• 6 مئی, 2025

تصوف کی اہمیت

تصوف کا اصل مادہ ’’صوف‘‘ ہے جس کا معنٰی ہے اون اور تصوف کا لغوی معانی اون کا لباس پہننا۔

صوفیا کی اصلاح میں اس کے معانی ہیں اپنے اندر کا تزکیہ اور تصفیہ کرنا، یعنی اپنے نفس کو نفسانی کدورتوں اور رزائل اخلاق سے پاک و صاف کرنا اور فضائل اخلاق سے مزین کرنا اور صوفیا ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہےجو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے اندر کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتے ہیں۔

اب لفظ صوفیا اپنے لغوی معانی (اون کا لباس) میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اپنے اندر کے تزکیہ اور تطہیر کی طرف توجہ دیتے ہیں اور اب یہ لفظ ایسے ہی لوگوں کے لیے لقب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ چونکہ ابتداء میں ایسے لوگوں کا اکثر لباس صوف (اون) ہی ہوتا تھا اس وجہ سے ان کا یہ نام پڑ گیا۔ اگرچہ بعد میں ان کا یہ لباس نہ رہا۔

تصوف کی اہمیت

ایک دفعہ حضرت جبرائیل انسانی شکل میں آنحضرتؐ کے پاس تشریف لائے اور کچھ سوالات کیے ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ احسان کیا ہے؟ آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ تم خدا کو دیکھ رہے ہو اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو یہ یقین کرو کہ خدا تم کو دیکھ رہا ہے۔ بندہ کے دل میں اسی احسان کی کیفیت پیدا کرنے کا صوفیا کی زبان میں دوسرا نام تصوف یا سلوک ہے۔ تصوف دراصل بندہ کے دل میں یقین پیدا کرتا ہے۔ تصوف مذہب سے الگ کوئی چیز نہیں بلکہ مذہب کی روح ہے۔صوفیا حضرات اپنی تعلیمات میں سے جس چیز پر سب سے زیادہ زور دیتے ہیں وہ عشق الٰہی ہے کیونکہ محبت ہی ایک ایسی چیز ہے جو محب کو اپنے محبوب کی اطاعت پر مجبور کرتی ہے اور اس کی نافرمانی سے روکتی ہے اور محب کے دل میں محبوب کی رضا کی خاطر ہر مصیبت اور تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی قوت اور صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ صوفیا کرام اگر زہد، تقوی، عبادت، ریاضت اور مجاہدے اختیار کرتے ہیں تو ان کا مقصد صرف اور صرف خدا کی رضا حاصل کرنا ہے۔ وہ جنت کی لالچ نا جہنم کے خوف سے بلکہ خدا سے محبت میں کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت رابعہ بصریؒ اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں۔ خدایا میں اگر تیری بندگی جہنم کے خوف سے کرتی ہوں تو مجھے اس سے دور رکھنا لیکن اگر میں تیری بندگی تجھے پانے کیلئے کرتی ہوں تو مجھے اپنے آپ سے محروم نہ رکھنا۔

امام ربانیؒ فرماتے ہیں مقربین بارگاہ الٰہی یعنی صوفیا کرام اگر بہشت چاہتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ ان کا مقصد نفس کی لذت ہے بلکہ اس لئے کہ وہ خدا کی رضا کی جگہ ہے اگر وہ دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں اس لئے نہیں کہ اس میں رنج والم ہے بلکہ اس لیے کہ وہ خدا کی ناراضگی کی جگہ ہے ورنہ ان کے لئے انعام اور رنج والم دونوں برابر ہیں ان کا اصل مقصد رضائے الٰہی ہے۔

(عادل ارشد)

پچھلا پڑھیں

دوسرا سالانہ ریجنل اجتماع واقفین/ واقفات نو گیمبیا 2022ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2023