جماعت احمدیہ کے بعض مہربان اخبارات اور مختلف ذرائع سے احمدیوں کی ہمدردی اور خیر خواہی میں یہ مشورہ دیتے ہیں کہ تم غلط جگہ بیٹھ گئے ہو۔ واپس ہمارے دھارے میں آ جاؤ۔ یہ دعوت اُن کی خیر خواہی کی بنیاد پہ بھی سمجھ لی جائے۔ تو ہمارے لئے اس کو قبول کرنا بہت مشکل ہے۔ بلکہ ناممکن ہے۔ اُس کی وجہ کیا ہے۔ اس کے متعلق بہت سی باتیں بیان کی جا سکتی ہیں۔ بہت تفصیلی مضمون ہے چند بنیادی باتیں بیان کرتا ہوں کہ ہم ان مہربانوں کے ساتھ جاکر دھارے میں کیوں شامل نہیں ہو سکتے۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا میں اور سارے عالم اسلام میں صرف ایک جماعت ہے۔ جو خدا کے حکم کے ماتحت کھڑی کی گئی ہے۔ اس کے سوا دنیا میں اور کوئی جماعت، کوئی فرقہ، کوئی مذہب نہیں جس کو اس زمانے میں خدا کے خاص حکم کے ما تحت کھڑا کیا گیا ہو۔ ہم خدا کی قائم کردہ جماعت میں شامل ہیں اس کو ہمارے مہربان کہتے ہیں کہ چھوڑ دو اور اس دھارے میں آجاؤ۔ دھارے سے مراد ہے پانی کا تیز بہاؤ جو ہر چیز کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے، ایسے دھارے میں شامل ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ نہ ہمارے پاؤ ں کہیں ٹک رہے ہیں نہ تمہارے ٹکیں گے۔ ایسے دھارے میں ایک الٰہی جماعت کو چھوڑ کر واپس جانے میں ہمارے لئے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔
پہلی بنیاد ی خصوصیت جماعت احمدیہ کی یہ ہے کہ یہ خدا کے حکم کے ماتحت کھڑی ہوئی ہے۔ مسلمانوں میں جس قدر فرقے ہیں کس نے قائم کئے۔ جب رسول پاکﷺ نے اُ مّت واحد ہ قائم کی تھی تو وہ تو ایک اُمت تھی اور ایک ہی جماعت تھی اور کوئی اس کے فرقے اور کوئی گرو ہ اور ٹکڑے نہیں تھے۔ اگر وہ ایک ہی فرقہ ہوتا اور ایک ہی جماعت ہوتی اور امت واحدہ اپنی اصل حالت میں ہوتی تو نئی جماعت خدا کو قائم کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لیکن نئی جماعت کی ضرورت اس لئے پیدا ہوئی کہ جس اُمت کو خدا کے رسولﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بڑی تائید، بڑے نشانات، بڑے معجزے دکھاکر قائم کیا تھا اس کو جب ان مہربانوں کے سپرد کیا گیا تو انہوں نے چھُریاں لے کے اس کے ٹکڑے کاٹنے شروع کر دیئے اور آج جتنے بھی ٹکڑے اور گروہ اور فرقے ہیں مسلمانوں کے ان میں سے کوئی بھی خدا کا قائم کردہ نہیں۔
یہ ان مہربانوں کے بنائے ہوئے ہیں اور ہم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ جس جماعت کو خدا نے قائم کیا ہے۔ اس کو چھوڑ دو اور جو ٹکڑے ہم نے کئے ہوئے ہیں وہاں آ کے ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ کوئی عقل سے عاری ہوگا تو ان کی آواز پر لبیک کہے گا۔ عقل اور سمجھ اور شعور رکھنے والا انسان تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ خدا کی قائم کردہ جماعت کا دامن چھوڑ دیا جائے اور ان لوگوں کے ٹکڑوں میں جا کے انسان شریک ہو جائے۔ چونکہ یہ اُ مّت کو ٹکڑے کرنے کا جرم کر چکے ہوئے ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کی دوہری نافرمانی ہے۔ ایک یہ کہ ٹکڑوں کا عمل انہوں نے شروع کیا تو اب وہ ٹکڑوں کا عمل قیامت تک جاری رہے گا سوائے اس کے کہ یہ واپس خدا کی قائم کردہ جماعت سے منسلک ہو جائیں اور یہ بات میں اپنے طور پہ نہیں کہہ رہا یہ سارے کے سارے جو اس وقت گروہ ہیں ان کی اصلیت پرنگاہ ڈالیں تو اس وقت اگر ان کے دوٹکڑے تھے تو آج دس ہیں۔ کوئی بھی ان ٹکڑے ہونے کے عمل میں سے بچا نہیں اور تم نے خدا کے رسول کی امت کے ٹکڑے کئے ہیں تو پھر تمہارے بھی ہوتے ہی چلے جائیں گے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ حال ہی میں اہل حدیث کا الیکشن ہوا عہدیداران کا۔ دو گروہ ہو گئے۔ نورانی صاحب نے جمعیت علمائے پاکستان قائم کی اس کے بعد ایک ٹکڑا نیازی صاحب کا الگ ہو گیا۔ اس کے بعد ایک اور ٹکڑا الگ ہو گیا۔ تو اب تین ٹکڑے بن کے بیٹھے ہو ئے ہیں۔ کوئی جماعت اس عمل سے آزاد نہیں۔ محفوط نہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ جب خدا کے رسول کی امّت کا تم نے یہ حشر کیا ہے تو تمہارا بھی یہی حشر ہوا اور ٹکڑے ہونے کے عمل سے صرف ایک جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حفاظت میں رکھا ہوا ہے جس کو خودقائم کیا۔ جماعت احمدیہ کو قائم ہوئے ایک صدی سے اوپر عرصہ ہوگیا۔ کتنے ٹکڑے ہوئے ہیں۔ ایک ٹکڑا بظاہر جو تھوڑا سا ہؤا تھا وہ بھی بے چارے واپس آ کے جماعت کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔ اب تو ان کا مؤقف کاغذوں میں لکھا رہ کیا ہے۔ عملی طور پہ ختم ہو چکے۔ لیکن ان لوگوں کو چونکہ ٹکڑے ہونے اور ٹکڑے کرنے کا ہی جنون ہے اس لئے جب صاحبزادہ مرزا منصور احمد کی وفات ہوئی تو دو دن۔ تین دن تو یہ خاموش بیٹھے رہے اس کے بعد ایک خبر لگا دی۔ کہ اب تو ربوہ میں ایک انتہاء درجے کی بغاوت اور آگ پھوٹنے والی ہے۔ کیونکہ امام جماعت احمدیہ نے جس شخص کو ناظر اعلیٰ بنا دیا ہے۔ اس کی بجائے تو فلاں کو بنا نا چاہئے تھا۔ یہ خوابیں ہیں جو تم دیکھ رہے ہو یہ تمہارا اندرونہ ہے جو بول رہا ہے۔ جماعت خدا کی قائم کردہ ہے اور خدا کی حفاظت میں ہے اور کوئی دنیا کی طاقت اس کی یک جہتی اور اس کے اتحاد اور اس کے اتفاق کو توڑ نہیں سکتی۔
پہلی بات جو دوستوں کو یاد رکھنی چاہئے اور ان سے پوچھنا چاہئے کہ آپ ہمیں خدا کی قائم کردہ جماعت کو چھوڑ کر واپس بلا رہے ہیں کہ کسی مُلاں مولوی کی بنائی ہوئی جماعت میں آ جائیں۔ دوسری بات اس وقت روئے زمین پر صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہے۔ جس کی تائید سابقہ پیشگوئیاں کرتی ہیں۔ وہ پیشگوئیاں قرآن کریم کی بھی ہیں۔ وہ پیشگوئیاں رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ہیں۔ وہ پیشگوئیاں امّت کے مجددین اور اولیاء اور ابدال اور اقطاب کی بھی ہیں اور وہ ساری پیشگوئیاں جماعت احمدیہ پر پوری اترتی ہیں۔ اس کے مقابل پر کوئی جماعت ہمیں بتائے جو ان پیشگوئیوں کی مصداق ہے۔ پیشگوئیاں تو جماعت احمدیہ کی تائید اور جماعت میں بول رہی ہیں۔ ان پیشگوئیوں کو بھی قبول کرنے کے لئے انسان کو خدا خوفی چاہئے تبھی ان کو قبول کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جب امام مہدی ہونے کا دعویٰ فر مایا تو علماء ڈٹ گئے کہنے لگے یہ امام مہدی سچا نہیں۔ کیوں کہ سچے امام مہدی کی حدیث میں آنحضورؐنے جو نشانی بیان کی ہے وہ پوری نہیں ہوئی۔ رسول پاکؐ نے فر مایا تھا۔ کہ سچے امام مہدی کے لئے رمضان کے دنوں میں سورج چاند کو گرہن لگے گا اور اس مہدی کے لئے گرہن نہیں لگا۔ اس لئے ہم اس کو نہیں مان سکتے۔ بہت چرچا کیا جلسوں میں، سٹیجوں پہ، خطبوں میں، مسجدوں میں، مجلسوں میں جہاں جہاں ان کو موقع ملا انہوں نے کہا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ سورج چاند کو گرہن نہیں لگا اس لئے ہمیں یہ امام مہدی منظور نہیں۔ امام مہدی کو بھیجنے والا آسمان سے دیکھ رہا تھا۔ وہ سُن رہا تھا۔ وہ اس بات کے انتظار میں تھا کہ اگر جلدی نشان دکھا یا تو یہ لوگ حدیث کا بھی انکار کر دیں گے۔ اس لئے ان کو ذرا چار دن پراپیگنڈا کرنے دو۔ لوگوں تک بات تو پہنچ جائے۔ بعد میں اگر انکار کریں گے تو لوگ گلے پڑ جائیں گے کہ کل تک تم اس کو نشان کہتے تھے۔ آج تم اس سے انکار کرتے ہو اور جب خدا تعالیٰ نے ان کی زبان سے اس حدیث کا خوب چرچا کروالیا تو پھر خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا یہ نشان آسمان پہ ظاہر ہو گیا۔ رمضان میں ظاہر ہؤا۔ انہیں تاریخوں پہ ظاہر ہؤا اور مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی سچائی کے لئے ظاہر ہؤا۔ اس وقت دنیا میں ایک ہی مدعی موجود تھا۔ یہ نشان ظاہر ہونے کے بعد تو عقل تقاضا کرتی تھی کہ یہ خدا کے بندے خدا کے رسولؐ کی پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ کر احمدیت قبول کر لیتے۔ لیکن یہ بات کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہے ہمارے پاس ریکارڈ میں ہے کہ لوگ جگہ جگہ اس نشان کو چھتوں پر کھڑے دیکھ رہے تھے اور ایک مولوی صاحب چھت پہ کھڑے ہو کر چیخ رہے تھے بلکہ پیٹ رہے تھے اور اپنی ران پہ ہاتھ مار مار کے کہہ رہے تھے اب دنیا گمراہ ہو جائے گی۔ اب دنیا گمراہ ہو جائے گی۔ پہلے اسی نشان کو ہدایت کا ذریعہ بتاتے تھے جب ظاہر ہوگیا تو گمراہ ہونے کا ذریعہ بن گیا۔ جن لوگوں کی سوچ اور جن لوگوں کی زبان اور جن لوگوں کا معیار یہ ہو وہ ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ اس الٰہی جماعت کو چھوڑ کر ہمارے پاس آ جاؤ۔ جماعت احمدیہ اس وقت منفرد جماعت ہے۔ جس کے حق میں پرانے انبیاء، محمد مصطفےٰﷺ اور امت کے مجددین اور بزرگوں کی پیشگوئیاں سو فیصد پوری ہوئیں اور دنیا میں کوئی جماعت اس کے برابر نہیں۔ تو جس جماعت کو خدا کھڑا کرے اور جس جماعت کے حق میں ماضی کی ساری پیشگوئیاں پوری ہو جائیں اس جماعت کو چھوڑ کے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس آ جاؤ۔
تیسری بات رسول پاکﷺ سارے انبیاء کے لئے ایک معیار تھے۔ کسی بھی نبی کی سچائی پرکھنی ہو تو رسول پاکﷺ کی زندگی دیکھ لو۔ لوگوں نے کیا کہا خدا نے کیا کِیا دونوں مناظر دنیا کے سامنے ہیں۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو علماء تھے۔ آج کل کے علما اور ان کے پیش رَو اور ان کے اجداد۔ انہوں نے خدا کے رسول ؐکے ساتھ کیا برتاؤ کیا ؟ اس وقت سارے کے سارے علماء سرداران کفار مکّہ کے اشاروں پہ رسول پاکؐ کی مخالفت کر رہے تھے اور مخالفت میں طرح طرح کے اعتراض جو پچھلے انبیاء پہ اعتراض ہوئے تھے وہ سارے کے سارے اعتراضات دہراگئے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی کے لئے قرآن کریم میں فر مایا کہ:
مَا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَدۡ قِیۡلَ لِلرُّسُلِ مِنۡ قَبۡلِکَ
(حم السجدہ:44)
تجھے کچھ نہیں کہا جاتا مگر وہی جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا۔
تجھ پر آج وہی اعتراض اٹھائے جا ر ہے ہیں جو تجھ سے پہلے اللہ کے رسولوں کے متعلق اٹھائے گئے تھے۔ تو وہ اعتراضات رسول پاکﷺ کے خلاف نہیں پڑتے۔ بلکہ رسول پاک ؐ کی سچائی کا نشان اور دلیل اور ثبوت تھے۔ کیونکہ جب بھی خدا کا رسول آئے تو اعتراض وہی ہے۔ بھیجنے والا جو وہی ہؤا۔ تو جب بھی اس کا نمائندہ آئے علماء نے وہ رَٹ لگائی ہوئی ہے کہ وہی اعتراض ضرور دہرانے ہیں اور جب وہ دہراتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ پرانے رسولوں کو بھی یہی انہوں نے کہا تجھ کو بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ پرانے بھی سچے نکلے تو بھی سچا ہے۔ اعتراض کرنے والے غلط ہیں یہ ایک معیار قرآن کریم نے بتایا ہے۔ اب اگر ایک شخص تمہارے نزدیک خدا کی طرف سے نہیں اور تمہارے نزدیک انگریز کا کھڑا کیا ہؤا ہے تو تم وہ اعتراضات کیوں اٹھاتے ہو جو محمد مصطفیٰﷺ اور آپ سے پہلے رسولوں پر کئے گئے۔ تمہارے اعتراض بتاتے ہیں کہ تمہارا واسطہ ایک رسول کے ساتھ پڑا ہؤا ہے۔ تمہارے اعتراض بتاتے ہیں کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے خدا کا ایک نبی کھڑا ہے اور تم اُس پہ اعتراض کر رہے ہو ورنہ اگر کوئی سکول ٹیچر ہو۔ کوئی پٹواری، کوئی منشی ہو، کوئی کلرک ہو تو اس کے متعلق یہ اعتراض اُٹھایا جا سکتا ہے کہ تم پریزیڈنٹ ہاؤس میں کیو ں نہیں رہتے۔ کوئی اعتراض اس پر کرے گا کہ تم پرائم منسٹر ہاؤس میں کیوں نہیں رہتے۔ کوئی اعتراض کرے گا کہ تمہارے ساتھ چار پانچ مرسڈیز گاڑیاں اور گارڈ کیوں نہیں ہے۔ وہ کہے گا میں سکول کا ٹیچر ہو ں۔ یہ کیسی باتیں میرے ساتھ کر رہے ہو۔ لیکن اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں پریذیڈنٹ ہوں، میں پرائم منسٹر ہوں تو اس پر وہ اعتراض واجب ہے اور اگر کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے اور خدا کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرے تو پھر اس پر وہی اعتراض وارد ہو سکتے ہیں جو خدا کی طرف سے آنے والوں پر ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں اور ان اعتراضات کو زبان سے نکالنے کے لئے ہم نے ان کی کوئی منت سماجت نہیں کی کہ مولوی صاحب مہربانی کریں مسیح موعودؑ امام مہدیؑ آئے ہیں۔ اِن پر ذرا وہ اعتراض کریں جو محمدﷺ کے مخالفین اُن پر کرتے تھے۔ خود بولتے ہیں۔ قدرت کہتی ہے کہ بولو کہ خدا کا ایک نمائندہ آیا ہؤا ہے۔ دہراؤ وہ اعتراضات جو ہمیشہ سے خدا کے نمائندوں پر دہرائے گئے اور جب یہ اعتراض دہرا رہے ہونگے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ شخص پہلے خدا کے آ نے والوں سے الگ نہیں۔ یہ اس طبقے میں سے ہیں، لائن پر ہیں یہ اُسی زُمرے میں ہے جس زُمرے میں ہمیشہ خدا کے آنے والے ہوتے ہیں۔ تو تمہارے اعتراضات اعتراضات نہیں بلکہ تائید ہیں۔ ہم تمہارے شکر گزار ہیں کہ تم نے۔ سارے وہ اعتراض دہرائے ہیں جو انبیاء پر ہوتے آئے ہیں۔
مسیح موعود علیہ الصلوٰ ةوالسلام نے یہ چیلنج دیا کہ تم میری ذات پر کوئی ایسا اعتراض نیا دکھاؤ جو مجھ سے پہلے خدا کے کسی نبی پر نہیں ہو چکا۔ کوئی ایک اعتراض دکھاؤ اور اگر سارے کے سارے وہی ہیں تو پھر مان لو کہ تم ان اعتراض والوں کے زُمرے میں ہو اور میں انبیاء کے گروہ میں کھڑا ہوں آسان فیصلہ ہے کوئی جھگڑا نہیں کوئی لڑائی نہیں تم اعتراض کرتے ہو۔ سچائی خدا تعالیٰ ظاہر کر رہا ہے پھر اس کے ساتھ دوسرا چیلنج یہ دیا کہ ماضی میں جس قدر انبیاء آئے اُن کی سچائی کی کوئی بھی دلیل تم بیان کرو وہ دلیل خدا نے مجھے بھی دی ہے کتنا بڑا چیلنج ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی تشریف لائے۔ اُن میں سے کسی نبی کی سچائی کا جو معیار تمہارے ذہن میں ہے اس معیار پہ خدا نے مجھے بھی قائم کیا ہے تو یہ دوہرا چیلنج تھا اور آج تک کوئی ماں کا لال اس چیلنج کا جواب نہیں دے سکا۔ اس لئے ان لوگوں کی مخالفت بھی دراصل مسیح موعود کی سچائی کا نشان ہے۔ وہی اپنے پیش رو لوگوں کے اعتراضات دہرارہے ہیں اور ثابت کر رہے ہیں کہ وہ اعتراض کرنے والے غلط تھے اور جن پر اعتراضات کئے وہ سچے تھے اور آج بھی قدرت یہ ثابت کر رہی ہے کہ ان اعتراضات کو دہرانے والے آج بھی غلط ہیں اور جس پر اعتراض اُ ٹھائے جا رہے ہیں وہ آج بھی ان سچے لوگوں میں شامل ہے۔ جو ماضی میں گزر چکے۔ یہ معیار سچائی کا جماعت احمدیہ کے سوا کسی اور فرقے کو نصیب نہیں۔
پھر اس کے بعد ایک اور بڑا دلچسپ پہلو ہے جس کو میں سمجھتا ہوں کہ ان کے سامنے بار بار رکھنا چاہئے۔ اس وقت سارے عالم اسلام میں ایک ارب تِیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں دنیا میں جماعت احمدیہ کے سوا کوئی ایک مثال کسی مسلمان کی بتاؤ کہ اس پر کلمہ طیبہ پڑھنے کی وجہ سے مقدمہ ہؤا ہو۔ خواہ وہ عیسائیوں میں جا کے پڑھے، یہودیوں میں جا کے پڑھے، ہندوؤں میں جاکے پڑھے یا مسلمانوں میں جاکے پڑھے سوائے احمدی کے کلمہ طیبہ کی بنا پر کسی اور پر مقدمہ آج کی دنیا میں نہیں ہے۔ محمد مصطفیٰﷺ کے وقت میں کلمے کی وجہ سے پتھر پڑے تھے۔ یا آج پڑتے ہیں اور کوئی مثال دنیا میں نہیں۔ ایک موقع پہ رسول پاکﷺ کے گرد دشمنوں نے گھیرا ڈال لیا، ایک شخص گلے میں کپڑا ڈال کر اسے بل دیتا رہا۔ آپؐ کا سانس لینا مشکل ہوگیا آ نکھیں باہر نظر آ رہی تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ بھاگے بھاگے آئے اس آدمی کے ہاتھ سے کپڑا کھینچ کر حضور ؐ کا پھندا دور کیا اور اُن سے کہا۔ ظالمو۔ کس ہستی کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہو۔ جرم کیا ہے اِس معصوم انسان کا؟ صرف اتنا جرم ہے أنْ یَقُوْ لَ رَبّیَ اللّٰہ۔ وہ صرف یہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔ اس لئے تم اس کے گلے میں کپڑا ڈال کے مار دینا چاہتے ہو۔ بلال کا کیا قصور تھا ؟ باقی صحابہ کا کیا قصور تھا ؟ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِِ پڑھنے کے سوا۔ محمد مصطفیٰﷺ کا کیا قصور تھا جو مکے کی گلیوں میں اور مدینے میں آپ کے ساتھ سلوک کیا گیا۔ ایک ہی جرم تھا۔ توحید کا اقرار کرنا اور وہ جرم آج جماعت احمدیہ کو نصیب ہؤا ہے اور آج ہمارے سوا کسی جماعت کواس جرم کی توفیق نہیں۔ یہ تو ہم نہیں کہتے کہ کلمہ کوئی نہیں پڑھ سکتا۔ مگر اس انداز سے پڑھنا اس ڈھب سے پڑھنا اس لگن سے پڑھنا دل کی گہرائیوں سے پڑھنا چہرے پہ آثار نظر آرہے ہوں کہ یہ کلمے کا شیدائی انسان ہے۔ تب پتھر اٹھتے ہیں۔ محض کلمے کی رَٹ لگانے سے کوئی پتھر نہیں مارتا۔ آخر ایک ارب تیس کروڑ مسلمان کلمہ پڑھتا ہے۔ کیوں پتھر نہیں اُٹھتے کلمہ وہی ہے مگر شیطان فرق بتاتا ہے کون اوپر اوپر سےکلمہ پڑھتا ہے اور کون دل سے پڑھتا ہے اسے دشمنی ہوجاتی ہے اس سے جو دل کی گہرائیوں سے کلمہ پڑھ رہا ہو۔ شور کرتا ہے یہ قادیانی ہے اس کو پکڑو، مقدمہ بناؤ، جیل لے جاؤ، پھانسی دے دو۔ کلمہ ایک ہی ہے۔ ایک کو شیطان کہتا ہے جاؤ جاؤ مجھے تمہارے کلمے کا پتہ ہے دل سے نہیں نکلا۔ مگر محمدمصطفےٰﷺ اور آپ کے ماننے والے جب کلمہ پڑھتےہیں تو زمین اور آسمان لرز جاتے ہیں۔ اُس محبت اور فدائیت کی وجہ سے جو حرارت ایمانی انہیں عطا کرتی ہے۔ پھر خدا کی راہ میں مَرنے سے ڈر نہیں لگتا اور یہ چیزیں دشمن کو پریشان کرتی ہیں۔ آج جماعت احمدیہ کا وہی کلمہ ہے جو حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا کلمہ ہے۔ مگر ہم پڑھیں تو دشمنوں کے جذبات مجروح ہو جاتے ہیں۔ مقدمہ کے لئے جب ایف۔ آئی۔ آر درج کرواتے ہیں تو کہتے ہیں قادیانی نے میرے سامنے کلمہ پڑھا۔ میرے جذبات مجروح ہو گئے اور اسی طرح یہی جذبات ابو جہل کے مجروح ہوتے تھے۔ یہی جذبات ابو لہب کے مجروح ہوتے تھے۔ یہی عُتبہ اور شیبہ کے جذبات تھے جو کلمہ پڑھنے سے مجروح ہوتے تھے اور وہ تلواریں لے کر نکل آتے تھے۔ آپ کو ان کا طریق مبارک ہو اور ہمیں وہ کلمہ مبارک ہو جو محمد مصطفیٰﷺ پڑھتے تھے اور اس کلمے کی خاطر جماعت قربانیاں دے رہی ہے اور دیتی رہے گی خدا کے فضل سے۔ جماعت احمدیہ کے طفیل یہ کلمہ دنیا میں زندہ رہے گا۔
چوتھی بات یہ ہےکہ جماعت احمدیہ کو یہ اعزاز اور امتیاز آج اللہ تعالیٰ نے عطا فر مایا ہے کہ کلمہ طیبہ کی وجہ سے قربانی دے رہے ہیں۔ تکلیف اٹھارہے ہیں، مصائب برداشت کررہے ہیں۔ سزائیں بھگت رہے ہیں یہ اعزاز حضور پاکﷺ کے وقت میں لوگوں کو نصیب ہوا یا آج ہمیں نصیب ہے۔
پانچویں بات جو جماعت احمدیہ کو منفرد کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے مستقبل کے بارے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بشارتیں اور وعدے ہیں اور کوئی جماعت نہیں جس کے مستقبل کے بارے میں خدا کی طرف سے تازہ بشارتیں ان کے پاس ہوں۔ خدا تعالیٰ اس بات پر کیسے خوش ہوسکتا ہے کہ رسول ؐکی امّت کے ٹکڑے اور حصّے کئے جارہے ہوں۔ یہ تو بشارتوں والے کام نہیں اگلے جہان میں خدا اور اس کے رسول ؐ کے دربار میں جواب دینا ہوگا کہ امت کا کیا حشر کیا ہے۔ ٹکڑے پر ٹکڑے کئے جارہے ہو۔ ایسے لوگوں کی تائید میں تو خدا کی بشارتیں نہیں ہیں۔ ہاں جس جماعت کو خدا نے قائم کیا ہے اس کے مستقبل کے بارے میں بہت سی بشارتیں ہیں۔ بے انتہاء بشارتیں ہیں۔ ہم میں سے اس وقت جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہیں ایک ایک مسیح موعودؑ کی سچائی کی دلیل اور بشارت کا نشان ہے۔
قادیان میں ایک زمانے میں دشمنوں نے گھیراؤ کیا کہ اس کی آواز باہر نہ جائے لوگوں تک نہ پہنچے۔ یہیں ختم ہو جائے جبکہ خدا کی بشارت یہ تھی کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا اور آج سوا سو سال کے بعد ان گھیراؤ کرنے والوں کا تو نام نشان ہے نہ کوئی جا نشین یا نائب لیکن خدا تعالیٰ کے کرم سے جماعت ایک سو باسٹھ ملکوں میں قائم ہو چکی ہے۔ آج جماعت احمدیہ ساری دنیا میں ایک حقیقت اور سچائی بن چکی ہے۔ بڑی بڑی طاقتوں کی نگاہ میں اس جماعت کی اہمیت ہو چکی ہے۔ جب یہ پیشگوئی کی گئی تھی قادیان کے باسی بھی اچھی طرح حضرت اقدسؑ سے واقف نہ تھے۔ قادیان کی بستی بھی گمنام سی تھی۔ مگر قادرو توانا خدا یہ یہ بشارت دے رہا تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ دعویٰ کے بعد مسلسل اس آواز کو دبانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ 1934ء میں احرار کی طرف سے قادیان کو چیلنج دیا گیا کہ ہم اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے قادیان کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیں گے اور بزعم خود فاتح قادیان بھی بن گئے مگر قادیان تو فتح نہ ہوا۔ 1953ء میں پاکستان میں پھر شورش اٹھائی گئی۔ 1974ء میں اسمبلی میں فیصلے کئے گئے۔ 1984ء میں ایک ڈکٹیٹر نے اُس پہ مہریں لگائیں اور قانونی شکنجے تیار کئے غرض کیا تھی کہ اس جماعت کو جکڑکے، باندھ کے رکھ دیں اور یہ جماعت پھیلنے نہ پائے۔ لیکن اِن ساری مخالفتوں کے باوجود جماعت کا دنیا میں ترقی کررہی ہے۔ یہ حقیقی طور پر بشارتوں کا پھل اور نتیجہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دی گئیں اور ایسی بشارتیں اور ایسے خدائی وعدے جماعت احمدیہ کے سوا اور کسی کی جھولی میں نہیں۔ ہمیں ان خدائی وعدوں کی ڈھال سے نکل کر اپنے ساتھ شامل ہونے کے مشورے دئے جارہے ہیں۔ ہم ان کی جہالت میں شریک نہیں ہو سکتے۔
چھٹی بات جہاں تک مخالفت کا ذکر ہے۔ حضرت اقدسؑ نے اپنے دعویٰ سے لے کر وفات تک کم و بیش تیس بتیس سال کا عرصہ گزارا آپ کے کوئی باڈی گارڈ نہیں تھے۔ کوئی فوج کا پہرہ نہیں تھا، کوئی سول پہرہ نہیں تھا۔ گاڑیوں میں سفر کرتے تھے۔ عدالتوں میں مقدمے بھگتتے تھے، شہروں کے دَورے کرتے تھے، لوگوں کی دن رات آمد ورفت رہتی تھی، میل ملاقات کے لئے اچھے بُرے سب قسم کے لوگ آجاتے تھے اور ان ساری باتوں کے باوجود حفاظت کرنے والی طاقت نے حفاظت فرمائی۔ اس نے تو فرمایا ہے کہ میرا نام لے کے مفتری بن کے اگر کوئی دنیا کو دھو کا دینا چاہے گا میں فوراً اس کو پکڑ کے گلا کٹوا دوں گا۔ لیکن یہ کیا ہوا کہ دنیا کی طاقتیں بھی مخالف، آریہ بھی، ہندو بھی، سکھ بھی، پنڈت بھی، مولوی بھی، اور جو لوگ تھے وہ سارے کے سارے زور لگا رہے تھے۔ مولوی جا کے برطانیہ کی حکومت کے پاس شکائتیں کرتے تھے کہ یہ شخص سو ڈانی مہدی ثابت ہوگا۔ آج یہ کمزور ہے۔ جس وقت چند آ دمی اس کے ساتھ اکٹھے ہو گئے حکومت کے خلاف بغاوت کرے گا۔ انگریز حکومت کو ابھی سے اس کا بندو بست کرنا چاہئے۔ ہم متنبّہ کر رہے ہیں حکومت کا کہ انتظام کر لو اس شخص کے فتنے کا۔ اس وقت کہتے تھے کہ انگریز کے لئے اس کا وجود خطرناک ہے اور اب اُن کی اولادیں اور اُن کے جانشین یہ کہتے ہیں کہ یہ انگریز کا لگایا ہوا پودا ہے۔ تمہاری مانیں یا تمہارے بزرگوں کی مانیں تم سچے ہو یا تمہارے وہ لیڈر سچے تھے۔ جو انگریز حکومت کے پاس جاکے مخبریاں کرتے تھے۔ ایسے حالات میں اللہ تعا لیٰ نے جماعت کے بانی کی حفاظت فر مائی اور ساتھ یہ پیشگوئیاں شائع ہورہی تھیں کی صرف اپنے فرستادہ کی ہی نہیں جو بھی تیری اطاعت کر کے تیری چار دیواری کے اندر داخل ہو جائے گا اس کی بھی حفاظت ہوگی۔ طاعون ایک نشان کے طور پر آئے گی مگر فکر نہ کرنا تیری میں حفاظت کروں گا۔ إني أحافظ كل من في الدار کہ طاعون سے تجھے اور تیری جماعت کو بچایا جائے گا۔ حکومت کہتی ہے ٹیکے لگواؤ۔ آپ فر ماتے ہیں خدا نے ہماری حفاظت کا وعدہ کیا ہے۔ اس لئے ٹیکہ نہیں لگواتے۔ طاعون سے معجزانہ حفاظت کا نشان دنیا نے دیکھا۔
حضرت اقدسؑ کامیاب جرنیل کے طور پہ زندگی گزار کے خدا کے حضور حاضر ہوئے۔ آپ کا پہلا جانشین منتخب ہوا۔ وہ کامیاب زندگی گزار کے گیا۔ دوسرا جرنیل آیا باون سال جماعت احمدیہ کی قیادت اور لیڈر شب کی۔ چاقو سے حملہ ہؤا۔ مقدمے بھی ہوئے۔ فتنے بھی کھڑے کئے گئے، ہنگامے بھی کئے گئے۔ ایجی ٹیشن بھی کروائی گئی سارے ملک میں عدالتوںمیں گھسیٹا گیا۔ لیکن کیا نتیجہ نکلا اللہ تعالیٰ کی حفاظت تھی اللہ تعالیٰ کی تائید تھی دشمن کی کوئی کوشش اللہ تعالیٰ نے دنیا میں کامیاب نہیں ہونے دی۔ پھر اس کے بعد تیسرے خلیفہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کی زندگی میں برکت دی 1974ء کی اسمبلی میں جا کے عدالتوں میں کھڑا کیا بیان دو۔ عدالت میں بیان دو۔ اسمبلی میں بیان دو۔ اسمبلی قانون پاس کرنے کے لئے بیٹھ گئی۔ اسمبلی نے کہا اب یہ مرزائیت کے تابوت میں آخری کِیل ہے اور اب جماعت ختم ہو جائے گی۔ اسمبلی کا قانون پاس کر لیا جماعت کا کیا بگڑا۔ جماعت تو قائم ہے یہاں تک قائم ہے کہ 1984ء میں پھر بے چینی ہو گئی کہ اور قانون نافذ کرنا چاہئے۔ ہمارا پچھلا قانون کار گر نہیں ہوا پھر ڈکٹیٹر سے اور فیصلے کروائے اور پابندیاں لگوائیں۔ جماعت کا کیا بگڑا ہے جماعت تو رواں دواں ہے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جماعت کو ختم کر چکے ہیں تو چین سے اپنے گھر بیٹھو اب کیا مسئلہ ہے۔ جس طرح نورانی صاحب ایک دفعہ امریکہ کے دورے پہ گئے تھے اور واپس آ کے انہوں نے بیان دیا کہ میں وہاں جا کر اسی فیصد قادیانیوں کے مشنوں کو تالے لگوا آیا ہو ں۔ اگر واقعی تالے لگا دئے تو چین کیوں نہیں پڑتا ؟ اب خاموش ہو جاؤ۔ مشن تو بند ہو گئے ہیں۔ اب جو چیخ و پکار جاری ہے خود اس بات کی تردید ہے کہ کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ خدا کی حفاظت میں ہے یہ جماعت۔ کوئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکا۔ پھر ایک بڑا منصوبہ بنایا کہ امامِ جماعت احمدیہ کو گرفتار کر وایا جائے۔ وہ جیل میں ہوں گے۔ جماعت کے ساتھ ان کا رابطہ ٹوٹ جائے گا۔ جماعت بکھر جائے گی۔ چند دن بعد حضرت صاحب باہر تشریف لے گئے۔ خیریت سے پہنچنے۔ سارا منصوبہ اور گھیراؤ دھرا رہ گیا اور گئے بھی ڈنکے کی چوٹ پر، دن کے وقت اپنے اصل لباس میں گئے اور یہ ظالم اب تقریروں میں کہتے ہیں کہ عورتوں والا برقعہ پہن کے مرزا طاہر باہر نکل گیا تھا۔ اگر برقعہ بھی پہنا ہو تو جو تمہارے پہرےدار ڈیوٹیوں پر کھڑے تھے۔ اُن کی آنکھوں پہ پردہ کس نے ڈال دیا تھا۔ پاسپورٹ جو دکھایا اور اُس پہ تصویر لگی ہوئی ہے۔ اگر تصویر والا آدمی بُرقعہ پہن کے تصدیق کراتا ہے کیا چیک کرنے والے بے ہوش ہوگئے تھے۔ یا پاگل ہو گئے تھے؟ اللہ تعالیٰ نے حفاظت فر مائی۔
اب یہ غم ہے کہ یہ تو ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں اور حکومت کو چاہئے کہ ان کا کوئی بندو بست کرے اور باہر کی حکومتوں کو کہنا چاہئے کہ ان کو وہا ں سے نکال دو اور واپس بھیجو ہمارے پاس۔ پہلے آپ بھیجنے کے لئے بے چین تھے اب بُلانے کے لئے بے چین ہو گئے ہو۔ اُس وقت پچاس ملکوں میں احمدیت تھی اِن بارہ چودہ سالوں کے اندر ایک سو باسٹھ ملکوں میں احمدیت قائم ہو گئی ہے۔ تمہارا تڑپنا تو ٹھیک ہے لیکن یہ تمہارا اپنا کیا کرایا ہے۔ اب اِس کو بھگتو لیکن جماعت خدا کے فضل سے خدا کی حفاظت کے نیچے ہے۔ ہمارے امام بظاہر ہزار ہا میلوں کے فاصلے پر ہم سے دور بیٹھے ہوئے ہیں مگر جماعت کو جو محبت اور جو پیار امام کے ساتھ اب ہے وہ اس سے کئی گنا زیادہ ہے جب وہ ان کے درمیان موجود تھے۔ اب توہر ایک احمدی کے دل میں امام ہر وقت بیٹھا ہوا اُن سے باتیں کر رہا ہے۔ تم کہاں کہاں سے روکو گے۔ تمہارے پہرے کہاں تک تمہارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ سمجھے تھے کہ مرزا طاہر کو ملک سے نکال دیا وہ تو اب ہمارے گھروں میں داخل ہو گئے ہیں۔ یہ جماعت خدا کی حفاظت میں ہے پہلے دن سے لے کر اس وقت تک اور آئندہ قیامت تک اور یہ حفاظت الٰہی جماعت احمدیہ کے سوا اور کسی جماعت کو دنیا میں نصیب نہیں اور یہ وجہ ہے کہ اتنے بڑے بڑے بحرانوں میں سے جماعت گزری ہے اور پہلے سے مضبوط ہو کر ابھری ہے۔
ساتویں بات دنیا میں سچائی کا معیار رسولِ پاکﷺ اور آپ کے صحابہ ؓ ہیں رسول پاکﷺ کی ذات تک تو میں نے بات کردی ہے۔ خدا کے قائم کردہ تھے۔ کلمے کی وجہ سے تکلیفیں اٹھائیں۔ حفاظت الٰہی میں تھے۔ تائید و نصرت تھی۔ آپؐ نے صحابہ ؓ کی جو جماعت تیار کی اس کی بڑی بڑی خصوصیات کیا تھیں۔ اپنے امام کے ساتھ وابستگی خواہ گردن کٹ جائے۔ اپنے امام کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار اور آ مادہ رہتے تھے۔ دوسرےخدا تعالیٰ کی ذات کے ساتھ عشق، محبت، ایمان، اطاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ مثال کے لئے سیدنا بلالؓ کو دیکھیں جس کے سینے پہ گرم تپتی ریت کے اُوپر پتھر رکھ کے پھر اوپر آدمی کودتے تھے۔ ساتھ مارتے پیٹتے تھے اور وہ جب پوچھتے ہیں کہ کہو ایک سے زیادہ خدا ہیں تو کہتے ہیں نہیں اللہ ایک ہے۔ اَحَدْ۔اَحَدْ۔اَحَدْ۔ صحابہؓ کی یہ شان اور یہ نمونہ تھا۔ تیسری بات صحابہؓ میں نمایاں یہ تھی۔ آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ پہلے آپس میں مخالفت تھی۔ خون کے پیاسے تھے اب بھائیوں سے بھی زیادہ قربت ہو گئی۔ ہجرت کر کے مکّہ سے مدینہ آئے۔ رسول پاکؐ نے فرمایا مہاجر اور انصار دونوں بھائی بھائی ہیں۔ انصار نے کہا اپنے بھائی سے آؤ میرے بھائی آج سے خدا کے رسول نے تمہیں میرا بھائی بنا دیا ہے۔ میرے گھر میں آؤ۔ یہ میری جائیداد ہے۔ یہ میرا کاروبار ہے اتنے میرے مکان ہیں، اتنی میری زمینیں ہیں۔ اتنے میرے باغات ہیں اِتنی میری بیویاں ہیں۔ سارے کی ساری چیزو ں میں سے آدھا مال تمہارا اور آدھا میرا۔ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں تم اس سے شادی کرو دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ آج وہ اخوت جماعت احمدیہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کی ہے۔ جماعت کے ماحول سے باہر کہیں اس کا نمونہ نہیں ملتا کہ آپس میں مذہب کی وجہ سے یہ قربت قائم ہوئی ہو۔ آج جماعت احمدیہ صحابۂ رسولؐ کے نقش قدم پر ہے خدا کی خاطر یہ ساری تکلیفیں برداشت کر رہی ہے۔ خدا کے رسول کی لاج رکھنے کے لئے ہم اپنی جانیں ہتھیلیوں پہ لئے پھرتے ہیں اور خدا نے ہمیں بھائی بھائی بنایا ہے۔ مسیح موعودؑ کے طفیل اخوت کا نظارہ نظر آیا ہے جماعت صحابہ کے نقشِ پر چل رہی ہے۔ اُس جماعت کو یہ کہتے ہیں کہ چھوڑ دو اور ہمارے دھارے میں شامل ہو جا ؤ۔ جہاں ہر دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگا رہا ہے۔ جہاں بالعموم مسجدوں میں نشے اور بدفعلیاں ہو رہی ہیں۔ جہاں مسجدوں میں بم پھٹ رہے ہیں۔ کیا کوئی خوبی صحابہ کے زمانے کی باقی رہی ؟ رسول پاکﷺ نے فر مایا ہے۔ میرے صحابہ کو تو خدا نے آسمانی ستارے بنایا ہے کسی ستارے سے خود کو منسلک کر لو روشنی بھی ملے گی رہنمائی بھی ملے گی اور نور بھی ملے گا۔ ہم تو احمدیت کے ماحول میں اُس نور کو حاصل کئے بیٹھے ہیں اور یہ باہر کہیں بھی نور نہیں۔ ظلمت ہی ظلمت اور تاریکی ہی تاریکی ہے اور اندھیرے میں بیٹھنے والا روشنی والے کو دعوت دے کہ آؤ ہمارے پاس آ کے بیٹھ جاؤ۔ خدا کے عاجز اور نیک بندوں کو ان تاریکیوں میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔
آ ٹھویں بات باہمی اخوت کا میں نے ذکر کر دیا ہے۔ یہ مضمون درحقیقت بہت زیادہ تفصیل طلب ہے ایک واقعہ ہے کہ ایک دیو بندی کی مولوی صاحب کے ساتھ بحث ہو رہی تھی میں نے کہا لمبی بحث کا فائدہ کوئی نہیں تجربہ کرتے ہیں۔ کسی بستی میں چلو تم جا کے ایک دیو بندی کے دروازے پہ آواز دینا کہ میں تمہارا دیو بندی بھائی آیا ہوں اور تمہارے پاس رات گزاروں گا اور میں ایک احمدی کے دروازے پہ جاکے آواز دوں گا کہ میں تمہارا احمدی بھائی ہوں رات کو میں تمہارے پاس قیام کروں گا۔ جو دونوں سے سلوک ہوگا اس سے فیصلہ ہو جائے گا۔ فوراً کہنے لگا کہ یہ تو ہم مانتے ہیں تمہیں تو فوراً وہ بٹھا لیں گے۔ ساری خاطریں بھی کریں گے اور مجھے گلی سے کھڑے کھڑے دور ہی سے دھتکار دیں گے۔ جاؤ کوئی اور گھر دیکھو۔ تو یہ جو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اخوت احمدیت کو عطا کی ہے میں آپ کو یقین سے کہتا ہوںمجھے کئی ملکوں میں جانے کا موقع ملا ہے جہاں کوئی احمدی بھائی ملتا ہے خدا شاہد ہے اپنے حقیقی بھائیوں سے زیادہ پیار ان سے ملتا ہے اور کہیں دنیا میں جاکے اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا ہر جگہ یو نہی محسوس ہوتا ہے کہ اپنے بہن بھائیوں میں بیٹھا ہوں اور یہی مسیح پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم تھی کہ تم آپس میں اس طرح ہو جاؤ جیسے ایک ماں کے پیٹ سے دو بھائی۔ اور یہ اخوت اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطاء کی ہے۔ ان دنوں میں سینکڑوں نہیں ہزاروں مقدمے ہمارے احمدی دوستوں پہ بنے شہادتیں بھی ہوئیں گھر بھی لوٹے گئے۔ کارو بار بھی تباہ و بر باد کئے گئے۔ ان ساری باتوں کے باوجود کسی احمدی نے اس وجہ سے احمدیت نہیں چھوڑی کہ اسے کسی نے سنبھالا نہیں۔ ساری جما عت ایک دوسرے کی خدمت اور حفاظت کے لئے تیار رہتی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ نوشتہ ہے۔ احمدیت نے کامیاب ہونا ہے اور احمدیت کی مخالف طاقتیں خواہ کسی بھی روپ میں ہوں کسی بھی شکل میں ہوں انہوں نے بکھر نا اور ٹوٹنا ہے انتشار اُن کی قسمت، اتحاد اور ترقی ہماری قسمت، اور اس اتحاد اور ترقی کے جو تقاضے ہیں ان میں بنیادی بات یہ ہے کہ ان اوصاف کی موجودگی میں ہمیں ادھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اگر کوئی معاشرہ ان صفات والا ہے تو ہم چلتے ہیں اور اگر یہ صفات آپ کے پاس نہیں ہیں تو ہمیں بلانا بے معنی ہے۔ ان صفات کی موجودگی میں ہی جماعت منظم اور ترقی پذیر ہے۔ اس لئے دشمنوں کی ناکامی اور انتشار اور پراگندگی کا نظارہ اپنی جگہ ہمارا اتحاد اور یکجہتی اور منظم ڈسپلن والی زندگی اپنی جگہ۔ ان دونوں کا زمین آسمان کا فرق ہے۔ جب تک اس فرق کو ہم قائم رکھیں گے ہم خدا کے فضل سے دنیا میں ترقی کرتے رہیں گے۔
میں اپنے بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ نظام سے منسلک رہیں۔ نظام کی اطاعت کریں نظام سے کسی قیمت پر جدا نہ ہوں۔ نظام کے جو تقاضے ہیں ان کی خاطر جو قربانی دینی پڑے دے دیں لیکن نطام کو نہیں توڑنا۔ اگر ٹوتا تو پھر بکھرنے والے قوم سے ہماری مشابہت ہو جائے گی ہم تو منظم قوم ہیں۔ بندھی ہوئی قوم ہیں۔ ایک لڑی میں پروئی ہوئی قوم ہیں اور اس اتحاد اور یگانگت کو ہم کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لئے تیار نہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان اور انعام ہے۔ اس کی خاطر ہمیں چاہئے کہ جس خدا نے ہمیں یہ صفات دی ہیں یہ برکتیں دی ہیں اور دنیا کی ضلالتوں سے بچایا ہے۔ دنیا کی گمراہیوں سے بچایا ہے۔ اس خدا کے وفادار بندے بن کے رہیں تا کہ یہ صفات ہمیں ہمیشہ نصیب رہیں اور ہم دنیا میں ترقی پذیر رہیں۔ خدا کرے کہ ہم سب کو اس کی توفیق نصیب ہو۔ آ مین
(مرسلہ: امة الباری ناصر۔ امریکہ)
(مولانا سلطان محمود انور مرحوم)