• 29 اپریل, 2024

حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پُر اثر اور قابل توجہ ارشادات کی روشنی میں جلسہ سالانہ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ اور شرکت کی تحریک

’’جلسہ سالانہ ایک بہت بڑا نشان ہے جو ہر سال ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا کی راستباز جماعت کس طرح اُٹھتی ہے‘‘۔حضرت مصلح موعودؓ

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 18نومبر1927ء کو جلسہ میں آنے کی تحریک کرتے ہوئے اور اس سلسلہ میں احباب کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا۔

’’میں ایک طرف تو جماعت کے دوستوں اور سلسلہ کے اخباروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ لوگوں کو جلسہ پر آنے کی تحریک کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آئیں۔ اور اپنے عمل سے خدا کے فضل کے وارث بنیں۔ تا خدا تعالیٰ دکھاوے کہ دشمنی اور کینہ رکھنے والے لوگ سلسلہ کو نقصان نہیں پہنچا سکے۔ دوسری بات ساتھ ہییہ کہنا چاہتا ہوں کہ جتنے زیادہ آدمی جلسہ پر آئیں گے اتنا ہی خرچ زیادہ ہو گا۔ اس لئے قادیان کے لوگوں کو بھی اور باہر کے لوگوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ جو لوگ جلسہ پر آئیں ان کے اخراجات کا انتظام کریں۔ خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے کہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ وَیَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ ۔ کہ دور دور سے تیرے پاس تحائف آئیں گے اور دور دور سے لوگ تیر ے پاس آئیں گے۔ آنے والوں کو خداتعالیٰ نے پیچھے رکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کے متعلق فرماتے تھے کہ یہ اس لئے رکھا ہے کہ مہمان کے لئے سامان پہلے مہیا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ ہماری جماعت کے لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ انہیں یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ کا مصداق بنائے اور وہ سامان مہیا کرنے والے ہوں اور پھر وَیَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق کا نظارہ دیکھیں۔ جن لوگوں کا دل وسیع ہوتا ہے خدا تعالیٰ ان کو وسعت عطا کرتا ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد11 صفحہ248)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ لمبی دیر تک بیٹھنا گراں ہوتا ہے اور انسان دیر تک بیٹھنے سے اکتا جاتا ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دیر تک بولنا اس سے بھی بہت زیادہ مشکل کام ہے پھر اگر ایک شخص باوجود صحت کے نہایت کمزور ہونے اور اس عضو کے ماؤف ہونے کے جس پر کام کا دارومدار ہے متواتر چھ گھنٹے تک بول سکتا ہے تو میں ہرگز یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ دوسرا آدمی اس سے زیادہ دیر تک سننے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا۔ آخر سامنے گیلریوں پر بیٹھنے والے اور سٹیج پر بیٹھنے والے بھی تو شروع سے آخر تک اطمینان سے تقریر سنتے رہے حالانکہ سٹیج پر بیٹھنے والے بو جہ جگہ کی تنگی کے بہت تنگی سے بیٹھے ہوتے ہیں لیکن بعض دوست جو بینچوں پر بیٹھے ہوئے تھے وہ اٹھ کر چلے گئے۔ شاید وہ بینچوں پر بیٹھنا اسی لئے پسند کرتے ہیں کہ اپنی مرضی سے درمیان میں چلے جایا کریں او راپنے وقت کو ضائع کریں۔ میں اس بات کو نہیں سمجھ سکتا کہ جو شخص اپنے وقت اور مال کو خرچ کر کے یہاں آتا ہے وہ اپنے نفس پر کیونکر جبر نہیں کر سکتا اور کس طرح وہ اپنے وقت کو چائے کی دکانوں اور باہر فضول پھرنے پر ضائع کر دیتا ہے۔ اگر چائے پر ہی وقت خرچ کرنا تھا تو وہ یہاں کی نسبت ان کے گھروں میں یا بڑے شہروں کے ہوٹلوں میں بہت اچھی مل سکتی تھی اور اگر یہاں ان کے آنے کی غرض سیر و تفریح تھی تو بہتر تھا کہ بجائے یہاں آنے کے بڑے بڑے شہروں کی سیرگاہوں میں جاتے۔ وہ دہلی چلے جاتے اور وہاں وائسرائے کے مکانوں، بادشاہی عمارتوں کو دیکھتےیا لاہور کی ٹھنڈی سڑک پر سیر کرتے۔ پھر لارنس گارڈن (باغ جناح) میں تفریح حاصل کرتے اور جب چائے کی خواہش ہوتی تو لورینگ (Lorang) (قبل از تقسیم ہند لاہور کا ایک معروف ریستوران) میں جا کر پی لیتے۔ لیکن یہاں آنے کی غرض تو خدا کی باتیں سنناہے۔

اگر یہ غرض مدنظر نہیں تو پھر یہاں آنا بے فائدہ ہے۔ ہاں حاجات بھی انسان کے ساتھ بے شک لگی ہوئی ہیں اور ان کا پورا کرنا بہر حال ضروری ہے۔ حاجت کو روک کر تو نماز بھی جائز نہیں لیکن جب انسان کسی حاجت کی قضاء کے لئے جائے تو وہ حاجت پوری کر کے واپس بھی آسکتا ہے۔ جو دوست واپس نہیں آتے میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا خدا کے کلام سے اتنا ہی متاثر ہونا چاہئے کہ پیشاب کے لئے گئے تو واپس آنا ہی بھول گئے۔ جب ابھی یہاں ہی تمہارے اندر کی یہ حالت ہے تو گھر پہنچنے پر تو بالکل ہی اثر جاتا رہے گا اور سب باتوں کو فراموش کر دو گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پانسو کے قریب غیراحمدی دوست بھی آئے ہوئے ہیں اور تین سو کے قریب دوسرے لوگ ہوں گے لیکن کل جلسہ گاہ سے اٹھنے والے دوست زیادہ تر احمدی ہی تھے۔ پس آج اپنی اصل تقریر شروع کرنے سے پہلے دوستوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ اگر وہ آرام اور اطمینان سے میری تقریر کو سننا چاہتے ہیں تو بیٹھ سکتے ہیں اور اگر درمیان میں بغیر حاجت کے اٹھ کر جانا ہے تو بجائے اس وقت اٹھ کر جانے اور خلل اندازی کے ابھی ہی چلے جائیں تا کہ درمیان میں ان کے اٹھنے سے سامعین کی توجہ میں خلل نہ واقع ہو اور نہ ان کا وقت ضائع ہو۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 9صفحہ 440،439)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے31دسمبر 1915ء کے خطاب میں فرمایا۔
’’جلسہ سالانہ بھی ایک بہت بڑا نشان ہے جو ہر سال ہمیں یہ بتاتا ہے کہ دیکھو خد اکی راستباز جماعت کس طرح اٹھتی اور کامیاب ہوتی ہے اور اس کے مخالف کس طرح ناکام اور نامراد رہتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ قادیان میں ہر وقت ہی جلسہ ہوتا ہے اور ہر وقت ہی لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ پھر یہاں کچھ ہندوستان کے، کچھ پنجاب کے، کچھ افغانستان کے، کچھ بنگال کے، کچھ یورپ کے، کچھ عرب وغیرہ کے لوگ رہتے ہیں جو ہماری صداقت کی دلیل ہیں لیکن سالانہ اجتماع سے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے نتائج حاصل ہوتے ہیں اور وہ یہ کہ جو کوئی خدا کے لئے کھڑا ہوتا ہے خدا اسے ضائع نہیں ہونے دیتا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 4صفحہ 540)

پچھلا پڑھیں

فضائی آلودگی خوشحالی کی دشمن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2019