• 17 مئی, 2025

بیت اللہ کی تاریخ

ہزارہا سال گزرے کہ اللہ کے حکم سے ایک ویرانے میں عبادت کے لیے ایک معبد بنایا گیا تھا اس کے بنانے والے کے متعلق یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ وہ کون تھا، کیونکہ اس بابت متفرق روایات کتب تاریخ و سیرت میں منقول ہیں۔ لیکن یہ امر یقینی ہے کہ وہ معبد قومی اور ملی ہونے کے لحاظ سے دنیا میں سب سے پہلا معبد تھا۔ عالم الغیب خدا خود اس کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے۔

اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۷﴾

(آل عمران: 97)

یقیناً پہلا گھر جو بنى نوع انسان (کے فائدے) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے۔

نیز فرمایا: جَعَلَ اللّٰہُ الۡکَعۡبَۃَ الۡبَیۡتَ الۡحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّہۡرَ الۡحَرَامَ (المائدہ: 98) اللہ نے بیتِ حرام کعبہ کو لوگوں کے (دینى اور اقتصادى) قیام کا ذریعہ بنایا ہے اور حرمت والے مہینہ کو۔ غرض کچھ عرصہ تک لوگ اس معبد میں خدا کا نام لیتے رہے لیکن نامعلوم کیا تغیرات ہوئے کہ وہ جگہ ویران ہو گئی اور عبادت کرنے والے لوگ پراگندہ ہو گئے، اور پھر اس عبادت گاہ پر تجدید تعمیرات کے متفرق ادوار آئے۔ جن کی کچھ تفصیل اس مضمون میں بیان کی جائے گی۔

خانہ کعبہ کو ’’بیت اللہ‘‘ کہنے کی حقیقی فلاسفی

قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَیۡتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمۡنًا ؕ وَاتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰہٖمَ مُصَلًّی ؕ وَعَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ وَاِسۡمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَالۡعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ ﴿۱۲۶﴾

(البقرہ: 126)

اور جب ہم نے (اپنے) گھر کو لوگوں کے بار بار اکٹھا ہونے کى اور امن کى جگہ بنایا اور ابراہیم کے مقام میں سے نماز کى جگہ پکڑو اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کى کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لئے خوب پاک و صاف بنائے رکھو۔

حضرت مصلح موعودؓ اس آیت میں موجود خانہ کعبہ کی تعریف میں اَلْبَيْت کی حقیقت پر مبنی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اَلْبَیْت خانہ کعبہ کا نام ہے۔ اسے اَلْبَیْت اس لئے کہتے ہیں کہ اِس میں بیت کے تمام خواص جمع ہیں۔ جیسے کہتے ہیں زَیْدُ نِ الرَّجُلُ زید ہی آدمی ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک معقول آدمی کے اندر جس قدر خوبیاں پائی جانی چاہیں وہ سب کی سب زید میں پائی جاتی ہیں۔ پس خانہ کعبہ ہی گھر ہے کا مطلب یہ ہے کہ گھر کی جو خصوصیتیں ہوتی ہیں وہ سب کی سب صرف اِسی گھر سے حاصل ہوتی ہیں۔ گھر کی کیا خصوصیات ہوتی ہیں۔ گھر کی یہ خصوصیات ہوتی ہیں کہ (1) گھر مستقل رہائش کی جگہ ہوتی ہے (2) گھر چوری اور ڈاکہ سے حفاظت کا ایک ذریعہ ہوتا ہے (3) گھر امن کا مقام ہوتا ہے جس میں داخل ہو کر انسان ہر قسم کے مصائب سے نجات پا جاتا ہے (4) گھر تمام قریبی رشتہ داروں اور عزیزوں کے جمع ہونے کی جگہ ہوتا ہے (5) گھر انسان کے مال و متاع کو محفوظ رکھنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اِن پانچ خصوصیتوں کے لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو درحقیقت خانہ کعبہ ہی اصل گھر ہے۔ کیونکہ اگر حفاظت کو لو تو بڑے بڑے قلعوں کو لوگ تباہ کر دیتے ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں رہنے والوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ مگر خانہ کعبہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کی دائمی حفاظت حاصل ہے اور ہر شخص جو اس پر ہاتھ اٹھانا چاہے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ کو شل کر دیتا ہے، چنانچہ ابرہہ کی مثال…گھر کی دوسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ مستقل رہائش کا مقام ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی یہی گھر ہے جو اَلْبَیْت کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ دائمی زندگی خدا کے گھر میں ہی ملتی ہے…گھر کی تیسری خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر مختلف قسم کے ذخائر اور اموال و امتعہ رکھتا ہے اور اِس نقطہ ہائے نگاہ سے بھی یہی گھر ہے جو رُوحانی برکات کے ذخائر اپنے اندر محفوظ رکھتا ہے۔ کیونکہ ذخائر تو خواہ کتنے بھی قیمتی ہوں ضائع ہو جاتے ہیں لیکن جو وقت عبادت الٰہی میں خرچ ہوتا ہے وہ ضائع نہیں جاتا بلکہ ایک ایک لمحہ جو ذکر الٰہی اور عبادت میں بسر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے ہزاروں ہزار انعامات کے ذخائر کی صورت میں محفوظ رکھتا اور اپنے بندے کو اس سے متمتع فرماتا ہے۔ گھر کی چوتھی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ رشتہ داروں کے جمع ہونے کی جگہ ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت بھی خانہ کعبہ میں بدرجہ اَتَم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ تمام دنیا کے مسلمان وہاں ہر سال حج کے لئے جمع ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے مل کر اپنے ایمان تازہ کرتے ہیں اور پھر اس لحاظ سے بھی خانہ کعبہ سب لوگوں کے جمع ہونے کی جگہ ہے کہ وہ جگہ جہاں انسان اپنے تمام رشتہ داروں سے مِل سکے گا صرف جنت ہے اور جنت کا ظل مسجد ہوتی ہے جس میں پانچوں وقت تمام مسلمان جمع ہو کر خدا تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے حالات سے بھی با خبر رہتے ہیں۔ پھر گھر کی یہ (5) خصوصیت کہ اس میں انسان کو ہر قسم کا امن حاصل ہوتا ہے یہ بھی خانہ کعبہ کو میسر ہے۔ کیونکہ امن اسی صورت میں میسر آتا ہے جب تمام جھگڑے مٹ جائیں اور خانہ کعبہ ہی ایک ایسا مقام ہے جو توحید کا مرکز ہونے کی وجہ سے تمام دنیا کو ایک نقطہا اتحاد پر جمع کرنے کا ذریعہ ہے۔ غرض خانہ کعبہ ہی حقیقی اور کامل گھر ہے جس میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک گھر میں پائی جانی چاہیں۔

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ نمبر 163-165)

موجودہ خانہ کعبہ کی آباد کاری بذریعہ حضرت ابراہیمؑ

یہ جگہ اللہ کو پیاری تھی پس اس نے ارادہ کیا کہ وہ پھر سے اس کو آباد کرے اور ہمیشہ کے لیے دنیا کی ہدایت کا مرکز بنائے، چنانچہ خدا نے اس کی آبادی کے لیے ایسا مصفی انسان چنا جس کی اولاد نے اپنی نورانی شعاعوں سے آج تک دنیا کو روشن کر رکھا ہے۔ یہ شخص ایک بت ساز گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ وہ ملک عراق کا رہنے والا تھا۔ آخر یہ بچہ ابراہیم کے نام سے دنیا میں مشہور ہوا۔ یہ عظیم انسان اپنے شہر کے حالات سے دل برداشتہ ہو کر وہاں سے نکلا اور اپنی بیوی سارہ کے ساتھ عراق سے ہجرت کر کے پھرتے پھراتے فلسطین آ پہنچا اور عرصہ تک اس ملک میں رہا لیکن ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ نہ بیٹا نہ بیٹی۔ آخر سارہ نے ابراہیم سے کہا ہمارے ہاں اولاد نہیں میں چاہتی ہوں کہ اس لڑکی کو جو کہ مصر کے بادشاہ نے ہماری خدمت کے لیے دی ہے تو اپنی بیوی بنا شاید اللہ اس سے ہمیں اولاد عطا فرمائے۔ یہ نیک اور پاک باز عورت درحقیقت شاہِ مصر کے خاندان کی ایک لڑکی تھی اور اس نے ابراہیم ؑکی معجزانہ طاقت کو دیکھ کر ان کی دعاواں کے حصول کی غرض سے ان کی خدمت کے لیے اسے ساتھ کر دیا تھا۔ اس لڑکی کا نام ہاجرہ تھا۔ ابراہیم نے اپنی بیوی کی اس بات کو قبول کر کے ہاجرہ کو اپنے نکاح میں لیا اور خدا نے بڑھاپے میں ابرام کو ایک لڑکا دیا جس کا نام اس نے اسمٰعیل رکھا یعنی خداوند خدا نے ہماری دعا سن لی۔ اس بیٹے کی پیدائش پر خدا تعالیٰ نے ابرام کا نام ابراہام کر دیا کیونکہ اس سے نعمتوں کی فراوانی اور آسمانی برکت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ (متذکرہ بالا معلومات کی تفصیل تورات کی کتاب پیدائش سے پڑھی جاسکتی ہیں)۔ اسی ابراہام کا تلفظ عربی زبان میں ابراہیم ہے اسی وجہ سے لوگ اسے ابراہام اور عرب ابراہیم کہتے ہیں۔

جب اسماعیل کچھ سمجھدار ہو گئے اور اپنے والد کے ساتھ دوڑ دوڑ کر چلنے لگے تھے کہ ایک دن ابراہیم نے ایک خواب دیکھا کہ وہ اسمٰعیل کو خدا تعالیٰ کے لیے قربان کر رہے ہیں فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعۡیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیۡۤ اَرٰی فِی الۡمَنَامِ اَنِّیۡۤ اَذۡبَحُکَ فَانۡظُرۡ مَاذَا تَرٰی ؕ قَالَ یٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۰۳﴾ (الصافات: 103) پس جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے پھرنے کى عمر کو پہنچا اس نے کہا اے میرے پیارے بیٹے! یقیناً میں سوتے میں دیکھا کرتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، پس غور کر تیرى کیا رائے ہے اس نے کہا اے میرے باپ! وہى کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے یقیناً اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔

اس زمانے میں انسانوں کی قربانی کا عام رواج تھا اور اسے خدا تعالیٰ کے فضل کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ ابراہیم نے بھی خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ میرے اخلاص کا امتحان لینا چاہتا ہےاس لیے جھٹ اپنی بڑھاپے کی اولاد کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور بچے سے محبت کے ساتھ پوچھا کہ تیری مرضی کیا ہے۔ اس نے کہا اے میرے باپ! افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ ۫ سَتَجِدُنِیۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۰۳﴾

(الصافات: 103)

وہى کر جو تجھے حکم دیا جاتا ہے یقیناً اگر اللہ چاہے گا تو مجھے تُو صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔

بچہ گو چھوٹا تھا مگر نورِ نبوت اس کی پیشانی سے چمک رہا تھا۔ نیک باپ کی تربیت کی وجہ سے گو ابھی مذہب کی باریکیاں نہ سمجھتا ہو لیکن اس قدر جانتا تھا کہ اللہ کے حکم کو نہیں ٹالنا چاہیے۔ وہ بولا جس طرح چاہو اللہ کے حکم کو پورا کرو۔ باپ نے آنکھوں پر پٹی باندھی اور بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اسے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَتَلَّہٗ لِلۡجَبِیۡنِ (الصافات: 104) پس جب وہ دونوں رضامند ہو گئے اور اس نے اُسے پیشانى کے بَل لٹا دیا۔

مگر خواب کا مطلب درحقیقت کچھ اور تھا اور اس کی تعبیر کسی اور طرح ظاہر ہونے والی تھی چنانچہ اس اثناء میں اللہ نے ابراہیم کو الہام کیا کہ قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡیَا ۚ اِنَّا کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۰۶﴾ (الصافات:106) یقیناً تُو اپنى رؤیا پورى کر چکا ہے یقیناً اسى طرح ہم نیکى کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں۔

پس اب ظاہر میں بچہ کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ قرب الٰہی کے لیے انسانی قربانی کا یہ انداز ہمیشہ کے لیے منسوخ کیا جاتا ہے۔ آئندہ یہ قربانی اس رنگ میں قبول ہو گی کہ خدا کی رضا اور اس کے دین کی خاطر جان و مال،عزت اور وقت کی قربانی کی جائے تاہم اس اقرار کے ظاہری نشان کے لیے بطور یادگار آئندہ ہر سال ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو عمدہ اور قیمتی جانور کی قربانی دی جائے۔ وَفَدَیۡنٰہُ بِذِبۡحٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۸﴾ وَتَرَکۡنَا عَلَیۡہِ فِی الۡاٰخِرِیۡنَ ﴿۱۰۹﴾ (الصافات: 108-109) اور ہم نے ایک ذبحِ عظیم کے بدلے اُسے بچا لیا اور ہم نے بعد میں آنے والوں میں اس کا ذکرِخیر باقى رکھا۔

بہرحال ان قربانیوں اور دعاواں کے نتیجہ میں حضرت ابرہیم کو بشارت ملی کہ اس بچے کی نسل کو میں بڑھاواں گا اور لوگ اس کی نسل کے ذریعے برکت پائیں گے۔

چنانچہ الٰہی اشارہ اور حالات پیش آمدہ واقعات کے تحت حضرت ابراہیم اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے پہلوٹے بیٹے اسمٰعیل کو اس جگہ چھوڑ آئے جہاں آج کل مکہ آباد ہے۔ رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسۡکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرۡعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الۡمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجۡعَلۡ اَفۡئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ وَارۡزُقۡہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَشۡکُرُوۡنَ ﴿۳۸﴾ (ابراهيم: 38) اے ہمارے ربّ! یقیناً میں نے اپنى اولاد میں سے بعض کو ایک بے آب وگیاہ وادى میں تیرے معزز گھر کے پاس آباد کر دیا ہے اے ہمارے ربّ! تاکہ وہ نماز قائم کریں پس لوگوں کے دلوں کو ان کى طرف مائل کر دے اور انہیں پھلوں میں سے رزق عطا کر تاکہ وہ شکر کریں۔

قدیم زمانہ میں اس کا نام بَكَّةَ (آل عمران: 97) بھی تھا۔ حضرت اسمٰعیل اور ان کی والدہ کو یہاں آباد کرنے اور اس جگہ کو رونق بخشنے کا اصل مقصد یہ تھا کہ ہمیشہ کی زندگی کے مرکز الْبَيْتِ الْعَتِيقِ (الحج: 34) کو جس کی بنیادیں ریت کی تہوں میں اپنی صدیوں کی تاریخ چھپائے ہوئے تھیں پھر سے تعمیر کیا جائے۔

غرض یہاں آباد ہونے کے کچھ عرصہ بعد ارشاد الٰہی کے تحت حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کی مدد سے اس گھر کو دوبارہ تعمیر کیا جو کہ قبلہ عالم ہے۔ کعبہ اور بیت اللہ کے نام سے مشہور اور معروف ہے یہ گھر مسجدِ حرام کے درمیان بنا ہوا ہے اس پر سیاہ ریشمی غلاف چڑھا رہتا ہے۔ چنانچہ فرمایا وَاِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَاِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾ (البقرہ: 128) اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کى بنیادوں کو اُستوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھى (یہ دعا کرتے ہوئے) کہ اے ہمارے ربّ! ہمارى طرف سے قبول کر لے یقینا تو ہى بہت سننے والا (اور) دائمى علم رکھنے والا ہے۔

قدامت خانہ کعبہ کے متعلق بعض اقوال

اس کے متعلق تاریخ میں مختلف اقوال ملتے ہیں مثلاً ایک روایت میں ہے کہ فتح مکہ کے دن آپﷺ نے فرمایا کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے بھی پہلے یہ گھر بنایا گیا إِنَّ هَذَا البَلَدَ حَرَّمَهُ اللّٰهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ۔ یعنی اس شہر کی حرمت اس دن سے ہے جب اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔

(بخاری کتاب الجزیہ باب اثم الغادر للبر و الفاجر حدیث نمبر 13189)

کعبہ کی تاریخ کے سلسلہ میں ایک روایت حضرت ابوذرؓ کی ہے کہ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الأَرْضِ أَوَّلَ؟ قَالَ: المَسْجِدُ الحَرَامُ۔ قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ المَسْجِدُ الأَقْصَى قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً (صحيح البخاري كتاب أحاديث الأنبياء باب قول اللّٰه تعالىٰ واتخذ اللّٰه إبراهيم خليلا) حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ! زمین میں پہلے کونسی مسجد بنائی گئی؟ آپؐ نے فرمایا: مسجد حرام۔ کہتے تھے: میں نے عرض کیا: پھر اس کے بعد کونسی؟ فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ میں نے پوچھا: ان دونوں میں کتنا فاصلہ تھا؟ فرمایا: چالیس سال۔

تعمیرات کعبہ

بعض روایات میں لکھا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو جنت سے نکالا، تو وہ بہت غمگین ہوئے اور بہت زاری کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خیمہ سے عزت بخشی اور یہ خیمہ مکہ میں کعبہ کی جگہ بنا یا گیا۔ اس وقت کعبہ نہیں ہوتا تھا۔ اسی دن سے اس کے سا تھ حجر اسود بھی اتارا گیا، جو سفید رنگ کا پتھر تھا، پھر طوفان (نوح) کے زمانے میں کعبہ اٹھا لیا گیا اور اس کی بنیادیں رہ گئیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعا لیٰ نے اپنے نبی حضرت ابراہیمؑ کو حکم دیا کہ وہ اس کی تعمیر کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بادل کے ذریعے ان کی راہنمائی فرمائی کہ بنیادیں کہاں ہیں۔ اس پر ان دونوں نے کعبہ کی دیواریں بنائیں، جبکہ اس کے اوپر چھت نہیں ڈالی۔ اس کی بنیاد 5 یا 7 پہاڑوں کے پتھروں سے بنائی گئیں، جنہیں ملائکہ اٹھا کر لاتے تھے۔ ان پہاڑوں کے نام حراء، ثبیر، الجودی، طور سیناء، طور زیتا، احد، لبنان ہیں۔ جب حضرت ابراہیمؑ اس کی تعمیر سے فارغ ہو چکے، تو حضرت جبرائیل ان کے پاس آئے اور کہا کہ اس کا طواف کرو۔ اس پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ نے طواف کیا (7 دفعہ چکر لگائے) ارکان (حجر اسود، رکن یمانی) کا استلام (چھونا یا بوسہ دینا) کرتے ہوئے جب طواف کر لیا، تو پھر مقام کے پیچھے نماز ادا کی دو رکعت اور حضرت جبرائیلؑ نے ان کے سا تھ کھڑے ہو کر ان کو عبادت کے طریق بتائے۔ پھر حکم دیا کہ اب آپؑ لوگوں میں حج کا اعلان کریں۔

(معجم اعلام متن الحدیث از دکتور محمد التونجی صفحہ96-97)

بہرحال بیت اللہ کے متعلق مختلف اقوال موارخین نے بیان کئے ہیں۔ بعض نے تین تعمیرات کا ذکر کیا ہے بعض نے چار بعض نے پانچ بعض نے دس اور بعض نے بارہ۔ اس اختلاف کی وجہ کعبہ کے سنگ بنیاد، اس کی تعمیر اور مرمت کے مابین پیدا ہونے والا اشتباہ ہے۔ جن موارخین کے مطابق کعبہ کی تعمیر آج تک چند دفعہ ہوئی اس میں ملائکہ اور حضرت آدمؑ ، حضرت ابراہیمؑ ، ابن زبیر اور حجاج کی پانچ تعمیرات شامل ہیں اور بارہ تعمیرات کی روایت کے مطابق مندرجہ ذیل بیان کی گئی ہیں:

  1. ملائکہ کی تعمیر
  2. حضرت آدمؑ 
  3. حضرت شیثؑ 
  4. حضرت ابراہیمؑ 
  5. عمالقہ
  6. جرہم
  7. قصىّ
  8. عبدالمطلب
  9. قریش
  10. عبداللہ بن زبیر
  11. حجاج
  12. سلطان مراد

(مأخوذ از الفضل آن لائن 4؍جولائی 2021ء زیر عنوان بیت اللہ کی مختصر تاریخ قسط اول از حافظ ایچ ایم طارق)

(متذکرہ بالا تعمیرات کے متعلق تفصیل سے معلومات حسب ذیل کتب سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ الکعبہ البدایہ و النہایہ، تاریخ الطبری، انساب الاشراف للبلاذری، تاریخ ابن ہشام اور خلاصہ ان کا مطالعہ کرنے کے لیے الفضل 4؍جولائی 2021ء کا مطالعہ کیا جائے۔ ناقل)

’’خانہ کعبہ‘‘ کی تجدیدی تعمیری
اور ’’بیت المقدس‘‘ کی تعمیر حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ

حضرت سید زین العابدین شاہ صاحب نے بخاری شریف کی شرح میں متذکرہ بالا احادیث کے متعلق مختلف تاریخی حوالہ جات سے ثابت کیا ہے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں کی موجودہ ابتداء حضرت ابراہیمؑ ہی کے ذریعہ ہوئی۔ ایک کی تجدید ہوئی اور دوسرے کی بنیاد رکھی گئی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے ایک بیٹے اسماعیلؑ کے ساتھ بیت اللہ کی بنیادوں کو بلند کیا تو دوسرے بیٹے اسحاقؑ کے ساتھ بیت ایل یا بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ جس کے درمیان 40 سال کا عرصہ بنتا ہے۔ چنانچہ آپ تحریر کرتے ہیں کہ ’’مذکورہ روایات سے ظاہر ہے کہ بیت اللہ پہلی مسجد ہے اور بیت المقدس دوسری اور دونوں کے درمیان چالیس سال کا تفاوت ہے اور یہ دونوں مساجد توحید کی اہم بنیاد ثابت ہوئیں۔ امام ابن حجرؒ نے اس روایت کے تعلق میں علامہ ابن جوزیؒ کا ایک اشکال نقل کیا ہے کہ بیت اللہ کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے اُٹھائی گئی اور بیت المقدس کی حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعہ سے اور ان دونوں کے درمیان تقریباً ایک ہزار سال کا عرصہ ہے۔ اس تعلق میں انہوں نے نسائی کی روایت کا بھی حوالہ نقل کیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر کی تھی (سنن النسائی، کتاب المساجد، باب فضل المسجد الاقصی و الصلاۃ فیہ) علامہ قرطبیؒ نے اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ بیت اللہ اور بیت المقدس دونوں کی ابتداء حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے ذریعہ سے ہوئی۔ ایک کی تجدید ہوئی اور دوسرے کی بنیاد رکھی گئی۔ پھر وقتاً فوقتاً ان دونوں عبادت گاہوں کی تجدید و تعمیر مختلف زمانوں میں ہوتی رہی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کا تعلق اصل وضع بنیاد سے ہے۔ جس کا آغاز بلا شبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سے ہوا اور ان دونوں عبادت گاہوں کی بنیاد کے درمیان تخمیناً چالس سال کا عرصہ ہے۔ جیسا کہ توریت کی کتاب پیدائش باب 12 میں مذکور ہے کہ وہ حاران (آسور یعنی عراقِ عرب) سے ہجرت کر کے ملک کنعان (فلسطین) میں آئے اور ایک قربان گاہ بمقام سکم (نابلس) میں اس جگہ بنائی، جہاں خداوند ان پر ظاہر ہوا اور ان سے فرمایا کہ یہی ملک (کنعان) تیری نسل کو دوں گا اور پھر یہاں سے کوچ کر کے اس پہاڑ کی طرف گیا جو بیت ایل کے مشرق میں ہے اور وہاں اس نے خداوند کے لئے قربان گاہ بنائی اور خداوند سے دعا کی اور یہاں سے سفر کرتا کرتا جنوب کی طرف بڑھا اور جب اس ملک میں سخت کال پڑا، مصر کو گیا۔ بوقت ہجرتِ وطن آپؑ کی عمر پچہتر برس بتائی گئی ہے اور ان سے خداوند کی طرف سے وعدہ کیا گیا ہے کہ زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے۔ (پیدائش باب 12 آیات 3 تا10) باب13 میں ہے کہ مصر سے واپسی پر پھر اس بیت اللہ میں آئے جس کے مشرق میں مقام عي ہے اور جہاں انہوں نے قربان گاہ بنائی اور دعا کی تھی (یہ نابلس والی قربان گاہ نہیں بلکہ فلسطین والا بیت ایل اور وہاں کی قربان گاہ ہے۔) باب 14 میں حضرت لوط علیہ السلام کے وادیا اردن میں سکونت اختیار کرنے کا ذکر ہے۔ باب 15 میں دریائے فرات سے دریائے مصر (نیل) تک وسیع علاقے دیئے جانے کا ذکر ہے اور باب 16 میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش اور ان کی نسل سے بارہ سردار پیدا ہونے کے وعدہ کا ذکر ہے اور یہ کہ ان کی نسل بہت بڑھے گی اور برکت پائے گی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر چھیاسی برس بتائی گئی ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیرہ برس کی تھی جب ان کا ختنہ ہوا اور اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر ننانوے سال بتائی گئی ہے۔ (پیدائش باب17) اور باب 18 میں حضرت سارہ کو فرشتوں کی طرف سے بشارت دینے کا واقعہ مذکور ہے اور باب 21 میں ان کے ہاں حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کا ذکر ہے۔ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر سو سال بتائی گئی ہے اور اسی باب میں حضرت ہاجرہ کے مع حضرت اسماعیلؑ فاران کی طرف ہجرت کرنے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور یہ بھی ذکر ہے کہ ان کی ماں حضرت ہاجرہ نے ان کی شادی کا انتظام کیا اور اس کے بعد حضرت اسحاقؑ کے ذبح کئے جانے کی آزمائش اور ان کی نسل کو بہت برکت دیئے جانے سے متعلق وعدے کا ذکر ہے۔

(باب 22)

اس تبصرہ سے ظاہر ہے کہ وہ جگہ جہاں یہ واقعہا آزمائش رونما ہوا، اس جگہ نے بیت المقدس کے نام سے بنواسرائیل کے درمیان شہرت پائی۔ اس کی بنیاد طبعاً بعد کی ہے اور یہ وہ جگہ ہے جو جبل موریہ پر واقع ہے۔ مذکورہ بالا عرصہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جنوب کی طرف قادس اور شور کے درمیان سفر کرنے اور جرار میں قیام کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

(باب 20)

حضرت ابراہیمؑ کی ارض کنعان میں آمد اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کے عرصہ کا پچیس سال اندازہ بتایا گیا ہے۔ (قطف الزھور فی تاریخ الدھور تالیف یوحنا افندی ابکاریوس، القسم الااوّل فی ممالک قارۃ ااسیا و شعوبھا ودولھا، الفصل الرابع فی تاریخ العبرانیین، الباب الثانی فی خروج بنی اسرائیل من مصر تحت ریاسۃ موسی، صفحہ33) اور اسی موالف کا اندازہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کل عمر 175 سال تھی۔

(الباب الاوّل فی ذکر ابراہیم و ارتحال یعقوب وااولادہ الی مصر صفحہ31)

سوال یہ ہے کہ اس اثناء میں دوسرا سفر جنوب کی طرف کیوں اختیار کیا گیا اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی زندگی کے حالات کی نسبت صحف عہد قدیمہ کیوں خاموش ہیں اور اگر حضرت اسحاق و حضرت یعقوب علیہما السلام کے متعلق اسرائیلی روایات قابل اعتماد ہیں تو عربوں کی روایات ان کے جد امجد حضرت اسماعیل علیہ السلام سے متعلق کیوں قابل اعتماد نہیں؟ آخر قومی روایات متداولہ کے سوا ہمارے پاس اور کونسا یقینی ذریعہ ہے جس سے ان کے حالات کا علم ہو سکے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے سفر کی بابت قیاس غالب یہی ہے کہ جنوب کی سمت ان کا سفر حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی خبرگیری اور نگہداشت ہی کے لئے تھا اور ان کی نسبت یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ انہوں نے وہاں کوئی بیت ایل نہ بنائی ہو۔ کیونکہ خود توریت کی مذکورہ بالا شہادتوں سے ثابت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جہاں بھی قیام فرمایا وہاں ایک بیت ایل اور قربان گاہ ضرور قائم کی۔ مثلاً حاران سے سکم میں آنے پر، سکم سے مقام عی میں آنے پر اور کنعان کے جنوب میں مقام حبرون (بیت الخلیل) اور پھر جبل موریا پر بوقت آزمائش ذبیحہ گزارا اور قربان گاہ بنائی اور دعا کی اور ان جگہوں کا نام بیت ایل رکھا۔ پس ایسے شخص کی نسبت قیاس یہی کہتا ہے کہ جہاں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا قیام ہوا، وہاں بھی انہوں نے ضرور بیت ایل کی بنیاد رکھی۔ جیسا کہ اس بارہ میں بنی اسماعیل کی روایتیں موجود ہیں اور یہ پہلا بیت اللہ ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلام سے متعلق جبل موریا والا دوسرا بیت ایل بعد کا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ذکر ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت تک 25 سال اور سن بلوغ کم از کم پندرہ سال ہے۔ یہ کل چالیس سال کا عرصہ ہوتا ہے جو ایک اندازہ ہے۔ اگر اسے مدنظر رکھا جائے تو یہ اندازہ اَصدق الصادقین نبی اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اندازے سے بالکل مطابق ہوتا ہے جو اس روایت میں مروی ہے۔ خود یہودی اور مسیحی محققین و شارحین تورات کو تسلیم ہے کہ اسرائیلی احبار کے اندازے صرف قیاسی ہیں یقینی نہیں جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے۔

(اردو ترجمہ و شرح صحیح بخاری از حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ
جلد ششم صفحہ نمبر269-272 زیر کتاب احادیث الانبیاء بمطابق ایڈیشن 2019ء)

حضرت مصلح موعودؓ موجودہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیل علیہ السلام کے کردار کے متعلق بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
وَاِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَاِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۲۸﴾ (البقرہ: 128) اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ بیت اللہ کو ہم نے مَثَابَةً اور امن کا مقام بنایا ہے۔ اس میں یہ کوئی ذکر نہیں تھا کہ بیت اللہ کی تعمیر کس کے ہا تھوں ہوئی مگر اب فرماتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی بنیادیں کھڑی کیں۔ اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی بنیادیں رکھی تھیں، مگر یہ درست نہیں۔ کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے یضع القواعد نہیں فرمایا، بلکہ يَرْفَعُ الْقَوَاعِدَ فرمایا ہے۔ اگر بنیاد رکھنے کا ذکر ہوتا تو وضعکا لفظ استعمال کیا جاتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیت اللہ پہلے سے موجود تھا، مگر اس کی عمارت منہدم ہو چکی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اس کی بنیادوں کو بلند کیا اور بیت اللہ کی از سر نو تعمیر کی۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ177۔178)

خا نہ کعبہ کی از سر نو تعمیر در حیات نبیؐ

احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے قبل قریش کی تعمیر کعبہ اور حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ کی تعمیر کا ذکر ہے۔ قریش کی تعمیر کے بارہ میں حضرت جابرؓ بن عبداللہ کی روایت ہے لَمَّا بُنِيَتِ الكَعْبَةُ، ذَهَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَبَّاسٌ يَنْقُلاَنِ الحِجَارَةَ، فَقَالَ عَبَّاسٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْعَلْ إِزَارَكَ عَلَى رَقَبَتِكَ يَقِيكَ مِنَ الحِجَارَةِ، فَخَرَّ إِلَى الأَرْضِ وَطَمَحَتْ عَيْنَاهُ إِلَى السَّمَاءِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: إِزَارِي إِزَارِي فَشَدَّ عَلَيْهِ إِزَارَہُ کہ جب کعبہ کی تعمیر ہوئی تو حضرت عباسؓ اور رسول اللہﷺ پتھر ڈھونے لگے۔ عباسؓ نے بھتیجے (رسول اللہﷺ) سے کہا: اپنی تہ بند کندھے پر رکھ لیں جو آپ کو پتھر کے گزند سے بچائے گا۔ ایسا کرنے پر آنحضرتﷺ (مارے شرم کے) زمین پر گر پڑے، آپ کی آنکھیں آسمان کی طرف لگی ہوئی تھیں اور فرماتے تھے میری چادر مجھے دے دو۔ چنانچہ آپ نے دوبارہ چادر مضبوطی سے باندھ لی۔

(بخاری کتاب فضائل الصحابہ باب بنیان الکعبہ حدیث نمبر 3829)

خانہ کعبہ کی اِس تعمیر کے متعلق بخاری شریف میں آنحضرتﷺ کی متفرق روایات درج ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ لَمَّا بَنَوْا الكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ اِبْرَاهِيمَ؟ معلوم ہے تیری قوم نے جب کعبہ کی تعمیر کی تو انہوں نے ابراہیمؑ کی بنیادوں سے ہٹ کر اسے چھوٹا کر دیا۔

(دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ) سَأَلْتُ النَّبِيَّﷺ عَنْ الجَدْرِ أَمِنَ البَيْتِ هُوَ؟ قَالَ: نَعَمْ- قُلْتُ: فَمَا لَهُمْ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي البَيْتِ؟ قَالَ: إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ- قُلْتُ: فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا؟ قَالَ: فَعَلَ ذَلِكَ قَوْمُكِ، لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا، وَلَوْلاَ أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِالْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ، أَنْ أُدْخِلَ الجَدْرَ فِي البَيْتِ، وَأَنْ أُلْصِقَ بَابَهُ بِالأَرْضِ (حطیم کی) دیوار کے متعلق پوچھا کہ کیا وہ بیت اللہ کا (حصہ) ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: پھر ان کو کیا ہوا کہ انہوں نے اسے بیت اللہ میں داخل نہیں کیا؟ آپؐ نے فرمایا: تمہاری قوم کے پاس اخراجات کم ہو گئے تھے۔ میں نے پوچھا: پھر اس کا یہ دروازہ کیوں اونچا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تمہاری قوم نے یہ اس لئے کیا کہ وہ جسے چاہیں اندر لے جائیں اور جس کو چاہیں روک دیں اور اگر تمہاری قوم جاہلیت سے قریب زمانہ کی نہ ہوتی جس سے مجھے اندیشہ ہے کہ ان کے دل بُرا مانیں گے کہ میں حطیم کو بیت اللہ میں شامل کروں اور بیت اللہ کے دروازہ کو زمین سے ملا دوں (تو ایسا کر دیتا)۔

نیز فرمایا فَأَدْخَلْتُ فِيهِ مَا أُخْرِجَ مِنْهُ، وَأَلْزَقْتُهُ بِالأَرْضِ، وَجَعَلْتُ لَهُ بَابَيْنِ، بَابًا شَرْقِيًّا، وَبَابًا غَرْبِيًّا، فَبَلَغْتُ بِهِ أَسَاسَ إِبْرَاهِيمَ، میں نئی تعمیر میں وہ چیزیں شامل کر دیتا جو اس سے نکال دی گئیں اور میں اس (دروازے) کو زمین سے ملا دیتا اور دو دروازے ایک مشرق اور ایک مغرب کی طرف بناتا اور اس طرح ابراہیمؑ کی بنیادوں پر اسے مکمل کرتا۔‘‘

(بخاری کتاب المناسک باب فضل مکہ و بنیانہا احادیث نمبر 1582-1586)

فَذَلِكَ الَّذِي حَمَلَ ابْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْهُمَا عَلَى هَدْمِهِ، قَالَ يَزِيدُ: وَشَهِدْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ حِينَ هَدَمَهُ، وَبَنَاهُ، وَأَدْخَلَ فِيهِ مِنَ الحِجْرِ اس بات نے (حضرت عبداللہ) بن زبیر رضی اللہ عنہما کو بیت اللہ کے گرانے پر آمادہ کیا۔ یزید کہتے تھے: میں حضرت ابن زبیرؓ کے پاس موجود تھا جب انہوں نے اس کو گرایا اور بنایا اور اس میں حطیم کو داخل کیا

(بخاری کتاب المناسک باب فضل مکہ و بنیانھا حدیث نمبر 1586)

حضرت ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ نے ان متذکرہ احادیث کی تشریح میں اس تعمیر اور دوبارہ واپس حیات نبیﷺ میں موجود کعبہ کی شکل کی بحالی کی تفصیل لکھی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 64ھ میں آتش زدگی سے جب کعبہ کو نقصان پہنچا تو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے اس کی دوبارہ تعمیر کے وقت آنحضرتﷺ کی خواہش کے مطابق حطیم کو بھی شامل کر لیا۔ انہوں نے کعبہ کے اندر بجائے چھ ستونوں کی جگہ صرف تین ستون ہی بنوائے۔ لیکن عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کے ذریعے گروا کر پھر بیت اللہ کو جیسا پہلے تھا ویسا ہی بنوا دیا۔ صرف تین ستونوں والی تبدیلی بحال رکھی اور توجیہہ یہ کی کہ جس بات کو نبیﷺ نے نہیں کیا، اسے کرنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا اور روایت مذکورہ بالا میں اسی واقعہ کا ذکر ہے۔

(فتح الباري شرح صحيح البخاري لإبن حجر العسقلاني زیر شرح قَوْلُهُ بَابُ فَضْلِ مَكَّةَ وَبُنْيَانِهَا وَقَوْلُهُ تَعَالَى وَإِذ جعلنَا الْبَيْت مثابة للنَّاس وَأمنا۔ جزء 3 صفحہ562۔564)

حضرت مرزا بشیر احمدؓ اپنی شہرہ آفاق تصنیف سیرت خاتم النبیینؐ میں مختلف تواریخ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
’’ہر دنیوی چیز کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا سلسلہ لگا ہوا ہے۔ چنانچہ کعبہ بھی حضرت ابراہیمؑ کی تعمیر کے بعد کئی دفعہ گرا اور کئی دفعہ بنا۔ بعض اوقات کسی سیلاب کے زور سے جو مکّہ کی وادی میں کبھی کبھی آ جاتا تھا اس کی عمارت کو نقصان پہنچ جاتا تھا اور اس کے متولی اسے گِرا کر پھر تعمیر کرتے تھے اور بعض اوقات آگ یا کسی اور حادثہ کے نتیجہ میں ایسا کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ ہر اس قوم کو کعبہ کی تعمیر کرنی پڑی جس کے ہاتھ میں اس کی تولیت گئی۔ بنو جرھم، خزاعہ اور قریش سبھی نے اپنے اپنے وقت میں اس کی تعمیر کی۔ قُصَیّ نے بھی ایک دفعہ اس کی تعمیر کی اور پھر آنحضرتﷺ کے زمانہ میں قریش نے اسے دوبارہ تعمیر کیا اور انہوں نے اس کے اندر کچھ ترمیمات بھی کیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کی بلندی کو زیادہ کر کے اُس کے اُوپر چھت ڈالی اور اس کے اندر چھ ستون بنائے اور چھت میں ایک روشندان بنایا اور کعبہ کے دروازے کو اونچا کر دیا۔ مگر چونکہ ان کے پاس سامان تھوڑا تھا اس لیے وہ کعبہ کو اس کی اصل ابراہیمی بنیادوں پر کھڑا نہ کر سکے، بلکہ انہوں نے ایک طرف کو قریباً سات ہاتھ جگہ چھوڑ دی۔ اس چھوڑے ہوئے حصّہ کو حطیم یا حجر کہتے ہیں اور آنحضرت صلی ﷲ علیہ و سلم نے اسے کعبہ کا حصہ ہی قرار دیا ہے۔ چنانچہ طواف کے وقت اس حصّہ کے باہر سے ہو کر گزرنا ضروری ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی ﷲ علیہ و سلم نے ایک دفعہ عائشہ سے فرمایا کہ ؔ’’حطیم خانہ کعبہ کا ہی حِصّہ ہے اور قریش نے اسے اس لیے باہر چھوڑ دیا تھا کہ ان کے پاس خرچ تُھڑ گیا تھا اور اُنہوں نے کعبہ کے دروازے کو اس لیے اونچا کر دیا تھا کہ تا وہ جسے چاہیں اندر آنے دیں اور جسے چاہیں روک دیں اور اے عائشہ اگر تیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوئی ہوتی اور مجھے اُن کے تزلزل کا خطرہ نہ ہوتا تو میں ان کی تعمیر کردہ عمارت کو گرا کر پھر اصل ابراہیمی بنیادوں پر ساری عمارت کو تعمیر کرتا اور حطیم کو اس کے اندر شامل کر دیتا اور اس کے دروازہ کو نیچا کر دیتا اور اس کے موجودہ دروازے کے مقابل پر ایک اور دروازہ بھی لگواتا۔‘‘ (بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج و فضلہ) چنانچہ 64ھ میں جب کسی وجہ سے کعبہ کی عمارت کو نقصان پہنچا تو عبداﷲ بن زبیرؓ نے جو اس وقت مکّہ کے حاکم تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کی اس خواہش کو پورا کیا اور کعبہ کے اندر بجائے چھ ستونوں کے صرف تین ستون بنوائے، لیکن عبدالمالک بن مروان نے جب مکّہ پر غلبہ پایا تو غالباً اس خیال سے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم نے اس کام کو نہیں کیا تو اَور کسی کو بھی اس کا حق نہیں ہے، حجاج بن یوسف کو حکم دیا کہ عبداﷲ بن زبیرؓ کی تعمیر کو گرا کر پھر اسی رنگ میں عمارت بنوادی جاوے جس طرح وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کے زمانہ میں تھی۔ چنانچہ حجاج نے ایسا ہی کیا مگر تین ستونوں والی تبدیلی کو بحال رکھا۔

(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد ؓایم۔اے صفحہ90-89 زیر عنوان کعبہ کی دوبارہ سہ بارہ تعمیر)

غلاف کعبہ یا کسوۃِ کعبہ

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے اس بابت مختلف تاریخی حوالوں کا خلاصہ بیان کر تے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ’’شروع شروع میں کعبہ پر کوئی غلاف وغیرہ نہ ہوتا تھا، لیکن بعد میں یمن کے ایک بادشاہ تبّع اسد نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ وہ کعبہ کو غلاف چڑھا رہا ہے چنانچہ اس نے کعبہ پر غلاف چڑھوا دیا۔ اس کے بعد غلاف چڑھانے کی رسم جاری ہو گئی۔ چنانچہ قریش کعبہ پر ہمیشہ غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ اسلام میں بھی یہ رسم جاری رہی۔ چنانچہ آج تک کعبہ پر باقاعدہ ہر سال نیا قیمتی غلاف چڑھایا جاتا ہے اور پرانا غلاف اتار کر حاجیوں میں تقسیم یا فروخت کر دیا جاتا ہے۔ آجکل جو غلاف چڑھایا جاتا ہے وہ سیاہ رنگ کا ہوتا ہے اور اس پر جگہ جگہ کلمہ طیّبہ اور قرآنی آیات لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔

(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم۔اے صفحہ90 زیر عنوان کسوۃ کعبہ)

کعبہ کی موجودہ شکل مستطیل ہے شمالاً جنوباً 44 فٹ لمبا اور شرقاً غرباً 33 فٹ چوڑا ہے اونچائی 45 فٹ ہے۔

خاکسار اپنی گزارشات حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ان الفاظ پر ختم کرنا چاہتا ہے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک رفیق حضرت صوفی منشی احمد جان صاحب کو حج بیت اللہ پر جاتے ہوئے اپنی طرف سے حسب ذیل دعا کرنے کی تحریک کرتے ہوئے ایک مکتوب میں فرمائی۔

’’اس عاجز ناکارہ کی ایک عاجزانہ التماس یاد رکھیں کہ جب آپ کو بیت اللہ کی زیارت بفضل اللہ تعالیٰ میسر ہو تو اس مقام محمود مبارک میں اس احقر عباداللہ کی طرف سے انہیں لفظوں میں مسکنت و غربت کے ہاتھ بحضور دل اٹھا کر گزارش کریں کہ: اے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ! ایک تیرا بندہ عاجز اور ناکارہ پُر خطا اور نالائق غلام احمد جو تیری زمین ملک ہند میں ہے۔ اس کی یہ عرض ہے کہ اے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ! تو مجھ سے راضی ہو اور میری خطیات اور گناہوں کو بخش کہ تو غفور و رحیم ہے اور مجھ سے وہ کام کرا جس سے تو بہت ہی راضی ہو جائے۔ مجھ میں اور میرے نفس میں مشرق اور مغرب کی دوری ڈال اور میری زندگی اور میری موت اور میری ہر یک قوت جو مجھے حاصل ہے اپنی ہی راہ میں کر اور اپنی ہی محبت میں مجھے زندہ رکھ اور اپنی ہی محبت میں مجھے مار اور اپنے ہی کامل متبعین میں مجھے اٹھا۔ اے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ! جس کام کی اشاعت کے لیے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لیے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر اور اس عاجز اور اس عاجز کے تمام دوستوں اور مخلصوں اور ہم مشربوں کو مغفرت اور مہربانی کی نظر سے اپنے ظل حمایت میں رکھ کر دین و دنیا میں آپ ان کا متکفل اور متولی ہو جا اور سب کو اپنی دارالرضا میں پہنچا اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اس کی آل اور اصحاب پر زیادہ سے زیادہ درود و سلام و برکات نازل کر۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ۔‘‘

یہ دعا ہے جس کے لئے آپ پر فرض ہے کہ ان ہی الفاظ سے بلاتبدل وتغیر بیت اللہ میں حضرت اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ میں اس عاجز کی طرف سے کریں۔

والسلام خاکسار غلام احمد 1303ھ

(مکتوبات احمدیہ جلد پنجم صفحہ17-18 مکتوبات امام ہمام قلمی جلد اول صفحہ61 1892ء)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط (قسط 2)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 22 دسمبر 2022