• 18 مئی, 2025

لندن کی پہلی مسجد فضل کی عظیم الشان تاریخ

وہ مسجد ایک نقطہٴ مرکزی ہوگی جس میں سے نورانی شعاعیں نکل کر تمام انگلستان کو منورکر دیں گی۔

(فرمودہ انوارالعلوم جلد5 صفحہ54)

حضرت مسیح موعودؑ کی ایک پیشگوئی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہات مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹے ہو ئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شائد تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہوگا۔ سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریر یں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کے شکار ہو جائیں گے۔ در حقیقت آج تک مغربی ملکوں کی مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدا تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیا کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امر یکہ کو۔ نبیوں کا سلسلہ بھی اول سے آ خر تک ایشیا کے ہی حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے۔ اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ377)

فاتحِ ولیم (William the Conqurer) حضرت مصلح موعودؓ کی ایک عظیم خواب

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کو ایک رؤیا میں دکھایا گیا کہ وہ سمندر کے کنارے ایک مقام پر اُترے ہیں اور انہوں نے لکڑی کے ایک کندے پر پاؤں رکھ کر ایک بہادر اور کامیاب جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر کی ہے اور آواز آئی کہ ’’William the Conqurer‘‘ (روٴیا و کشوف سید نا محمودؓ صفحہ81) اس خواب کو سمجھنے کے لئے ’’فاتحِ ولیم‘‘ کون تھا؟ کے متعلق مختصر سا تعارف کروانا ضروری ہے۔ شاہ ولیم اوّل کا باپ رابرٹ اول ڈیوک آف نارمنڈی (فرانس) تھا۔ جب ولیم سات سال کا تھا تو والد فوت ہوگیا۔ شاہ ایڈورڈ نے ولیم سے تختِ انگلستان دینے کا وعدہ کیا مگر پورا نہ کیا۔ ولیم نے اپنی ذہانت سے 38 سال کی عمر میں انگلستان بلکہ زیادہ تر دنیا کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کیا اس نے ہیسٹنگز (Hastings) کی جنگ میں انگلستان کو شکست دی اور تین سال کے اندر انگلستان میں اپنی حکومت کو مستحکم کر لیا۔ ولیم کی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں نے انگلستان کی دنیوی اور مذہبی زندگی کو بدل ڈالا۔

(اصحاب احمد جلد9 صفحہ35)

اس خواب کو ظاہری طور پر پورا کرنے کے لئےاور دعا کی غرض سے اس مقام پر تشریف لے گئے جہاں سے شاہ ولیم انگلستان میں داخل ہوا تھا۔ 2 اکتوبر 1924ء کو حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ صبح دس بجے کے قریب ایک مقام Eastbourne کے اسٹیشن پر اُترے۔ اس مبارک سفر میں حضور رضی اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت بھائی جی (عبدالرحمٰنؓ صاحب قادیانی) اور مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ بھی حضورؓ کے ہمراہ تھے۔

(تاریخ مسجد فضل صفحہ14)

برطانیہ میں احمدیت کا آغاز

حضرت امام الزماں علیہ السلام کی رحلت کے بعد حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلےاحمدیت کا پیغام دینے کے لئے برطانیہ کو چُنا۔ چنانچہ اس عظیم کام کے لئے حضرت چوہدری فتحِ محمد سیال صاحب کو 1913ء میں لندن پہنچا دیا گیا۔ حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعدحضرت مصلح موعود ؓ، حضرت عبدالرحیم دردؓ ، حضرت عبدالرحیم نیرؓ ، حضرت قاضی عبداللہ بھٹیؓ اور جناب حضرت مفتی محمد صادقؓ بھی حقیقی اسلام کا پیغام لے کر برطانیہ پہنچ گئے۔ ان مبلغین کی شبانہ روز محنت، خلافت کی برکات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کی گئی دعاوٴں نے بہت جلد جماعت کو بہت سے پھل عطا کئے۔برطانوی قوم نے جس طرح اسلام احمدیت کو خوش آمدید کہا وہ بہت ہی حوصلہ افزا تھا۔ بہت سے نو مبائعین مبّلغین کے ساتھ مل کر جماعتی کاموں میں دلچسپی لے رہے تھے۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی برطانیہ اور برطانیہ میں اسلام کے پھیلاوٴ کی صورتِ حال پر گہری نظر تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بصیرت بخشی تھی۔ حضورؓ کو نظر آ رہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ لندن شہر میں مسجد تعمیر کی جائے 1920ء کے سال میں حضور رضی اللہ تعالیٰ نے لندن میں مسجد بنانے کا مصمّم ارادہ کر لیا۔

لندن میں مسجد تعمیر کرنے کا اعلان
اور چندے کی تحریک

قادیان میں 1920ء میں برطانیہ مسجد کی تحریک کرتے ہوئے حضرت مصلح مو عود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چندہ کی تحریک کے سلسلے میں جو خطاب فرمایا تھا اس کا کچھ حصہ ذیل میں تحریر کیا جارہا ہے۔ آپؓ نے فرمایا ’’برطانیہ میں مسجد بنانے کی مبلغین کی طرف سے درخواست واقعی قابلِ توجہ ہے۔ مگر میرے نزدیک اپنی مسجد بنانے کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ کچھ خاص برکات ہیں جو بغیر مسجد کے حاصل نہیں ہو تیں …..انگلستان وہ مقام ہے جو صدیوں سے تثلیث پرستی کا مرکز بنارہا ہے …. یہ ایک ایسا عظیم الشان کام ہے جس کے نیک ثمرات نسل بعدنسلاً پیدا ہوتے رہیں گے اور تاریخیں اس کی یاد کو تازہ رکھیں گیں وہ مسجد ایک نقطہ مرکزی ہوگی جس میں سے نورانی شعاعیں نکل کر تمام انگلستان کو منور کریں گی…. بے شک اس سے پہلے بھی وہاں ایک مسجد قائم ہے مگر وہ ایسے وقت میں بنائی گئی تھی جبکہ اس مسجد کی ضرورت نہیں تھی۔صرف اسلام کا نشان قائم کرنے کے لئے اسے تعمیر کیا گیا تھا۔ مگر یہ مسجد ضرورت پڑنے پر تعمیر ہوگی ….جبکہ پہلی مسجد سالہا سال مقفل اور بند رہی ہے۔

پس یہی مسجد پہلی مسجد کہلانے کی مستحق ہے …..کیونکہ اس کی تعمیر کے پہلے دن سے ہی اس پر ’’لا الہ الااللّٰہ محمدرسول اللّٰہ‘‘ کا نعرہ بلند ہونا شروع ہو جائے گا ..

(تحریک تعمیر مسجد لندن)

(انوارالعلوم جلد5 صفحہ4)

٭حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 6؍جنوری 1920ء کو بعد نماز مغرب انگلستان میں مسجد بنانے کے متعلق جماعت میں تحریک فرمائی اور خرچ کا اندازہ تیس ہزار روپے بتایا اور 7؍جنوری کی صبح مستورات میں بھی یہ تحریک فرمائی۔ ابتداء میں جماعت کے سب مرو وخواتین کو اس تحریک میں حصہ لینے کا ارشاد فرمایا۔ لیکن بعد میں حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد فضل لندن عورتوں سے منسوب فرما دی۔ اس تحریک پر جماعت نے ایسے رنگ میں لبیک کہا کہ ایک دنیا ور طۂ حیرت میں پڑ گئی۔

چنانچہ عبدالمجید قریشی ایڈیٹر اخبار ’’تنظیم‘‘ امرتسر نے لکھا:
’’تعمیر مسجد لندن کی تحریک 6؍ٴجنوری 1920ء میں امیر جماعت احمدیہ نے کی اس سے زیادہ مستعدی اس سے زیادہ ایثار اور اس سے زیادہ سمع و اطاعت کا اُسوہٴ حسنہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ 10؍جون تک ساڑھے اٹھتر ہزار روپیہ نقد اس کارخیر کے لیے جمع ہوگیا تھا۔کیا یہ واقعہ نظم وضبط امت اور ایثار وفدائیت کی حیرت انگیز مثال نہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ253)

مسجد فضل لندن کی تعمیر کے لئے چندہ کی اس تحریک پر احمدیت کے جاں نثاروں نے جس طرح لبیک کہا وہ سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا کا بہترین نمونہ تھا۔ جنوری 1920ء کو حضرت خلیفة المسیح الثانیؒ کی طرف سے تحریک ہوئی اور 10؍جون 1920ء تک جماعت نے -/ 78500 روپیہ اس کارخیر میں جمع کردیا۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؒ نے چوہدری فتح محمد سیال صاحب کو مسجد کیلئے کوئی مناسب جگہ خریدنے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ کے حکم کی تعمیل میں 2؍اگست 1920ء میں حضرت چو ہدری فتح محمد سیال صاحب نے شبانہ روز جد و جہد کر کے لندن کے علاقہ ساؤتھ فیلڈ میں ایک قطعہ زمین مع مکان کے 222300 پاؤنڈ میں خرید لیا اور اس کی اطلاع بذریعہ تار حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکودی جوان دنوں ڈلہوزی میں تشریف فرما تھے۔ حضور نے اس خوشی میں وہیں 9؍ستمبر 1920ء کو ایک جلسہ کیا اور انہی دنوں مسجد کا نام ’’مسجد فضل‘‘ تجویز ہوا۔

مسجد برلن سے مسجد فضل تک
لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانیاں

یورپ میں اسلام پھیلنے کی پیشگوئیاں، خبریں، روُیا، انسانی خواہشات اور سب سے بڑا اللہ کے فضل اور وعدوں نے قلیل عرصے میں خوب رنگ دکھایا۔ایک طرف جرمنی میں مسجد برلن جو اگست 1923ء میں سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد تعمیر ہونا شروع ہو چکی تھی۔تو دوسری طرف حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لندن میں مسجد فضل کے لئے بھی چندے کی تحریک کر دی۔مگر اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔ جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں نے جرمنی اقتصادیات کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں، تعمیر کے آ غاز میں مسجدبرلن کا تخمینہ پچاس ہزار لگایا گیا تھا۔ مگر 1924ء میں اس کی لاگت کا تخمینہ پندرہ لاکھ تک پہنچ گیا۔ جرمنی کی یہ حالت نہیں رہی تھی کہ یہاں اب مسجد کا کام جاری رکھا جاتا۔ لہٰذ ا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے وہ رقم جو مسجد برلن کے لئے حضورؓ کی تحریک پر لجنہ اماءاللہ نے اکھٹی کی تھی مسجد فضل کی تعمیر پر لگانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ اس زمانے کی لجنہ اماءاللہ جسے مسجدبرلن کے لئے رقم اکھٹی کرنے کا ٹاسک 1922ء میں دیا گیا تھا کا وہ چندہ مسجد فضل بنانے کے کام آیا۔

مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد
(19؍اکتوبر 1924ء)

1924ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ نے ایک جماعتی وفد کے ساتھ یورپ کا دورہ کیا۔جس کا مقصد ویمبلے کانفرنس میں شرکت کرنا اور مسجد لندن کا افتتاح کرنا بھی شامل تھا۔ ضروری انتظامات کے بعد 19؍اکتوبر 1924ء کا دن سنگِ بنیاد کے لئے مقرر کیا گیا۔ حضورؓ نے 4 بجے شام ایک بہت بڑے مجمع میں ’’مسجد فضل‘‘ (63 میلروز روڈ۔ لندن) کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا۔اس تقریب پر تلاوتِ قرآن پاک کے بعد سب سے پہلے (متعینہ) امام مسجد لندن حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ نے خوش آمدید کامختصر ایڈریس پڑھا۔ جس کے بعد تمام حاضرین مقامِ بنیاد کی طرف گئے۔ جہاں پہلے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے تلاوت فرمائی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے انگریزی زبان میں ایک مضمون پڑھا جس میں مسجد کی غرض و غایت پر اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
’’پیشتر اس کے کہ میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھوں میں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مسجد صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے۔ تاکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف (جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں) متوجہ ہوں اور ہم کسی شخص کو جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے ہرگز اس میں عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے بشرطیکہ وہ ان قواعد کی پابندی کرے جو اس کے منتظم انتظام کے لئے مقرر کریں اور بشرطیکہ وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہوں جو اپنی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس مسجد کو بناتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح جو اس مسجد کے ذریعہ سے پیدا کی جاوے گی۔ دنیا سے فتنہ و فساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں بہت مدد دے گی اور وہ دن جلد آجائیں گے کہ لوگ جنگ و جدال کو ترک کرکے محبت اور پیار سے آپس میں رہیں گے۔‘‘ اس مضمون کے بعد جس کا حاضرین پر ایک گہرا اثر تھا، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بنیادی پتھر رکھا جس پر انگریزی میں ایک مضمون درج تھا۔ حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَنُسُکِیۡ وَمَحۡیَایَ وَمَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۳﴾ۙ میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے۔ خدا کی رضا کے حصول کے لئے اور اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے آج 20؍ ربیع الاول 1343ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ اس کے لئے اس مسجد کو نیکی، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیینﷺ اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لئے روحانی سورج کا کام دے اے خدا تو ایسا ہی کر۔‘‘

(تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ50)

مسجد کا سنگِ بنیاد اور حضرت مسیح موعودؑ کی روٴیا

حضرت خلیفہ الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اس عظیم مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا جا نا حضرت مسیح موعودؑ کی ایک خواب کی تعبیر بھی تھا۔ اس مبارک خواب میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے آپؓ (حضرت مصلح موعودؓ) کا نام مسجد کی دیوار پر لکھا ہوا دیکھا تھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو کبھی یہ خیال آتا تھا کہ میں اس مسجد کا سنگِ بنیاد رکھوں۔ چنانچہ ویمبلے کی کانفرنس لندن میں تشریف لانے کا ایک ذریعہ بن گئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مبارک کام کو سر انجام دینے کا موقعہ فراہم کردیا۔

(تواریخ مسجد فضل لندن29-30)

لندن میں سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جا چکی تو حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ نے بلند آواز سے حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کا ایک تار پڑھ کر سنایا جو انہوں نے جماعت احمدیہ ہندوستان کی طرف سے اس تقریب پر مبارک باد کا بھیجا تھا۔ اس کے بعد حضورؓ نے لمبی دعا کی۔ پھر عصر کی نماز اسی مقام پر پڑھی اور حضورؓ نے اعلان فرمایا کہ ’’میں اعلان کرتا ہوں کہ اس مسجد کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا گیا‘‘ مسجد کے محراب پر ایک جھنڈا لہرایا گیا جو حیدر آباد کے ہوم سیکرٹری نواب اکبر نواز جنگ صاحب نے دیا تھا۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ456-460)

صحافی برادری اور انگریزی اخبارات کے تاثرات پر ایک نظر

سنگِ بنیاد والے دن بہت سی اقوام کے لوگ موجود تھے۔ اور ظاہر ہے پریس کے نمائندوں کو بھی انگلستان میں بننے والی پہلی مسجدکی رپورٹس بنانے کا اشتیاق تھا۔ اخبارات کے تبصروں کے متعلق مختصر سا خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔

• انگلستان کی ایک اخبار Daily Chronicle London نے لکھا کہ:
His Excellence خلیفۃ المسیح نے جو اسلام کے فرقہ احمدیہ کے امام ہیں۔ کل 19؍اکتوبر کو میلروز روڈ ساؤتھ فیلڈز میں لندن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اس اصلاحی تحریک کے پیرو کار لندن میں ایک سو کے قریب اور مشرق و افریقہ میں دس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ فی الحال یہ ارادہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مسجد کے صرف ایک حصہ کو مکمل کیا جائے اور اس حصہ کی تعمیر کے لئے سارا روپیہ بذریعہ چندہ جمع ہو چکا ہے۔

(اکتوبر 1924ء بحوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ379)

• ’’برطانیہ کی ایک اخبار، ویسٹ منسٹر گزٹ‘‘ (westminister) نے لکھا:
’’ایک مسجد جو لندن میں پہلی مسجد ہو گی۔ ساؤتھ فیلڈز (Southfields) میں تعمیر کی جائے گی۔ جس کا مینار سترفٹ بلند ہو گا۔ جہاں سے ایک مؤذن مومنوں کے لئے نماز کے وقت کا اعلان کرے گا۔ زمین پر قالین بچھائے گئے اور خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہ رسم ادا کی۔ آپ نے قرمزی رنگ کے کفوں والا گلابی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا سر پر ایک بھاری سفید عمامہ تھا اور ہاتھ میں ایک عصا جس کے سر پر آبنوس اور چاندی لگی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ اور جماعت احمدیہ کا امام ہوں جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان میں ہے‘‘

(تواریخ مسجد فضل لندن صفحہ26-27)

مسجد فضل کی تعمیر کی ابتداء کے مناظر

مسجد کی بنیادوں کی کھودائی 28؍ستمبر 1925ء دوپہر کو شروع ہوئی اس سے پہلے انجینئر سے نقشہ بنوا کر منظوری کے لئے قادیان بھیجا گیا تھا۔ منظوری کے بعدایک کمپنی کو تعمیر کا ٹھیکہ دیا گیا۔ اس تمام کاروائی کا ایک پروگرام چھپوا کر تمام اخبارات کو بھجوایا گیا۔ مولانا عبدالرحیم دردؓ صاحب اس دن کاحال بتاتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’مسجد کی کھودائی کا کام ستمبر 1925ء کو شروع ہو گیا۔ اس موقعہ پر بھی اخبارات کے نمائندے موجود تھے۔ کام شروع کرنے سے پہلے میں نے وہ احباب جن کو شمولیت نصیب ہوئی کے ساتھ قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔ میں دعا مانگتا جاتا تھا اور احباب آمین کہتے جاتے تھے۔اس کے بعد ہم نے ہاتھوں سے (کسی سے کھودائی) کھدائی کا کام شروع کیا ساتھ ساتھ بلند آواز سے حضرت ابراہیمؑ کی خانہ کعبہ کے وقت اور حضرت محمدﷺ کی مسجد نبوی کے وقت پڑھی ہوئی دعائیں پڑھتے جاتے تھے۔ہم مردوں کے ساتھ ایک انگریز احمدی عورت (مسز عزیزالدین) بھی اسی طرح کسّی چلا رہی تھیں جس طرح ہم چلا رہے تھے۔

(تواریخ مسجد فضل لندن 38-39)

برطانیہ کی پہلی مسجد کے پہلے امام

امام مسجد مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے بیان کیا کہ ایک دن مشرق مغرب مل جاویں گے … یہ سلسلہ جو کہ اسلام میں پہلا تبلیغی سلسلہ ہے۔ انگلستان کو ایشیا سے اور خصوصاً ہندوستان سے زیادہ قریب کر دے گا۔ انگلستان میں یہ پہلی مسجد ہے جس کو صرف مسلمانوں نے تعمیر کیا ہے۔ یہ سلسلہ احمدیہ کی تعمیر کردہ مسجد ہو گی جن کا عقیدہ ہے کہ الہام کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ وہ مذہبی جنگوں کے خلاف ہیں اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا سلسلہ دنیا کو نبی عربیﷺ کے خالص دین کی طرف واپس بلاتا ہے۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ456-460)

مسجد لندن کے سنگِ بنیاد کے لئے جب خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ لندن تشریف لائے تو حضرت مولانا دردؓ صاحب بھی اس قافلے میں آپ کے ہمراہ تھے۔ سنگِ بنیاد کی تقریب کے بعد حضور رضی اللہ عنہ نے حضرت مولانا صاحبؓ کو اکتوبر 1924ء کو لند ن مسجد کا امام مقرر فرمایا۔ اس کے بعد مولانا صاحبؓ نے مسجد کی تعمیر اپنی نگرانی میں کروائی۔ درمیان میں کچھ دیر مسجد کے کام کو روکنا بھی پڑا۔ آخر اللہ کے فضل سے 1925ء میں تعمیر کاکام دوبارہ شروع کیا گیا اور 1926ء میں کام مکمل ہو گیا۔ الحمد للّٰہ۔

مسجد کی تکمیل اور افتتاح

اللہ کے فضل سے 1926ء کے سال لندن میں جماعتِ احمدیہ کی مسجد کی تکمیل ہوگئی۔ افتتاح کی تقریب پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بوجہ مصروفیات نہیں آسکتے تھے۔لہٰذا حضورؓ کی ہدایات کے مطابق مسجد کے افتتاح کا انتظام کیا گیا۔

حضرت مولاناؓ صاحب نے حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت پر ملکِ عراق کے شاہ فیصل کو درخواست بھجوائی کہ وہ اپنے بیٹے شہزادہ ز ید کو اجازت دیں کہ وہ ہماری مسجد کا افتتاح کریں۔ لیکن انہوں نے ٹال دیا۔ اس کے بعد سلطان ابنِ سعود ملکِ حجاز کی خدمت میں تار بھیجی گئی کہ وہ اپنے کسی صاحبزادہ کو اس کام کے لئے مقررفرمائیں۔ شاہ نے اس درخواست کو منظور کر لیا اور اپنے ایک فرزند شہزادہ فیصل (موجودہ شاہ فیصل) کو اس غرض کے لئے انگلستان روانہ کیا۔جماعت میں انگلستان آمد پر ان کا استقبال بھی کیا۔ اخبارات میں دھوم پڑ گئی کہ شہزادہ صاحب مسجد لندن کا افتتاح کرنے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ اس کے بعد ایسے پراسرار حالات پیدا ہوگئے کہ شہزادہ فیصل برملا انکار کے بغیر پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے۔ ان کو متامل دیکھ کر حضرت مولانا دردؓ صاحب نے خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے سر شیخ عبدالقادر کے لئے اجازت لے رکھی تھی۔

افتتاح کی مبارک تقریب کے مناظر

بالاخر شہزادہ فیصل کی جگہ 3؍اکتوبر 1926ء کو سر شیخ عبدالقادر نے مسجد لندن کا افتتاح کر دیا۔

(ماخوذتاریخِ احمدیت جلد چہارم صفحہ563)

مسجد کے افتتاح کا آغاز

حضرت مولانا عبدالرحیم دردؓ صاحب نے تلاوتِ قرآن پاک کی تلاوت فرمائی اس کے بعدحضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی طرف سے آیا ہوا پیغام حضرت مولانا صاحب نے اونچی آواز میں پڑھ کر سنایا۔ جو انگلش میں ایک ہزار الفاظ پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد صدر مجلس جناب شیخ کو حضرت مولانا صاحب نے مسجد کی چابی یہ کہتے پیش کی کہ ’’میں اپنی قلبی دعاوٴں اور تمام دنیا کے لئے محبت سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ کنجی آپ کو اس لئے پیش کرتا ہوں کہ آپ اس مسجد کا افتتاح فرمائیں۔ جب خان بہادر صاحب نے چابی کی کنجی کو لے کر قفل میں پھرایا تو باآواز بلند یہ الفاظ کہے‘‘ میں خدائے رحیم و رحمان کے نام پر اللہ کی اس عبادت گاہ کا افتتاح کرتا ہوں۔ دروازہ کھُل گیا اور اندر کی بے حد نفاست، چمک، صفائی اور نیلے رنگ کے فرش نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔

(تواریخ مسجد فضل صفحہ63)

مسجد فضل کے افتتاح کی خبر عالمی میڈیا پر

اللہ تعالیٰ عزّتیں عطا کرنے والا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام اور ان کی جماعت کو اللہ تعالیٰ اس مسجد کی وجہ سے انگلستان کیا باہر کے دوسرے ممالک میں بھی بہت شہرت اور عزّت عطا کی۔ مسجد کے افتتاح کے وقت عالمی پریس کے نمائندے بھی موجود تھے جن میں انگلستان، بھارت اور مصر بھی شامل تھے۔ گو کہ شہزادہ فیصل اپنی مجبوریوں کی وجہ سے نہیں آ سکے مگر جو فضل اور برکات اللہ تعالیٰ نے جماعت کی قسمت میں رکھا ہوا تھا وہ مل کر رہا وہ ایسے کہ شہزادہ فیصل کے آنے اور افتتاح کی خبر نے بھی دھوم مچائی اور پھر افتتاح نہ کرنے کی خبر نے اس سے دوگنی دھوم مچائی۔ بہت سی اخباروں نے تبصرے اور خبریں شائع کیں۔ تاریخِ احمدیت سے ماخوذکچھ نام اور ایک تبصرہ حاضر ہیں۔

Daily Chronicle (ڈیلی کرانیکل) اخبار نے لکھا کہ مغرب اور مشرق کا ایسا دلفریب ملاپ شاذونادر ہی کبھی ہوا ہو جیسا کہ دیکھنے میں آیا۔ جبکہ لندن کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کی اذان ساوٴ تھ فیلڈز کے چمکدار میناروں سے سنائی دی …عربی شہزادہ کی غیر حاضری میں لندن کی پہلی مسجد کا افتتاح شیخ عبدالقادر سابق وزیرِ پنجاب اور حال نمائندہ لیگ آف نیشنز نے کیا ….تقریروں کے ختم ہوتے ہی میناروں سے موٴذن کی دل سوز آواز سنائی دی۔

مسجد فضل لندن میں قائد اعظم
محمد علی جناح اور دیگر لیڈران کی آمد

1928ء میں حضرت مولوی فرزند علی خان صاحبؓ نے 1928ء میں لندن مسجد کا چارج لیا۔ آپ نے مسجد کے باغیچے اور منسلکہ مکان کی تزئین وآ رائش کے سلسلے میں خصوصی کام کئے۔آپ گول میز کانفرسوں کے سلسلے میں آنے والے وفود کو مسجد میں مدعو کرتے چنانچہ علامہ اقبال، مولانا غلام رسول مہر، اور قائداعظم محمد علی جناحؒ مسجد فضل میں آتے جاتے رہے۔

1934ء جب حضرت عبدالرحیم دردؓ صاحب مسجد فضل کےایک مرتبہ پھر امام بنے تو دوسری بہت سی تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ حضور رضی اللہ عنہ نے آپ کے ذمّے اور کام بھی لگا رکھے تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے حالات پر حضورؓ کی گہری نظر تھی۔ حضورؓ نے حضرت مولانا دردؓ صاحب کو محمد علی جناح سے ملنے کی تلقین کی حضورؓ کی ہدایت پر آپ نے متعدد مرتبہ جناب محمد علی جناحؒ صاحب سے ملاقات کی اور انہیں ہندوستان جاکر مسلمانوں کی راہنمائی کرنے پر آمادہ کیا۔

مسجد فضل لندن میں خلفائے احمدیت
اور دیگر بزرگان

اللہ تعالیٰ نے جماعت برطانیہ اور پہلی مسجد فضل لندن کو مختلف رنگ میں ترقیات اور برکات سے نوازا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چار خلفاء کو اس مسجد میں آنے کا شرف ملا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا ذکر تو ہوچکا ہے کہ آپؓ سنگِ بنیاد کے وقت تشریف لائے تھے۔ اس کے بعد 1955ء میں بھی حضور رضی اللہ عنہ جب علاج کی غرض سے لندن آئے تو آپ نے مشن ہاوٴس میں قیام فرمایا تھا۔ آپ کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ متعدد مرتبہ مسجد میں تشریف فرما ہوئے۔ آپ کی امامت میں بہت سی کانفرنسز اور کسر صلیب کانفرنس کا بھی انعقاد ہوا۔ حضورؒ کے ہاتھوں برطانیہ کے بہت سے علاقوں میں مشنز اور بہت سی مساجد کا سنگِ بنیاد اور افتتاح کیا گیا۔ حضور رحمہ اللہ کی وفات کے بعد پاکستان میں جماعت کے حالات بدل گئے خلافت کو لندن منتقل ہونا پڑا۔ اللہ کے فضل سے اسی مسجد ’’فضل‘‘ نے خلیفۃ المسیح الرابعؒ ان کی فیملی، ان کے دفاتر اور ان کے مبارک ہاتھوں سے ہونے والے ان گنت کاموں اور کارناموں نے جگہ پائی۔یہیں سے ایم۔ٹی۔ اے کا سلسلہ شروع ہوا، حضورؒ کی امامت میں دنیا کے کونے کونے میں اسلام اور احمدیت اور توحید کا پیغام پہنچا۔ بظاہر چھوٹی نظر آنے والی مسجدکے اندر اللہ تعالیٰ نے بہت وسعت رکھی ہوئی ہے۔ چھوٹے بچوں کی کلاسز سے لے کر شادیوں کی دعوتوں اور رمضان کی افطاریوں تک کے انتظامات ہوئے۔ ایم۔ٹی۔ اے نے ساری دُنیا میں توحید اور حقیقی اسلام کی روشنی انہی دفاتر سے بھیجی۔

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی وفات کے بعد خلافت کے انتخاب کا عمل بھی اسی مسجد عمل میں آیا۔ شہر کے اندرون میں اس مسجد نے ہزاروں مہمانوں کو جگہ دی اور جب پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا تو آپ نے امام الزماںؑ کے مشن کو آگے بڑھانے،حقیقی اسلام یعنی احمدیت کومزید ترقیاں دینے اور سارے عالم میں اس کے پھیلاوٴ میں اضافہ کرنے کے لئے اسی مسجد میں قیام رکھا۔لیکن اب جب اللہ کے حکم سے اور جماعت کی ترقی کی غرض سے خلافت کا مرکز دوسری جگہ منتقل کیا گیا ہے تو یہ مسجد پھر بھی ویسے ہی مسلسل اپنی وہ شعاعیں جن کا ذکر حضور نے مسجد کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے کیا تھا سارے عالم کو منور کر رہیں ہیں۔

خلفائے احمدیت کے علاوہ کچھ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس مسجد کے سائے سے لطف اندوز ہو چکے ہیں۔ بعض کا ذکر تو پہلے آچکا ہے۔ حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ جو برس ہا برس اس مسجد سے منسلک رہے ان کے وجود نے اس وقت کے امراء، ائمہ اور جماعت کے مردو زن کو بہت چیزوں سے مستفید کیا، ان کی ایک لمبی تفصیل ہے۔ برطانیہ مرکز کی یہ مسجد برطانیہ اور لوکل لندن کی جماعتوں کے افراد کے لئے اپنی برکات سے بھری بانہیں کھولے کھڑی ہے اور اللہ کے فضل سے ہمیشہ کھڑی رہے گی۔

دوسری جنگِ عظیم کے دوران مسجد پناہ گاہ بنی

1938ء میں مسجد کا چارج حضرت مولانا جلال الدین شمسؓ صاحب کو ملا۔ مولانا صاحب نے ایک پادری سے ہائیڈ پارک میں مسلسل ایک ہفتہ تک مناظرہ کیا اور اسے شکست دی جس کا تذکرہ اخبارات میں بھی ہوا۔ دوسری جنگِ عظیم میں جب مسجد فضل کا علاقہ جرمن بمباری سے مسمار ہو گیا تو مولانا صاحبؓ نے احمدیوں سے کہا کہ وہ مسجد میں آ کر سویا کریں۔کیونکہ مسجد کو اللہ تعالیٰ نے بچانے کا وعدہ کیا ہے۔ آپ کے دور میں مسجد فضل لندن کو یورپ کا مرکزِ دعوت الی اللہ کہنا بجا ہوگا۔

مسجد فضل کے امام

1950ء میں مکرم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب نے چارج سنبھالا انہوں نے 1953ء کے پُر آشوب دور میں حضورؓ کی ہدایات کے مطابق ایک تو دُنیا بھر کے مبلغین کو حالات سے باخبر رکھا اور دوسری طرف ممبران پارلیمنٹ اور برٹش پریس تک بھی احمدیہ نکتہ نظر پہنچایا۔ جس پر کئی اخبارات میں جماعت کی تائید میں مضامین لکھے گئے۔

1955ء میں مکرم مولود احمد خان صاحب نے لندن مسجدکا چارج لیا، اسی برس حضور رضی اللہ علاج کی غرض سے لندن پہنچے اور مشن ہاوٴس میں ہی مقیم ہوئے۔ 1964ء میں مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب نے مسجد لندن کا چارج لیا اور امام مسجد لندن مقرر ہوئے، ان کے دور میں مشرقی افریقہ سے احمدیوں کی منتقلی ہوئی پاکستان سے بھی کثرت سے مہمان آئے جن کی راہنمائی بھی آپ ہی نے کی۔ اللہ کے فضل سے آپ روٹری کلب آف وانڈزورتھ کے پہلے ایشیائی صدر منتخب ہوئے۔ خان صاحب نے 1964ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ کی بنیاد رکھی۔ موجودہ امام مسجد لندن عطاء المجیب راشد صاحب ہیں جو ماشاء اللّٰہ 1983ء سے امامت کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ الحمد للّٰہ

(ناصرہ رشید۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

سالانہ اجتماع 2022ء مجلس انصار اللہ ڈنمارک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 دسمبر 2022