تلخیص صحیح بخاری سوالاً جواباً
کتاب الصلوٰة جزو اول
قسط 17
سوال: نماز کس طرح فرض ہوئی؟
جواب: ابوذر غفاریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا واقعہ تفصیلاً بیان فرمایا اور نمازوں کے بارہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں تو موسیٰؑ نے نمازوں میں کمی کروانے کا مشورہ دیا چنانچہ میں اس وجہ سے اللہ کے حضور باربار آیا گیا۔ تو آخر کار اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ اب پانچ نمازیں ہیں جو ثواب میں پچاس کے برابر ہیں اور میری بات بدلی نہیں جاتی۔
سوال: نمازوں کی کتنی کتنی رکعتیں فرض ہوئیں؟
جواب: ام المؤمنین عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز میں دو دو رکعت فرض کی تھی۔ سفر میں بھی اور اقامت کی حالت میں بھی۔ پھر سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھی گئی اور اقامت کی نمازوں میں زیادتی کر دی گئی۔
سوال: کیا نماز کے لئے کپڑے پہننا لازم ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ کہ تم کپڑے پہنا کرو ہر نماز کے وقت اور جو ایک ہی کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اپنے کپڑے کو ٹانک لے اگرچہ کانٹے ہی سے ٹانکنا پڑے اور گندگی والے کپڑے کے سوا سب کپڑوں میں نماز درست ہوگی۔ نبی کریمؐ نے حکم دیا تھا کہ کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔ اس لئے کپڑے پہننا ہر نمازی کے لئے لازم ٹھہرا۔
سوال: نماز کے لئے اپنی گردن سے تہ بند باندھنا درست ہے؟
جواب: جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور آپؓ نے لوگوں کوایک تہ بند میں نماز پڑھ کر دکھائی تا معترضین کا منہ بند ہوجائے اور فرمایا:بھلا نبی کریمؐ کے زمانہ میں دو کپڑے کس کے پاس تھے؟
حضورؐ کے ساتھ کئی لوگوں نے اپنی تہ بند کندھوں پر باندھ کر نماز پڑھی۔ یعنی شاذ شاذ لوگوں کو دو کپڑے میسر آتے تھے۔
سوال: کیا کبھی حضورؐ نے چاشت کے وقت نماز ادا کی؟
جواب: ام ہانی بنت ابی طالبؓ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ نے غسل کیا اور آٹھ رکعت نماز پڑھی، ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر۔ یہ نماز چاشت کے وقت تھی۔
سوال: کیا حضورؐ نے کبھی جبہ پہن کر نماز پڑھی؟
جواب: مغیرہ بن شعبہؓ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر ایک دن میں نے حضورؐ کو وضو کروایا اور آپؐ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپؐ ہاتھ کھولنے کے لیے آستین اوپر چڑھانی چاہتے تھے لیکن وہ تنگ تھی اس لیے آستین کے اندر سے ہاتھ باہر نکالا۔ میں نے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ آپؐ نے نماز کے وضو کی طرح وضو کیا اور اپنے خفین پر مسح کیا۔ پھر نماز پڑھی۔
سوال: کیا نماز کے لئے کوئی خاص لباس ہونا چاہیے؟
جواب: ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے صرف ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ کیا تم سب لوگوں کے پاس دو کپڑے ہو سکتے ہیں؟
پھر عمرؓ سے ایک شخص نے پوچھا تو انہوں نے کہا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں فراوانی عطا فرمائی ہے تو اس کا اظہار بھی کر سکتے ہو۔ یعنی جتنے باوقار ہو سکتے ہو اور عمدہ لباس میسر ہیں تو وہ پہنو، اور نماز کےلئے کسی خاص لباس کی ہدایت نہیں فرمائی۔
سوال: حضورؐ سے دریافت کیا گیا کہ احرام کے لئے کس طرح کا لباس ہونا چاہیے؟
جواب: آپؐ نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنے نہ پاجامہ، نہ باران کوٹ اور نہ ایسا کپڑا جس میں زعفران لگا ہوا ہو اور نہ ورس لگا ہوا کپڑا، پھر اگر کسی شخص کو جوتیاں نہ ملیں تو وہ موزے کاٹ کر پہن لے تاکہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔
سوال: ستر ڈھانکنے کے متعلق کیا حکم ہے؟
جواب: ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صماء (مشک کسنے) کی طرح کپڑا بدن پر لپیٹنے اور احتباء سے منع فرمایا۔ احتباء یہ ہے کہ گوٹھ مار کر بیٹھنا، شرمگاہ کی بجائے پنڈلیوں پر کپڑا ڈالنا۔
سوال: حضورؐ نے کن چار چیزوں سے منع فرمایا؟
جواب: ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللِّمَاسِ وَالنِّبَاذِ کی بیع اور صماء اور احتباء سے منع فرمایا۔
لماس سے مراد ہے کہ کسی فروخت کنندہ کی چیز کو چھو کر بیع کو لازم قرار دے لینا اور نباذ ایسی بیع کہ خرید کنندہ فروخت کنندہ کی طرف کپڑا پھینک دیتا اور اس پر لازم ہوجاتا کہ اب وہ اپنی چیز کسی اور کو فروخت نہ کرے یہ زمانہ جاہلیت کی بیع تھیں۔
سوال: فتح مکّہ کے بعد والے سال حج کے موقع پر حضورؐ نے کیا اعلانات کروائے؟
جواب: اس حج میں حضورؐ نے امیر حجاج ابوبکرصدیقؓ کو مقرر فرمایا تھا۔
ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اس حج کے موقع پر مجھے ابوبکرؓ نے یوم نحر یعنی دس ذی الحجہ کو اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا۔ تاکہ ہم منیٰ میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکتا اور کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا۔
سوال: حضورؐ نے علیؓ کو کیا حکم دے کر ابوبکرؓ کے پیچھے مکّہ بھیجا؟
جواب: حمید بن عبدالرحمٰن سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیؓ کو ابوبکرؓ کے پیچھے بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ وہ سورۃ البراءَۃ پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔
ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ علیؓ نے ہمارے ساتھ نحر کے دن منیٰ میں دسویں تاریخ کو یہ سنایا کہ آج کے بعد کوئی مشرک نہ حج کر سکے گا اور نہ بیت اللہ کا طواف کوئی شخص ننگے ہو کر کر سکے گا۔
سوال: حضرت جابرؓ نے لوگوں کے سامنے ایک کپڑے میں نماز کیوں پڑھی؟
جواب: جابر بن عبداللہؓ نے فرمایا: میں نے چاہا کہ نادان لوگ مجھے اس طرح نماز پڑھتے دیکھ لیں، میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
سوال: حضورؐ کا اپنی ران کھولنے کا کیا واقعہ ہے؟
جواب: ابن عباسؓ، جرہدؓ اور محمد بن حجشؓ سے مروی ہے کہ ران شرمگاہ ہے۔ انسؓ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پہ اپنی ران کھولی۔ امام بخاری کے نزدیک یہی بات زیادہ صحیح ہے اور جرہد کی روایت میں بہت احتیاط ملحوظ ہے۔
سوال: عثمانؓ کے سامنے حضورؐ کا گھٹنوں پہ کپڑا ڈالنے کا کیا واقعہ ہے؟
جواب: ابو موسیٰ اشعریؓ سے مروی ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھٹنے ڈھانک لئے۔
سوال: کیا نزولِ وحی کے وقت حضورؐ کے جسم مبارک میں کوئی تغیّر ہوجاتا تھا؟
جواب: زید بن ثابتؓ نے بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ وحی نازل فرمائی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک میری ران پر تھی، آپ کی ران اتنی بھاری ہو گئی تھی کہ مجھے اپنی ران کی ہڈی ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
سوال: کیا فجر کی نماز لو لگنے سے پہلے، اندھیرے میں پڑھی جاسکتی ہے؟
جواب: انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر میں تشریف لے گئے۔ ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی۔
(مختار احمد)