• 23 اپریل, 2024

مانگ کر کھانے کی بجائے کما کر کھانا چاہئے

حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:

’’ہمارے ملک میں یہ ایک بہت بڑا عیب ہے کہ بھوکا رہنا پسند کریں گے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جس کی اصلاح ہونی چاہئے اور یہ اصلاح اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہر شخص یہ عہد کر لے کہ وہ مانگ کر نہیں کھائے گا بلکہ کما کر کھائے گا۔ اگر کوئی شخص کام کو عیب سمجھتا اور پھر بھوکا رہتا ہے تو اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں۔ لیکن اگر ایک شخص کام کے لئے تیار ہو لیکن بوجہ کام نہ ملنے کے وہ بھوکا رہتا ہو تو یہ جماعت اور قوم پر ایک خطرناک الزام اور اس کی بہت بڑی ہتک اور سبکی ہے۔ پس کام مہیا کرنا جماعتوں کے ذمہ ہے لیکن جو لوگ کام نہ کریں اور سستی کر کے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالیں ان کی ذمہ داری جماعت پر نہیں بلکہ ان کے اپنے نفسوں پر ہے کہ انہوں نے باوجود کام ملنے کے محض نفس کے کسل کی وجہ سے کام کرنا پسند نہ کیا اور بھوکا رہنا گوارا کر لیا……… اگر محلوں کے پریذیڈنٹ مختلف مقررین سے اپنے اپنے محلہ میں وقتاً فوقتاً ایسے لیکچر دلاتے رہا کریں کہ نکما بیٹھ کر کھانا نہایت غلط طریق ہے۔ کام کر کے کھانا چاہئے اور کسی کام کو اپنے لئے عار نہیں سمجھنا چاہئے تو امید ہے کہ لوگوں کی ذہنیت بہت کچھ تبدیل ہو جائے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ لوگوں سے مانگ کر کھانا ایک لعنت ہے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا (بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم کسی غیر سے تھوڑا مانگتے ہیں۔ ہم تو سلسلہ سے مانگتے ہیں اس کا جواب اسی واقعہ میں آ جاتا ہے جو میں بیان کرنے لگا ہوں۔ کیونکہ اس نے بھی کسی غیر سے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تھا) آپؐ نے اسے کچھ دے دیا۔ وہ لیکر کہنے لگا۔ یا رسول اللہؐ! کچھ اور دیجئے۔ آپؐ نے پھر اسے کچھ دے دیا۔ وہ پھر کہنے لگا۔ یا رسول اللہؐ! کچھ او ر دیجئے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا۔ کیا میں تم کو کوئی ایسی بات نہ بتائوں جو تمہارے اس مانگنے سے بہت زیادہ بہتر ہے۔اس نے کہا۔ کیوں نہیں یا رسول اللہؐ ! فرمائیے کیا بات ہے ؟ آپؐ نے فرمایا: سوال کرنا خداتعالیٰ کو پسند نہیں۔ تم کوشش کرو کہ تمہیں کوئی کام مل جائے اور کام کر کے کھائو۔یہ دوسروں سے مانگنے اور سوال کرنے کی عادت چھوڑ دو۔ اس نے کہا ۔ یا رسول اللہؐ! میں نے آج سے یہ عادت چھوڑ دی۔ چنانچہ واقعہ میں پھر اس نے اس عادت کو بالکل چھوڑ دیا۔ اور یہاں تک اس نے استقلال دکھایا کہ جب اسلامی فتوحات ہوئیں اور مسلمانوں کے پاس بہت سامال آیا اور سب کے وظائف مقرر کئے گئے توحضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے بلوایا اور کہا یہ تمہارا حصہ ہے تم اسے لے لو۔ وہ کہنے لگا۔ میں نہیں لیتا۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اقرار کیا تھا کہ میں ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھائوں گا۔ سو اس اقرار کی وجہ سے میں یہ مال نہیں لے سکتا۔ کیونکہ یہ میرے ہاتھ کی کمائی نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا یہ تمہارا حصہ ہے۔اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ وہ کہنے لگا۔ خواہ کچھ ہو، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا ہوا ہے کہ میں بغیر محنت کئے کوئی مال نہیں لوں گا۔ میں اب اس اقرار کو مرتے دم تک پورا کرنا چاہتا ہوں اور یہ مال نہیں لے سکتا۔ دوسرے سال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر اسے بلایا اور فرمایا کہ یہ تمہارا حصہ ہے اسے لے لو۔ مگر اس نے پھر کہا میں نہیں لوں گا۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا ہوا ہے کہ میں محنت کر کے مال کھائوں گا۔یونہی مفت میں کسی جگہ سے مال نہیں لوں گا۔ تیسرے سال انہوں نے پھر اس کا حصہ دینا چاہا۔ مگر اس نے پھر انکارکر دیا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے۔ انہوں نے بھی ایک دفعہ اسے بلایا اور کہا یہ تمہارا حصہ ہے، لے لو، وہ کہنے لگا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا تھاکہ میں کبھی سوال نہیں کروں گا اور ہمیشہ اپنے ہاتھ کی کمائی کھائوں گا۔ یہ مال میرے ہاتھ کی کمائی نہیں۔اس لئے میں اسے نہیں لے سکتا۔ اور میں ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی موت تک اس اقرار کو نباہتا چلا جائوں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت اصرار کیا مگر وہ انکار کرتا چلا گیا۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام مسلمانو ں کو مخاطب کر کے کہا۔ اے مسلمانو! میں خدا کے حضور بری الذمہ ہوں۔ میں اس کا حصہ اسے دیتا ہوں مگر یہ خود نہیں لیتا۔

اسی صحابی کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ ایک جنگ میں یہ گھوڑے پر سوار تھے کہ اچانک ان کا کوڑا ان کے ہاتھ سے گر گیا۔ایک اور شخص جو پیادہ تھا اس نے جلدی سے کوڑا اٹھا کر انہیںدینا چاہا تو انہوں نے کہا۔ اے شخص میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں کہ تو اس کوڑے کو ہاتھ نہ لگائیو۔ کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ اقرار کیا ہوا ہے کہ میںکسی سے سوال نہیں کروں گا اور خود اپنا کام کروں گا۔ چنانچہ عین جنگ کی حالت میں وہ اپنے گھوڑے سے اترے اور کوڑے کو اٹھا کر پھر اس پرسوار ہو گئے۔ تو لوگوں کوبتانا چاہئے کہ مانگ کر کھانا ایک بہت بڑا عیب ہے تا کہ اس نقص کی اصلاح ہو‘‘

(مشعل راہ جلد اول ص87 تا89)

پچھلا پڑھیں

اللہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا

اگلا پڑھیں

مسجدبیت الجامع شکاگومیں بین المذاہب تقریب