مفہوم لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کے بعد نماز کی طرف توجہ کرو
• اول مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقّت اور سوز وگداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الٰہی میں مومن کو میسر آتی ہے۔ یعنی گدازش اور رقت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندرپیدا کرنا اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کرکے خدائے عزوجل کی طرف دل کو جھکانا جیسا کہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ﴿۳﴾ (الموٴمنون: 2-3) یعنی وہ مومن مراد پا گئے جو اپنی نماز میں اور ہر ایک طور کی یادالٰہی میں فروتنی اور عجز و نیاز اختیار کرتے ہیں اور رقت اور سوز وگداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے رب کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ خشوع کی حالت جس کی تعریف کا اوپر اشارہ کیا گیا ہے روحانی وجود کی طیاری کے لئے پہلا مرتبہ ہے یا یوں کہوکہ وہ پہلا تخم ہے جو عبودیت کی زمین میں بویا جاتا ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ188)
• مفہوم لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کے بعد نماز کی طرف توجہ کرو جس کی پابندی کے واسطے بار بار قرآن شریف میں تاکید کی گئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی اس کے یہ فرمایا گیا ہے کہ فَوَیۡلٌ لِّلۡمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿۵﴾ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنۡ صَلَاتِہِمۡ سَاہُوۡنَ ﴿۶﴾ (الماعون: 5-6) وَیل ہے ان نمازیوں کے واسطے جو کہ نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ سو سمجھنا چاہیے کہ نماز ایک سوال ہے جو کہ انسان جدائی کے وقت درد اور حرقت کے ساتھ اپنے خدا کے حضور کرتا ہے کہ اس کو لِقاء اور وصال ہو کیونکہ جب تک خدا کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہو سکتا اور جب تک وہ خود وصال عطا نہ کرے کوئی وصال کو حاصل نہیں کر سکتا۔ طرح طرح کے طَوق اور قسماقسم کے زنجیر انسان کے گردن میں پڑے ہوتے ہیں اور وہ بہتیرا چاہتا ہے کہ دور ہو جاویں پر وہ دور نہیں ہوتے۔ باوجود اس خواہش کے کہ وہ پاک ہو جاوے، نفس لوامہ کی لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں۔ گناہوں سے پاک کرنا خدا کاکام ہے اس کے سوا ئے کوئی طاقت نہیں جو زور کے ساتھ تمہیں پاک کر دے۔ پاک جذبات کے پیدا کرنے کے واسطے خداتعالیٰ نے نماز رکھی ہے۔ نماز کیا ہے؟ ایک دعا جو درد، سوزش اور رقت کے ساتھ خداتعالیٰ سے طلب کی جاتی ہے تاکہ یہ بدخیالات اور برے ارادے دفع ہو جاویں اور پاک محبت اور پاک تعلق حاصل ہو جائے اور خداتعالیٰ کے احکام کے ماتحت چلنا نصیب ہو۔ صلوٰۃ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دعا صرف زبان سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ سوزش اور جلن اور رِقّت کا ہونا بھی ضروری ہے۔
(بدر جلد6 نمبر1-2 موٴرخہ 10؍جنوری 1907ء صفحہ12)