• 26 اپریل, 2024

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات (قسط 18)

دلچسپ و مفید واقعات و حکایات
بیان فرمودہ
حضرت مصلح موعودؓ 
قسط 18

سب سے بڑا عہدہ دین کی خدمت کا ہے

میرے پاس ایک نوجوان آیا اور اُس نے کہا کہ میں اپنی زندگی وقف کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اُس سے دریافت کیا کہ تمہیں زندگی وقف کرنے کا خیال کس طرح پیدا ہوا اور یہ بھی دریافت کیا کہ تم کس خاندان سے تعلق رکھتے ہو؟ اُس نے اپنے نانا کا نام لیا اور کہا کیا آپ انہیں جانتے ہیں؟میں نے کہا ہاں۔ اُس نے کہا میں ان کا نواسہ ہوں۔ مَیں نے کہا ان کی تو ایک لڑکی قادیان آیا کرتی تھی۔ اس پر اُس نے کہا کہ وہ میری والدہ تھیں۔ میرے نانا کو تو احمدیت قبول کرنے کی توفیق نہ ملی مگر میری والدہ احمدی ہو گئی تھیں اور ان میں دین کی خدمت کا جذبہ اس قدر پایا جاتا تھا کہ جونہی میں نے ہوش سنبھالی، اُنہوں نے میرے کان میں یہ بات ڈالنی شروع کی کہ میں نے تمہیں دین کی خدمت کے لئے وقف کرنا ہے۔

میں نے بڑے ہو کر تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مجھے ایک اچھی ملازمت مل گئی لیکن جب کبھی مجھے اپنی والدہ کا خیال آتا اُن کی وہ بات یاد آجاتی کہ میں نے تمہیں دین کی خدمت کے لئے وقف کرنا ہے ۔چنانچہ اب میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ میں اپنی والدہ کی خواہش کو پورا کروں گا۔ میں نے اپنے باپ سے بھی اِس بات کا ذکر کیا ہے۔ اُنہوں نے بھی کہا ہے کہ تم بے شک زندگی وقف کرو، یہ اچھی بات ہے۔

اب آپ لوگ دیکھیں کہ ماں کی بچپن سے کان میں ڈالی ہوئی بات اس نوجوان کو یاد رہ گئی۔ اگر دوسرے دوست بھی اپنے بچوں کے کانوں میں پچپن سے ہی دین کی باتیں ڈالتے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی زندگیاں وقف نہ کریں۔

اِسی طرح مجھے کراچی سے ایک اور نوجوان نے لکھا کہ میں نے وقف کیا کرنا ہے پچپن سے ہی میرے کانوں میں یہ بات ڈالی جاتی رہی ہے کہ تم نے بڑا عُہدہ حاصل کرنا ہے۔ اب میں بچپن سے ہی کان میں پڑی ہوئی بات کس طرح چھوڑ دوں۔

پس یہ ضروری امر ہے کہ ماں باپ اپنی اولادوں کے کانوں میں یہ بات ڈالتے رہیں کہ سب سے بڑا عُہدہ یہی ہے کہ دین کی خدمت کی جائے۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ605-606)

سوشل تقریبات اور دعوت الیٰ اللہ

ہیمبرگ جرمنی میں مَیں نے دیکھا ہے کہ وہاں پارٹیوں میں بہت سادگی برتی جاتی ہے مثلاً چائے کے ساتھ صرف سادہ بسکٹ رکھ دیئے جاتے ہیں بلکہ ایک دعوت کے موقع پر تو بسکٹ صرف ایک تھالی میں تھے اور وہ بھی صرف میرے آگے۔ میرے کہنے پر وہ تھالی دوسرے دوستوں کے آگے رکھ دی گئی لیکن مجھے یاد ہے کہ ان میں سے کوئی بسکٹ بھی کھایا نہیں گیا۔ وہاں سوشل تقریب کے موقع پر پیسٹری وغیرہ کا کوئی رواج نہیں بلکہ وہاں ایسے مواقع پر بہت معمولی چیزیں میزوں پر چُنی جاتی ہیں جن میں اخراجات بہت تھوڑے آتے ہیں۔ اِسی طرح آپ لوگ بھی کریں کہ چند دوستوں کو چائے پر بلا لیا اور پھر اس موقع پر مبلّغ سے مختلف سوالات شروع کر دئیے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانہ میں میاں معراج الدین صاحب مرحوم کی یہ عادت تھی کہ وہ مجلس میں آکر خود ہی سوالات شروع کر دیتے اور کہتے حضور لوگ ایک سوال یہ کرتے ہیں، اِس کا کیا جواب ہے؟ او رپھر جب آپ جواب دے دیتے تو ایک اور سوال کر دیتے۔ اسی طرح بعض اوقات دو دو چار چار گھنٹہ تک سوالات وجوابات کا سلسلہ جاری رہتا اور باہر سے آنے والے لوگ بڑے خوش واپس جاتے۔ میاں معراج الدین صاحب مرحوم کا یہ طریق تھا کہ وہ باہر سے آنے والوں سے پوچھتے رہتے تھے کہ مخالف کیا کیا اعتراض کرتے ہیں اور اگر کوئی نیا اعتراض مل جاتا تو وہ مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی خدمت میں پیش کر دیتے تاکہ دوسرے لوگ بھی آپ کے جواب سے مستفید ہوں۔

اب یہ دیکھ کر افسوس آتا ہے کہ اِس قسم کے لوگ موجود نہیں۔ لوگ مجلس میں آتے ہیں اور خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ پس تم یہ طریق اختیار کرو اور اس سے فائدہ اُٹھا کر لوگوں کو سلسلہ سے روشناس کرنے کی کوشش کرو۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ608-609)

کامیاب زراعت بھی عقلمندی سے ہوتی ہے

ایک دفعہ مجھے ڈائریکٹر زراعت ڈلہوزی میں ملے۔ ملاقات کے وقت پیداوار کا حساب ہونے لگا۔ اُنہوں نے بتایا کہ زمیندار بہت ہوشیار ہوتے ہیں مجھے دو مربعے ملے تھے اور میں سمجھتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ اڑھائی ہزار روپیہ ٹھیکہ پر چڑھ سکیں گے لیکن میرے پاس ایک زمیندار آیا اور اُس نے کہا مجھے اپنے مربعے ٹھیکہ پر دے دیں۔ میں نے وہ دو نوں مربعے اُسے ٹھیکہ پر دے دئیے اور اُس نے اس کے عوض سات ہزار روپے پیش کئے۔

میں نے سمجھا کہ میں نے اسے لُوٹ لیا ہے لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ زمیندار مجھے مقاطعہ دینے کے لئے آیا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ تمہیں کچھ زیادہ نقصان تو نہیں ہوا؟ اُس نے کہا نقصان، میں نے تو اٹھارہ ہزار روپیہ کمایا ہے۔ سات ہزار روپیہ آپ کو دے رہا ہوں اور باقی گیارہ ہزار روپیہ بنک میں جمع کرا رہا ہوں اور ابھی ایک فصل باقی ہے۔

پھر اُس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ آپ کی زمین کے پاس گورنمنٹ کے دس مربع زمین تھی۔ اُس کو پانچ روپیہ فی ایکڑ کے حساب سے بھی کوئی نہیں لیتا تھا۔ ہم دونوں بھائی ہوشیار ہیں ہم نے اندازہ لگایا کہ آپ والے دو نوں مربعے اچھے ہیں ان سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے چنانچہ ہم نے سات ہزار روپیہ آپ کو پیش کیا اور چھ سَو روپیہ پر گورنمنٹ والے دس مربعے ٹھیکہ پر لئے۔ ہم نے سمجھا کہ ان دس مربعوں کا پانی آپ والے مربعوں کو دیں گے اور ان میں گنّا بوئیں گے چنانچہ ان دس مربعوں کا پانی آپ والے دونوں مربعوں کو ملا تو گنّا کی نہایت شاندار فصل ہوئی اور اب نہ صرف آپ کو زرِٹھیکہ تمام کا تمام ادا کر دیا گیا ہے بلکہ گیارہ ہزار روپیہ کی رقم ہم نے بنک میں بھی جمع کرا دی ہے اور ابھی ایک فصل باقی ہے۔ پس ہوشیار زمیندار کافی آمد پیدا کر سکتے ہیں۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ615)

عمل کے بغیر خالی باتوں سے کچھ نہیں ہوتا

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک امیر کا واقعہ سُنایا کرتے تھے کہ اُسے ایک دفعہ یہ شکایت پیدا ہوئی کہ کھانے کے اخراجات بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ بجٹ بڑھ جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے سٹور کا دروازہ کُھلا رہتا ہے اور کھانے کی اشیاءگیدڑ اور کُتّے وغیرہ کھا جاتے ہیں آپ سٹور کو دروازہ لگوا دیں تو بجٹ کم ہو سکتا ہے چنانچہ اُس نے سٹور کو دروازہ لگوا دیا۔ گیدڑوں نے یہ بات سُنی تو اُنہوں نے رونا شروع کر دیا۔ ایک بوڑھا گیدڑ اُن کے رونے کی آواز سُن کر آیا تو اُس نے دریافت کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے تم رو کیوں رہے ہو؟ اُنہوں نے سارا واقعہ بیان کر دیا اور کہا ہم اِسی سٹور سے کھانا کھایا کرتے ہیں اب چونکہ سٹور کا دروازہ بن گیا ہے اس لئے ہمارے گزارے کی کوئی صورت نہیں رہی، اب تو ہم بھوکے مر جائیں گے۔ بوڑھے گیدڑ نے کہا تمہاری عقل ماری گئی ہے جس شخص کو بیس سال تک سٹور کو دروازہ لگوانے کا خیال نہیں آیا، اُس کے سٹور کا دروازہ بند کون کرے گا۔

پس اصل بات تو یہ ہے کہ کام کس طرح کرایا جائے ورنہ سکیم پاس کر دینے سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ625)

تجربات سے زراعت میں ترقی کی جاسکتی ہے

سندھ والوں نے مجھے بتایا کہ یہاں ہندوستانی قسم کے آم نہیں ہوتے۔ ملتان میں ایک خاص قسم کا آم ہوتا ہے۔ مرزا مظفر احمد وہاں ڈی۔ سی مقرر ہوئے تو میں نے ان سے کہا اس کا ایک پیوند حاصل کرو تاکہ اسے سندھ میں اپنی زمینوں میں بویا جائے۔ اُنہوں نے کوشش کی لیکن پیوند نہ مل سکا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر دوسرے لوگ بھی اِسی قسم کو پیدا کرنے لگ گئے تو ہمارا فخر جاتا رہے گا۔ وہاں پادریوں کا ایک ہسپتال ہے اس قبیلہ کے لوگ بِالعموم اسی ہسپتال سے علاج کراتے ہیں۔ ان کے ذریعہ بھی ہم نے پیوند حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن پیوند نہ ملا۔

بعد میں ایسا اتفاق ہوا کہ اس قبیلہ نے ملک عمر علی صاحب سے کسی معاملہ میں سفارش کرائی تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ اِس موقع سے فائدہ اُٹھا کر ان سے تین پودے لے لو۔ ایک اپنے ہاں بوؤ، ایک مجھے دے دو اور ایک میاں بشیر احمد صاحب کو دے دو۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک پیوند حاصل کر کے مجھے بھجوایا میں نے وہ اپنے مالی کو دے دیا اور اس نے اُسے دوسرے درختوں میں لگایا لیکن اُس نے پتہ نہ دیا اور ہمار اتجربہ کامیاب نہ ہوا۔ پھر میں نے انہیں ہدایت دی کہ آم خرید کرلگائیں چنانچہ بارہ آم خرید کئے گئے لیکن قاعدہ یہ ہے کہ پیوند لگانے سے بہترین آم پیدا ہوتا ہے، گٹھلی بونے سے اچھا آم پیدا نہیں ہوتا۔

لیکن ایک دفعہ ایک کتاب میرے مطالعہ میں آئی وہ امداد امام صاحب جو بہارکے رئیس تھے اور علی امام صاحب کے والد تھے، اُنہوں نے لکھی تھی۔ انہیں باغات لگانے کا بڑا شوق تھا۔ اُنہوں نے اپنے تجربات کی بناءپر اس کتاب میں لکھا تھا کہ اگر کسی گٹھلی کو بویا جائے اور وہ اُگ آئے تو چھ ماہ کے بعد پودے کو دوسری جگہ لگائیں اور پھر ہر تین ماہ کے بعد اُس کی جگہ بدلتے جائیں۔ تو وہ درخت اصل آم کی طرح پھل دینے لگ جائے گا۔

پھر میں نے پڑھا تھا کہ شہد میں ڈبو کر گٹھلی کو لگایا جائے تو آم میٹھا ہوتا ہے۔ میں نے وہ گٹھلیاں لگوائیں اور ان کتابوں کے مطابق تجربہ کیا تو بارہ گٹھلیوں میں سے سات گٹھلیاں اُگیں۔ پھر ان میں سے دو پودے مر گئے، پانچ بچے، ان پَودوں کو میں نرسری میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تبدیل کراتا رہا۔ اب وہ درخت آم دینے لگ گئے ہیں اور وہ آم بالکل اصل آموں کی طرح ہیں۔

پھر اُن آموں کی بڑی شُہرت ہوئی۔ میرا ایک کارکن مچل فارم کے پاس بعض پودے لینے گیا تو اُنہوں نے کہا کہ ناصر آباد کے ’’نور الہدی‘‘ آم بہت اچھے ہوتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک درخت مجھے بھی دیں کہ میں اُسے اپنے باغ میں لگاؤں۔

اب دیکھو پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ سندھ میں ہندوستان اور ملتان کے آم پیدا نہیں ہوتے لیکن بعد میں ہم نے تجربہ کیا اور ملتان کا ’’نور الہٰدی‘‘ اور ہندوستان کی بعض اقسام پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

پس تجربہ سے بعض نئی نئی چیزیں بھی پیدا کی جا سکتی ہیں۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ629-630)

وقف کے لئے اطمنان قلب کافی ہے

مجھے کئی ایک بچوں کے خطوط آتے ہیں کہ وہ دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے والدین منع کرتے ہیں، کیا ہم والدین کی نافرمانی کرکے وقف کر سکتے ہیں؟ میں انہیں یہی لکھتا ہوں کہ کیا فوج میں بھرتی کے لئے ماں باپ سے اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بے شک باپ منع کرتا ہے تو کرے تم وقف کر کے سلسلہ کی خدمت کے لئے حاضر ہو جاؤ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو دیکھ لو۔ آپ کے والد نے آپ کو سیالکوٹ میں ملازم کرا دیا لیکن آپ جلدہی ملازمت چھوڑ کر آگئے اور ہم آپ کے ملازمت چھوڑ کر آجانے کو نیکی سمجھتے ہیں اور آپ کے اِس فعل کو قابلِ فخر سمجھتے ہیں۔

پھر ماں باپ کی ناپسندیدگی کے باوجود وقف کرنے والے لڑکوں کو قابلِ مذمت کیوں قرار دیں۔

چنانچہ میں ایسے لڑکوں کو یہی جواب دیتا ہوں کہ اگر تمہیں اطمینان قلب حاصل ہے اور تم خداتعالیٰ کا کام کرنا چاہتے ہو تو والدین کی پرواہ نہ کرو اور دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں پیش کر دو۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ636-637)

سجدوں کی برکت

ناصر آباد میں میری زمینوں پر ایک دوست منشی قدرت اللہ صاحب سنوری مینیجر تھے۔ ایک دفعہ ہم زمین دیکھنے گئے۔ چونکہ سندھ میں صدر انجمن احمدیہ کی زمین تھی اس لئے میرے ساتھ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی تھے۔ وہاں اُن دنوں گھوڑے کم ملتے تھے۔اُنہوں نے میرے لئے تو گھوڑا کسی سے مانگ لیا تھا اور دوسرے ساتھی میرے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔

منشی قدرت اللہ صاحب نے باتوں باتوں میں بتایا کہ اُنہیں اِس قدر آمد کی اُمید ہے۔ اِس پر چوہدری صاحب اور مرزا بشیر احمد صاحب نے اِس خیال سے کہ منشی قدرت اللہ صاحب کو ان کی باتوں کا علم ہو کر تکلیف نہ ہو آپس میں انگریزی میں باتیں کرنی شروع کر دیں اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ شخص گپ ہانک رہا ہے، اِتنی فصل کبھی نہیں ہو سکتی۔ ان کا خیال تھا کہ منشی قدرت اللہ صاحب سنوری انگریزی نہیں جانتے مگر دراصل وہ اتنی انگریزی جانتے تھے کہ ان کی باتوں کو خوب سمجھ سکیں مگر وہ خاموشی سے ان کی باتیں سُنتے رہے۔

جب اُنہوں نے باتیں ختم کر لیں تو منشی صاحب کہنے لگے آپ لوگ خواہ کچھ خیال کریں، دیکھ لینا میری فصل اِس سے بھی زیادہ نکلے گی جو مَیں نے بتائی ہے۔ آپ کو کیا علم ہے؟ میں نے ہر کھیت کے کونوں پر سجدے کئے ہوئے ہیں اور یہ فصل میری محنت کے نتیجہ میں نہیں بلکہ میرے سجدوں کی وجہ سے ہو گی۔ میں نے ہر کونہ پر دو دو رکعت نماز پڑھی ہے اور چار چار سجدے کئے ہیں۔

اِس پر ان دونوں کا رنگ فق ہو گیا کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا انہیں پتہ نہیں لگ سکتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ صدر انجمن احمدیہ کو اس سال گھاٹا رہا لیکن منشی قدرت اللہ صاحب نے کئی ہزار روپیہ مجھے بھجوایا۔ میں نے سمجھا کہ یہ صدر انجمن احمدیہ کا روپیہ ہے جو غلطی سے میرے نام آگیا ہے لیکن دیکھا تو معلوم ہوا یہ میرا ہی روپیہ ہے۔ ساتھ ہی منشی قدرت اللہ صاحب نے لکھا کہ میرا اندازہ ہے کہ اِتنی ہی آمد اَور ہو جائے گی۔ میں نے جو پیداوار ابھی تک اُٹھائی ہے وہ مَیں نے ایک ہندو تاجر کے پاس بھیجی ہے۔ آٹھ ہزار روپیہ مَیں بطور پیشگی لے کر بھیج رہا ہوں اور میں ابھی اَور روپیہ ارسال کروں گا۔

حالانکہ میری زمین صدرانجمن احمدیہ کی نسبت بہت تھوڑی تھی لیکن اُس سال صدر انجمن احمدیہ کو تو گھاٹا رہا لیکن مجھے نفع آیا۔ یہ محض منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کے سجدوں کی برکت تھی۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ620-621)

عورت کی درد بھری فریاد کا اثر

جب صلیبی جنگوں کے زمانہ میں عیسائیوں نے مکہ کے قریب مسلمانوں کو شکست دے کر اپنی فوجیں فلسطین میں داخل کر دیں اور فلسطین کا وہ حصہ جو مکہ اور حیفا کے پاس ہے اُس کو فتح کر لیا اور تھوڑا سا حصہ مسلمانوں کے پاس رہ گیا تو اُس وقت ایک قافلہ بغداد سے شام اور فلسطین میں تجارت کے لئے آیا ہوا تھا۔ جب وہ قافلہ شام کی حدود میں سے گزر رہا تھا تو اُنہوں نے ایک عورت کی آواز سُنی جو چِلّا چِلّا کر کہہ رہی تھی یَا اَمیرَ المومنین! جس کے معنے یہ ہیں کہ اے امیر المومنین! میری فریاد کو پہنچیو۔

وہ کوئی عورت تھی جس کو عیسائی پکڑ کر لے جا رہے تھے۔ پاس ہی مسلمانوں کی بستیاں تھیں۔ عیسائی بعض اوقات اُن بستیوں پر ڈاکہ مارتے تھے اور مسلمانوں کو پکڑ لیتے تھے۔ چنانچہ عیسائی لوگ اُس عورت کو پکڑ کر لے جا رہے تھے۔ اُس بیچاری کو پتہ نہیں تھا کہ آجکل امیر المومنین کی کوئی طاقت نہیں ہے، بغداد کے قلعہ سے باہر اُسے کوئی پوچھتا بھی نہیں۔

مگر اس کی پُرانی شہرت ابھی باقی تھی اُس کی وجہ سے اُس نے یہ آواز دی کہ اے امیر المومنین! میری فریاد کو پہنچیو۔ قافلہ والے پاس سے گزر گئے اور کسی نے اس کی مدد نہ کی۔ وہ آپس میں یہ باتیں کرنے لگے کہ عجیب بے وقوف عورت ہے اِس کو اتنا بھی پتہ نہیں کہ اب امیرالمومنین کی کوئی طاقت نہیں۔ جب قافلہ بغداد پہنچا تو کچھ لوگ سَودا وغیرہ خریدنے کے لئے آئے۔ تو اُنہوں نے دریافت کیا کہ کوئی عجیب واقعہ آپ کے ساتھ گزرا ہو تو بتاؤ۔ اس پر قافلہ کے بعض لوگوں نے بتایا کہ ہم نے واپسی پر یہ عجیب واقعہ دیکھا کہ ایک عورت کو عیسائی پکڑے لئے جا رہے تھے اور وہ یَا لَلْاَ میرَ المومنین! کے نعرے لگا رہی تھی۔ شاید اُس کو یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ ہمارے خلیفہ کی آجکل کوئی طاقت نہیں۔ کسی درباری نے بھی یہ بات سُن لی۔ وہ دربار میں گیا تو اس نے عباسی خلیفہ سے کہا کہ اے امیر المومنین! آج ایک قافلہ شام سے واپس آیا ہے اور اُس نے یہ خبر سُنائی ہے کہ اِس اِس طرح شام کی ایک مسلمان عورت کو عیسائی پکڑ کے لئے جا رہے تھے اور اُس نے یہ نعرہ لگایا کہ اے امیرا لمومنین! میری فریاد کو پہنچئیو۔ حضور اس کو اِتنا بھی پتہ نہیں تھا کہ بغدادی حکومت اب اتنی کمزور ہو چکی ہے۔

جب خلیفہ نے یہ بات سُنی تو گو اُس کے پاس کوئی فوج نہیں تھی، سارے علاقے باغی ہو چکے تھے اور ہر صوبہ میں الگ حکومت قائم ہو چکی تھی، وہ اُسی وقت تخت سے نیچے اُتر آیا اور کہنے لگا خدا کی قسم! جب تک میں اِس مسلمان عورت کو چُھڑا کر نہیں لاؤں گا اُس وقت تک میں تخت پر نہیں بیٹھوں گا۔ یہ کہہ کر وہ اُٹھا۔ تھا تو وہ ایک دکھاوے کا حکمران لیکن یہ خبر بجلی کی طرح سارے علاقوں میں پھیل گئی اور جس جس صوبہ میں گئی وہاں سے فوراً نیم بادشاہ اپنی فوجیں لے کر اسلامی خلافت کے ماتحت چل پڑے کہ جدھر خلیفہ جائے گا اُدھر ہی ہم جائیں گے اور آناً فاناً ایک بہت بڑا لشکر بغداد کے اردگرد جمع ہو گیا۔

یہ لشکر خلیفہ کی کمان میں آگے بڑھا اور اُس نے عیسائیوں کو شکست دی اور اس طرح خلیفہ اُس عورت کو چُھڑا کر واپس لے آنے میں کامیاب ہو گیا۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ681-682)

سوکن مجھ پر آنی ہے ۔تم خواہ مخواہ چِڑتے ہو

جب میں یورپ میں گیا تو ایک جرمن عورت میرے پاس آئی۔ اُس نے باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ جنرل نجیب نے مجھے ایک دفعہ سعودی عرب کے بادشاہ کے پاس بھیجا اور اُس نے مجھ سے کہا کہ میرے بیٹے سے شادی کر لو۔ میں نے کہا شکر کرو تم بچ گئیں کیونکہ اُن کی تو بہت سی بیویاں ہوتی ہیں۔ وہ کہنے لگی ساری بیویاں نہیں ہوتیں true wife ایک ہی ہوتی ہے باقی سب داشتہ ہوتی ہیں۔ پھر کہنے لگی جب اسلام نے مسلمانوں کو ایک سے زیادہ بیویاں کرنے کی اجازت دی ہے اور میں بھی مسلمان ہو گئی ہوں تو مجھے ایک سے زیادہ بیویوں پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔

پھر وہ کہنے لگی میری کئی دفعہ پادریوں سے گفتگو ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ایک پادری نے تعددِازدواج کے خلاف تقریر کی تو میں نے کہا تم بڑے بیوقوف ہو۔ عورت تو مَیں ہوں سوکن مجھ پر آنی ہے یا تم پر آنی ہے؟ مجھے تو سوکن آنے پر کوئی اعتراض نہیں اور تم خواہ مخواہ چِڑتے ہو۔ میں تو اسلام کے اِس حکم کو غنیمت سمجھتی ہوں کیونکہ اسلام نے گو مرد کو ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دی ہے مگر ساتھ ہی کہا ہے اُنہیں ایک جیسا کھانا کھلاؤ، ایک جیسے کپڑے دو، ایک جیسا مکان دو۔ جب یہ چیز موجود ہے تو عورتوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہم کورٹ شپ کے بعد شادی کرتے ہیں مگر دو سال تک کورٹ شپ کرنے کے باوجود پھر بھی لڑائی ہو جاتی ہے۔ اگر تعددِ ازدواج کی صورت میں میرا خاوند مجھ سے لڑے گا تو اِتنا تو ہو گا کہ ایک مکان میرا ہو گا اور اس کے ساتھ ہی ایک مکان میری سوکن کا ہو گا اور اس کے ساتھ ایک مکان میری تیسری سوکن کا ہو گا۔ میں خاوند کا بازو پکڑوں گی اور اُسے دوسرے گھر میں دھکیل دوں گی کہ سارا دن میں نے تیرا منحوس منہ دیکھا ہے، اب وہ تیرا منہ دیکھے۔ اگر یہ ہوتا کہ کورٹ شپ کی وجہ سے ہماری کبھی لڑائی نہ ہوتی تو پھر تو کوئی بات بھی تھی لیکن جب ہماری بھی لڑائیاں ہوتی ہیں تو پھر اسلام کی اس اجازت سے اتنا تو فائدہ ہو سکتا ہے کہ جب خاوند کی عورت سے لڑائی ہو تو وہ اُس کا بازو پکڑ کر اُسے دوسری بیوی کے گھر میں دھکیل دے اور خود اس کا غصے والا چہرہ سارا دن نہ دیکھتی رہے۔

میں جب ولایت سے آیا تو کراچی میں میری ایک تقریر ہوئی۔ اُس میں مَیں نے یہ واقعہ سنایا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ انڈونیشیا سے ہمارے مبلّغ کا خط آیا کہ یہاں پاکستانی ایمبیسی میں جو پریس اٹاچی تھا اس نے مجھے بتایا کہ میں نے مرزا صاحب کی ایک تقریر سُنی ہے مجھے تعددِ ازدواج کا مسئلہ کبھی سمجھ نہیں آیا کرتا تھا اب یہ مسئلہ سمجھ آگیا ہے۔ میں نے سمجھا کہ یہ کوئی پرانی بات ہو گی اِس لئے مَیں نے اُسے لکھا کہ مجھے تو یاد نہیں کہ کبھی میں نے کراچی میں ایسی تقریر کی ہو۔ مگر اُس نے میری اِسی تقریر کا حوالہ دیا جس میں مَیں نے یہ واقعہ بیان کیا تھا۔

اِس پر مجھے تعجب ہوا کہ مَیں نے تو صرف ایک لطیفہ بیان کیا تھا مگر اُس افسر نے اس لطیفہ سے ہی ایک اہم مسئلہ سمجھ لیا۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ703-704)

اللہ تعالیٰ ہمیں غداروں سے محفوظ رکھے

ہندوستان میں احمد شاہ ابدالی اور سلطان ٹیپو جیسے غیور مسلمان پیدا ہوئے مگر ان غیور بادشاہوں کے ساتھ غدار بھی ہمیشہ پیدا ہوتے رہے۔

چنانچہ پہلی جنگ عظیم میں جب سمرنا میں دشمن نے فوجیں اُتاریں اور ایک اسلامی جرنیل کو اُن کا مقابلہ کرنے کےلئے کہا گیا اُن دنوں مَیں ’’ڈیلی نیوز‘‘ منگوایا کرتا تھا۔ اس کے نامہ نگار نے لکھا کہ میں نے میدان جنگ میں ایک ایسا درد ناک نظارہ دیکھا ہے جسے میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ میں نے دیکھا کہ تُرک جرنیل جو دشمن کی فوجوں سے لڑ رہا تھا میدان سے ہٹ کر ایک پتھر پر بیٹھا ہے اور رو رہا ہے۔ میں نے اس کے رونے کا سبب دریافت کیا تو اُس نے کہا ان کارتوسوں کو دیکھو، ان میں بارود کی بجائے بُورا بھرا پڑا ہے میں دشمن کو مار نہیں سکتا۔ اگر ان کارتوسوں میں بارود ہوتا تو میں آج دشمن کو شکست دے دیتا لیکن اب میں کچھ نہیں کر سکتا۔

غرض جہاں اسلام میں دلیر اور غیو رافراد گُزرے ہیں وہاں اس میں غدار بھی پیدا ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ ان کارتوسوں میں بارود کی بجائے بُورا بھرنے والا کوئی غدار ہی تھا جس نے ایسے لوگوں کو ٹھیکہ دے دیا جنہوں نے کارتوسوں میں بارود کی بجائے بُورا بھر دیا۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اس قسم کے غداروں سے محفوظ رکھے اور ایسے وفادار لوگ عطا کرے جو اسلام کی خاطر ہمیشہ سینہ سپر رہنے والے ہوں اور جن کو اپنی اور اپنے بچوں کی جانوں کی پرواہ نہ ہو۔ وہ میدان میں جائیں اور اسلام کی خاطر اپنی جانیں لڑا دیں۔

(خطابات شوریٰ جلد3 صفحہ716-717)

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

اعلان ولادت

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 فروری 2023