• 28 اپریل, 2024

دربار خلافت میں ایک غلام کی سرگزشت

مکرم چوہدری محمد علی مضطر

قسط 1 پڑھیں

مجلس انصار اللہ کی محفل رنگ بہار میں مکرم چوہدری محمد علی مضطر کے روح پرور واقعات کی تفصیل

لیکن اللہ تعالیٰ کا احسان ہے ہم اور ہماری نسلیں جو یہاں آباد ہیں ۔اپنے ماحول میں آباد ہیں ۔جیسے ساری دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے میں امن کے لحاظ سے نہیں کہہ رہا ۔ ویسے جو دنیاداری کی جوکیفیت ہے۔یعنی لالچ اور طمع کی جو آگ چل رہی ہے میں اس کی بات کررہا ہوں ۔
اپنے ماحول میں یہاں بیٹھے ہیں یہ اللہ کا احسان ہے ہم پر۔اس پر ہمارا فرض ہے کہ ہم سب دعاؤں کے محتاج ہیں ۔ایک دوسر ے کے لئے دعا کریں ۔ہم سب پر بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔اتنی بڑی ذمہ داری ہے،اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ جتنی خلفاء کی ذمہ داری ہوتی ہے۔اب خیال کریں کہ نہ ہمارے پاس پیسہ ہے نہ ہمارے پاس جائیداد ہے نہ ہمارے پاس جمیعت ہے نہ ہمارے پا س حکومت ہے نہ ہمارے پاس تجارت ہے کوئی ذریعہ نہیں ہے لیکن اللہ نے ساری دنیا پر ایک رعب قائم کیا ہوا ہے ۔علمی لحاظ سے بھی اور عملی لحاظ سے بھی۔
ایک واقعہ یا د آیا ۔ربوہ میں پہلا جلسہ ہوا ۔ہم نے خیمہ کے پیسے دے دیئے تھے کہ الگ خیمہ مل جائے اور میں نے اپنی بہنوں کو جو ابھی احمدی نہیں ہوئی تھیں جلسہ پر بلایا ۔ جب پہنچے تو دوسرے لوگوں نے خیموں پر قبضہ کیا ہوا تھا اور خالی نہیں کرتے تھے ۔مجھے لوگوں نے اکسایا کہ مرزا ناصر احمد خالی کروا سکتے ہیں۔معاملہ پہلے ہی تلخ ہوچکا تھا ۔میں نے میاں صاحب سے کہا کہ خیمہ خالی کرادیں ۔آپ نے فرمایا کیسے کرادوں ۔نہ میں افسر جلسہ سالانہ اور نہ میرے سپرد خیمے کئے تھے ۔اس پر میری شامت اعمال کہ میں نے کہہ دیا کہ میاں صاحب ’’فیر اینے اوکھے نہ ہووو ،اساں بیعت توھاڈے ابا جان دی کیتی اے توھاڈی نئی کیتی ‘‘حضرت صاحب فرمانے لگے میں نے کب کہا ہے کہ میری بیعت کی ہے ۔ حضرت مرزا خورشید احمد صاحب اور دیگر احباب بھی وہاں کھڑے تھے خیر میں نے بہنوں کو بلایا ،سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں ۔میاں چوہدری عبد الواحد صاحب مرحوم ہوتے تھے۔وقف نو میں ہم اکٹھے رہے تھے ۔تو انہوں نے کیا کیا کہ ایک خیمہ میں مرد ہوگئے اور ایک خیمہ مستورات کو دے دیا۔بہنوں کو میں نے وہاں بٹھا دیا۔بات یہاں ختم نہیں ہوئی ۔معلوم ہوتا ہے حضرت صاحب (حضرت مصلح موعودؓ)تک یہ بات کسی ذریعہ سے پہنچ گئی کہ محمد علی کی بہنیں بھی آئی ہوئی ہیں ۔اس پر رات کے وقت (میں سمجھتا ہوں ڈیڑھ بجا ہوگا)سید میر داؤد احمد صاحب لالٹین لی ہوئی ہے اور مجھے ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ۔حضور کو بھائی کہتے تھے سارے۔بھائی نے بھیجا ہے اور فرمایا کہ ایک خیمہ خالی کروادیا ہے اپنی بہنوں کو لے کر وہاں آجائیں ۔
اور پھر جب بیعت ہوئی (خلیفہ ثالثؒ کی )تو بہت سے لوگوں نے کہا اب بتاؤ ۔
تو حضورکی کیا شفقت بیان کروں۔بعض ایسے گوشے ہوتے ہیں جو لوگوں کو نظر نہیں آتے ۔خواجہ کمال الدین صاحب جب فوت ہوئے تو حضرت صاحب نے ایک خطبہ دیا۔سنا نہیں میں نے پڑھا ہے پہلے زمانہ کا خطبہ تھا یا میرے زمانہ کا ۔اللہ بہتر جانتا ہے میں نے تجسس نہیں کیا ہے اس میں۔حضور نے فرمایا ہم ان کو معاف کرتے ہیں ۔
اب دو واقعات ہیںایک خلیفہ ثانی ؓاور ایک خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ۔مجھے یاد ہے ۔میں نے خود دیکھا کہ رتن باغ میں میں گیا اور مولوی محمد علی صاحب وہاں حضرت صاحب سے ملنے آئے۔مولوی صاحب کی ڈلہوزی میں کوٹھی تھی۔ فسادات کے دنوں میں وہاں جا کر ٹھہرے ہوئے تھے۔ حضرت مصلح موعودؓ کی یہ شان ہے کہ جس شخص نے سب سے زیادہ دکھ حضرت صاحبؓ کو پہنچایا اس کے بعد حضورؓ نے معاف فرمادیا۔مولوی محمد علی صاحب تھے ۔ان کو ڈلہوذی سے آدمی بھیج کر منگوالیا۔اور مولوی صاحب حضور کا شکریہ ادا کرنے آئے تھے …..اس پر بس ایک واقعہ کمیونیکیٹ کرنا چاہتا ہوں،یاد آگیا ہے ۔
واقعہ یوں ہوا میں لندن جلسہ پر گیا ۔جب جلسہ ختم ہوا تو جلسہ گاہ سے باہر آرہے تھے کہ مکرم آفتاب احمد صاحب امیر جماعت نے ایک دوست سے تعارف کرایا کہ چوہدری صاحب یہ لاہوری جماعت کے ہیں ۔بزرگ تھے تو میرے منہ سے ایک بات نکل گئی کہ شکر ہے پیغامی بھائی بھی جلسہ پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔اب مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہ پیغامی کہلانا پسند نہیں کرتے ۔حاشا وکلا میں نے اس رنگ میں نہیں کہا تھا۔تو وہ بگڑ گئے اور کہنے لگے لو اب ہمیں یہ پیغامی کہتے ہیں اور کافی تلخی سے بولنا شروع کردیا ۔اس پر وہاں لوگ (چونکہ جلسہ کے بعد باہر آرہے تھے )اکٹھے ہوگئے ۔سات سو کا مجمع ہوگیا ۔اس سے زیادہ کا نہیں ہوگا۔میں نے کہا جناب میری غلطی ہے مجھے اس کا احساس نہیں تھا کہ آپ برا مناتے ہیں لیکن آپ کو یہ بات سن کر جانا پڑے گا۔یہ بات اب آپ کو سننی پڑے گی ۔میں نے کہا فسادات ہوئے 1974ءکے ۔ ہوئے تھے نا جس میں جماعت کے ساتھ خون اور آگ کی ہولی کھیلی گئی تو یہ اس زمانہ کی بات ہے ۔میں نے کہا کہ میں اورحضرت خلیفہ ثالثؒ کالج کی سینیٹ کے ممبر تھے ۔جب خلیفہ ہوگئے تو سینیٹ میں جانا بند کردیا تھا ۔میں جاتا تھا ۔یہ 1974ءکے فسادات کی بات ہے شروعات ہوئی تھیں ۔ میں نے عرض کیا حضور میٹنگ میں شمولیت کی درخواست آئی ہے لیکن میں جاؤں گا نہیں۔حضور نے فرمایا نہیں ،تم جاؤ گے ۔تم نے جانا ہے ۔گورنمنٹ نے ہماری پرفارمنس کی وجہ سے سٹیٹس کی وجہ سے ہمیں انڈیپنڈنٹ سٹیٹس مل گیا ہواتھا۔گورنمنٹ کی طرف سے پورے لاہور کو اور ہمارے کالج کو ۔گورنمنٹ نے دیا تھا ۔لیکن یونیورسٹی نے ابھی سرٹیفائڈ نہیں کیا تھا اور یہ معاملہ یونیورسٹی میں پیش کرنا تھا ۔ حضرت صاحب نے فرمایا تمہارا معاملہ پیش ہونا ہے تم نے جانا ہے وہاں ۔چنانچہ میں چلا گیا وہاں ۔تو پہلے سے یہ پروگرام بنا ہو اتھا 20-15آدمی ملے ہوئے تھے کہ جب یہ معاملہ پیش ہو تو بحث ہوتی ۔یہ معاملہ ختم نہ ہو۔۔۔۔لمبی لمبی تقریریں کریں گے اور وقت ختم ہوجائے گا اور یہ میٹنگ ایک دن کی ہوتی تھی اور پھر اگلے سال یہ اجلاس جاپڑے گا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یونیورسٹی ہمیں یہ سٹیٹس دے۔پھر ہمارے د س ایم ایس سی میں لڑکے جاتے تھے اوردس کی فرسٹ کلاس آجاتی تھی ۔تو کہتے تھے مرزائی خود ہی لے لیتے ہیں ۔
چنانچہ ہمارا کیس ٹاپ پر تھا ۔تو وہاں ڈاکٹر رفیع احمد چوہدری صاحب ہوتے تھے ۔وہ فزکس کے تھے اور جو گورنمنٹ کالج کی ہائی ٹینشن لیبارٹری تھی اس کے انچارج بھی تھے ۔حضرت صاحب کے بڑے معتقد تھے بڑا ادب بھی کرتے تھے ۔طبیعت کے بڑے سادہ تھے ۔جب ہم نے ایم ایس سی کی ایپلی کیشن (درخواست)کی وہ ممبر تھے ۔۔۔انہوں نے کہا یہاں ایم ایس سی نہیں ہونی چاہئے کیونکہ یہاں کلر بہت ہے ۔اور عمارت کی کوئی عمر نہیں اور وہ کہا کرتے تھے کہ تمہارے حق میں یہ بات کہی تھی ۔اس سے آپ کو بڑا فائدہ ہوا تو میں نے ان کو پاس بٹھایا ہوا تھا۔اگر یہ نہ بولے تو میں ان کو کہوں گا اٹھو بولو اور اس طرح 15-20آدمیوں کو بریف کیا ہوا تھا ۔بولتے چلے جانا رکنا نہیں ۔اتنے میں تلاوت ہوئی ۔ڈاکٹر اجمل صاحب وائس چانسلر تھے میرے کلاس فیلو بھی تھے ۔دوست بھی تھے۔وہ ایک احمدی کے بیٹے تھے ۔خود تو احمدی نہیں تھے ۔والدہ کی سیپریشن ہوگئی تھی ۔والدہ کے پاس ہی رہتے تھے ۔شریف آدمی تھے ۔قابل آدمی تھے ۔بعد میں سینٹر میں ایجوکیشنل سیکرٹری بھی ہوگئے تھے ۔پھر نیشنل پروفیسر ہوگئے تھے ۔ حضرت صاحب کا بہت ادب کرتے تھے ۔کیس ابھی پیش ہوا ایجنڈا ہوتا تھا اتنا موٹا (ہاتھ کے اشارے سے )چھپا ہو ا۔تو پیش اس طرح ہوتا ہے پیج فلاں نمبر فلاں….No taken as passed.Objection.Any objection اس طرح ہوتا تھا جلدی جلدی پیش ہوتا تھا ۔ واحد حسین ہمارے رجسٹرار تھے میں ان کے ساتھ معذرت کے ساتھ پیش کرتا ہوں اگر وہ زندہ ہیں کہ حضرت صاحب نے ان کی پرورش کی تھی ۔وہ پی اے تھے جب ان کو کالج میں لیکچرار لگادیا تھا ۔لیکن انہوں نے ہماری بڑی مخالفتیں کی تھیں ۔تو ابھی تلاوت ختم ہوئی ہے تو یہ کیس پیش ہوگیا ۔اب پیش کیا ہو ا۔ایجنڈا ایک اور تھا وہ یہ تھا Sociology of religion ایک Subject بنایا تھا ۔ Sociology of Religion مذہب کی عمرانیات ۔اس پر بہت سی کتابیں ریکمنڈ کی ہوئی تھیں ۔یعنی ریکمنڈ کونسل پہلے ریفر کرتی ہے پھر سینٹ میں آتا ہے ۔تو 15-20نام تھے ۔تو یہ چوہدری صاحب کھڑے ہوگئے ۔مسٹر وائس چانسلر سر I move new Amendment……..انہوں نے میرے حق میں اپنی طرف سے بات کی ہوگی ۔That The Book Religion of The Islam by Molvi Muhammad Ali should be included in the list شور مچ گیا ۔آدھے سے زیادہ ہاؤس تو میرا مخالف تھا۔ایک کھڑ اہوا۔which Molana M.ali تو انہوں نے کہا Not Molana Muhammad Ali Johar but Molana Muhamad Ali of Jmat e Ahmadiya Lahore اس پر شور مچ گیا ڈیسک بجنے شروع ہوگئے کہ نہیں ہوسکتا ،نہیں ہوسکتا ۔اس پر مجھے خیال آیا ۔میں کھڑا ہوا تو یہ صاحب بھی کھڑے ہوگئے۔کہا سر Amendment……اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جب میں حضرت صاحب کے پا س واپس آیا ۔اور حضور سے عرض کیا اور جب میں اس بات پر پہنچا تو حضور نے غصہ میں ٹہلنا شروع کردیا ۔جب حضور کی طبیعت پر بوجھ ہوتا تھا ۔چہرہ سرخ ہوجاتا تھا ۔فرمایا تم لوگ بڑے بے غیرت ہو ۔تم کیوں نہیں بولے ؟میں نے کہا حضور انہوں نے مجھے ڈراپ کردیا ہوا تھا لیکن بات ختم نہیں ہوئی ابھی بات رہتی ہے ۔چنانچہ اس کے بعد وائس چانسلر تھے شیخ امتیاز علی ۔وہ لاء کالج کے پرنسپل بھی تھے حضرت صاحب کے بڑے دوست تھے ۔ حضور میں ان کے پاس گیا ۔یہ میں رپورٹ حضرت صاحب کو دے رہاہوں میں نے کہا شیخ صاحب آپ اتنی تقریریں کیاکرتے ہیں ۔ Freedom of Independent Thought آج کیا ہوا ہے۔کہنے لگے چوہدری صاحب ہم بڑے بزدل ہیں۔میں نے کہا آج ا ٓپ نہیں بولے تو کل پھر میٹنگ رکھی ہے۔تو کل آپ کو بولنا ہوگا ۔وہ کہنے لگے میں آپ سے وعدہ نہیں کرتا اور مجھے کہا کہ آپ بول ہی نہیں سکتے میں نے کہا کیوں ؟۔یہ ایک دن کی میٹنگ ہوتی ہے اب انہوں نے گورنمنٹ سے سپیشل اجازت لے کر ایک دن کی میٹنگ اور رکھی ہے اور یونیورسٹی پر کئی لاکھ روپے کا بوجھ پڑ گیا ہے ۔باہر کے ملکوں سے بھی آتے تھے ۔پہلے ایجنڈے پر میٹنگ تھی اب ایجنڈا ختم ہوگیا ہے۔تو آپ نہیں بول سکتے ۔ میں نے کہا میں نے نہیں بولنا آپ نے بولنا ہے ۔میں وعدہ نہیں کرتا موقع دیکھ کر ۔میں نے کہا اچھا پھر نہ بولنا ۔یہ باتیں حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کررہا ہوں میں غصہ کھاکر اٹھ کھڑا ہوا۔جب دروازہ پر پہنچا تو ان کی آواز آئی چوہدری صاحب آپ رک جائیں ۔ایک بات میں آپ کو بتا دیتا ہوں ایک اور مضمون ہے جو اسلامیات کا ہے ۔Islamic Studies کہ ایم اے میں یہی کتاب Recommended ہے۔میں نے کہا آپ نہ بولیں میں بول لوں گا۔آپ بول نہیں سکیں گے۔اگلے سال آپ ایجنڈے میں رکھوائیں پھر بول سکیں گے ۔میں نے کہا دیکھا جائے گا یہ پیارے دوست ڈاکٹر اجمل صاحب۔میں ان کا احترام بھی کرتا ہوں ۔دوست بھی تھے بڑے ۔حضرت صاحب کا بڑا ادب کرتے تھے (یہ باتیں حضرت صاحب سن رہے ہیں اور یہ سب باتیں میں لندن میں سنا رہاہوں ۔ان کو جو پیغامی دوست تھے)تو اگلے دن میٹنگ شروع ہوئی تلاوت کرنے والا نہ آیا تو مجھے اقبال سمیع صاحب تھے جو رجسٹرار تھے وہ کہنے لگے کہ چوہدری صاحب Do you recite the Holy Quran میں نے کہا With Pleasure لیکن آپ دوستوں سے پوچھ لیں کہ ۔۔۔۔
I am Ch.Muhammad Ali from Rabwah .اتنے میں تلاوت کرنے والا آگیا ۔تلاوت ہوئی میں کھڑا ہوگیا اس پر شور مچ گیا ۔میں نے وائس چانسلر سے کہا Sir .I want your Rulingآپ رولنگ دیں ۔میں ایک بات کرنا چاہتا ہوں ۔کل
This university was Insulted and I want to speak on this ………..
اجمل کی یہ خوبی ہے (اللہ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے)قطعاً کل اجازت اس کی نہیں دیتا تھا ۔اس نے کہا۔ All right اب جب میں نے شروع کیا کہ کل یہاں جب واقعہ ہوا اور ایسا ہوا تو شور مچ گیا ۔ڈسک بجنے لگے ۔نہیں ہوسکتا نہیں ہوسکتا وقت ضائع ہورہا ہے۔یہ ہورہاہے وہ ہورہا ہے ۔
میں نے کہا میں نہیں بیٹھوں گا ۔جب تک مجھے وائس چانسلر صاحب کی پروٹیکشن حاصل ہے اور رولنگ جاری ہے ………میں نے کہا یہ ہے Sociology of Religion مولوی محمد علی صاحب کا بھی ایک ریلیجن تھا ۔ہوسکتا ہے وہ اسلام نہ ہو۔سمجھ لیں وہ اسلام نہیں تھا ۔وہ ریلیجنز تو تھا ۔اس کا بھی حق تھا ۔دوسرا دیکھیں کھولیں ۔ اسلامک سٹیڈیز کا نصاب نکالیں ۔ایم اے میں یہ کتاب Recommended ہے۔ اب بات لمبی ہوگئی تھی تو وائس چانسلر نے کہا چوہدری صاحب What you Want میں نے کہا I am not a Book Seller لیکن میں پرنسپل ہوں ۔اس کو واپس بھیجیں اکیڈمک کونسل کے پاس ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بات ختم ہوگئ ۔حضرت صاحب خوش ہوگئے۔

انصار اللہ کالم

(قسط 2 آخر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 19 دسمبر 2019

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 20دسمبر2019