• 5 جولائی, 2025

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 48)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
تکمیل ہدایت۔ تکمیل اشاعت ہدایت
قسط 48

اللہ تعالیٰ عالمین کا رب ہے اس کا فیض تمام زمانوں تمام ملکوں اور قوموں کے لئے یکساں ہے وہ تمام بنی آدم کی جسمانی ضرورت کے لئے خوراک پانی ہوا روشنی وغیرہ مہیا فرماتا ہے اسی طرح روحانی ضرورت کے لئے ہر قوم میں انبیاء مبعوث فرماتا ہے تاکہ کوئی قوم محروم اور بے نصیب نہ رہے۔ ہر نبی کی تعلیم اپنی ابتدا میں حق اور راستی پرہوتی ہے پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان میں غلط باتیں شامل ہوجاتی ہیں حتّٰی کہ اصلیت معدوم ہوجاتی ہے قصے کہانیاں رہ جاتی ہیں۔ اور لوگ علمی اورعملی گمراہی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جب انسان کے شعور نے ترقی کی تو ایک عالمگیر شرعی نبی خاتم النبیین حضرت رسول کریم محمد مصطفیٰ ﷺ اور آخری مکمل شریعت قرآن مجید نازل فرمائی جس میں حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک کی تمام ہدایات جمع کر دی گئیں۔ یہ رہتی دنیا تک آخری آسمانی کتاب ہے۔اس طرح تکمیل ہدایت ہوگئی۔ دین مکمل ہوگیا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت رسول کریم ﷺ سے فرمایا کہ کل انسانوں کو مخاطب کرکے آگاہ کردیں:
اے انسانو! یقیناً میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ پس ایمان لے آؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی اُمّی پر جو اللہ پر اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اُسی کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ (الاعراف: 159)

نیز قرآن پاک فرماتا ہے:

وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّنَذِیۡرًا

(سبا: 29)

اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بنا کر۔

مشرق و مغرب سے بالا تر ہو کل عالم کو انذار اور بشارتیں دینے کا کام سونپنے والے علام الغیوب خدا کو علم تھا کہ ایک زندگی میں، مکہ مدینہ میں رہ کر محدود وسائل اور ذرائع ابلاغ کے ساتھ زمین کے کناروں تک خدائے واحد کا پیغام پہنچانا مشکل کام ہے۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آپ ﷺ کی ایک اور بعثت ہوگی اور یہ کام آپﷺ کی آمد ثانی میں ہوگا۔ جس کے لئے ایک مربوط نظام، طریق کار اور وقت مقرر ہے۔

یہ بعثت بروزی اور ظلی رنگ میں ہوگی۔ آپ ﷺکا ایک عاشقِ صادق، آپﷺ کا شاگرد، خلیفہ، عکس، اور ظل آپ ﷺ کے رنگ میں رنگین ہو کر آپﷺ کے مقاصد عالیہ کو پورا کرے گا۔ جیسا کہ فرمایا وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعہ: 4)

اسی طرح سورہ نور آیت 56 میں وعدۂ استخلاف کے موافق آنحضرت ﷺ کو مثیل موسیٰ قرار دیا گیا اور آپ ﷺ کے بعد خلفائے کرام کے سلسلہ کو جاری رکھنے کا وعدہ فرمایا۔ ایسا سلسلہ جو حضرت موسیٰؑ کے بعد خلفاء کے سلسلہ کی طرح ہوگا۔ یعنی جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چودہ سَو سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے اسی طرح آپﷺ کے اتنے ہی عرصے کے بعد خلیفہ عطا کیا جائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اس کے لئے درود شریف کی دعا بھی سکھائی اور تاکید فرمائی کہ اللہ اور فرشتے رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ ایمان والو تم بھی درود پڑھو اور دعا کرو کہ جورحمتیں اور برکتیں ابراہیمؑ اور اٰلِ ابراہیم ؑپر نازل کی تھیں وہی رحمتیں اور برکتیں محمدؐاور اٰلِ محمدؐ پر بھی نازل ہوں۔ فرشتوں اور مومنوں کی مانگی ہوئی دعائیں قبول ہوئیں اور آنحضرت ﷺ کی امت میں بھی حضرت ابراہیم ؑکی آل کی طرح اس خدمت منصبی کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک امتی جو روحانیت کی رُو سے آپ ﷺکے وجود کا ایک ٹکڑا تھا کھڑا کر دیا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماموریت کے ساتھ عالمگیر اشاعت اسلام کا فریضہ سونپا۔ اور آپ علیہ السلام سے وہی اقرار لیا جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے لیا تھا کہ اپنی تمام تر توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف رکھیں گے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الانعام: 163)

ترجمہ از حضرت مسیح موعود علیہ السلام: ’’ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جِدّوجُہد اور میری قربانیاں اور میرا زند ہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لیے اور اس کی راہ میں ہے۔ وہی خدا جو تمام عالَموں کا ربّ ہے۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ162)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو آپﷺ کے روحانی فرزند، ظِلِّ کامل اور عاشقِ صادق تھے اس اقرار کو خوب نبھاتے ہیں:؎

جانم فدا شود برہ دین مصطفےٰؐ
ایں است کام دل اگر آید میسّرم

میری جان محمد مصطفےٰ ﷺ کے دین پر فدا ہو۔ یہی میرے دل کا مدعا ہے کاش یہ مقصد مجھے مل جائے۔

آنحضورﷺ کے مشن کی تکمیل کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’تکمیل اشاعت ہدایت کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ پر جو اِتمامِ نعمت اور اِکمالُ الدین ہوا تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ اول تکمیلِ ہدایت دوسری تکمیلِ اشاعتِ ہدایت۔ تکمیلِ ہدایت من کلِّ الوجوہ آپ ﷺکی آمدِ اوّل سے ہوئی اور تکمیل اشاعت ہدایت آپ ﷺکی آمد ثانی سے ہوئی کیونکہ سورۂ جمعہ میں جو آخرین منھم والی آیت آپ ﷺکے فیض اور تعلیم سے ایک اَور قوم کے تیار کرنے کی ہدایت کرتی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺکی ایک بعثت اَور ہے اور یہ بعثت بروزی رنگ میں ہے۔جو اس وقت ہو رہی ہے۔ پس یہ وقت تکمیل اشاعت ہدایت کا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اشاعت کے تمام ذریعے اور سلسلے مکمل ہو رہے ہیں۔ چھاپہ خانوں کی کثرت اور آئے دن ان میں نئی باتوں کا پیدا ہوناڈاکخانوں، تار برقیوں، ریلوں، جہازوں کا اجرا اور اخبارات کی اشاعت، ان سب امور نے مل ملا کر دنیا کو ایک شہر کے حکم میں کر دیا ہے۔ پس یہ ترقیاں بھی دراصل آنحضرت ﷺ کی ہی ترقیاں ہیں کیونکہ اس سے آپ ﷺکی کامل ہدایت کے کمال کا دوسرا جزو تکمیلِ اشاعتِ ہدایت پورا ہو رہا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ10)

اللہ تعالیٰ نے اپنے نظام اوقات کے مطابق احیائے اسلام کے لئے مبعوث کئے گئے موعود مسیح و مہدی کے لئے آسمان اور زمین سے وہ سارے نشان دکھادئے جو اس کی صداقت کے لئے قرآن و احادیث میں بیان ہوئے تھے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے بڑے لطیف انداز میں ذکر فرمایا ہے:
’’آنحضرت ﷺ کے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کرملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہو گئی تھی آنحضرتﷺ کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ! ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کر نے کے لئے بدل و جان سرگرم ہیں۔ آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے کیونکہ آ پ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کے لئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جوزمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کما ل تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجّت کے لئے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں تب آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے جواب دیاکہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ262-263)

حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے کام آپؑ کے الفاظ میں ’’میرا کام یہ ہے کہ آسمانی نشانوں کےساتھ خدائی توحید کو دنیا میں دوبارہ قائم کروں کیونکہ ہمارے سیّدو مولیٰ حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم نے محض آسمانی نشان دکھلا کر خدائی عظمت اور طاقت اور قدرت عرب کے بُت پرستوں کے دلوں میں قائم کی تھی۔ سو ایسا ہی مجھے رُوح القدس سے مدد دی گئی ہے۔‘‘

(گورنمنٹ انگریزی اورجہاد، روحانی خزائن جلد17 صفحہ نمبر28۔29)

نیز فرمایا: ’’مجھ کو اس قرآنی آیت کا الہام ہوا تھا اور وہ یہ ہے۔ هُوَ الَّذِيْٓ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّيْنِ كُلِّهٖ۔ اور مجھ کو اس الہام کے یہ معنے سمجھائے گئے تھےکہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تا میرے ہاتھ سے خدا تعالیٰ اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ231۔232)

اور اس کے لئے اسباب مہیا کرنے کا ذمہ خود خدائے قادرو توانا نے اُٹھایا: ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 260)

دنیا پکار رہی تھی:؎

اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

سب سے پہلے تو آپ علیہ السلام نے اس چو مکھی روحانی جنگ میں کامیابی کے لئے اللہ تبارک تعالیٰ کے حضور دستِ دعا دراز کیا:
’’اے ارحم الراحمین! جس کام کی اشاعت کے لئے تو نے مجھے مامور کیا ہے اور جس خدمت کے لئے تو نے میرے دل میں جوش ڈالا ہے اس کو اپنے ہی فضل سے انجام تک پہنچا اور اس عاجز کے ہاتھ سے حجّت اسلام مخالفین پر اور ان سب پر جو اب تک اسلام کی خوبیوں سے بے خبر ہیں پوری کر۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ265)

؎مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا جوش و تپش
جس سے ہوجاؤں میں غم میں دیں کے اک دیوانہ وار
وہ لگادے آگ میرے دل میں ملّت کے لئے
شعلے پہنچیں جس کے ہر دم آسماں تک بے شمار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ147)

آپ علیہ السلام نے اپنی تمام تر توانائیاں خدمت اسلام میں صرف کردیں۔ براہین احمدیہ کی تصنیف سے اسلام ثریا سے اُتار لائے اور ہزیمت خوردہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھما دیا۔ قلم سے جہاد کرکے یضع الحرب کا عملی نمونہ دکھادیا۔ آپ علیہ السلام کی عربی، فارسی اور اردو زبان میں نظم و نثر میں کتب، اشتہارات اور خطوط کے صفحات جمع کرکے زندگی کے دنوں پر تقسیم کریں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ یہ تھا جہاد جو اس زمانے میں فرض تھا اور یہ ہے گواہی کہ آپ علیہ السلام نےاپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا مشن پورا کرنے کے لئے کتنی سعی کی۔ ان ساری تحریرات کا مقصد زندہ خدا، زندہ قرآن اور زندہ رسول ﷺ سے دنیا کو روشناس کروانا تھا۔ قلم سے جنگ کرکے جزیہ کا سوال ختم کردیا۔ کسر صلیب کرتے ہوئے عیسائیت کے رد میں خم ٹھونک کے میدان میں آئے ثابت کیا کہ خدا واحد ہے لا شریک ہے اور لازوال ہے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں خدائی صفات نہیں تھیں وہ ایک مقرب نبی تھے۔ جو آسمان پر نہیں چڑھے قرآن اور حدیث انہیں وفات یافتہ مانتے ہیں آپ علیہ السلام نے عیسیٰ مسیح ؑ کے صلیب سے بچ کر ہندوستان کی طرف سفر کا نہ صرف رستہ دکھادیا بلکہ مقبرے تک لے گئے۔؎

ابنِ مریمؑ مر گیا حق کی قَسم
داخلِ جنّت ہوا وہ محترم
مارتا ہے اُس کو فرقاں سربسر
اُس کے مر جانے کی دیتا ہے خبر
وہ نہیں باہر رہا اموات سے
ہو گیا ثابت یہ تیس آیات سے

(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ764 مطبوعہ1891ء)

ہندوؤں اور آریوں کو ان کے عقائد کی بے بضاعتی دکھا کر زیر کیا۔ لامذہب لوگوں کو بھی حق کا راستہ دکھایا۔ ہر معترض کے آگےدلائل و براہین کے پہاڑ کھڑے کردیے۔ علمی برتری پر اتنا اعتماد تھا کہ کئی انعامی چیلنج دیے۔ مگر کسی کی جرأت نہ ہوئی کہ اس شیر نر کے سامنے آسکے۔ کیونکہ سرِ راہ پر مولیٰ کریم کھڑا تھا۔؎

آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر چند
ہر مخالف کو مقابل پہ بلایا ہم نے

آپ علیہ السلام ہر مذہب کے مناد کو دعوت دیتے کہ اپنی اپنی مذہبی کتابوں میں وہ خوبیاں دکھاؤ جو قرآن مجید میں موجود ہیں۔ 1893ء میں آپ علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ میں فرمایا:
’’اب اگر کوئی سچ کا طالب ہے خواہ وہ ہندو ہے یا عیسائی یا آریہ یا یہودی یا برہمو یا کوئی اور ہے اس کے لیے یہ خوب موقع ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہوجائے۔ اگر وہ امورِ غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تو مَیں اللہ جلّ شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جائیداد غیر منقولہ جو دس ہزار روپیہ کے قریب ہوگی اس کے حوالہ کر دوں گایا جس طور سے اس کی تسلی ہوسکے اُس طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تسلی دوں گا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ349-350)

قتل خنزیر کا کام بھی آپؑ کے ہاتھوں:آپ علیہ السلام نے عیسائیت کے رد میں دلائل کے انبار لگا کر مہدی و مسیح کے بارے میں آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق جنگ لڑی۔ کسر صلیب اور قتل خنزیر کا فرض ادا کیا۔ فرماتے ہیں:
’’مسیح کے نام پر یہ عاجز بھیجا گیا تا صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کر دیا جائے۔ سو میں صلیب کے توڑنے اور خنزیروں کے قتل کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ میں آسمان سے اُترا ہوں اُن پاک فرشتوں کے ساتھ جو میرے دائیں بائیں تھے۔ جن کو میرا خدا جو میرے ساتھ ہے میرے کام کے پورا کرنے کے لئے ہر ایک مستعد دل میں داخل کرے گا بلکہ کر رہا ہے اور اگر میں چُپ بھی رہوں اور میری قلم لکھنے سے رُکی بھی رہے تب بھی وہ فرشتے جو میرے ساتھ اُترے ہیں اپنا کام بند نہیں کر سکتے اور اُنکے ہاتھ میں بڑی بڑی گرزیں ہیں جو صلیب توڑنے اور مخلوق پرستی کی ہیکل کچلنے کے لئے دیے گئے ہیں۔‘‘

(فتح ِ اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ11)

اور فرشتوں نے وہ کام کئی دفعہ کیا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے تحریر فرمایا:
’’میرا اصل کام کسر صلیب ہے سو اُس کے مرنے سے (ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی۔۔۔۔ ناقل) ایک بڑا حصہ صلیب کا ٹوٹ گیا۔ کیونکہ وہ تمام دنیا سے اول درجہ پر حامیٴ صلیب تھا جو پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ میری دعا سے تمام مسلمان ہلاک ہو جائیں گے اور اسلام نابود ہو جائے گا اور خانہ کعبہ ویران ہو جائے گا۔ سو خدا تعالیٰ نے میرے ہاتھ پر اُس کو ہلاک کیا۔ میں جانتا ہوں کہ اُس کی موت سے پیشگوئی قتل خنزیر والی بڑی صفائی سے پوری ہو گئی۔ کیونکہ ایسے شخص سے زیادہ خطرناک کون ہو سکتا ہے کہ جس نے جھوٹے طور پر پیغمبری کا دعویٰ کیا اور خنزیر کی طرح جھوٹ کی نجاست کھائی۔ اور جیسا کہ وہ خود لکھتا ہے اُس کے ساتھ ایک لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہو گئے تھے جو بڑے مالدار تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ مسیلمہ کذّاب اور اَسود عَنسی کا وجود اس کے مقابل پر کچھ بھی چیز نہ تھا۔ نہ اس کی طرح شہرت اُن کی تھی اور نہ اُس کی طرح کروڑ ہا روپیہ کے وہ مالک تھے۔ پس میں قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ وہی خنزیر تھا جس کے قتل کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے ہاتھ پر مارا جائے گا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ513)

انبیائے کرام تخم ریزی کرتے ہیں تدریجاً بڑھاتے چلے جانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ کون تصور کرسکتا تھا کہ ایک سو پندرہ سال بعد آپ کے بعد جاری ہونے والی خلافت کے پانچویں دور میں صیحون میں ایک عظیم الشان مسجدفتحِ عظیم تعمیر ہوگی جس کاافتتاح سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےبنفس نفیس امریکہ تشریف لاکر فرما ئیں گے۔ ڈوئی کے شہر میں احمد ؐ کے غلام کی جے کے فلک شگاف نعرے گونجے اور دوسری طرف ایم ٹی اے کے کارکن گلی محلوں میں لوگوں سے پوچھتے پھرے کیاآپ ڈوئی کو جانتے ہیں؟ تو جواب نفی میں ملا۔ امریکی میڈیا میں دعاکی جنگ یعنی مباہلہ کی گونج اور ہندی مسیح کی فتح کے شادیانے بجے۔ عیسائیت کا زور ٹوٹ گیا۔ چرچ بکنے لگے اور مساجد بننے لگیں۔

دور آخریں میں تیرو تلوار کی جگہ قلم سے اسلام پر حملے مقدر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سلطان القلم بنایا۔آپ نے ساری جنگیں چھوٹی سی بستی میں اپنے سادہ سے کمرے میں بیٹھ کرقلم کو دوات میں ڈبو کر لڑیں۔ صبح شام، دن رات، سردی گرمی،بیماری صحت، غمی خوشی ہر حال میں لکھا، ہر وقت لکھا۔ حتیٰ کہ کھانے پینے اور حوائج ضروریہ میں وقت لگانا بھی آپؑ کو دُکھتا تھا۔

آنحضور ﷺ کے خلاف دشنام طرازی کرنے والوں کو آپ ﷺکی سیرت کا حسن دکھا کر خاموش کیا۔ آپ علیہ السلام کے رشحات قلم میں آنحضور ﷺ کامقام و مرتبہ اتنے دل نشین انداز میں بیان فرمایا ہے کہ روح وجد میں آجاتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی ایسا شیریں بیان موجود نہیں۔ عشق کا عالم دیکھئے! فرماتے ہیں:
’’اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلّت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو و اللّٰہ ثم و اللّٰہ ہمیں رنج نہ ہوتا۔ اور اس قدر کبھی دل نہ دُکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کریمؐ سے کی گئی دُکھا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5 صفحہ52)

؎اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہؤا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے

اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں عطا فرمائی گئیں:
’’اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ و ہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا… دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا…دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیاہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے!‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ66تا67)

ہم مسیح محمدی کے غلام گواہ ہیں کہ آپؑ نے کمال دیانتداری سے اپنا فرض ادا کیا اور ایسا سلسلہ قائم فرمایا جو حضرت رسول کریم ﷺ کے مشن کو آگے بڑھا رہا ہے۔ ہر سال خلیفۂ وقت بصد حمد و شکر جماعت کی ترقی کا سال بہ سال جائزہ پیش کرتے ہوئے اس عزم کو دہراتے ہیں کہ تمام دنیا کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل کرکے حضرت محمد رسول اللہﷺ کی غلامی میں لانا ہے اور اس کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللّٰھم آمین

(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

تقریبِ پُر مسرت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20 جنوری 2023