• 29 اپریل, 2024

دوسری شرط بیعت

دوسری شرط بیعت
بدنظری سے بچنا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بیعت لینے کا اذن ہوا تو آپ نے بیعت کرنے والوں کے لئے دس شرائط بیعت مقرر فرمائیں ان میں سے دوسری شرطِ بیعت یہ ہے کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور ظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتا رہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہو گا اگرچہ کیسا ہی جذبہ پیش آوے۔

دوسری شرطِ بیعت میں جن نو برائیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک برائی بدنظری ہے۔ بد نظری دوسری بہت سی برائیوں کی جڑ ہےاس لئے قرآن کریم انجیل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تم نا محرم عورتوں کو ناپاک نظر سے نہ دیکھو بلکہ انسانی نفسیات کو سمجھتے ہوئے یہ حکم دیتا ہے کہ تم نہ پاک نظر سے دیکھواور نہ ناپاک نظر سے تاکہ ٹھوکر کا باعث نہ ہو۔

اس کے متعلق سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اسلام بائبل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تم عورت کو بری نظر سے نہ دیکھو بلکہ کہتا ہے کہ نظریں پڑیں گی تو قربت بھی ہو گی اور پھر بے حیائی بھی پیدا ہوگی۔ اچھے برے کی تمیز ختم ہو گی اور پھر ایسے کھلے عام میل جول سے جب اس طرح لڑکا اور لڑکی، مرد اور عورت بیٹھے ہوں گے تو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تیسرا تم میں شیطان ہو گا۔

(سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات حدیث نمبر 117)

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اگست 2013ء)

بد نظری سے بچنے کے متعلق قرآن و احادیث کی تعلیمات اور حضرت مسیح موعودؑ وخلفا کے ارشادات پیش ہیں۔

خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں غضّ بصر کا حکم دیا ہے تا کہ بدنظری کا موقع ہی پیدا نہ ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

وَقُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِہِنَّ وَیَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَہُنَّ وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَلۡیَضۡرِبۡنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوۡبِہِنَّ ۪ وَلَا یُبۡدِیۡنَ زِیۡنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اٰبَآئِہِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآئِہِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِہِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اِخۡوَانِہِنَّ اَوۡ بَنِیۡۤ اَخَوٰتِہِنَّ اَوۡ نِسَآئِہِنَّ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُنَّ اَوِ التّٰبِعِیۡنَ غَیۡرِ اُولِی الۡاِرۡبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِیۡنَ لَمۡ یَظۡہَرُوۡا عَلٰی عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَلَا یَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِہِنَّ لِیُعۡلَمَ مَا یُخۡفِیۡنَ مِنۡ زِیۡنَتِہِنَّ ؕ وَتُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ جَمِیۡعًا اَیُّہَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۳۲﴾

(النور: 31۔32)

ترجمہ: مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں۔ یہ بات ان کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ یقیناً اللہ جو وہ کرتے ہیں، اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کیا کریں سوائے اس کے کہ جو اس میں سے ازخود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈال لیا کریں اور اپنی زینتیں ظاہر نہ کیا کریں مگر اپنے خاوندوں کے لئے یا اپنے باپوں یا اپنے خاوندوں کے باپوں یا اپنے بیٹوں کے لئے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے لئے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں یا اپنی بہنوں کے بیٹوں یا اپنی عورتوں یا اپنے زیرنگیں مردوں کے لئے یا مردوں میں ایسے خادموں کے لئے جو کوئی(جنسی) حاجت نہیں رکھتے یا ایسے بچوں کے لئے جو عورتوں کی پردہ دار جگہوں سے بے خبر ہیں اور وہ اپنے پاؤں اس طرح نہ ماریں کہ (لوگوں پر) وہ ظاہر کردیا جائے جو (عورتیں عموماً) اپنی زینت میں سے چھپاتی ہیں اور اے مومنو! تم سب کے سب اللہ کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ کی تشریح میں فرماتے ہیں:
ہم نے بہت سے ایسے انسان دیکھے ہیں کہ ایک ہی نگاہ میں ہلاک ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں سے کہہ دو۔نگاہیں نیچی رکھا کریں۔۔۔۔ اگر کسی حسین پر پہلی نظر پڑ جائے۔تو تم دوبارہ اس پر ہر گز نظر نہ ڈالو۔اس سے تمہارے قلب میں ایک نور پیدا ہو گا۔

(حقائق الفرقان جلد سوم صفحہ213)

بد نظری کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بدنظری شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک زہریلا تیرہے، جو شخص اس کو میرے خوف کی وجہ سے چھوڑ دے، میں اس کو ایک ایسی ایمانی قوت دوں گا جس کی شیرینی وہ اپنے دل میں پائے گا۔‘‘

(المنذری، عبدالعظیم، الترغیب والترھیب، بیروت، دارالکتب العلمیہھ، جلد3 صفحہ153)

حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کی کسی عورت کی خوبصورتی پر نگاہ پڑتی ہے اور وہ غض بصر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی عبادت کی توفیق دیتا ہے جس کی حلاوت وہ محسوس کرتا ہے۔

(مسند احمد مسند باقی الانصار باب حدیث أبی أمامۃ الباہلی الصدی بن عجلان)

پھرایک روایت میں ہے کہ آگ اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو دیکھنے کی بجائے جھک جاتی ہے اور اس آنکھ پر بھی حرام ہے جو اللہ عز و جل کی راہ میں پھوڑ دی گئی ہو۔

(سنن دارمی، کتاب الجہاد، باب فی الذی یسھر فی سبیل اللّٰہ حارسا)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
غض بصر کا کتنا بڑا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں اور اس کی راہ میں جہاد کرنے والوں، شہید ہونے والوں یا دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والی آنکھ کا رتبہ ایسے لوگوں کو حاصل ہو رہاہے جو اس حکم پر عمل کرتے ہوئے، ہمیشہ عبادت بجا لانے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے۔

(خطبہ جمعہ 30؍جنوری 2004ء)

حضرت جریرؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’اچانک نظر پڑ جانے‘‘ کے بارہ میں دریافت کیا۔ حضور نے فرمایا ’’اِصْرِفْ بَصَرَکَ‘‘ اپنی نگاہ ہٹا لو۔

(ابو داؤد کتاب النکاح باب فی ما یؤمر بہ من غض البصر)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فضل (بن عباس) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے تو خَثْعَمْ قبیلہ کی ایک عورت آئی۔ فضل اسے دیکھنے لگ پڑے اور وہ فضل کو دیکھنے لگ گئی۔ تواس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کا چہرہ دوسری طرف موڑدیا۔

(بخاری کتاب الحج باب وجوب الحج و فضلہ)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ بد نظری کے متعلق فرماتے ہیں:
مومن کو نہیں چاہئے کہ دریدہ دہن بنے یا بے محابا اپنی آنکھ کو ہر طرف اٹھائے پھرے، بلکہ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ (النور: 31) پر عمل کر کے نظر کو نیچی رکھنا چاہئے اور بد نظری کے اسباب سے بچنا چاہئے۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ533 ایڈیشن1988ء)

حضرت ابوسعید خُدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: راستوں پر مجلسیں لگانے سے بچو۔ صحابہؓ نے عرض کی، یا رسول اللہ ہمیں رستوں میں مجلسیں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر رستے کا حق ادا کرو۔ انہوں نے عرض کی کہ اس کا کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہر آنے جانے والے کے سلام کا جواب دو، غَضِّ بصر کرو، راستہ دریافت کرنے والے کی رہنمائی کرو، معروف باتوں کا حکم دو اور ناپسندیدہ باتوں سے روکو۔

(مسند احمد بن حنبل جلد3 صفحہ61 مطبوعہ بیروت)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
تو دیکھیں! اسلامی پردہ کی خوبیاں۔ نظر پڑ جاتی ہے ٹھیک ہے، قدرتی بات ہے۔ ایک طرف تو یہ فرما دیا عورت کو کہ تمہیں باہر نکلنے کی اجازت اس صورت میں ہے کہ پردہ کرکے باہر نکلو اور جو ظاہری نظر آنے والی چیزیں ہیں، خود ظاہرہونے والی ہیں ان کے علاوہ زینت ظاہر نہ کرو اوردوسری طرف مردوں کو یہ کہہ دیا کہ اپنی نظریں نیچی رکھو، بازار میں بیٹھو تو نظرنیچی رکھو اور اگر پڑ جائے تو فوراً نظر ہٹا لو تاکہ نیک معاشرے کا قیام عمل میں آتا رہے۔

(خطبہ جمعہ 30؍جنوری 2004ء)

اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور میمونہؓ بھی ساتھ تھیں۔ توابن ام مکتومؓ آئے یہ پردہ کے حکم کے نزول سے بعد کی بات ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے پردہ کرو۔ ہم نے عرض کی یارسول اللہ !کیا وہ نابینا نہیں؟ نہ وہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی پہچان سکتا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو اور تم اس کو دیکھ نہیں رہیں۔

(ترمذی کتاب الأدب عن رسول اللّٰہ باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال)

غض بصر کا حکم مردوں کو تو ہے، ساتھ ہی عورتوں کے لئے بھی ہے کہ تم نے کسی دوسرے مرد کو بلا وجہ نہیں دیکھنا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دوسری شرطِ بیعت کے ضمن میں بد نظری سے بچنے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاکیزہ ارشادات کی روشنی میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

دوسری شرط کی جو دوسری باتیں ہیں، اُس میں مثلاً بدنظری ہے، اُس کے بارہ میں فرمایا: ’’قرآنِ شریف نے جو کہ انسان کی فطرت کے تقاضوں اور کمزوریوں کو مدّنظر رکھ کر حسبِ حال تعلیم دیتا ہے، کیا عمدہ مسلک اختیار کیا ہے قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ وَیَحۡفَظُوۡا فُرُوۡجَہُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَزۡکٰی لَہُمۡ (النور: 31) کہ تو ایمان والوں کو کہہ دے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنے سوراخوں کی حفاظت کریں۔ یہ وہ عمل ہے جس سے اُن کے نفوس کا تزکیہ ہوگا‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ105 ایڈیشن 2003ء)

پھر آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’اسلام نے شرائط پابندی ہر دو عورتوں اور مردوں کے واسطے لازم کئے ہیں۔ پردہ کرنے کا حکم جیسا کہ عورتوں کو ہے، مردوں کو بھی ویسا ہی تاکیدی حکم ہے غضّ بصر کا۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، حلال و حرام کا امتیاز، خدا تعالیٰ کے احکام کے مقابلے میں اپنی عادات، رسم و رواج کو ترک کرنا وغیرہ وغیرہ ایسی پابندیاں ہیں جن سے اسلام کا دروازہ نہایت ہی تنگ ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ایک شخص اس دروازے میں داخل نہیں ہوسکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ614 ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ 23؍مارچ 2012ء)

’’ایمانداروں کو جو مرد ہیں کہہ دے کہ آنکھوں کو نامحرم عورتوں کے دیکھنے سے بچائے رکھیں اور ایسی عورتوں کو کھلے طور سے نہ دیکھیں جو شہوت کا محل ہوسکتی ہیں اور ایسے موقعوں پر خوابیدہ نگاہ کی عادت پکڑیں اور اپنے ستر کی جگہ کو جس طرح ممکن ہو بچاویں۔ ایسا ہی کانوں کو نامحرموں سے بچاویں یعنی بیگانہ عورتوں کے گانے بجانے اور خوش الحانی کی آوازیں نہ سنے، ان کے حسن کے قصے نہ سنے۔ یہ طریق پاک نظر اور پاک دل رہنے کے لئے عمدہ طریق ہے۔‘‘

(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ100 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ440)

خدائے تعالیٰ نے خلق احصان یعنی عفت کے حاصل کرنے کے لئے صرف اعلیٰ تعلیم ہی نہیں فرمائی بلکہ انسان کو پاک دامن رہنے کے لئے پانچ علاج بھی بتلا دئیے ہیں۔ یعنی یہ کہ اپنی آنکھوں کو نامحرم پر نظر ڈالنے سے بچانا، کانوں کو نامحرموں کی آواز سننے سے بچانا، نامحرموں کے قصے نہ سننا، اور ایسی تمام تقریبوں سے جن میں اس بدفعل کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اپنے تئیں بچانا۔ اگر نکاح نہ ہو تو روزہ رکھنا وغیرہ۔

اس جگہ ہم بڑے دعویٰ کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ تعلیم ان سب تدبیروں کے ساتھ جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں صرف اسلام ہی سے خاص ہے اور اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی وہ طبعی حالت جو شہوات کا منبع ہے جس سے انسان بغیر کسی کامل تغیر کے الگ نہیں ہو سکتا یہی ہے کہ اس کے جذبات شہوت محل اور موقع پاکر جوش مارنے سے رہ نہیں سکتے۔ یا یوں کہو کہ سخت خطرہ میں پڑ جاتے ہیں۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے، تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگےنرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد10 صفحہ343-344)

غض ِبصر دل کی پاکیزگی قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اس بارے میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
قرآن نے بدی سے بچنے کا ایک اور طریق بتایا اور وہ یہ کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں۔ کیونکہ اس سے بدی کا امکان بہت کم ہو جائے گا اور برائی پھیلنے کا راستہ مسدود ہو جائے گا۔ گویا باوجود پردہ کے حکم کے جو الٰہی آیات میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر بھی بعض مواقع ایسے نکل سکتے ہیں جبکہ مرد و عورت اکٹھے ہوں ایسی صورت میں یہ حکم دیا کہ مرد و عورت دونوں اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں تاکہ شیطان ان پر حملہ آور نہ ہو اور ان کے دلوں کی پاکیزگی قائم رہے۔

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ296)

پھر غضِّ بصر کا حکم مرد و عورت دونوں کے لئے ہے اس کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
علم النفس کے ماتحت مرد و عورت کے باہمی تعلقات کی ابتداء ہمیشہ دونوں کی نظریں ملنے سے ہوتی ہے اور یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی پر نظر پڑتی ہے تو خواہ دوسرے کی نظر نیچی ہی ہو تب بھی اس پر اثر پڑ جاتا ہے۔ اس لئے یہ حکم تبھی مفید ہو سکتا تھا جبکہ دونوں کو دیا جاتا اور دونوں کو اس امر کا پابند کر دیا جاتا کہ وہ ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھیں۔ نہ مرد عورتوں کی طرف دیکھیں نہ عورتیں مردوں کی طرف دیکھیں۔

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ298)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
غضِّ بصر سے کام لیں۔ یعنی اپنی آنکھ کو اس چیز کو دیکھنے سے روکے رکھیں جس کا دیکھنا منع ہے۔ یعنی بلا وجہ نامحرم عورتوں کو نہ دیکھیں۔ جب بھی نظر اٹھا کر پھریں گے تو پھر تجسس میں آنکھیں پیچھا کرتی چلی جاتی ہیں اس لئے قرآن شریف کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کے چلو۔ اسی بیماری سے بچنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے کہ نیم وا آنکھوں سے چلو۔ یعنی ادھ کھلی آنکھوں سے، راستوں پرپوری آنکھیں پھاڑ کر نہ چلو۔ بند بھی نہ ہوں کہ ایک دوسرے کو ٹکریں مارتے پھرو۔ لیکن اتنی کھلی ہوں کہ کسی بھی قسم کا تجسس ظاہر نہ ہوتاہو کہ جس چیز پرایک دفعہ نظر پڑ جائے پھر اس کو دیکھتے ہی چلے جانا ہے۔

پھر مومن عورتوں کے لئے حکم ہے کہ غض بصر سے کام لیں اور آنکھیں نیچی رکھا کریں۔ اگر عورت اونچی نظر کرکے چلے گی تو ایسے مرد جن کے دلوں پر شیطان نے قبضہ کیا ہوا ہے وہ تو پھر ان عورتوں کے لئے مشکلات ہی پیدا کرتے رہیں گے۔ توہر عورت کو چاہئے کہ اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بدنامی سے بچانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کا جو حکم ہے غض بصر کا، اس پر عمل کرے تاکہ کسی بھی قسم کی بدنامی کا باعث نہ ہو۔

(خطبہ جمعہ 30؍جنوری 2004ء)

غض بصر کے حکم میں کیا حکمت ہے اس بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اسلام کی بیان فرمودہ کوئی بھی تعلیم سطحی اور بغیر حکمت کے نہیں۔ بلکہ اسلام کا ہر اصو ل انتہائی پُر حکمت اور مضبوط بنیادوں پر مشتمل ہے۔ چنانچہ مَردوں کےغَضِّ بصر سے کام لینے کے حکم سے اسلام ہمیں دراصل اپنے نفس پر قابو رکھنا سکھاتا ہے۔ کیونکہ عموماً نظر سے ہی مَردوں کے جذبات اور خواہشات ابھرتے ہیں۔ معاشرہ کو نامناسب باتوں اور برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے مَردوں اور عورتوں دونوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نظروں کو مخالف جنس کے سامنے جھکا کر رکھیں، یا ہر ایسی چیز سے اپنی نظروں کو بچا کر رکھیں جن سے ناجائز طور پر شہوانی خیالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔

(خطاب برموقع نیشنل اجتماع خدام الاحمدیہ یوکے 26؍ستمبر 2016ء مطبوعہ بدر قادیان 7؍ستمبر2017ء)

بد نظری سے بچنا دراصل غضِ بصر ہے۔علامہ طبری کہتے ہیں کہ غض بصر سے مراد اپنی نظر کو ہر اس چیز سے روکناہے جس سے اللہ تعالی نے روکا ہے۔

(تفسیر الطبری جلد18 صفحہ116-117)

غضِ بصر کے حکم پر عمل کرنے کے نتیجے میں انسان لغو اور بیہودہ فلمیں دیکھنے اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے بھی محفوظ رہتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
پس یہ قرآنِ کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اُٹھا کے نہیں دیکھنا، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ فحشاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور فحش فلمیں ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہو گی۔۔۔ نہ ہی سکائپ (skype) اور فیس بُک (facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اپنے جذبات کی رَو میں زیادہ بہہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجام کار اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑ کر اُس کی ناراضگی کا موجب بن جاؤ گے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍اگست 2013ء)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا:
’’بڑے بڑے اشتہاری بورڈ کے ذریعہ سے، ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعہ سے، انٹرنیٹ پر اشتہارات کے ذریعہ سے بلکہ اخباروں کے ذریعہ سے بھی اشتہار دئیے جاتے ہیں کہ شریف آدمی کی نظر اس پر پڑجاتی تو شرم سے نظر جھک جاتی ہے اور جھکنی چاہئے۔ یہ سب کچھ ماڈرن سوسائٹی کے نام پر، روشن خیالی کے نام پر ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا یہ زینت اب بے حیائی بن چکی ہے یعنی زینت کے نام پربے حیائی کی اشتہار بازی ہے۔‘‘

(خطاب از مستورات جلسہ سالانہ جرمنی 29؍جون 2013ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے جلسہ سالانہ قادیان 2022ء میں شرائط بیعت میں بیان فرمودہ برائیوں کا ذکر کرتے ہوئے بد نظری کے متعلق فرمایا:
پس اسلام نے نظروں کو نیچا رکھنے کا حکم مرد اور عورت دونوں کو دیا ہے اور یہ دے کر حیا کے اس معیار کو قائم فرمایا ہے جس سے برائی کا امکان ہی نہ رہے اگر ایسے معیار قائم کرنے کی کوشش کریں گے پھر ہی ایک پاکیزہ معاشرہ قائم ہو سکتا ہے اس حکم کی وسعت صرف یہی نہیں ہے ظاہری طور پر دیکھنے میں بلکہ آج کل جو میڈیا ہے، کمپیوٹر ہے، ٹی وی ہے اس پر غلط اور ننگے پروگرام جو آتے ہیں۔۔ ان تک اس کی وسعت پھیلی ہوئی ہے وہاں بھی ہمیں احتیاط کرنی چاہئے اور خاص طور پر نوجوانوں کو اس طرف دیکھنا چاہئے بلکہ بعض تو بڑوں کی بھی شکایات آتی ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہم نے حاصل کرنی ہے تو پھر کس قدر باریکی میں جا کر ہمیں اصلاح کرنی ہو گی اوراپنے بچوں کو بھی سمجھنا ہو گا۔

(خطاب جلسہ سالانہ قادیان 25؍دسمبر 2022ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ہر چھوٹی بڑی برائی سے بچنے والے ہوں اور اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے والے ہوں۔ آمین

(فائقہ بشریٰ۔بحرین)

پچھلا پڑھیں

خطبہ ثانیہ کی اہمیت اور اس میں بیان شدہ سنہری اسباق

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 فروری 2023