• 30 اپریل, 2024

سو سال قبل کا الفضل

15؍فروری 1923ء پنج شنبہ (جمعرات)
مطابق25؍ جمادی الثانی1341 ہجری

صفحہ اول پر مدینۃ المسیح کی خبروں میں یہ اعلان شائع ہوا کہ ’’حضور سیدنا خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز حسبِ اطلاع سابق 12؍فروری بعد عصر پھیروچیچی، پٹھان کوٹ کی جانب مع چند احباب تشریف لے گئے۔حضورکے بعد مولانا شیر علی صاحب جماعت قادیان کے امیر نیز مسجد مبارک میں امام الصلوٰۃ ہیں۔‘‘

اسی طرح مجلسِ مشاورت کے انعقاد کی تواریخ (30؍ مارچ تا 2؍اپریل 1923ء) کا اعلان شائع ہوا۔

صفحہ2 پر ’’نامہ صادق‘‘ کے عنوان سے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی تحریر فرمودہ رپورٹ بابت مساعی جماعت احمدیہ امریکہ شائع ہوئی ہے۔آپؓ نے اس میں لکھتے ہیں:
’’میں نے پچھلی کسی ڈاک میں اطلاع دی تھی کہ ایک متعصب عیسائی عورت نے جس کی لڑکی اسلام قبول کرنے کو تیار تھی۔ جب اور کچھ نہ بن سکا تو ہمارے برخلاف نالش کر دی کہ ہمارا مشن لوگوں کی لڑکیوں کو اغوا کرتا ہے اور تعددِ ازدواج پر عمل کرتے ہوئے اور مسلمانوں کے ساتھ نکاح کر دیتا ہے۔چونکہ سرکاری عملہ میں بھی مبعض متعصب ہوتے ہیں اس واسطے مقدمہ نے بظاہر خوفناک صورت اختیار کر لی تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے حکام پر ہماری صفائی جلد کھل گئی اور مقدمہ ابتدائی منزل میں ڈسمس ہو گیا۔ فالحمدللّٰہ۔ یہ حضرت خلیفة المسیح ایدہ اللہ و احبابِ کرام کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔

صفحہ3پر اداریہ درج ذیل دو عناوین کا احاطہ کیے ہوئے ہے:

1۔بدھ مذہب کا موعود
2۔گائے کی حفاظت کے لیے ستیاگرہ کی ضرورت

صفحہ4 پر حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کا ایک مضمون زیرِ عنوان ’’دُرِّ نجف کی دُر افشانی‘‘ شائع ہوا ہے۔ آپ نے اس مضمون کے ابتدائیہ میں تحریر کیا کہ ‘‘ہم نے ایک مضمون رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ مطبوعہ اکتوبر1922ء میں زیرِ عنوان ’’حدیث القرطاس سے شیعوں کا استدلالِ بے بنیاد‘‘ شائع کیا تھا۔اس کے جواب میں ایڈیٹر دُرِّ نجف نے 8؍نومبر 1922ء کے پرچہ میں غلاۃِ روافض کی سنت کو قائم رکھتے ہوئے خامہ فرسائی کی ہے۔‘‘

چنانچہ مولانا صاحب موصوف نے اس کے جواب میں مذکورہ مضمون تحریر فرمایا۔

صفحہ 5 پر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ کا تحریر فرمودہ خلاصہ خطاب از حضرت مصلح موعودؓ شائع ہوا ہے۔ حضورؓ نے یہ خطاب انجمن الارشاد کے ایک جلسہ میں ارشاد فرمایا۔ آپؓ نے اس خطاب میں شرائط صلح حدیبیہ کی حکمت بیان فرمائی۔

صفحہ6 و 7 پر حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحب ناظر بیت المال کی جانب سے ایک پروگرام شائع ہوا ہے۔ اس پروگرام میں آپ نے 7 امور کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ نے اس پروگرام کی ابتدا میں تحریر فرمایا کہ ’’اس سال حسبِ ذیل سات امور کی تکمیل پر خاص زور دینے کا ارادہ ہے اور احباب سے امید ہے کہ وہ حتی الوسع ان کو مدِ نظر رکھیں گے۔‘‘

وہ سات امور ذیل میں درج ہیں

1۔زکوٰۃ کی باشرح ادائیگی اور زکوٰۃ و صدقات کا روپیہ مرکز آنا چاہیے 2۔چندہ عام کی ادائیگی 3۔گزشتہ بقایا جات کی ادائیگی 4۔آئندہ کسی قسم کے چندہ کا بقایا نہ رہنے دیا جائے 5۔انفرادی چندہ مرکز نہ بھجوایا جائے بلکہ کسی نہ کسی جماعت کے تحت بھجوایا جاناچاہیے 6۔خاص وقت اور مقامی چندوں کے لیے اجازت لینی چاہیے 7۔قریب قریب کی جماعتیں مل کر کام کریں۔

صفحہ8 اور 9 پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری (طالب علم مدرسہ احمدیہ قادیان) کا ایک مضمون زیرِ عنوان ’’حضرت مسیحِ موعودؑ کے بعد نبی‘‘ شائع ہوا ہے۔ آپ اس مضمون میں ابتداء میں رقم فرماتے ہیں کہ:
’’اہلِ حدیث 9؍فروری 1923ء میں ایک صاحب بنام ہدایت اللہ سوہدروی کا مضمون بعنوان ’’دو نئے نبی‘‘ شائع ہوا ہے۔ جس کا خلاصہ انہیں کے الفاظ میں یوں ہے ’’اب میاں محمود احمد صاحب (ایدہ اللہ بنصرہ العزیز)اور جماعت قادیان سے صرف ایک سوال ہے کہ جب نبوت کا دروازہ کھل گیا اور اس دروازے سے آنے والے ایک شخص میرزا صاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کو آپ نے پیغمبر بر حق تسلیم کر لیا تو یہ جو دو حضرات (نبی بخش سیالکوٹی اور عبداللطیف گنا چوری) اسی دروازہ سے نکل کر مدعیانِ نبوت ہوئے ہیں۔ان کو مرسل ربانی تسلیم کرنے میں آپ کو کیا عذر ہے۔‘‘

چنانچہ مولانا صاحب موصوف نے جماعتِ احمدیہ پر کیے جانے والے اس اعتراض کا پُر مغز و مدلل جواب تحریر فرمایا ہے۔

صفحہ11 تا 14 پر حضرت مصلح موعودؓ کا ایک پیغام زیرِ عنوان ’’تحریک برائے چندہ مسجد برلن‘‘ شائع ہوا ہے۔ حضورؓ کےاس نہایت مبارک پیغام میں کا کچھ حصہ بغرضِ افادۂ قارئین ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا
’’تمام بھائیوں اور بہنوں کو معلوم ہوگا کہ ہمارے عزیز بھائی ماسٹر مبارک علی صاحب بی اے۔ بی ٹی جو ساڑ ھے چار سو روپیہ ماہوار کی معقول ملازمت چھوڑ کر تبلیغِ اسلام کے لیے لندن گئے ہوئے تھے، وہ آج کل جرمنی کے پایۂ تخت برلن میں ہیں۔ ان کے جرمنی جانے کی یہ وجہ ہوئی کہ مجھے مدت سے یہ خیال تھا کہ اس جنگ کے بعد جو قو میں مغلوب ہوں گی وہ ایسی حالت کو پہنچ جائیں گی کہ ان کو آرام و راحت کا ذریعہ سوائے اللہ تعالیٰ کی مدد کے اور کچھ نظر نہ آئے گا اور ان میں تبلیغ کرنے کے لیے یہ بہترین وقت ہو گا۔ چنانچہ ایسا ہی ثابت ہوا۔ اس کے بعد جنگ کے اثرات کے ماتحت روس میں ایسے تغیرات پیدا ہوگئےکہ اس کا تعلق بقیہ دنیا سے کٹ گیا اور جرمنی کے ساتھ اس کے تعلقات مضبوط ہو گئے۔ اس سے میں نے خیال کیاکہ علاوہ اس کے کہ جرمنی اب اسلام کی تعلیم کو سننے کے لیے باقی یورپین قوموں سے زیادہ تیار ہے۔ اس ملک میں تبلیغ کامرکز بنانے سے روس میں تبلیغ کا راستہ بھی کھل جائےگا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کی زبر دست پیشگوئیاں ہیں۔ پس ان خیالات سے متاثر ہو کر اور ضرورت ِ وقت کو محسوس کر کے میں نے ماسٹر مبارک علی صاحب کو جرمنی میں بھیجا تاکہ وہاں کے حالات پر پورے طور پر غور کر کے رپورٹ کریں۔ ان کی رپورٹیں نہایت امید افزاء ثابت ہوئیں۔ بلکہ ان کو تو اس ملک میں کامیابی کا اس قدر یقین ہو گیا کہ وہ متواتر مجھے لکھ رہے ہیں کہ وہاں فوراً ایک مسجد اور مکان بنایا جائے اور یہ کہ جس طرح ہو سکے چھ ماہ کے لیےمیں خود وہاں چلا جاؤں جس کے نتیجہ میں انہیں اس قدر جلد کامیابی کی امید ہے کہ قلیل عرصہ میں دنیا میں اہم تغیرات ہوسکتے ہیں۔ چونکہ میں یورپین زبانوں سے ناواقف ہوں اور چونکہ نو ماہ یا ایک سال تک مرکزِ سلسلہ سے باہر رہنا درست نہیں معلوم ہوتا بلکہ سرِدست ایسا نہ کرنے کے متعلق بعض اشارات بھی ہوئے ہیں۔ ان کی اس تجویز کو تو میں عمل میں نہیں لا سکا۔ لیکن ان کی اس درخواست کو کہ اُس جگہ فوراً ایک مسجد اور سلسلہ کا ایک مکان بن جائے تو بہت کامیابی کی امید ہے، نظر انداز کردینا میرے نزدیک سلسلہ کے مفاد کو نقصان پہنچانے والا تھا۔ اس لیے میں نے اس کے متعلق ان کو تاکید کردی ہے کہ وه فوراً زمین خرید لیں۔ جو اندازاً پانچ ہزار روپیہ کی خرید لی گئی ہے۔ یہ زمین مرکز شہرمیں ہے اور ایک ایکڑ کے قریب ہے۔ اس قدر زمین اتنے بڑے شہر کے آباد حصہ میں صرف جرمنی کی موجودہ غربت کی وجہ سے مل سکی ہے ور نہ یہ زمین دوسرے اوقات میں ایک لاکھ روپیہ کو بھی نہ مل سکتی۔اب اس زمین پر مسجد اور مبلغوں کے مکانات کی تعمیر کا سوال باقی ہے۔ اور اس کے لیے پینتالیس ہزار روپیہ کا کم سے کم اندازہ یا جاتا ہے۔۔۔

میرے نزدیک اگر اس کام کو صرف عورتیں ہی مل کر پورا کریں تو سلسلہ بہترین خدمات میں سے ایک خدمت شمار ہوگی اور آئندہ آنے والی نسلیں ہماری عورتوں کی سعی اور ان کی ہمت کو دیکھ کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں گی اور ان کے دلوں سے بے اختیار ان کے لیے دُعا نکلے گی جو ہمیشہ کے لیےمرنے کےبعد کی زندگی میں ان کے درجوں کی ترقی کا موجب ہوتی رہےگی۔

میرا دل اس جذبۂ محبت اور حیرت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے جو بعد میں آنے والے مالدار اورصاحبِ ثروت لوگوں کے دلوں میں اس مسجد کو دیکھ کر پیدا ہو گا جس کے دروازہ پر لکھا ہو گا کہ یہ مسجد جرمنی کے نو مسلم بھائیوں کے استعمال کے لیےاحمد یہ جماعت کی عورتوں نے بنائی ہے۔ وہ ایک طرف تو جماعت کی موجودہ غربت اور مسکینی کا حال پڑ ھیں گے، دوسری طرف عورتوں کی اس شاندار خدمت کو دیکھیں گے تو ان کے نفس ان کے دل کے کانوں میں اس طرح سرگوشیاں کریں گےکہ یہ حال جب تمہاری غریب بہنوں کی قربانیوں کا ہے تو اے مالدار لوگو! تم کو خدا اور اس کے سلسلہ کی خدمت کے لیے کس قسم کی قربانی کرنی چاہیے؟

میں اس غریب اور مسکین کے دلی جذبات کا اندازہ کرنے سے قاصر ہوں۔جوبرلن کی گلیوں میں احمدی جماعت کی شان و شوکت کے زمانہ میں اس امر پر غور کرتا ہوا گزر رہا ہو گا کہ میں اپنی اس کمزوری اور تنگ دستی کی حالت میں دین اور اس سلسلہ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں اور ان لوگوں کے مقابلہ میں جو بڑے بڑے مالدار ہیں، میری خدمات کیا حقیقت رکھتی ہیں۔جبکہ اچانک اس کے سامنےہماری عورتوں کی یہ شاندار خدمت ایک رحمت کے فرشتہ کی شکل میں آکھڑی ہو گی۔ اس کا دل دھڑکنے لگےگا اور اس کے چہرہ کا رنگ سرخ ہو جائےگا اور وہ اپنے تمام جسم میں ایک ہلکی سی کپکپاہٹ محسوس کرے گا اور وہ بے اختیار ہوکر کہہ اٹھے گا کہ نہیں نہیں خدانے میرے لیے بھی اپنی رحمت کے دروازے بندنہیں کیے ہیں۔ اس باہمت قوم کا ایک فرد ہوں جس کی عورتوں نے اس زمانہ میں جبکہ ہماری قوم دنیا میں سب سے کمزور اور سب سے غریب تھی، خدا کے نام کو بلند کرنے کے لیے ہزاروں کوسوں پر آ کر یہ مسجد تیارکروائی تھی۔ اس کی پُر نم آنکھیں اور اس کے پھڑکتے ہوئے ہونٹ اس جذبۂ امتنان وولولۂ محبت کا ایک ہلکا سانشان ہوں گے جواس ہدایت و رہنمائی کے بدلہ میں احمدی عورتوں کی اس عملی نصیحت سے اسے حاصل ہوگی۔ مگراس کے احساسات کے عمیق سمندر میں جو حرکات پیدا ہو رہی ہوں گی اس کا صحیح اندازه یا اس ہستی کو ہو گا جوسب رازوں سے واقف ہے یا اس شخص کو جس کا ول ما یوسی کی تاریک غار میں امید کے سورج کی شعاعوں کو سانپ کی طرح لہرا لہرا کرآتے ہوئے دیکھے گا اور جس کی جھکی کی ہوئی کمر اس مسجد کی برقی طاقت سے متاثر ہو کر ایک دم سیدھی ہو جائے گی۔

غرض یہ کام جس شان کا ہوگا اور جو اعلیٰ درجہ کے نتائج اس سے پیدا ہو ں گے، ان کا صحیح اندازہ بھی ہم اس وقت نہیں کر سکتے۔ کوتہ بین آنکھ میری اس تحریر کو پڑھ کر حقارت آمیز چمک دکھلائے گی۔ مگر اُسے کیا معلوم کہ وہ ولهم اعين لایبصرون بھا کی تہدید کے اثر کے نیچے اپنی حقیقی روشنی کو کھو بیٹھی ہے اور اس کا مالک کنویں کے مینڈک سے زیادہ علم نہیں رکھتا۔

میں نے قادیان کی عورتوں میں اس تحریک کو ایک جلسہ کر کے پیش کیا ہے اور انہوں نے اسے شوق و محبت سے قبولیت کے ہاتھوں میں لیا ہے۔ اس لیے میں امید کرتا ہوں کہ اگر دوسرے مقامات کی احمدی بہنیں بھی اپنی قادیانی بہنوں کا سا اخلاص اور جوش دکھائیں گی تو یہ رقم بلکہ اس سے بھی زیادہ تھوڑے ہی عرصہ میں جمع ہو جائے گی۔‘‘

اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے احمدی مستورات کی مسجد برلن کے لیے کی گئی بے مثال قربانیوں کا حسین تذکرہ فرمایا ہے۔

اس مسجد کی تعمیر بعض وجوہات کی بناء پر التوا کا شکار ہو گئی اور لجنہ کے اس چندہ سے مسجد فضل لندن کی تعمیر ہوئی۔ الحمدللّٰہ کہ حضرت مصلح موعودؓ کی برلن میں مسجد تعمیر کرنے کی یہ خواہش سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت دور میں پوری ہوئی اور 17؍اکتوبر 2008ء کو حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے برلن میں خطبہ جمعہ کے ذریعہ مسجد خدیجہ کا افتتاح فرمایا۔

اس مسجد کا ایک اجمالی تعارف قبل ازیں الفضل آن لائن میں شائع ہو چکا ہے جس سےاستفادہ کے لیے درج ذیل لنک پر وزٹ کیا جا سکتا ہے۔

https://www.alfazlonline.org/16/12/2022/74763/

نیز حضرت مصلح موعودؓ نے جرمنی کے جس اولین مجاہدِ سلسلہ کا ذکر فرمایا ہے ان کی تصویر بھی شاملِ تبصرہ ھٰذا ہے۔

مذکورہ بالا اخبار کے مفصل مطالعہ کےلیے درج ذیل link ملاحظہ فرمائیں۔

https://www.alislam.org/alfazl/rabwah/A19230215.pdf

(م م محمود)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 فروری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی