعقد ہوئی۔ چنانچہ 1978ء میں جب لجنہ اماء اللہ گھانا کا پہلا مرکزی اجتماع منعقد کیا گیا تو اس کے بعد سے تا حال 2022ء تک 39 مرکزی اجتماعات منعقد ہو چکے ہیں۔ جس میں ملک بھر سے سینکڑوں ہزاروں لجنات و ناصرات الاحمدیہ ماسوا تین سال 1983ء، 1986ء اور 1994ء بوجوہ سالانہ اجتماعات نہ شامل ہوئیں۔ اسی طرح 2020ء سے 2022ء تک COVID-19 کی وبا کے باعث بھی اجتماع منعقد نہ ہوئے۔
(احمد طاہر مرزا۔ گھانا)