• 30 اپریل, 2024

سفید پرندے

سفید پرندے
احمدیت کی آغوش میں آنے والی سعید روحیں
برطانیہ میں اِسلام احمدیت کا نفوذ

مسیحِ ناصری کو جو کام خدا تعالیٰ کی طرف سے سپرد کیا گیا تھا وہ بنی اسرائیل کی طرف پیغامِ رسالت پہنچانا تھا۔ مگر مسیح محمدی ؐ کو اﷲ تعالیٰ نے تمام اکنافِ عالم میں اسلام کی احیاء نو کا پیغام پہنچانے پر مامور کیا تھااور یہ وعدہ کیا تھا کہ ‘‘میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا’’ (الہام 1891ء)۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے موعود مسیحؑ کو جو بشارات دیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ آپؑ کا پیغام لندن تک پہنچے گا اور آپؑ نے دیکھا کہ میں سفید رنگ کے پرندے پکڑ رہا ہوں۔ اس وعدہ کے وفا ہونے کا احساس تو اب ہمیں شدت سے ہوتا ہے جب ہم تاریخ کے ان اوراق پر نظر ڈالتے ہیں جہاں یہ ذکر ملتا ہے خدائی تقدیر کے ماتحت سفید پرندے اُڑ اُڑ کر حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام پر دیوانہ وار لبیک کہنے لگے۔

سرتاجِ مرسلین حضرت محمد ؐ کی پیشگوئی تھی کہ مسیح موعودؑ کے وقت اسلام مغرب سے طلوع کرےگا۔ اس کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کےظہور کے ساتھ ہی استدلال نے احمدیت کا پودا لگا دیا۔سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کی حیاتِ طیبہ کے دوران حضورؑ نے ہزاروں کی تعداد میں تبلیغی اشتہارات دور دراز کے ممالک میں بھجوائے تھے۔ انگلستان کی ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈجوبلی کے موقع پر تفصیلی طور پر اسلامی تعلیمات سمجھاتے ہوئے کتب ‘‘تحفہ قیصریہ’’ اور‘‘ ستارہ قیصرہ’’ تحریر فرمائیں اور ملکہ معظمہ اور تمام عوام کو دعوتِ اسلام دیتے ہوئے انگلستان بھجوائیں۔امریکہ سے بعض افراد حضرت مسیح موعودؑ سے خط و کتابت بھی کرتے رہے۔یورپ میں بھی حضرت مسیح موعودؑ کی تبلیغ کو جانا پہچانا جا رہا تھااور حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کو پڑھ کر کئی انگریز مسلمان ہو گئے۔ اُن میں ہر مکتبہ فکر کے لوگ بھی شامل تھے۔ان میں مختلف معزز پیشوں یعنی ڈاکٹر، لیکچرار، ایک مذہبی امور کا وزیر اور بیرسٹر بھی شامل تھے۔

(اخبار البدر 8؍ مارچ 1904ء صفحہ 10 جلد 3)

1913ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓنے پہلے مبلغ جناب چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو جولائی میں انگلستان بھیج دیا۔آپ نےچند ماہ تک ووکنگ میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا۔

چوہدری فتح محمد سیّال صاحبؓ اس پہلے بیرونی مشن کی بنیاد گو جولائی1913ءمیں رکھ چکے تھے لیکن ان کا مستقل اور ممتاز صورت میں قیام دراصل اپریل 1914ءمیں ہوا۔ جبکہ آپ ووکنگ چھوڑ کر لندن تشریف لائے۔ جہا ں کرائے کے ایک مکان کو مرکز بنا کر تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا۔ پہلا شخص جو آپ کی تبلیغ سے اسلام میں داخل ہوا، ایک صحافی کوریو (MR CORIO)نامی تھا۔ جس کا اسلامی نام بشیر کوریو تجویز ہوا۔ 1915ء میں حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب نے ایک چرچ میں تین مرتبہ لیکچر دیئے جس میں کثرت سے برطانوی اور دوسرے غیر مسلمانوں نے شرکت کی۔ آپ کا آخری لیکچر احمدیہ مومنٹ کے عنوان پر تھا۔ اللہ کے فضل سے بہت سی سعید روحوں نے حضرت چوہدری صاحب کےاس آخری خطاب کے بعد اسلام قبول کیا۔

6؍ ستمبر 1915ءکو حضرت قاضی محمد عبداللہؓ صاحب بی اے، بی ٹی انگلستان تشریف لے گئے اور وہاں اعلائے کلمۃ اللہ میں مصروف رہے۔ پہلی جنگ عظیم سے آپ کو کئی پریشانیوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن آپ نے لڑیچر اور خطو ط کے ذریعہ اپنی کوششیں برابر جاری رکھیں۔ آپ ابھی انگلستان میں ہی تھے کہ حضر ت مفتی محمد صادق صاحبؓ 10؍ مارچ 1917ءکو روانہ ہو کر اپریل 1917ءمیں انگلستان پہنچ گئےاور مکرم قاضی عبداللہ صاحبؓ بی اے بی ٹی کے ساتھ مل کر کام کا آ غاز کر دیا۔ مفتی صاحب کے تشریف لانے پر مشن میں نئی زندگی آگئی اور چند ہفتوں کے اندر چھ انگریزوں نے احمدیت قبول کی۔ حسنِ اتفا ق سے ان میں سے ایک کا نام مسٹر سپیرو(Mr Sparrow) اور دوسرے کا نام مسٹر برڈ(Mr Bird) تھااور یہ مکرم و محترم مولانا مفتی محمد صادق صاحبؓ کی محنت کا پھل تھا۔ ان کے قبولیت اسلام کی اہمیت ان کےنام میں بھی مضمر ہے۔ کیونکہ یہ نام حضرت مسیح موعودؑ کے ایک خواب کی تعبیر تھی۔ آپؑ نے اپنی ایک رویا میں اپنے آپ کو لندن میں سفید پرندے پکڑتے دیکھا تھا۔ یوں مسٹر سپیرو کے احمدیت قبول کرنے پر آپؑ کی رویا پوری طرح صادق آئی یعنی کہ رنگ بھی سفید اور نام بھی پرندوں والا۔نومبر 1917ءتک 45 افراد احمدیت قبول کر چکے تھے۔

(ریویو آف ریلیجنزجون 1917ء صفحہ 327)

اگست 1919ءمیں چوہدری فتح محمدسیال صاحبؓ دوبارہ انگلستان تشریف لائے اس مرتبہ آپ کے ہمراہ حضرت عبدالرحیم نیّر صاحؓب بھی تھے۔ آپ تو یہاں تبلیغی سر گرمیوں میں مشغول ہو گئے۔حضرت مفتی صاحب کچھ عرصہ لندن میں قیام فرمانے کے بعد1920ءکے شروع میں امریکہ تشریف لے گئے۔ چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓ اور حضرت عبدالرحیم نیّر صاحب ؓ کے زمانہ میں تبلیغ میں بہت ترقی ہوئی اور بہت بیعتیں ہوئیں۔

اورحضرت نیّر ؓصاحب 15؍ اگست 1919ء سے 8؍ فروری 1921ء تک انگلستان کے سبزہ زاروں میں سفید پرندے پکڑنے کے بعد اپنے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر 9؍ فروری 1921ء کو مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہوئے۔

(نیّر احمدیت صفحہ129)

1923ء میں حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحب ؓنے افریقہ سے واپس آکر لندن مشن کا چارج لے لیا۔ 1923ء میں حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب ؓنے افریقہ سے واپس آکر لندن مشن کا چارج لے لیا۔ 11؍ مئی 1924ء کو جناب ملک غلام فرید صاحب ایم اےلندن آگئےاور حضرت نیّر صاحب ؓ کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیا۔

تاریخ سے ثابت ہے کہ ابتدائی اسلام لانے والی سعید روحوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی۔ ہم چونکہ لجنہ اماء اللہ کی صد سالہ جوبلی منا رہے ہیں۔اس لئے ذیل میں ہم صرف ابتدائی اسلام قبول کرنے والی خواتین کا ہی ذکر کریں گے۔

11؍ مئی کو جناب ملک غلام فرید صاحب ایم اےلندن آگئےاور حضرت نیّر صاحب ؓ کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیا۔

احمدیت کی آغوش میں آنے والی سعید روحیں

اگست 1915ء میں حضرت سیال صاحبؓ نے الفضل کو ایک لمبی لسٹ بھجوائی جس میں احمدیت قبول کرنے والےسفید پرندوں کے نام درج تھے۔مسز حسن روچ نے اپنے خاوند کے ساتھ بیعت کی۔مسز وائلٹ میری کراکسفورڈ (سلمیٰ)نے کافی لیکچر سننے کے بعد اور احمدیت کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد احمدیت قبول کی اس کی بیٹی این بھی اس وقت زیر تبلیغ تھی۔ ان کے ساتھ مسز حمیدہ سٹیورڈ اور مسز ایس بشیر کوریونے بھی بیعت کی۔ مس روچ حسن اپنے خط 31؍ اکتوبر 1915ء میں لکھتی ہیں کہ ’’اس نے سیال صاحب کے دیئے ہوئے دو رسالے پڑھے ہیں اور اب وہ قرآن کریم پڑھنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

(الفضل نومبر 1916ء)

ان نئی اسلام قبول کرنےوالی خواتین میں سے ایک خاتون۔ جن کا اسلامی نام سلمیٰ رکھا گیا تھا۔ ان کے متعلق (الفضل جون 1916ء) کی اخبار الفضل میں یہ الفاظ لکھے ملتے ہیں۔ ’’بہن سلمیٰ کہ جس نے حال ہی میں احمدیت قبول کی ہے بہت پُر جوش اور باہمت خاتون ثابت ہوئی ہیں اور وہ باقاعدہ تبلیغ کرتی ہیں اور انہوں نے 38 کتابیں بھی تقسیم کی ہیں۔‘‘

6؍ ستمبر1915ء کو حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب ؓ انگلستان تشریف لے گئے اور وہاں اعلائے کلمة اللہ میں مصروف رہے۔پہلی جنگِ عظیم کی وجہ سے آپ کو بہت تکلیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے لٹریچر اور خطوط کے ذریعے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔

1917ء میں حضرت قاضی صاحب کے ہاتھوں بھی ایک بیعت ہوئی۔ الفضل قادیان 10 نومبر 1917ء میں لکھا ہے کہ ’’مسز نیلی

ر الف اور مس ڈورا حضرت قاضی صاحب کے ہاتھ پر اسلام لائیں مس ڈارو کا اسلامی نام سعیدہ رکھا گیا۔

حضر ت مفتی محمد صادق ؓکے ہاتھ پر
بیعت لینے والی انگریز خواتین

4؍ دسمبر1917ءکو حضرت مفتی صاحب نےInternational Society of Philosophy-Art & Science Londonکے تحت ایک لیکچر دیا جس میں Hebrewاور عربی زبان کا موازنہ پیش کیا۔ ایک انگریز خاتون جس نے لیکچر سنا تھا نےاس سے متاثر ہوکرایک نظم انگریزی میں لکھی اس کا نامMrs. E-Maudling تھا۔ جس کا مختصر ترجمہ پیش کیا جاتاہے۔ جس میں وہ کہتی ہیں کہ:
‘‘ میں نے ایک عالمانہ لیکچر سننے کیلئے سفر اختیار کیا۔ سفر بے حد تکلیف دہ تھا۔ جگہ تلاش کرنے میں بہت دقّت ہوئی۔ گو میں تھک کر چور ہوچکی تھی۔ لیکن جب میں وہاں پہنچی اور ایک شخص کو سبز پگڑی میں دیکھا تو میرا چہرہ کھلکھلااٹھا اور میں بے ساختہ تالیاں بجانے لگی۔جونہی ہال میں داخل ہوئی تو فضا ہی کچھ اور ہی تھی۔ بے شک کچھ کھایا پیا نہیں تھا۔ لیکن علم کی خوراک کا خوب انتظام تھا۔مفتی صاحب بڑے خوبصورت پیرایہ میں عربی اور عبرانی Hebrewزبانوں کا تقابلی جائزہ پیش کررہے تھے۔آخر میں مقرر کا شکریہ ادا کیا گیا۔ اس طرح اس تاریک رات میں جب کہ آسمان پر چاند چمک نہیں رہا تھا۔ صرف ستاروں کے جھرمٹ میں میں نے اپنے مشرقی بھائیوں کو سلام کیا اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔

(ریویوآف ریلیجنز 1918ءصفحہ 76-77)

الفضل 14؍ اگست 29؍ نومبر 10؍ نومبر 1917ء میں مندرجہ ذیل انگریز خواتین کے نام درج ہیں جنہوں نے مفتی محمد صادق صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی، مسز جارج(مریم )، مس جارج (معصومہ)، مس ملی(مبارکہ)، مسز ڈورس(عائشہ)۔مسز نیٹموتھ(برکت)مس سِل(میمونہ)، مسز کوریو، مسز ای۔سٹی(جمیلہ)، مس کے ریگن(حسیبہ)، مس سی وِک (فاطمہ)، سز برسلین(مجیدہ) اورمس صالحہ صاحبہ۔

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓکے خط سے یہ خوشخبری موصول ہوئی کہ ایک انگریز لیڈی سے ملاقات ہوئی جو اپنے نو مسلمان دوستوں کی ملاقات سے بے حد متاثر تھیں۔ لمبی گفتگو کے بعد ہر سہ صاحبان احمدی مسلمان ہوئے۔ لیڈی کا اسلامی نا م فاطمہ رکھا گیا۔

( الفضل 13-15؍ جولائی 1918ء)

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے دو لیکچرز ہوئے۔ بعد ازاں ایک معزز خاتون جس کا نام لفظ سپرنگ(Spring )کے ہم معنی ہی’’بہار بیگم‘‘ رکھا گیا۔ ایک اور خاتون حضرت مسیح موعودؑ کے ’’ نبی اللہ‘‘ ہونے کا تحریری اقرار کر کے داخل مصدقین ہوئیں۔

(الفضل6؍اگست 1918ء)

دو نوجوان لیڈیز نے جن کے نام مس فلارمی اور مس ایمنی ہیں، مفتی صاحب کے ہاتھ پر دین اسلام قبول کیا۔

(رپورٹ مرسلہ 31؍اگست 1918ء )

لندن اور دیگر مقامات میں گزشتہ پندرہ بیس دنوں کے درمیان حضرت مفتی صاحب کی تبلیغ سے 6 انگریز مردوں اور 6لیڈیز نے اسلام قبول کیا۔ لیڈیز کے نام یہ ہیں۔

مسز روچ(حسیبہ)، مس مائرہ (زینب)، مس راتیہ بوزن، (مریم)مس والتھیو(عزیزہ )، مسز یڈال(زینب)، مسز نیشن (صدیقہ) مس ڈی واکر، مس حنفہ واکراورمس جلڈھر سٹ۔

(رپورٹ محمد صادق 28؍ اکتوبر1918ء )
(الفضل قادیان 1918ء)

1919ء میںحضرت عبداللہ قاضی صاحبؓ
کے ہاتھ پر بیعت لینے والی انگریز خواتین

لیڈی مسز ایتھل (سکینہ )مس المہ برو(علیمہ) مس انہ وارڈ (زینب)مسز میریولیم (مریم)، مس گورڈن(جمیلہ)مس ٹسکر(سعیدہ) مس نیلی ٹیلر(نور) مس j.۔ کارڈن، مس بیرل (نُور)، مس پارکر(مریم)، مسز ہنری(مدحت)، مس پیئرس(فاطمہ)، مس اولنے(عزیزہ)، مس اولنے(عنایت)، مس این ویرہ(حسیبہ)، مس ڈی مارس(دیانت)، مس پارکر(نُور)، مس ای بسیٹ(ماجدہ)، مسز الیس سالز(عالیہ)، مس گُر(امینہ)، مس بساؤتھ(مریم)، مس رزیٹہ ہوبسن(گلاب دی)، مس الیزہ گیبل(امینہ)، مس اولیور(امینہ)مس لیلین(انکو عربی بھی آتی تھی)، مس این مے(عائشہ )، مس ایل ولسن(فاخرہ)، مسز ایس روبرٹ سکاٹ(مجیدہ) اورفرح عبد اللہ۔

دسمبر1919ء دو ہفتوں کے دوران چودہ انگریز احمدیت کی آغوش میں اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان تھا کہ دسمبر 1919ء کے اواخر میں صرف دو ہفتوں کے دوران 14 انگریز احمدیت میں داخل ہوئے۔

(رپورٹ قاضی محمد عبداللہ صاحب 19؍ فروری 1919ء )
(نیّر احمدیت صفحہ 102-103)

ان کے اسماءگرامی یہ ہیں:
مس لینا بلیا(آمنہ)، مسز جینی نیگی (حمیدہ)، مس ایڈتھ شارٹ (فاطمہ )، مسز الیزا ہر برٹ کرپس (سلیمہ)، مسز ایمی ریمنڈ(خدیجہ)، مسز میری جین یسلر(فاطمہ)، مسز لیلہ سلیک (آمنہ )، مس کیتلین پیرسن (مریم)، مس آلولی ڈبلیو گیل (سعیدہ)، مس کاگنس ڈیویس (امینہ)، مس کاتلین پرسن (زینب)، مسز ایڈتھ ڈینمور(عائ حضرت مفتی صاحب کچھ عرصہ لندن میں قیام فرمانے کے بعد1920ءکے شروع میں امریکہ تشریف لے گئے اور حضرت خلیفۃ المسح الثانی ؓ کے حکم سے چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ، دوبارہ حضرت مولوی عبدالرحیم نیّر صاحبؓ کے ساتھ 6؍ اگست 1919ءکو لند ن پہنچے۔

1920ء میں ہونے والی بیعتیں

1920ء کے آغازمیں میں دو مبلغین حضرت فتحِ محمد سیالؓ اور حضرت نیّر احمد صاحبؓ نے جگہ جگہ تبلیغی لیکچر بھی دئے اور رابطے بھی کئے جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ہفتے میں حضرت فتحِ محمد صاحب سیال صاحب کوتین پھل عطاکئے ان کی تفصیل حاضر ہے۔ الحمدللّٰہ علی ذ الک۔ ان کے اسماء درج ذیل ہیں:
1۔مسز اوبل ودے اور اسلامی نام صالحہ ہے، 3 . مس مارجر ایلس مارگن، اسلامی نام صالحہ، مس مارجر ایلس 3۔ مسز ہیٹی ٹامس اسلامی نام سائرہ۔

(الفضل 1920ء)

مسز گوٹروڈباٹملے آٹھ ماہ زیر تبلیغ رہنے اور احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کرنے کے بعد 20؍ اپریل 1920ء کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہوئیں۔ موصوفہ کا اسلامی نام حمیدہ رکھا گیا۔

(نیّر احمدصفحہ 103-104)

1923ء میں احمدیت کی آغوش میں
آنے والی سعید روحوں کی سرگرمیاں

شروع میں اگرچہ لجنہ اماء اﷲ کی تنظیم قائم نہ تھی۔ مگراحمدیت کی آغوش میں آنے والی یہ سعید روحیں مبلغّین سلسلہ کی ہدایات پر عمل در آمد کر رہی تھیں 1922ء میں قادیان میں لجنہ کی تنظیم قائم ہونے کے بعد انہی مبلغّین کی رہ نمائی میں وہ سارے کام سر انجام دینے لگیں جیسے کہ قادیان میں لجنہ کی تنظیم قائم ہونے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایات کی روشنی میں انجام پذیر ہو رہے تھے۔گویا کہ ایک لحاظ سے لجنہ کی تنظیم شروع ہو چکی تھی اور یہ سارے صفحات لجنہ لندن کی ابتدائی مساعی کے آئینہ دار ہیں۔نظامِ جماعت اور یہاں بسنے والے چند گھرانوں کے ذریعہ وہ سارے کام ہورہے تھے جو بعد میں منظم طریق سے انجام پانے لگے اور انکی رپورٹیں بھی قلمبند کی جانے لگیں۔ مثلاً تعلیم و تربیت، مال، ضیافت، خدمتِ خلق، تبلیغ وغیرہ۔

لیکن گاہے بگاہے رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وہ کام جو منظم طور پر لجنہ اماء اللہ قادیان اور پھر ربوہ میں ہو رہے تھے۔ وہ یہاں لندن میں لجنہ کی تنظیم قائم ہونے کے بغیر ہو رہے تھے۔ مثلاً جلسے، تعلیمی کلاسز، بچوں کے مقابلہ جات، تبلیغی سرگرمیاں، ہر قسم کے چندہ جات میں حصہ لینا۔جوبلی فنڈ جمع کیا۔ یہاں تک کہ جب نئے احمدی ہونے والی فہرستوں پر نظر ڈالتے ہیں تو احمدیت کی آغوش میں آنے والی بھی زیادہ تر خواتین ہی ہیں ذیل میں چند جھلکیاں ان پروگراموں کی دی جا رہی ہیں۔ 1925ء میں مسجد کی کھدائی میں حصہ لینے والی امۃ السلام بھی تھیں۔

ہفتہ وار تربیتی پروگرام
انگلستان

اتوار کے دن ایک مستقل تربیتی و تعلیمی پروگرام ہوتاجس میں باقاعدہ جلسہ کا اہتمام کیا جاتا۔یہ پروگرام اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مقبول تھے اور کثیر تعداد میں لوگ ان پروگراموںمیں شمولیت کرتے۔

(نیّر احمدیت صفحہ 102)

نو مبائعین کا اخلاص اور جوش تبلیغ

حضرت نیر صاحب رقم طراز ہیں کہ:
مسز نجمہ بیرو کی تحریک سے مسز پورٹر نامی ایک معمر خاتوں اسلام کی آغوش میں ا ٓئیں اور اب مسز پورٹر اپنے زیر اثر لوگوں کو برابر یہاں بھیجتی ہیں۔ فاطمہ کیتلین احمدیت کا پیغام ہر موقع پر پہنچانے کی شائق ہے اور باوجود غربت کے نہایت مخلص آنریری مبلغ ہے۔ یہ لڑکی وائی۔ایم۔ سی۔اے میں عارضی کام کرنے کے لئے گئی تھی۔وہاں انہوں نے کہا تم بطور ایک مسیحی لڑکی کے خوب کام کرو گی۔ فاطمہ نے جواب دیا۔ میں دیانت سے کام کروں گی مگر میں مسیحی نہیں، میں مسلمان ہوں۔

(نیّر احمدیت صفحہ 103-104)

انگریز احمدی بچوں کا دن

موٴرخہ 4؍ جنوری 1920ء کو برٹش احمدیہ ٹرسٹ کمیٹی کے زیر اہتمام احمدی بچوں کیلئے بچوں کا دن منعقد ہوا جس میں والدین بھی مدعو تھے۔ ننھے مُنّےاحمدی انگریز بچوں نے قرآن کریم کی سورۃ نحل سے چند منتخب آیات زبانی حفظ کر کے اجلاس میں تلاوت کیں۔ بعد ازاں انعامات تقسیم کئے گئے نیز جملہ حاضرین کی چائے کیک اور مٹھائی وغیرہ سے تواضع کی گئی۔

یہ امر بھی قابل ذ کر ہے کہ اس تقریب کے تمام اخراجات بھی مقامی چندہ سے پورے کئے گئے۔ اس تقریب میں انعامات پانے والے بچوں کے اسماء درج ذیل ہیں:
1.سعیدہ فیتھ 2.فا طمہ فیتھ 3.ر بیکا فیتھ 4.فہمیدہ فیتھ 5.فرید کار 6.وحید کار 7.لیلیٰ کار 8.فاطمہ کار 9.ایڈی خان 10.اے۔ایچ۔خان 11.ڈی محمد 12.بشیر باٹملے

(نیّر احمدیت صفحہ 107-108)

مکرم محمد سلمان فیتھ کے سارے گھرانے کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق نصیب ہوئی۔یہ گھرانہ 5افراد پر مشتمل تھا۔ ان کے تین بچے ایک لڑکا اور دو لڑکیاں تھیں۔

گھر کا ماحول خالصتاً دینی تھا۔جہاں ہر وقت قال اللہ اور قال الرسول کی باتیں ہوتی رہتیں اور ساری دنیا میں دعوت الی اللہ کا پیغام پہنچانے کے معاملات زیر بحث رہتے۔ جس کے باعث ننھی بچیاں بھی احمدیت کی تعلیم سے منور تھیں۔ ان کی ایک بچی ربیکا فیتھ سعیدہ کے بارے میں حضرت نیّر صاحبؓ نے حسب ذیل واقعہ تحریر فرمایا۔

ہماری ننھی ربیکا بہت ذہین بچی ہے۔ خوب سمجھدار ہے چشم بددور ہوشیار بھولی اور بہت پیاری لڑکی ہے۔۔ اس بچی نے ایک دن اپنی استانی سے سوال کیا۔

آپ صرف یسوع کی نسبت باتیں کرتی ہیں آ پ کیوں نہیں محمد ؐ اور احمد (علیہ السلام) کا فکر کرتیں۔(اس پر اُستانی نے حیرت سے کہا) ربیکا ! تم نے کیا کہا۔ میں سمجھی نہیں۔اس کے بعد بچی خاموش رہی مگر اس ننھے قلب کے اندر کیا ہے؟اس چھوٹے سفید پرندے کو مسیح موعودؑ نے کس طرح پکڑا ہے۔ ان کا جواب ننھی سعیدہ کا سوال ہے۔

(الحکم 31؍ جنوری 1906ء)

ان خواتین میں دین کا علم حاصل کرنے کی ایک لگن تھی۔علمی قابلیت بڑھانے کا بہتر ذریعہ خطوط سے رابطہ کا تھا۔ مبلغین کرام اپنی رپوٹوں میں اکثر اوقات ان خطوط کا ذکر کرتے تھے۔ جماعت کے رسالوں اور اخبارات میں یہ خطوط شائع بھی ہو جاتے تھے۔ عاجزہ نے لائبریری میں جاکر کچھ خطوط جمع کئے تھے۔ نمونہ کے لئے چند خطوط اس مضمون میں شامل کر رہی ہوں۔

خطوط از نو مبائعین

1913ء میں حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ انگلستان تشریف لائے۔اس کے بعد سے جو پھل حاصل ہونے شروع ہوئے ان کے دستاویزی ثبوت کے طور پر ان میں سے پہلی خاتون کا ذکر اس مندرجہ ذیل خط سے ملتا ہے جس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔

چوہدری فتح محمد سیال صاحب کے زمانہ میں بیعت کرنے والی انگریز احمدی خواتین کے خطوط
ایک انگریز احمدی خاتون کا خط

ہمارے رسالے کے پڑھنے والی بیبیاں یہ سن کر بہت خوش ہوں گی کہ انگلستان میں احمدی سلسلہ بڑھ رہا ہے۔ اس وقت تک اس سلسلہ میں تین بیبیاں شریک ہوچکی ہیںاور حُسن ظن رکھتی ہیں۔ ولایت کی احمدی خواتین میں سے ایک نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے حضور جو خط لکھا ہے وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ اس سے معلوم ہو گا کہ کیسے نیک اور پاک خیالات اس معزز بی بی کے ہیں۔ میں اس رسالہ کے ذریعہ تمام احمدی بہنوں کو ان کا سلام پہنچاتا ہوں اوروہ خط یہ ہے:
’’حضور والا ! میں اس خوشی کا کس طرح اظہار کروں جو مجھے یہ بات معلوم کر کے محسوس ہوئی ہے کہ حضور نے مجھے احمدی جماعت میں شامل ہونے کے قابل سمجھا۔ حضور میں سچی مسلمان بننا چاہتی ہوں اور ایسی ہونا چاہتی ہوں کہ حضور کی غلامی میں داخل ہو کر میں حضور اور تما م احمدی بھائی بہنوں کی خوشی کا موجب بنوں۔ میں ان لوگوں سے دور ہوں جو میرے دل کے بہت قریب ہیں۔ میرے خیالات اکثر قادیان کی طرف رہتے ہیں۔ میرے لئے حضور دردِ دل سے دعا کریں اور میرے تمام احمدی بھائی بہنوں کو میر ا سلام پہنچا دیں۔‘‘

(رسالہ احمدی خاتون جلد 3؍ دسمبر 1915ءصفحہ 16)

پہلے مبلغ چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ کے زمانہ میں بیعت کرنے والی انگلش احمدی خواتین کے خطوط بنام صوفی غلام محمد صاحب بی اے۔ مبلغ احمدیت ماریشس۔ یہ خطوط انگلش میں تھے اور ان کا ترجمہ اخبار الفضل 1916ء قادیان، جلد 55 صفحہ 7 تا 8 میں ‘‘ لندن سے احمدی انگلش عورتوں کے خطوط’’ کے حوالہ سے شائع ہوا۔ خطوط مرسلہ خاتون حمیدہ از ووکنگ، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ ‘‘ احمدی ہونے والی پہلی لڑکی ہیں۔‘‘

پہلا خط- ووکنگ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


اخی المکرم فی الدین۔ آپ کے شفقت آمیز اور مبارک نامہ کی میں بہت ہی شکر گزار ہوں۔ آپ کے خط کے ملنے سے مجھے بہت دلی خوشی پہنچتی ہے۔ مجھے یہ سن کر بے حد افسوس ہوا کہ مسجد ووکنگ کے لوگوں نے مسیح موعودؑ کی تعلیم سے بالکل قطع تعلق کر لیا ہے۔ یہ مجھے پہلے ہی صاف نظر آرہا تھا۔ جب میں مسجد جاتی تھی تو وہ میرے آنے کو برا سمجھتے تھے اور یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ یہ چاہتے تھے کہ میں جلد ی ہی اس جگہ سے باہر نکل جاؤں۔)دراصل میں نے اسلام کا علم ان مختلف کتابوں سے حاصل کیا ہے جو آپ نے براہ مہربانی مجھے مختلف اوقات میں بھیجی ہیں۔ میں قران شریف کی قرأت یعنی پڑھنا سیکھنے سے مایوس نہیں ہوں۔ اگر منشی (منشی سے مراد نور احمد ملازم خواجہ صاحب ہے) جس نے مجھے قرآن پڑھانے سے انکار کر دیا ہے پڑھاتا رہتا تو میں، کافی قابلیت حاصل کر لیتی۔ لیکن کوئی پرواہ نہیں، ان شاء اللّٰہ آخر کار سب ٹھیک ہو جائے گا۔

دوسرا خط – ووکنگ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ہم کو گرجے کی تعلیم میں تربیت دی گئی تھی اور ہمارا باپ گرجے کا بہت حامی تھا میں بھی بہت مدت تک گرجا میں جاتی رہی اور تمام تعلیم جو پادری اور استاد دیتے تھے، سنتی تھی۔ مگر میرا دل کبھی بھی اس کے ساتھ تسلّی نہیں پکڑتا تھا کہ ایک میں تین خدا کیسے درست اعتقاد ہو سکتا ہے۔ میں نے سارا عہد جدید پڑھا ہے۔مجھے کہیں ایسا فقرہ نہیں ملا جس میں یسوع مسیح نے اپنے تئیں خدا کہا ہو۔ میں نے اپنے آپ سے کئی دفعہ سوال کیا ہے کہ آیا یسوع مسیح خدا ہے؟ لیکن یہی جواب ملا کہ یسوع مسیح صرف نبی اللہ ہے۔ وہ خدا ہرگز نہیں ہے۔ اس وقت مجھے اسلام کی بالکل خبر نہ تھی۔ ویسے میں مسجد کو مدت سے جانتی تھی۔۔ جب میں 16برس کی ہوئی تو مسجد میں چند اشخاص آئے جن کو آپ خوب جانتے ہیں۔ میں بطور تماشہ وعظ سننے گئی۔ و ہاں مسٹر سیال لیکچر دے رہے تھے۔ لیکچر بہت دلچسپ تھا اور یہ میرا وہاں آخری جانا نہ تھا بلکہ میں ہر ہفتہ جاتی اور وعظ سے محظوظ ہوتی، اور ہمیشہ شوق لگا رہتا تھا کہ کب اتوار آوے اور میں وعظ سننے جائوں۔

پھر مجھے مطالعہ کے لئے کتب دی گئیں جو میں نے بغور مطالعہ کیں اور جب میں نے سمجھ لیا کہ اسلام کے متعلق مجھے خوب واقفیت ہو گئی ہے۔ میں نے مسجد میں جا کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور میرا خیال ہے کہ ووکنگ کی لڑکیوں میں سے سب سے پہلے میں مسلمان ہوئی ہوں۔ میرے والد مجھے دیکھنے کے لئے کہ یہ کیسے لوگوں میں جاکر بیٹھتی ہے۔ مسجد میں گئے اور وہاں کے وعظ کو سن کر مسلمان ہو گئے۔ میں آپ سے عرض کرتی ہوں کہ میرے لئے دعا کریں کہ میں اس صداقت کو اپنے بہت سے دوستوں کے سامنے پیش کر سکوں۔

(اخبار الفضل 1916ء جلد 55 صفحہ 7-8)

خطوط- مرسلہ خاتون سلمیٰ از سائوتھ سی
پہلا خط

اخی المحب فی اللّٰہ

السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

’’آپ کا بہت ہی مبارک خط مکتوبہ4 ؍ مئی 1916ء بمع ’’ذیشان‘‘ رسالہ میرے پاس پہنچا۔ ان ہردو کے لیے میں آپ کی بہت ہی ممنون ہوں۔ یہ کہنا نہ ممکن ہے کہ میں ان سے کتنی محظوظ ہوتی ہوں اور ان کے بار بار پڑھنے سے کتنی اورمحظوظ ہوں گی۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہے میں اس کی تعلیم میں بہت ہی کوشاں ہوں۔ مگر میری معلومات محدود ہیں۔ بہت دفعہ میرا دل مغموم ہو جاتا ہے کہ کیوں میں قرآن شریف کی تعلیم، ا حادیث، قوانین اسلام اور کتب مسیح موعودؑ کے مطالعہ میں زیادہ وقت نہیں دے سکتی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اصلی اسلامی گھر میں زندگی بسر کرنا کیسا اعلیٰ ہو گا اور مجھے یقین ہے کہ اسلامی زندگی زمین پر جنت نظیر ہو گی۔ براہ مہربانی میری نیک تمنّائیں، دعائیں اور سلام ماریشیس کے تمام احمدیوں کو پہنچا دیں۔‘‘

دوسرا خط

’’ میں اکثر اپنے تئیں اکیلی محسوس کرتی ہوں کیونکہ اپنے دینی بھائی بہنوں سے بہت دور ہوں۔ وہ دعا جو آپ نے مجھے پڑھنے کے لئے بھیجی ہے۔ میں اس کی بہت شکرگزار ہوں۔ جب میرا دل غم سے مکدر ہوتا ہےتو میں اسے پڑھتی ہوں۔ جب تک میں مختلف حروف کا تلفظ نہ سیکھ لوں، میری حالت بالکل اس بچے کی سی ہے جو کہ غلط الفاظ بولنا شروع کرتا ہے اور اس کو درست کرنا بہت ہی مشکل ہو تا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفہ اوّلؓ اور موجودہ امام، خلیفہ ثانی ؓ تینوں کے فوٹو میرے پاس ہیں۔ میں کس طرح بتائوں کہ مجھے ان سے کتنی محبت ہے۔ الحمدللّٰہ۔ یقین کیجئے کہ میں ضرور دعائیں کرتی رہوں گی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو روحانیت میں روز افزوں ترقی عطا فرمائے۔ ضرور خدا تعالیٰ سے دعا مانگیےکہ اللہ تعالیٰ مجھ کو اشاعت اسلام کے لئے پوری آزادی عطا فرماوے۔ اسلام سے میری زندگی موجزن ہے اور میں چاہتی ہوں کہ وہ دوسروں تک پہنچائوں۔ احمدی احباب ماریشیس کو میرے محبت بھرے جذبات اور سلام پہنچا دیں۔‘‘

حضرت عبدالرحیم نیّر صاحب کے زمانہ میں
احمدی ہونے والی چندنو مسلم احمدی خواتین کے اخلاص نامے

حضرت نیّر صاحب اپنی ایک رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:
ہفتہ رواں میں جن احمدی نو مسلم خواتین کے خطوط ملے یا ملاقات ہوئی ان کی طرف سے دنیا کے احمدیوں کی طرف مفصلہ ذیل پیغامات ہیں۔

1۔ مس سلمہ نے اپنے خط میں لکھا کہ آکسفورڈ میں بہت مصروف ہوں مگر میرے احمدی احباب دین کے لئے تکالیف اٹھانے اور ثبات قدم رکھنے کے باعث میرے دل کی آنکھ کے سامنے رہتے ہیں میرا سب کو سلام پہنچا دیں۔

(نیّر احمدیت صفحہ 97)

حمیدہ باٹملے کا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ
کی خدمت میں بیعت کا خط (سائوتھ سی)

نو مسلمہ حمیدہ باٹملے حضورؓ کی خدمت اقدس میں تحریر کرتی ہیں:
حضرت اقدس! میں یہ عریضہ نیاز حضور میں اس لئے لکھ رہی ہوں کہ حضور میری درخواست بیعت منظور فرما کر مجھے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی عزت بخشیں۔

میں احمدیت کی تعلیم میں اس وقت سے دلچسپی لے رہی ہوں جب سے کہ(وکٹوریہ ا سٹیشن پر شاہ ایران کی آمد کے موقع پر)میں نے مسٹر نیّر سے‘‘ صداقت کی طرف دعوت’’ نام رسالہ لیا اور پھر اس کا مطالعہ کر کے اسے اپنے میاں کو بھیج دیا۔ میرا میاں اس رسالہ کے مطالعہ سے بہت خوش ہوا اور اس نے فوراً مسٹر نیّر سے خط و کتابت شروع کر دی اور سچا احمدی ہو گیا۔ میں بھی صدق دل سے وہی کروں گی جو تمام سچے اور مخلص احمدی کرتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ حضور مجھے سلسلہ احمدیہ میں ایک خادمہ کے طور پر شامل فرمائیں گے اور دعا فرمائیں گے کہ میں اس اچھے کام میں شامل ہو سکوں جو مسٹر سیال اور مسٹر نیرّ یہاں کر رہے ہیں۔

میں حضور کی وفا دار خادمہ
گرٹر لیٹیا حمیدہ باٹملے
(الفضل 30؍ جون 1921ء صفحہ 5)

ایک نو مسلم احمدی خاتون کا اخلاص

حضرت نیّر صاحب اپنی رپورٹ بتاریخ 10؍ جون 1920ء میں رقمطراز ہیں۔

ہماری معزز اور مخلص بہن مس امة اللہ کاکس (Amtullah Cox)یہ خاتون برابر اپنا چندہ دینے اور ہمیشہ علم کو بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ بہت نیک دل ہے۔ جب اس نے ریویو آف ریلیجنز میں حضرت اقدس خلیفۃ المسیح کی اپیل متعلق چندہ لندن مسجد پر ایک بچے کے اپنی تمام پونجی کو اللہ کے راستہ میں دینے کا وعدہ پڑھااور مولوی ابو الہاشم خان کے دلچسپ مضمون کا مطالعہ کیا تو اس کے قلب پر بہت اثر ہوااور وہ دار التبلیغ میں آکر مبلغین سے اس طرح ہمکلام ہوئی:

Send these five shilling to His Holiness for handing over to the boy who gave all his savings with the London Mosque Fund. Let him know that an Ahmadi sister miles away appreciates his action.

یہ پانچ شلنگ حضرت اقدس کی خدمت میں بھیج دیںتاحضور یہ رقم اس لڑکے کو دے دیں جس نے اپنی تمام پونجی لندن مسجد کے چندہ میں دے دی۔ تا اس لڑکے کو علم ہو کہ میلو ں کے فاصلے پر ایک احمدی بہن اس کی اس نیکی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

(نیّر احمدیت صفحہ123-124)

ایک انگریز خاتون کا جو ش تبلیغ
السلام علیکم ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ

’’ میں آپ کی اطلاع کے لئے لکھتی ہوں کہ دو ہفتہ ہوئے ایک لیڈی جو ایک عرب کی بیو ی ہے میرے پاس آئی اور کہا کہ مجھے اسلام کی تعلیم سے آگاہ کرو۔ میں نے اسے اور کتابیں پڑھنے کے لئے دیں اور بعض مسائل زبانی تشریح کے سمجھائے۔ وہ ایک عرصہ سے برابر میرے پاس آتی رہی اور اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں مصروف رہی ہے اور آخر آج اس نے سچے دل سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار کیااور بیعت فارم پر دستخط کر دئیے ہیں۔

مسز عائشہ نور
(نیّر احمدیت صفحہ 127)

نومسلمہ میبل ایمی صفیہ کا اخلاص نامہ

موصوفہ حضرت نیّر صاحبؓ کے نام تحریر کرتی ہیں:
میں مطالعہ میں مصروف ہوں اور مذہبی معلومات میں ترقی کر رہی ہوں۔ میں نے نما ز پڑھنی شروع کردی ہے مگر اچھی طرح نماز پڑھنے کے لئے بہت کچھ سیکھنا ہے۔

پیارے بھائی میں محسوس کرتی ہوں کہ اپنی تبدیلی مذہب کے وقت سے گویا نئی دنیا میں ہوں۔ لاریب اسلام بہترین مذہب ہے اور میں اللہ کی مدد کے ساتھ ایمان کو جان کے ساتھ رکھوں گی اور اپنے لڑکے کی بھی اسی دین و طریق کے مطابق تربیت کروں گی۔

آپ کی دینی بہن
میبل ایمی صفیہ
(نیرِ احمدیت صفحہ 129)

ان خطوط کو پڑھ کراس وقت کے مبلغین کی مساعی اور سعیدروحوں کے جذبہ ایمانی کو جان کر ایمان تازہ ہوتا ہے۔

(ناصرہ رشید۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

مسجدنورمیں خلافت ثانیہ کے انتخاب کی روئیداد

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ