• 12 مئی, 2025

حضرت سعدؓ بن معاذ انصاری

نام ونسب

ان کا تعلق اوس قبیلہ کی شاخ بنو عبدالاشہل سے تھا اور قبیلہ اوس کے سردار تھے۔ والدہ حضرت کبشہؓ بنت رافع نے بھی رسول اللہ ﷺ کی بیعت اور صحابیت کا شرف پایا۔نہایت مخلص ایثار پیشہ اور وفاشعار خاتون تھیں۔حضرت سعدؓ کی کنیت ابو عمرو تھی۔

(الاصابہ جز2ص 86)

قبول اسلام

حضرت سعدؓ کو مدینہ میں اسلام کے پہلے مبلغ حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی۔
حضرت مصعبؓ نے مدینہ میں اسلام کے پہلے مبلغ کے طور پر بھی تبلیغ کا حق خوب ادا کیا۔ آپ ؓ نے دعوت الی اللہ کے جذبہ سے سرشار ہو کر کمال محنت، اخلاص اور حکمت و محبت کے ساتھ مدینہ کے اجنبی لوگوں سے رابطہ اور اثرورسوخ پیدا کرکے انہیں اسلام سے روشناس کرایا اور تھوڑے ہی عرصہ میں مدینہ کے ہر گھر میں اسلام کا بیج بودیا۔ ایک کامیاب داعی الی اللہ کے طور پر ان کا کردار یقینا آج بھی ہمارے لئے عمدہ نمونہ ہے۔ آپ نے بالکل اجنبی شہر مدینہ میں تبلیغ کا آغاز اس طرح کیا کہ اپنے میزبان اسعد بن زرارہؓ کو ساتھ لے کر انصار کے مختلف محلوں میں جانے لگے۔ وہاں وہ مسلمانوں اور ان کے عزیزوں کے ساتھ مجلس کرتے انہیں دینی تعلیم دیتے اور وہاں آنے والوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ مگر جب لوگوں میں اسلام کا چرچا ہونے لگا تو ایک محلہ کے سردار سعد بن معاذ ؓاور اسید بن حضیرؓ نے ان دونوں داعیان الی اللہ کو اس نئے دین سے باز رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد اسید بن حضیرؓ حضرت مصعبؓ کی مجلس میں نیزہ تھامے داخل ہوئے۔ اسعد بن زرارہؓ نے یہ دیکھتے ہی حضرت مصعبؓ سے سرگوشی کی کہ یہ اپنی قوم کا سردار آتا ہے اسے آج خوب تبلیغ کرنا۔ مصعبؓ بولے کہ اگر یہ چند لمحے بیٹھ کر بات سننے پر آمادہ ہوجائے تو میں ضرور اس سے بات کروں گا۔ ادھراسید بن حضیر سخت کلامی کرتے ہوئے آگے بڑھے اور کہا ‘‘جان کی امان چاہتے ہو تو آئندہ سے ہمارے کمزوروں کو آکر بے وقوف بنانے کا یہ طریقہ واردات ختم کرو۔‘‘

حضرت مصعبؓ نے نہایت محبت سے کہا۔ کیا آپ ذرا بیٹھ کر ہماری بات سنیں گے؟ اگر تو آپ کو بات بھلی لگے تو مان لیجئے اور بری لگے تو بے شک اس سے گریز کریں۔ اُسید منصف مزاج آدمی تھے۔ بولے بات تو تمہاری درست ہے۔ اور پھر نیزہ وہیں گاڑ کر بیٹھ گئے۔ حضرت مصعبؓ نے انہیں قرآن پڑھ کر سنایا اوران تک پیغام حق پہنچایا۔ تو یہ سچی تعلیم سن کر اُسید بے اختیار کہہ اٹھے کہ یہ کیسا خوبصورت کلام ہے! اچھا یہ بتائو اس دین میں داخل ہونے کے لئے کیا کرنا پڑتا ہے؟ اسعد بن زرارہؓ اور مصعبؓ نے انہیں بتایا کہ نہادھو کر اورصاف لباس پہن کر حق کی گواہی دو پھر نماز پڑھو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر اُسیدخود ہی کہنے لگے کہ میرا ایک اور بھی ساتھی ہے۔ یعنی سعد بن معاذؓ اگر وہ مسلمان ہوجائے تو اس کی ساری قوم سے ایک شخص بھی قبول اسلام سے پیچھے نہیں رہے گا۔ اور میں ابھی اسے تمہارے پاس بھیجتا ہوں۔ اور انہوں نے سعدؓ کو نہایت حکمت کے ساتھ مصعبؓ کے پاس بھیجا۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ نے ان کو بھی نہایت محبت اور شیریں گفتگو سے رام کر لیا انہیں قرآن سنایا اور اسلام کا پیغام پہنچایا۔ چنانچہ حضرت سعدؓ نے بھی اسلام قبول کرلیا۔ بلاشبہ یہ دن مدینہ میں اسلام کی فتح کے بنیاد رکھنے والا دن تھا۔ جس روز ایسے عظیم الشان بااثر سرداروں نے اسلام قبول کیا حضرت سعدؓ نے اپنی قوم کو یہ کہہ دیا ‘‘میرا کلام کرنا تم سے حرام ہے جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ۔‘‘ اس طرح عبدالاشہل کا سارا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔

(ابن ہشام جلد 3ص 153)

نڈر داعی الی اللہ

علامہ ابن اثیر نے آپ کے قبول اسلام پر کیا خوب رائے دی ہے کہ حضرت سعدؓ کا قبول اسلام سب لوگوں سے زیادہ برکت کا موجب ہوا کہ ان کی پوری قوم کے مردوں اور عورتوں کو ہدایت نصیب ہوئی جن کی تعداد قریباً ایک ہزار تھی۔ یہ مدینہ کا پہلا محلہ تھا جو پورے کا پورا مسلمان ہوگیا۔

(اسد الغابہ جلد2ص 296،ابن سعد جلد 3ص420)

رسول کریم ﷺ نے ایک روایت کے مطابق حضرت سعدبن ابی وقاص ؓسے آپ کی مؤاخات قائم فرمائی۔ دوسری روایت کے مطابق ان کے حضرت ابوعبیدہؓ بن الجراح کا دینی بھائی بنایا۔

(ابن سعد جلد 3ص 421)

مسلمانوں کیلئے ہجرت مدینہ کے بعد پیدا ہونے والے غیر معمولی اور کٹھن حالات میں حضرت سعدؓ جیسے بااثر سردار مدینہ کا قبول اسلام اہل مدینہ کیلئے ایک نعمت ثابت ہوااور وہ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی طرح رسول اللہ ﷺ کے دست و بازو اور عمدہ مشیر ثابت ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے ان کو سردارانہ شان کے ساتھ حزم و دانش بھی خوب عطا کی تھی اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک نڈر اور بے باک سردار تھے۔

مدینہ کے ابتدائی دور میں طواف کعبہ

سردار مدینہ ہونے کے ناطے آپ کے ذاتی تعلقات سرداران مکہ سے بھی تھے۔ سردار قریش امیہ بن خلف سے تو ایسی گہری دوستی تھی کہ وہ ملک شام وغیرہ کے سفر پر جاتے ہوئے مدینہ میں حضرت سعدؓ کا مہمان ٹھہرتا تھا۔ حضرت سعدؓ مکہ جاتے تو اس کے ذاتی مہمان ہوتے۔رسول کریمؐ کی مدینہ تشریف آوری کے بعد پہلے سال کی بات ہے حضرت سعدؓ عمرہ کرنے مکہ گئے اور اپنے دوست امیہ کے مہمان ٹھہرے لیکن چونکہ وہاں مسلمانوں کی سخت مخالفت تھی اس لئے ازراہ احتیاط اپنے دوست امیہ سے کہا کہ‘‘ کسی مناسب وقت میں جب بیت اللہ میں بہت ہجوم نہ ہومجھے خاموشی سے خانہ کعبہ کا طواف کروادینا۔’’ امیہ ان کو سنسان دوپہر میں طواف کیلئے لے گئے مگر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ سردار مکہ ابوجہل سے آمنا سامنا ہوگیا اور اس نے امیہ سے پوچھ لیا کہ ابو صفوان! یہ تیرے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے بتایا کہ میرے دوست سعدؓ ہیں۔ ابو جہل نے سعدؓ کو مخاطب ہو کر کہا میں تمہیں مکہ میں امن سے طواف کرتے دیکھ رہا ہوں۔ حالانکہ تم لوگوں نے بے دین لوگوں(مسلمانوں) کو پناہ دے رکھی ہے اور ساتھ ان کی مکمل حمایت و مدد کے اعلان بھی کرتے ہو۔ خدا کی قسم! اگر سردار مکہ ابو صفوان تمہارے ساتھ نہ ہوتا تو آج تم اپنے گھر والوں کی طرف صحیح سلامت واپس لوٹ کر نہ جاتے۔
حضرت سعدؓ کی سردارانہ حمیت جاگی اور آپ نے بڑی سختی سے جواب دیا کہ اگر تم نے مجھے طواف بیت اللہ سے روکا تو یاد رکھو میں تمہارا مدینہ سے شام جانے والا تجارتی راستہ روک دوںگا جو تمہارے لئے زیادہ تکلیف دہ اورمشکل ہوگا۔ اس پر حضرت سعدؓ کے دوست امیہ نے معاملہ رفع دفع کرانے کی خاطر کہا کہ اے سعد! سردار مکہ ابو الحکم کے سامنے ایسے سخت لہجے میں بات نہ کرو۔ حضرت سعدؓ نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر امیہ کو مخاطب کرکے کہا کہ تم ہمارے معاملہ میں نہ پڑو خدا کی قسم میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے تم مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو کر رہوگے۔

(بخاری کتاب المغازی ۔ باب غزوۃ العیرۃ)

اس واقعہ سے حضرت سعدؓ کی جرأت و شجاعت کے ساتھ ایمانی غیر ت اور خدا کی ذات پر کامل توکل کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ تن تنہا دشمن کے نرغے میں ہوتے ہوئے بھی کوئی طاقت انہیں حق گوئی سے نہیں روک سکی۔
غزوہ بدر کے موقع پر جب کفار مکہ کے حملہ کا خطرہ تھا نبی کریم ﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ طلب فرمایا کہ آیا مدینہ کے اندر رہ کر اپنا دفاع کیا جائے یا مدینہ کے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ ہو۔ جب مہاجرین میں سے بزرگ صحابہ حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ اور مقدادؓ بن عمرو مشورہ دے چکے تو نبی کریمؐ انصار مدینہ کے ساتھ عقبہ میںکئے گئے معاہدہ کہ وہ مدینہ میں آپ کی حفاظت کریں گے کی روشنی میںان کی رائے بھی لینا چاہتے تھے اس لئے باربار فرماتے کہ ‘‘لوگو مشورہ دو۔‘‘

اطاعت ووفا

تب حضرت سعدؓ بن معاذ نے انصار کی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے عرض کیا۔‘‘ یا رسولؐ اللہ! معلوم ہوتا ہے آپ ہماری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اس پر حضرت سعدؓ نے عرض کیا ہم آپؐ پر ایمان لائے اور آپؐ کی تصدیق کی اور گواہی دی کہ آپؐ کی لائی ہوئی تعلیم برحق ہے اور ہم نے اس پر آپؐ سے پختہ عہد کئے کہ ہمیشہ آپؐ کی بات سن کر فوراً اطاعت کریں گے۔ پس اے خدا کے رسولؐ! آپ کا جوا رادہ ہے اس کے مطابق آپؐ آگے بڑھیں انشاء اللہ آپؐ ہمیں اپنے ساتھ پائیں گے۔ اگر آپؐ اس سمندر میں کود جانے کیلئے ہمیں ارشاد فرمائیں تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور ہم میں سے ایک بھی پیچھے نہیں رہے گا۔اور ہم کل دشمن سے مقابلہ کرنے سے گھبراتے نہیں۔ ہم جنگ میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا خوب جانتے ہیں۔ ہمیں کامل امید ہے کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ ہم سے وہ کچھ دکھائے گا جس سے آپؐ کی آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔ پس اللہ کی برکت کے ساتھ آپؐ جہاں چاہیں ہمیں لے چلیں۔’’ رسول کریمؐ حضرت سعدؓ کی یہ ولولہ انگیز تقریر سن کر بہت خوش ہوئے۔

(ابن ہشام جلد3ص34دارالمعرفتہ بیروت)

جرأت و بہادری

حضرت سعدؓ نے جو کہا وہ پورا کر کے دکھایا۔ رسول کریم ﷺ کے ساتھ بدر، احد اور خندق میں شریک ہوکر خوب داد شجاعت دی۔ غزوہ بدرمیں تو اوس قبیلہ کا جھنڈا ہی حضرت سعدؓ بن معاذ کے پاس تھا۔ جسے اٹھائے وہ اپنے قبیلہ کی قیادت کرتے رہے۔
غزوئہ احد میں جب مسلمانوں کو کفار کے دوبارہ اچانک حملہ سے ہزیمت اٹھانی پڑی تو حضرت سعدؓ ان وفاشعاربہادروں میںسے تھے جورسول اللہ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔

(ابن سعد جلد3ص 421)

غزوہ خندق میں بھی حضرت سعدؓ شریک تھے۔ حضرت عائشہؓ اپنا یہ چشم دید واقعہ بیان کرتی تھیں کہ غزوہ خندق کے موقع پر وہ بنی حارثہ کے قلعہ میں تھیں اور حضرت سعدؓ بن معاذ کی والدہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ اس وقت عورتوں کیلئے پردہ کے احکام نہیں اترے تھے۔ لوگ تیار ہوکر میدان جنگ کیلئے نکل رہے تھے۔ حضرت سعدؓ بھی وہاں سے گزرے انہوں نے لوہے کی ایک مختصر سی زرہ پہنی ہوئی تھی بازوزرہ سے باہر تھے ہاتھ میں نیزہ تھا اور یہ شعر پڑھتے میدان جنگ کی طرف رواں دواں تھے۔

لَبِّثْ قَلِیلًا یَلحَقُ الحَیْجَا جَمَلْ
مَا اَحسَنَ المَوتُ اِذَا حَانَ الْاَجَلْ

ابھی تھوڑی دیر میں ہمار اونٹ بھی میدان جنگ میں پہنچ جائے گا اورجب انسان کو اللہ کی طرف سے بلاوا آجائے تو ایسے میں اس کی موت بھی کتنی خوبصورت ہوتی ہے۔ آپؓ کی والدہ نے بھی یہ سنا اور کہا میرے بیٹے !ذرا جلدی کروتم نے نکلنے میں دیر کر دی ہے۔

(اصابہ جز2ص 88)

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں میں نے کہا اے سعدؓ کی ماں! کاش سعدؓ کی زرہ اس سے ذرا اور بڑی ہوتی کہ ان کے بازوؤں کی بھی حفاظت کرتی۔پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ حضرت عائشہؓ کوگزرا تھا محاصرہ خندق کے دوران حضرت سعدؓ کو ایک تیر کندھے میں آکر ایسا لگا کہ شریان پھٹ گئی اور خون کا فوارہ بہ نکلا جو تھمتانہ تھا اور بظاہر جانبر ہونے کی کوئی امید نہ رہی۔

سعدؓ کی دعا

اس موقع پر حضرت سعدؓ نے یہ دعا کی ’’اے اللہ !تو جانتا ہے کہ مجھے تیری راہ میں جہاد کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ محبوب نہیں اور جہاد بھی ایک ایسی قوم سے جس نے تیرے رسولؐ کو جھٹلایا اور اسے اس کے گھر سے نکالا۔ اے اللہ! میں خیال کرتا ہوں کہ تو نے غزوہ خندق کے ذریعہ سے آئندہ ہمارے اور ان کے درمیان جنگ کا خاتمہ کردیاہے۔ اگر تو قریش کی جنگ میں سے کچھ باقی ہے تو مجھے ان کے مقابلہ کیلئے زندہ رکھنا تاکہ میں تیری راہ میں ان سے جہاد کر سکوں او راگر جنگ کا (قریباً) خاتمہ ہو چکا ہے تو پھر میری رگ خون کھول دے اور اس زخم کو میری شہادت کا ذریعہ بنا دے۔ ہاں مگر مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک یہود بنی قریظہ کے فتنہ سے تو میری آنکھیں ٹھنڈی نہ کردے۔‘‘

(بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبیؐ من الاحزاب)

حضرت سعد ؓ کی یہ دعا عجب شان سے قبول ہوئی اور ان کے زخم کا جاری خون بند ہوگیا۔

(ابن سعد جلد3ص 422)

رسول اللہﷺ کی شفقت

رسول اللہﷺ نے اپنے اس وفاشعار صحابی کی تیمارداری کا حالت جنگ میں جس قدر خیال کیا وہ بھی قابل رشک ہے۔
جب حضرت سعدؓ زخمی ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں علاج معالجہ کیلئے اسلم قبیلہ کی خاتون رفیدہ کے خیمہ میں رکھ کر تیمارداری کی جائے۔ رفیدہ نرسنگ اور مرہم پٹی کی ماہر تھیں دوسرے زخمیوں کیلئے ان کا خیمہ مسجد کے اندر نصب تھا، رسول اللہﷺ کی منشاء یہ تھی کہ آپ حضرت سعدؓ کا خود خیال رکھ سکیں۔ چنانچہ نبی کریم ﷺان کی بیماری کے ایام میں صبح و شام اس خیمے میں تشریف لے جاتے اور ان کا حال دریافت فرماتے۔ خون روکنے کیلئے نبی کریمؐ نے عربوں میںرائج داغنے کے طریق سے بھی کام لیا جس سے خون رک کر ہاتھ کچھ پھول گیا اور پھر خون بہ پڑا۔ آپ نے دوبارہ داغا تب جا کر خون بند ہوا۔ رسول اللہﷺ کانمونہ دیکھ کر صحابہ بھی سعدؓ کی عیادت کیلئے حاضر ہوتے تھے۔
رسول کریم ﷺ نے حضرت سعدؓ کی عیادت کے دوران ان کی حوصلہ افزائی اور تعریف بھی کی اوردعا دیتے ہوئے آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ قوم کے اس سردار کو بہترین جزا عطا کرے اے سعد! آپ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا اللہ بھی آپ کے ساتھ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔‘‘

(ابن سعد جلد 3ص 429،اسد الغابہ جلد2ص 297)

بنو قریظہ کا ثالثی فیصلہ

زمانہ جاہلیت میں قبیلہ اوس اور بنوقریظہ کے مابین ایک دوسرے کی مدد کے عہدوپیمان تھے۔ مگر رسولؐا للہ کی ہجرت کے بعد تمام اہل یثرب ایک میثاق مدینہ میں شامل ہوئے۔ جس کے مطابق بیرونی دشمن کے حملے کے وقت جملہ فریق ایک دوسرے کی مدد کے پابند تھے۔ جنگ احزاب کے موقع پر بنوقریظہ نے عہد شکنی اورخیانت کرتے ہوئے کفار مکہ کا ساتھ دیا۔
جنگ احزاب سے فارغ ہوکر رسول کریمؐ نے الٰہی منشاء کے مطابق بنوقریظہ کو ان کی بدعہدی کی بازپرس کیلئے ان کے قلعوں کا محاصرہ کیا۔ اگر وہ بھی قبیلہ بنونضیر کی طرح کوئی معاہدہ صلح کرتے یا معافی کے طلب گار ہوتے تو رحمۃللعالمینﷺ کے دربار رحمت سے امان ہی پاتے مگر انہوں نے اوس قبیلہ سے اپنے قدیم تعلقات پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے فیصلہ کیلئے ان کے سردار حضرت سعد ؓ کو بطورثالث قبول کیا۔ رسول کریمؐ نے بھی حضرت سعدؓ کی ثالثی سے اتفاق رائے کیا تو حضرت سعدؓ کو فیصلہ کیلئے بلوایا گیا۔ وہ زخمی حالت میں ہی گدھے پر سوار کرکے لائے گئے ۔ رسول کریمﷺ قوم کے اس سردار کے احترام میں خود بھی کھڑے ہوگئے اور اپنے اصحاب سے فرمایا ‘‘اپنے میں سے بہتر شخص کے اعزازکیلئے کھڑے ہوجاؤ۔’’نبی کریمﷺ نے حضرت سعدؓ کو بتایا کہ بنوقریظہ نے بطورثالث آپ کے فیصلہ پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ حضرت سعدؓ نے ایک بہترین ماہر منصف کا کردار ادا کرتے ہوئے پہلے بنوقریظہ سے پوچھا کہ جو فیصلہ میں اللہ کے عہد اور میثاق کے مطابق کروں گا تمہیں قبول ہوگا؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ پھر حضرت سعدؓ نے دوسری طرف اشارہ کیا جدھر نبی کریمؐ اور آپ کے اصحاب تھے کہ کیا ان سب کو بھی اللہ کے عہدومیثاق کے مطابق میرا فیصلہ منظور ہوگا۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا منظور ہوگا۔ حضرت سعدؓ نے توریت کے مطابق یہ فیصلہ سنایا کہ‘‘ بدعہدی و بغاوت کی سزا کے طور پر بنوقریظہ کے جنگجوقتل اورعورتیں و بچے قید کئے جائیں۔’’ رسول کریمؐ نے یہ فیصلہ سن کر فرمایا کہ بلاشبہ سعدؓ کا یہ فیصلہ اللہ کے حکم کے مطابق ہے۔

(بخاری کتاب المغازی باب مرجع النبی من الاحزاب و اسد الغابہ جلد2ص 297)

اس فیصلہ سے حضرت سعدؓ کی دعا کا وہ حصہ بھی پورا ہوگیا کہ بنوقریظہ کے فتنہ کے خاتمہ سے پہلے مجھے موت نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ کی سرکوبی انہیں کے ہاتھ سے کروائی۔ اب حضرت سعدؓ اپنے مولیٰ سے راضی برضاواپسی کیلئے ہمہ تن تیار تھے۔

آخری سفر

فیصلہ بنوقریظہ کے بعد حضرت سعدؓ اپنے خیمہ میں ہی زیر علاج تھے کہ ایک رات اچانک زخم پھوٹ پڑااور خون بہ کر ساتھ کے خیمہ میں جانے لگا۔ انہوںنے پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ حضرت سعدؓ کے زخم سے خون جاری تھا۔

(بخاری کتاب المغازی)

نبی کریم ﷺکو خبر ہوئی تو اپنے وفاشعار ساتھی کو دیکھنے خودتشریف لائے۔ آپؐ نے حضرت سعدؓ کاسراپنی گود میں رکھا۔ جسم سے بہنے والا خون رسول کریمؐ پر گرنے لگا مگر آپ اس سے بے پرواہ ہوکر حضرت سعدؓ کیلئے دعائیں کر رہے تھے۔ اور یہ معلوم کرکے کہ یہ سعدؓ کا آخری وقت ہے انہیں الوداع کہہ رہے تھے۔ آپ ؐ نے دعا کی کہ ‘‘اے اللہ! سعدؓ نے تیری راہ میں جہاد کیا اس نے تیرے رسول کی تصدیق کی اور اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داری ادا کی۔ پس ا س کی روح کو اس طرح قبول کرنا جس طرح کوئی بہترین روح تیرے حضور قبول کی گئی۔ گویا اس کا آخری سفر رَاضِیَۃًمَرْضِیَّۃً ہو اور شایان شان استقبال ہو۔ اس دعا کے شرف قبولیت کا ذکر آگے آرہا ہے۔
حضرت سعدؓ نے اپنے آقا کے محبت بھرے دعائیہ الفاظ سنے تو عالم شوق میں آنکھیں کھولیں اور رسولؐا للہ کے چہرہ پر آخری نظریں ڈال کر عجب وارفتگی میں کہا ’’ اَلسَّلاَمُ عَلَیکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ اَمَّا اِنّی اَشھَدُ اَنَّکَ رَسُولُ اللّٰہِ ‘‘ کہ اے اللہ کے رسول!(میرے محبوب) آپ پر سلام۔ بس میری تو آخری گواہی یہی ہے کہ آ پ اللہ کے رسول ہیں یہ کہا اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔

(ابن سعد جلد3ص 427)

سعدؓ کی وفات کا صدمہ اور غم

حضرت ابوبکر ؓ اس جاں نثار بھائی کی ناگہانی موت پر درد بھرے دکھ کا بلند آواز سے اظہار کر بیٹھے تو نبی کریمﷺ نے منع فرمایا۔ حضرت عمرؓ نے یہ دیکھ کر اِنَّا لِلّٰہِ …پڑھا کہ ہم اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔
حضرت عائشہؓ فرماتی تھیں ‘‘اس صدمہ کے موقع پر میں ابوبکرؓ کے رونے کی آواز ،حضرت عمرؓ کے رونے کی آواز سے الگ پہچانتی تھی اور یہ سب (اصحاب رسولؐ) آپس میں بہت ہی محبت کرنے والے تھے ’’ حضرت سعدؓ کا جنازہ اٹھا تو دنیا نے دیکھا کہ خدا کے رسول حضرت محمد مصطفیﷺ اپنے اس عزیز اور محبوب صحابی کے جنازہ کو خود کندھا دے کر گھر سے باہر لائے اور جنازہ کے جلوس کی قیادت فرمائی۔

(ابن سعد جلد 3ص 431)

بعض منافقوں نے اس موقع پر کہا کہ ہم نے سعدؓ سے زیادہ ہلکا جنازہ کسی کا نہیں دیکھا۔ یہ بنوقریظہ کے خلاف فیصلہ کرنے کی وجہ سے ہوگا۔ اس پر رسول کریمﷺ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے فرشتے سعدؓ کے جنازہ کو اٹھا رہے تھے۔‘‘
اسی طرح حضرت عبداللہؓ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’سعدؓ بن معاذ کی وفات پر ستر ہزار ایسے فرشتے پہلی دفعہ زمین پر اترے جنہوں نے اس سے پہلے زمین پر قدم نہیں رکھا تھا۔‘‘

(ابن سعد جلد 3ص430،مجمع الزوائد جلد9ص 308)

حضرت عائشہؓ بیان فرماتی تھیں کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے دونوں قریبی ساتھیوں حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کی وفات کے بعد مسلمانوں کیلئے سب سے بڑا صدمہ حضرت سعدؓ بن معاذ کی وفات کا تھا۔ حضرت سعدؓنے عین عالم جوانی میں 37 برس کی عمر میں جام شہادت نوش کیا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

(ابن سعد جلد 3ص433)

سعد ؓ کا مقام و مرتبہ

حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ ایک سفر حج یا عمرے سے واپسی پر ذوالحلیفہ میں حضرت اسیدؓ بن حضیر انصاری کو ان کی بیوی کی ناگہانی قتل کی اطلاع ملی تو وہ مارے غم کے منہ پر کپڑا لے کر رونے لگے میں نے ان سے کہا کہ اللہ آپ کو معاف فرمائے آپؓ رسول اللہ ﷺ کے قدیمی صحابی ہیں اور کئی نیک کاموں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ یہ آپ کو کیا ہوا کہ ایک عورت کی جدائی پر اتنا روتے ہیں۔اس پر انہوں نے کچھ حوصلہ پاکرجواب دیا ‘‘ آپ بالکل سچ کہتی ہیں میری عمر کی قسم!حق یہ ہے کہ حضرت سعدؓ بن معاذ کی موت کے بعد مجھے کسی کی موت پر رونا تو نہیں چاہئے۔ کیونکہ رسول کریمؐ نے ان کیلئے جو فرمایا وہ کیا ہی خوب تھا کہ سعدؓ بن معاذ کی وفات پر خدا کا عرش بھی جھوم اٹھا ہے۔‘‘

(مجمع الزوائد جلد9ص 308)

حضرت اسماءؓ بن یزید سے روایت ہے کہ جب حضرت سعدؓ بن معاذ کا جنازہ اٹھا تو ان کی والدہ کی چیخ نکل گئی رسول کریمﷺ نے فرمایا (میں جوبات بتانے والا ہوں اس سے) ‘‘تمہارے آنسو رک جائیں گے اور تمہارا غم جاتا رہے گا۔ تمہارا بیٹا وہ پہلا شخص ہے جس کی اپنے حضور حاضری پر خدا بھی خوش ہوگیا اور عرش بھی اس (پاک روح کی آمد) پر جھوم اٹھا۔‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ ’’رحمان خدا کا عرش اللہ کے نیک بندے سعدؓ کی وفات پر خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔‘‘

(ابن سعد جلد 3ص434،مستدرک حاکم جلد3ص 206)

رسول کریمﷺ سے حضرت جبرائیل ؑنے پوچھا کہ آج رات آپ کی امت میں کسی نے سفر آخرت اختیار کیا جو آسمان کے لوگ بھی ا س پر خوش ہوئے ۔دوسری روایت میں ہے ‘‘فرشتے سعدؓ کی سعید روح کو پاکر خوش ہوگئے۔‘‘

(ابن سعد جلد3ص423،ابن ہشام جلد3ص 271)

حضرت سعدؓ کی اللہ سے ملاقات کی محبت میں عرش جھوم اٹھا۔ رسول اللہ ﷺسعدؓ کی قبر میں اترے تو کچھ دیر اس میں ٹھہرے اورپہلے سبحان اللّٰہ اور پھر الحمدللہ کہا۔ پوچھنے پر فرمایا کہ ‘‘سعدؓ پر قبر میں تنگی ہونے لگی تو میں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ اس سے یہ حالت دور کردے۔چنانچہ اسے کشادہ کر دیا گیا۔‘‘

(ابن ہشام جلد3ص 272،مستدرک جلد3ص 206)

رسول اللہ ﷺ کے دل پر کافی عرصہ تک اپنے اس وفا شعار ساتھی کا صدمہ تازہ رہا۔ہر اہم کامیابی اور موڑ پر آپ سعدؓ کو یاد کرتے رہے۔ کئی سال بعد شاہ اکیدرومہ نے رسولؐ اللہ کی خدمت میں کچھ ریشمی جبے بطور تحفہ بھجوائے ۔رسول اللہ ﷺنے زیب تن فرمائے۔ صحابہ کرامؓ نے بہت تعجب سے ان کو دیکھا اور تعریف کی۔ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ ’’تمہیں یہ جبے بہت اچھے لگ رہے ہیں؟ خدا کی قسم جنت میں سعدؓ بن معاذ کے ریشمی رومال اس سے کہیں بہتر ہیں۔‘‘

(مجمع الزوائد جلد9ص 310)

پچھلا پڑھیں

کتاب ’’حرفِ مبشر‘‘ کی تقریب رونمائی

اگلا پڑھیں

ٹیلیویژن۔ ایجاد سے LCD اور LED تک