• 29 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کے بیان فرمودہ لغوی معارف

’’رَبٌّ‘‘ اور’’أَبٌ‘‘ کے کلمات میں معنوی فرق

ایک عیسائی نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ اسلام پر عیسائی مذہب کو یہ فضیلت ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کا نام باپ بھی آیا ہے اور یہ نام نہایت پیارا اور دلکش ہے اور قرآن میں یہ نام نہیں آیا۔ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں آئے ہوئے لفظ ’’رَبٌّ‘‘ اور باپ کے لئے استعمال ہونے والے عربی لفظ ’’أَبٌ‘‘ کے معانی بیان فرمائے ان کے فرقوں سے عظیم لغوی معارف بیان فرمائے جو قارئین کی نظر کئے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام لفظ رب کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ایک اور لفظ کی چند خوبیاں بیان کرتے ہیں سو وہ لفظ ربّ کا ہے جو قرآنی الفاظ میں سے ہم نے لیا ہے۔ یہ لفظ قرآن شریف کی پہلی ہی سورة اور پہلی ہی آیت میں آتا ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہ فرماتا ہے: ’’الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‘‘ (الفاتحہ: 2)۔ لسان العرب اور تاج العروس میں جو لُغت کی نہایت معتبر کتابیں ہیں لکھا ہے کہ زبان عرب میں رب کا لفظ سات معنوں پر مشتمل ہے اور وہ یہ ہیں۔ مالک۔ سیّد۔ مدبر۔ مربی۔ قیّم۔ منعم۔ متمم۔ چنانچہ ان سات معنوں میں سے تین معنی خدا تعالیٰ کی ذاتی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔

منجملہ ان کے مالک ہے اور مالک لغت عرب میں اس کو کہتے ہیں جس کا اپنے مملوک پر قبضہ تامہ ہو اور جس طرح چاہے اپنے تصرف میں لاسکتا ہو اور بلا اشتراک غیر اس پر حق رکھتا ہو اور یہ لفظ حقیقی طور پر یعنی بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خدا تعالیٰ کے کسی دوسرے پر اطلاق نہیں پاسکتا کیوں کہ قبضہ تامہ ہو اور تصرف تمام اور حقوق تامہ بجز خدا تعالیٰ کے اور کسی کے لئے مسلّم نہیں۔

اور سیّد لُغت عرب میں اُس کو کہتے ہیں جس کا تابع ایک ایسا سواد اعظم ہو جو اپنے دلی جوش اور اپنی طبعی اطاعت سے اس کے حلقہ بگوش ہوں سو بادشاہ اور سید میں یہ فرق ہے کہ بادشاہ سیاست قہری اور اپنے قوانین کی سختی سے لوگوں کو مطیع بناتا ہے اور سید کے تابعین اپنی دلی محبت اور دلی جوش اور دلی تحریک سے خود بخود متابعت کرتے ہیں اور سچی محبت سے اس کو سیّدنا کر کے پکارتے ہیں اور ایسی متابعت بادشاہ کی اس وقت کی جاتی ہے کہ جب وہ بھی لوگوں کی نظر میں سید قرار پاوے۔ غرض سیّد کا لفظ بھی حقیقی طور پر بلحاظ اس کے معنوں کے بجز خدا تعالیٰ کے کسی دوسرے پر بولا نہیں جاتا کیونکہ حقیقی اور واقعی جوش سے اطاعت جس کے ساتھ کوئی شائبہ اغراض نفسانیہ کا نہ ہو بجز خدا تعالیٰ کے کسی کے لئے ممکن نہیں۔ وہی ایک ہے جس کی سچی اطاعت روحیں کرتی ہیں کیونکہ وہ ان کی پیدائش کا حقیقی مبدا ہے۔ اس لئے طبعاً ہر یک روح اس کو سجدہ کرتی ہے بت پرست اور انسان پرست بھی اس کی اطاعت کے لئے ایسا ہی جوش رکھتے ہیں جیسا کہ ایک موحّد راستباز مگر انہوں نے اپنی غلطی سے اور قصور طلب سے اس زندگی کے سچے چشمہ کو شناخت نہیں کیا بلکہ نابینائی کی وجہ سے اس اندرونی جوش کو غیر محل پر وضع کر دیا تب کسی نے پتھروں کو اور کسی نے رام چندر کو اور کسی نے کرشن کو اور کسی نے نعوذ باللہ ابن مریم کو خدا بنا لیا۔ لیکن اس دھوکہ سے بنایا کہ شاید وہ جو مطلوب ہے یہ وہی ہے۔ سو یہ لوگ مخلوق کو حق اللہ دے کر ہلاک ہوگئے۔ ایسا ہی اس حقیقی محبوب اور سیّد کی روحانی طلب میں ہوا پرستوں نے دھوکے کھائے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں بھی ایک محبوب اور ایک حقیقی سید کی طلب تھی مگر انہوں نے اپنے دلی خیالات کو اچھی طرح شناخت نہ کر کے یہ خیال کیا کہ وہ حقیقی محبوب اور سید جس کو روحیں طلب کر رہی ہیں اور جس کی اطاعت کے لئے جانیں اچھل رہی ہیں وہ دنیا کے مال اور دنیا کے املاک اور دنیا کی لذات ہی ہیں مگر یہ ان کی غلطی تھی بلکہ روحانی خواہشوں کا محرک اور پاک جذبات کا باعث وہی ایک ذات ہے جس نے فرمایا ہے: ’’وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ‘‘ (الذاریات: 57) یعنی جن اور انس کی پیدائش اور ان کی تمام قویٰ کا میں ہی مقصود ہوں وہ اسی لئے میں نے پیدا کئے کہ تا مجھے پہچانیں اور میری عبادت کریں سو اس نے اس آیت میں اشارہ کیا کہ جن وانس کی خلقت میں اس کی طلب و معرفت اور اطاعت کا مادہ رکھا گیا ہے اگر انسان میں یہ مادہ نہ ہوتا تو نہ دنیا میں ہوا پرستی ہوتی نہ بت پرستی نہ انسان پرستی کیونکہ ہریک خطا صواب کی تلاش میں پیدا ہوا ہے۔ غرض سیادت حقیقی اُسی ذات کے لئے مسلّم ہے اور وہی واقعی طور پر سیّد ہے۔

اور منجملہ ان تین ناموں کے جو خدا تعالیٰ کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں مُدّبر بھی ہے اور تدبیر کے معنی ہیں کہ کسی کام کے کرنے کے وقت تمام ایسا سلسلہ نظر کے سامنے حاضر ہو جو گذشتہ واقعات کے متعلق یا آئندہ نتائج کے متعلق ہے اور اس سلسلہ کے لحاظ سے وضع شیئ فی محلّہ ہو اور کوئی کارروائی حکمت عملی سے باہر نہ ہو اور یہ نام بھی اپنے حقیقی معنوں کی رو سے بجز خدا تعالیٰ کے کسی غیر پر اطلاق نہیں پاسکتا کیونکہ کامل تدبیر غیب دانی پر موقوف ہے اور وہ بجز خدا تعالیٰ کے کسی کے لئے مسلّم نہیں۔

اور چار باقی نام یعنے مربی۔ قیّم۔ منعم۔ متمم۔ خدا تعالیٰ کے ان فیوض پر دلالت کرتے ہیں جو بلحاظ اس کی کامل ملکیت اور کامل سیادت اور کامل تدبیر کے اُس کے بندوں پر جاری ہیں۔

چنانچہ مربی کا لفظ بظاہر معنی پرورش کرنے والے کو کہتے ہیں اور کامل طور پر تربیت کی حقیقت یہ ہے کہ جس قدر خلقت انسان کے شعبے باعتبار جسم اور روح اور تمام طاقتوں اور قوتوں کے پائے جاتے ہیں ان تمام شاخوں کی پرورش ہو اور جہاں تک بشریت کی جسمانی اور روحانی ترقیات اس پرورش کے کمال کو چاہتے ہیں ان تمام مراتب تک پرورش کا سلسلہ ممتد ہو ایسا ہی جس نقطہ سے بشریت کا نام اور اسم یا اس کے مبادی شروع ہوتے ہیں اور جہاں سے بشری نقش یا کسی دوسری مخلوق کا نقش وجود عدم سے ہستی کی طرف حرکت کرتا ہے اس اظہار اور ابراز کا نام بھی پرورش ہے پس اس سے معلوم ہوا کہ لغت عرب کے رو سے ربوبیت کے معنے نہایت ہی وسیع ہیں اور عدم کے نقطہ سے مخلوق کے کمال تام کے نقطہ تک ربوبیت کا لفظ ہی اطلاق پاتا ہے اور خالق وغیرہ الفاظ رب کے اسم کی فرع ہیں۔

اور قیم کے معنی ہیں نظام کو محفوظ رکھنے والا۔

اور منعم کے یہ معنی ہیں کہ ہریک قسم کا انعام اکرام جو انسان یا کوئی دوسری مخلوق اپنی استعداد کی رو سے پاسکتی ہے اور بالطبع اس نعمت کے خواہاں ہے وہ انعام اس کو عطا کرے تا ہریک مخلوق اپنے کمال تام کو پہنچ جائے جیسا کہ اللہ جلّ شانہ ایک جگہ فرماتا ہے: قَالَ رَبُّنَا الَّذِیۡۤ اَعۡطٰی کُلَّ شَیۡءٍ خَلۡقَہٗ ثُمَّ ہَدٰی ﴿۵۱﴾ (طہ: 51) یعنے وہ خدا جس نے ہریک چیز کو اس کے مناسب حال کمال خلقت بخشا اور پھر اس کو دوسرے کمالات مطلوبہ کے لئے رہنمائی کی پس یہ انعام ہے کہ ہریک چیز کو اول اس کے وجود کی رو سے وہ تمام قویٰ وغیرہ عنایت ہوں جن کی وہ چیز محتاج ہے پھر اس کے حالات مترقبہ کے حصول کے لئے اس کو راہیں دکھائی جائیں۔

اور متمم کے یہ معنی ہیں کہ سلسلہ فیض کو کسی پہلو سے بھی ناقص نہ چھوڑا جائے اور ہریک پہلو سے اس کو کمال تک پہنچایا جائے۔

سو ربّ کا اسم جو قرآن کریم میں آیا ہے جس کو ہم اقتباس کے طور پر اس خطبہ کے اول میں لائے ہیں ان وسیع معنوں پر مشتمل ہے جن کو ہم نے بطور اختصار اس مضمون میں ذکر کیا ہے۔

اب ہم نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ ایک ناسمجھ انگریز عیسائی نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ اسلام پر عیسائی مذہب کو یہ فضیلت ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کا نام باپ بھی آیا ہے اور یہ نام نہایت پیارا اور دلکش ہے اور قرآن میں یہ نام نہیں آیا۔

مگر ہمیں تعجب ہے کہ اس معترض نے اس تحریر کے وقت پر یہ خیال نہیں کیا کہ لغت نے کہاں تک اس لفظ کی عزت اور عظمت ظاہر کی ہے کیونکہ ہریک لفظ کو حقیقی عزت اور بزرگی لغت سے ہی ملتی ہے اور کسی انسان کو یہ اختیار نہیں کہ اپنی طرف سے کسی لفظ کو وہ عزت دے جو لغت اس کو دے نہیں سکی اسی وجہ سے خدا تعالیٰ کا کلام بھی لغت کے التزام سے باہر نہیں جاتا اور تمام اہل عقل اور نقل کے اتفاق سے کسی لفظ کی عزت اور عظمت ظاہر کرنے کے وقت اول لغت کی طرف رجوع کرنا چاہیئے کہ اس زبان نے جس زبان کا وہ لفظ ہے یہ خلعت کہاں تک اس کو عطا کی ہے اب اس قاعدہ کو اپنی نظر کے سامنے رکھ کر جب سوچیں کہ ’’أَبٌ‘‘ یعنی باپ کا لفظ لُغت کی رو سے کس پایہ کا لفظ ہے تو بجز اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ جب مثلاً ایک انسان فی الحقیقت دوسرے انسان کے نطفہ سے پیدا ہو مگر پیدا کرنے میں اس نطفہ انداز انسان کا کچھ بھی دخل نہ ہو تب اس حالت میں کہیں گے کہ یہ انسان فلاں انسان کا ’’أَبٌ‘‘ یعنی باپ ہے اور اگر ایسی صورت ہو کہ خدائے قادر مطلق کی یہ تعریف کرنی منظور ہو جو مخلوق کو اپنے خاص ارادہ سے خود پیدا کرنے والا خود کمالات تک پہنچانے والا اور خود رحم عظیم سے مناسب حال اس کے انعام کرنے والا اور خود اس کا حافظ اور قیّوم ہے تو لغت ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ اس مفہوم کو ’’أَبٌ‘‘ یعنی باپ کے لفظ سے ادا کیا جائے بلکہ لغت نے اس کے لئے ایک دوسرا لفظ رکھا ہے جس کو ربّ کہتے ہیں جس کی اصل تعریف ابھی ہم لغت کی رو سے بیان کر چکے ہیں اور ہم ہرگز مجاز نہیں کہ اپنی طرف سے لغت تراشیں بلکہ ہمیں انہیں الفاظ کی پیروی لازم ہے جو قدیم سے خدا کی طرف سے چلے آئے ہیں پس اس تحقیق سے ظاہر کہ ابْ یعنی باپ کا لفظ خدائے تعالیٰ کی نسبت استعمال کرنا ایک سوء ادب اور ہجو میں داخل ہے۔

اور جن لوگوں نے حضرت مسیح کی نسبت یہ الزام گھڑا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کو اَبْ کر کے پکارتے تھے اور درحقیقت جناب الٰہی کو اپنا باپ ہی یقین رکھتے تھے انہوں نے نہایت مکروہ اور جھوٹا الزام ابن مریم پر لگایا ہے کیا کوئی عقل تجویز کرسکتی ہے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح ایسی نادانی کے مرتکب ہوئے کہ جو لفظ اپنے لغوی معنوں کی رو سے ایسا حقیر اور ذلیل ہو جس میں ناطاقتی اور کمزوری اور بے اختیاری ہریک پہلو سے پائی جائے وہی لفظ حضرت مسیح اللہ جلّ شانہ کی نسبت اختیار کریں۔ ابن مریم علیہ السلام کو یہ اختیار ہرگز نہیں تھا کہ اپنی طرف سے لغت تراشی کریں اور لغت تراشی بھی ایسی بے ہودہ جس سے سراسر جہالت ثابت ہو۔ پس جس حالت میں لغت نے ’’أَبٌ‘‘ یعنی باپ کے لفظ کو اس سے زیادہ وسعت نہیں دی کہ کسی نر کا نطفہ مادہ کے رحم میں گرے اور پھر وہ نطفہ نہ گرانے والے کی کسی طاقت سے بلکہ ایک اور ذات کی قدرت سے رفتہ رفتہ ایک جاندار مخلوق بن جائے تو وہ شخص جس نے نطفہ گرایا تھا لغت کی رو سے ’’أَبٌ‘‘ یا باپ کے نام سے موسوم ہوگا اور ’’أَبٌ‘‘ کا لفظ ایک ایسا حقیر اور ذلیل لفظ ہے کہ اس میں کوئی حصہ پرورش یا ارادہ یا محبت کا شرط نہیں۔۔۔ اب جبکہ اَبْ کے لفظ یعنی باپ کے لفظ میں دنیا کی تمام لغتوں کی رو سے یہ معنی ہرگز مراد نہیں کہ وہ باپ نطفہ ڈالنے کے بعد پھر بھی نطفہ کے متعلق کچھ کار گذاری کرتا رہے تا بچہ پیدا ہوجائے یا ایسے کام کے وقت میں یہ ارادہ بھی اس کے دل میں ہو اور نہ کسی مخلوق کو ایسا اختیار دیا گیا ہے بلکہ باپ کے لفظ میں بچہ پیدا ہونے کاخیال بھی شرط نہیں اور اس کے مفہوم میں اس سے زیادہ کوئی امر ماخوذ نہیں کہ وہ نطفہ ڈال دے بلکہ وہ اسی ایک ہی لحاظ سے جو نطفہ ڈالتا ہے لغت کی رو سے ’’أَبٌ‘‘ یعنی باپ کہلاتا ہے تو کیونکر جائز ہو کہ ایسا ناکارہ لفظ جس کو تمام زبانوں کا اتفاق ناکارہ ٹھہراتا ہے اس قادر مطلق پر بولا جائے جس کے تمام کام کامل ارادوں اور کامل علم اور قدرت کاملہ سے ظہور میں آتے ہیں اور کیوں کر درست ہو کہ وہی ایک لفظ جو بکرے پر بولا گیا۔ بیل پر بولا گیا۔ سؤر پر بولا گیا۔ وہ خدا تعالیٰ پر بھی بولا جائے یہ کیسی بے ادبی ہے۔۔۔ اب سمجھنا چاہیئے کہ ’’أَبٌ‘‘ یا باپ کا لفظ جس کو ناحق بے ادبی کی راہ سے عیسائی نادان خدا تعالیٰ پر اطلاق کرتے ہیں لغات مشترکہ میں سے ہے یعنی ان عربی لفظوں میں سے ہے جو تمام ان زبانوں میں پائے جاتے ہیں جو عربی کی شاخیں ہیں اور تھوڑے تغیر و تبدل سے ان میں موجود ہیں چنانچہ درحقیقت فادر اور پتا اور باپ اور پدر وغیرہ اسی عربی لفظ کی خراب شدہ صورتیں ہیں جس کو ہم ان شاء اللّٰہ اپنے محل پر بیان کریں گے اور لغت کی رو سے یہ لفظ چار مادوں کے لحاظ سے بنایا گیا ہے۔

(1)۔ اباء سے کیونکہ اباء اس پانی کو کہتے ہیں جو ختم نہ ہو چونکہ نطفہ کا پانی مدت دراز تک مرد میں پیدا ہوتا رہتا ہے اور اسی پانی سے حکیم ذوالجلال بچہ پیدا کرتا ہے۔ اس لئے اس پانی کا منبع اب کے نام سے موسوم ہوا اور اسی لحاظ سے عرب کے لوگ عورت کی شرم گاہ کو بھی ابو دارس کہتے ہیں اور دارس حیض کا نام ہے یعنی حیض کا باپ چونکہ حیض بھی ایک مدت دراز تک منقطع نہیں ہوتا۔ اس لئے اس کو بھی بطریق مجاز ایک پانی تصور کر کے عورت کی شرم گاہ کا نام ابودارس رکھا گیا ہے گویا وہ بھی ایک کنواں ہے جس کا پانی منقطع نہیں ہوتا۔

اور دوسرے ابی کے لفظ سے نکالا گیا ہے کیونکہ ابی کے معنی لغت میں رک جانے اور بس کر جانے کے بھی ہیں چونکہ اس کام میں نر جو باپ کہلاتا ہے صرف نطفہ ڈالنے پر بس کر جاتا ہے اور آگے اس کا کوئی کام نہیں بلکہ اُمّ جس کے معنے اَبْ کی نسبت بہت وسیع ہیں اپنے رحم میں اس نطفہ کو لیتی ہے اور اسی کے خون سے وہ نطفہ پرورش پاتا ہے پس اَبْ کی وجہ تسمیہ میں یہ امر بھی ملحوظ ہے۔

تیسرے اباء کے لفظ سے مشتق ہے کیونکہ اباء سرکنڈہ کو کہتے ہیں چونکہ نر کا عضو تناسل سرکنڈے سے مشابہت رکھتا ہے اس لئے اس کا نام اَبْ یعنی باپ ہوا۔

چوتھے۔ابی کے لفظ سے جو سقوط اشتہاء کو کہتے ہیں چونکہ فراغت کے بعد مرد کی خواہش منقطع ہو جاتی ہے اس لئے یہ جزو بھی وجہ تسمیہ اَبْ میں ماخوذ ہے۔

غرض یہ چار جزو ہیں جو اُس قانون قدرت میں پائی جاتی ہیں جو باپ کے متعلق ہے لہٰذا انہیں کی بناء پر اَبْ کا نام اَبْ رکھا گیا اور جبکہ اَبْ کا وجہ تسمیّہ معلوم ہو چکا تو دوسری زبانوں میں جو اس کے عوض میں نام بولا جاتا ہے جیسا کہ باپ یا فادر یا پدر یا پتا وغیرہ ان کی وجوہ تسمیہ بھی ساتھ ہی معلوم ہو گئیں کیونکہ وہ سب اسی زبان سے نکلی ہیں اور وہ الفاظ بھی درحقیقت عربی بگڑی ہوئی ہے اب ذرا شرم اور حیا سے سوچنا چاہیئے کہ کیا ایسا لفظ جس کی وجوہ تسمیہ یہ ہیں خدا تعالیٰ پر اطلاق کرسکتے ہیں!؟‘‘

(منن الرحمان، روحانی خزائن جلد9 صفحہ152-158 حاشیہ)

(مرزا خلیل احمد بیگ۔استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

تبلیغی اسٹال مجلس انصار للہ ڈنمارک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ