• 7 مئی, 2024

اللہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

‘‘خداتعالیٰ اپنی طرف آنے والے کی سعی اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا۔ یہ ممکن ہے کہ زمیندار اپنا کھیت ضائع کر لے۔نوکر موقوف ہو کر نقصان پہنچا دے۔ امتحان دینے والا کامیاب نہ ہو ، مگر خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں رہتا۔ اس کا سچا وعدہ ہے کہ وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا (العنکبوت:70) خداتعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جویا ہوا ، وہ آخر منزل مقصود پر پہنچا۔ دنیوی امتحانوں کے لئے تیاریاں کرنے والے ، راتوں کو دن بنا دینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں ، تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے انت ہے۔ اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا؟ ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ (التوبہ :120) اور پھر فرماتا ہے فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ (الزلزال:8) ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال ہزار ہا طالب علم سالہاسال کی محنتوں اور مشقتوں پر پانی پھرتا ہوا دیکھ کر روتے رہ جاتے ہیں اور خود کشیاںکر لیتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فضل عمیم ایسا ہے کہ وہ ذرا سے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا۔ پھر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ انسان دنیا میں ظنی اور وہمی باتوں کی طرف تو اس قدر گرویدہ ہو کر محنت کرتا ہے کہ آرام اپنے اوپر گویا حرام کر لیتا ہے اور صرف خشک امید پر کہ شاید کامیاب ہو جاویں ، ہزار ہا رنج اور دکھ اٹھاتا ہے۔ تاجر نفع کی امید پر لاکھوں روپے لگا دیتا ہے، مگر یقین اسے بھی نہیں ہوتا کہ ضرور نفع ہی ہو گا، مگر خداتعالیٰ کی طرف جانے والے کی (جس کے وعدے یقینی اور حتمی ہیںکہ جس کی طرف قدم اٹھانے والے کی ذرا بھی محنت رائیگاں نہیں جاتی) میں اس قدر دوڑ دھوپ اور سرگرمی نہیں پاتا ہوں۔ یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟ وہ کیوں نہیں ڈرتے کہ آخر ایک دن مرنا ہے۔ کیا وہ ان ناکامیوں کو دیکھ کر بھی اس تجارت کے فکر میں نہیں لگ سکتے۔ جہاں خسارہ کا نام و نشان ہی نہیں اور نفع یقینی ہے ۔زمیندار کس قدر محنت سے کاشتکاری کرتا ہے ، مگر کون کہہ سکتا ہے کہ نتیجہ ضرور راحت ہی ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کیسا رحیم ہے اور یہ کیسا خزانہ ہے کہ کوڑی بھی جمع ہو سکتی ہے۔ روپیہ اشرفی بھی۔ نہ چور چکار کا اندیشہ نہ یہ خطرہ کہ دیوالہ نکل جاوے گا۔ حدیث میںآیا ہے کہ اگر کوئی ایک کانٹا راستہ سے ہٹا دے، تو اس کا بھی ثواب اس کو دیا جاتا ہے۔
اور پانی نکالتا ہوا اگر ایک ڈول اپنے بھائی کے گھڑے میں ڈال دے ، تو خداتعالیٰ اس کا بھی اجر ضائع نہیں کرتا۔ پس یاد رکھو کہ وہ راہ جہاں انسان کبھی ناکام نہیں ہو سکتا۔ وہ خدا کی راہ ہے۔ دنیا کی شاہراہ ایسی ہے جہاں قدم قدم پر ٹھوکریں اور ناکامیوں کی چٹانیں ہیں۔ وہ لوگ جنوں نے سلطنتوں تک کو چھوڑ دیا ، آخر بیوقوف تو نہ تھے ۔ جیسے ابراہیم ادہم ، شاہ شجاع ، شاہ عبدالعزیز جو مجدد بھی کہلاتے ہیں۔ حکومت ، سلطنت اور شوکت دنیا کو چھوڑ بیٹھے ۔ اس کی یہی وجہ تو تھی کہ ہر قدم پر ایک ٹھوکر موجود ہے۔ خدا ایک موتی ہے اس کی معرفت کے بعد انسان دنیاوی اشیاء کو ایسی حقارت اور ذلت سے دیکھتا ہے کہ ان کے دیکھنے کے لئے بھی اسے طبیعت پر ایک جبراور اکراہ کرنا پڑتا ہے۔ پس خداتعالیٰ کی معرفت چاہو اور اس کی طرف ہی قدم اٹھاؤ کہ کامیابی اسی میں ہے۔’’

(ملفوظات جلد اول ص 91)

پچھلا پڑھیں

معروف احمدی شاعر مبارک صديقی کے اعزاز ميں تقريب

اگلا پڑھیں

مانگ کر کھانے کی بجائے کما کر کھانا چاہئے