• 30 اپریل, 2024

فقہی کارنر

تعطیل جمعہ کے لئے حکومت کو میموریل بھیجنا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کے لئے متعدد کو ششیں کیں۔ اس غرض کے لئے آپ نے وائسرائے ہند لارڈ کرزن کی خدمت میں میموریل بھی بھیجا اور اُن کی سلطنت کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا:
یہ سلطنت اسلام کے لئے در حقیقت چشمہ فیض ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ حضور لارڈ کرزن بالقابہ نے ایسی نمایاں کارروائیاں کی ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی نہیں بھولیں گی جیسا کہ لاہور کے قلعہ کی مسجد کا مسلمانوں کو عطا کرنا اور ایک باہر کی مسجد جس پر ریل والوں کا قبضہ تھا مسلمانوں کو عنایت فر مانا اور نیز اپنی طرف سے لاہور کی شاہی مسجد کے لئے ایک قیمتی لالٹین اپنی جیب سے مرحمت فر مانا۔ ان فیاضانہ کا رروائیوں سے جس قدر مسلمان شکر گزار اور گرویدہ ہیں اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا لیکن ایک تمنا ان کی ہنوز باقی ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جن ہاتھوں سے یہ مرادیں پوری ہوئی ہیں وہ تمنا بھی انہیں ہاتھوں سے پوری ہو گی اور وہ آرزو یہ ہے کہ روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے اس دن کو تعطیل کا دن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورة الجمعة ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کا ہر کام بند کردو اور مسجدوں میں جمع ہو جاؤ اور نماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرو اور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گنہگار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہو اور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تا کید نہیں۔ اسی غرض سے قدیم سے اور جب سے اسلام ظاہر ہوا ہے جمعہ کی تعطیل مسلمانوں میں چلی آئی ہے اور اس ملک میں بھی برابر آٹھ سو برس تک یعنی جب تک کہ اس ملک میں اسلام کی سلطنت رہی جمعہ میں تعطیل ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے ریاست پٹیالہ میں جمعہ کی تعطیل ان دنوں تک ہوتی رہی اور اس ملک میں تین قومیں ہیں۔ ہندو،عیسائی، مسلمان۔ ہندوؤں اور عیسائیوں کو ان کے مذہبی رسوم کا دن گورنمنٹ نے دیا ہوا ہے یعنی اتوار جس میں وہ اپنے مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں جس کی تعطیل عام طور پر ہوتی ہے لیکن یہ تیسرا فرقہ یعنی مسلمان اپنے تہوار کے دن سے یعنی جمعہ سے محروم ہیں۔ بر ٹش انڈیا میں کون مسلمان ہے جو آہ مار کر یہ نہیں کہتا کہ کاش جمعہ کی تعطیل ہوتی لیکن اس کرزنی دور میں جبکہ لارڈ کرزن اس ملک کے وائسرائے ہیں مسلمانوں کو اس تمنا کے پورے ہونے میں بہت کچھ امید بڑھ گئی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جبکہ لارڈ موصوف نے دلی فیاضی اور ہمدردی سے ان مساجد واگزار کرادی ہیں تو پھر وہ امر جو مسجدوں کی علت غائی ہے یعنی نماز جمعہ، یہ امر بھی انہی ہاتھوں سے انجام پذیر ہو گ۔ مسجد تو مثل دستر خوان یا میز کے ہے جس پر روٹی رکھی جاتی ہے نماز جمعہ اصل روٹی ہے۔ تمام مساجد کی بڑی بھاری غرض نماز جمعہ ہے پس کیا ہمارے عالی ہمت وائسرائے لارڈ کرزن یہ روا رکھیں گے کہ وہ ہمیں دستر خوان تو دیں مگر روٹی نہ دیں ایسی دعوت تو ناقص ہے اور امید نہیں کہ ایسا فیاض دل جوانمرد ایسی کمی کو اپنے پر گوارا کرے اور اگر ایسا ہمدرد وائسرائے جس کے بعد کم امید ہے کہ اس کی نظیر ملے اس فیاضی کی طرف توجہ نہ فر ما وے تو پھر اس کے بعد عقل تجویز نہیں کر سکتی کہ مسلمانوں کے لئے کبھی وہ دن آ وے کہ دوسرے وائسرائے سے یہ مراد پا سکیں۔ یہ ایک ایسی مراد ہے کہ اس کا انجام پذیر ہونا مسلمانوں کے دلوں کو گور نمنٹ بر طانیہ کی محبت کی طرف ایک زبردست کشش سے کھینچ لے گا اور ان احسانوں کی فہرست میں جو اس گورنمنٹ نے مسلمانوں پر کئے ہیں اگر یہ احسان بھی کیا گیا کہ عام طور پر جمعہ کی تعطیل دی جائے تو یہ ایسا احسان ہوگا کہ جو آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہوگا …. اگر گورنمنٹ اس مبارک دن کی یاد گار کے لئے مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل کھول دے یا اگر نہ ہوسکے تو نصف دن کی ہی تعطیل دے دے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ عام دلوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے زیادہ کوئی کارروائی ہے مگر چونکہ گورنمنٹ کی فیاضی کا تنگ دائرہ نہیں ہے اور اگرتوجہ پیدا ہو تو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے اس لئے صرف نصف دن کی تعطیل ایک ادنیٰ بات ہے۔ یقین ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس مبارک یادگار میں پورے دن کی تعطیل عنایت فر مائے گی اور یہی مسلمانوں کو توقع ہے۔

(الحکم 24؍جنوری 1903ء صفحہ5-6)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

میانمار میں پہلی مسجد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 دسمبر 2022