• 5 مئی, 2024

یارب! یہ نیا سال مبارک کر دے

یارب! یہ نیا سال مبارک کر دے۔ ’’آغاز بھی بخیر ہو ، انجام ہو بخیر‘‘

ہم بفضل اللہ تعالیٰ نئے سال میں داخل ہورہے ہیں۔ دنیوی لوگ اس موقع پر خوشیاں منائیں گے اور گزرنے والے اور آنے والے سال کی درمیانی رات ساری دنیا میں اودھم مچا ہوگا۔ سب اپنے خدا کو بھی بھول بیٹھے ہوں گے لیکن روحانی دنیا کے لوگوں کے چہروں پر نئے سال طلوع ہونے کی خوشی کے ساتھ ایک افسردگی بھی ظاہر ہو رہی ہوگی کہ ہماری زندگیوں میں ایک سال کی کمی ہوگئی ہے اور وہ فکرمند ہوں گے کہ ہم اپنی زندگیوں میں اپنے خالق حقیقی کی عبادتیں اور نیکیاں بجالانے کا ایک سال گنوا بیٹھے ہیں۔ اس لئے وہ اس سال دنیاوی لوگوں کے اودھم مچانے کے مقابل پر اپنے خدا کے حضور رو،رو کر اور گڑگڑا کر ایک شور بپا کریں گے۔ گزرنے والے سال میں اپنی کمزوریوں، غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں پر معافی مانگیں گے اور نئے سال میں ان کمزوریوں اور کوتاہیوں سے دور رہنے اور اپنے اللہ کو پانے کی مزید نیکیوں کا عہد کرتے دکھائی دیں گے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد (خلیفۃ المسیح الرابعؒ) کو خلافت سے قبل دو سالوں کی درمیانی رات نے لندن کے اسٹیشن پر آلیا۔ آپ نے دیکھا کہ لوگ اسٹیشن پر ہی نئے سال کی خوشی میں ہنگامہ بپا کرکے لغویات میں مصروف ہوگئے۔ آپ نے اس کا ذکر خطبہ جمعہ 20۔اگست 1982ء میں یوں فرمایا۔
’’مجھے وہ لمحہ بہت پیارا لگتا ہے جو ایک مرتبہ لندن میں New Year’s day کے موقع پر پیش آیا۔ یعنی اگلے روز نیا سال چڑھنے والا تھا اور عید کا سماں تھا۔ رات کے بارہ بجے سارے لوگ ٹریفالگر سکوائر (Trafalgar Square) میں اکٹھے ہو کر دنیا جہان کی بے حیائیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تہذیبی روک نہیں، کوئی مذہبی روک نہیں، ہر قسم کی آزادی ہے۔ اس وقت اتفاق سے وہ رات بوسٹن اسٹیشن پر آئی۔ مجھے خیال آیا جیسا کہ ہر احمدی کرتا ہے اس میں میرا کوئی خاص الگ مقام نہیں تھا۔ اکثر احمدی اللہ کے فضل سے ہر سال کا نیا دن اس طرح شروع کرتے ہیں کہ رات کے بارہ بجے عبادت کرتے ہیں۔ مجھے بھی موقع ملا۔ میں بھی وہاں کھڑا ہو گیا۔ اخبار کے کاغذ بچھائے اور دو نفل پڑھنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر کھڑا ہو گیا ہے اور پھر نماز میں نے ابھی ختم نہیں کی تھی کہ مجھے سسکیوں کی آواز آئی۔ چنانچہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ ایک بوڑھا انگریز ہے جو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا ہے۔ میں گھبرا گیا۔ میں نے کہا پتہ نہیں یہ سمجھا ہے میں پاگل ہو گیا ہوں اس لئے شاید بیچارہ میری ہمدردی میں رو رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے تو اس نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں ہوا میری قوم کو کچھ ہو گیا ہے۔ ساری قوم اس وقت نئے سال کی خوشی میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے رب کو یاد کررہا ہے۔اس چیز نے اور اس موازنہ نے میرے دل پر اس قدر اثر کیا ہے کہ میں برداشت نہیں کرسکا۔ چنانچہ وہ بار بار کہتا تھا:

God bless you. God bless you. God bless you. God bless you
(خدا تمہیں برکت دے۔ خدا تمہیں برکت دے۔ خدا تمہیں برکت دے۔ خدا تمہیں برکت دے)‘‘

اسی طرح آپؒ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد متعدد بار خوشی کے مواقع (شادی بیاہ کے ذکر ) پر اسلامی حدود کے اندر رہ کر خوشی منانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ خوشی کے مواقع ایسے مواقع ہیں کہ جب انسان خوشی میں اسلامی تعلیم کو بھی بھول جاتا ہے۔ یہ مواقع ایسے ہوتے ہیں۔ اللہ کی خوشنودی کی خاطر اسلامی و دینی حدود کے اندر رہ کر اس کے تابع ہو کر بجالانے چاہئیں۔

سو یہ دن دعاؤں، اپنے خالق حقیقی کے حضور جھکنے، نوافل اور صدقات کے ذریعہ اس نئے سال میں آنے والی بلاؤں کی تلافی اور اسے رد کرنےکی دعا کا دن ہیں۔ یہ دن اس عزم کا دن ہیں کہ ہم اللہ کے بندے بن کر بندگی کے حقوق اد اکریں گے۔ عبادت کے حق اد اکریں گے۔ پنجوقتہ نمازیں مسجد میں آکر ادا کریں گے۔ راتوں کو اُٹھ کر مقام محمود تک پہنچنے کے لئے تہجد کو اپنا شیوہ بنائیں گے۔ اللہ کی کتاب قرآن کریم (جو سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ پر اُتری) کی تلاوت کو روزانہ حرز جان بنائیں گے۔ اس کے اندر بیان فرمودہ 700 سے زائد احکام کی پابندی کریں گے۔ اللہ کی مخلوق سے محبت و شفقت کا سلوک کریں گے۔ ہمیشہ سچ بولیں گے۔ جھوٹ سے بچیں گے۔ کسی کی غیبت نہیں کریں گے۔ چوری چکاری سے بچیں گے۔ اللہ کی عبادات کا صحیح حق ادا نہ کرنا بھی چوری میں آتا ہے۔ وقت ضائع کئے بغیر اپنے خدا کو منانے کی فکر میں لگے رہیں گے۔ کسی کا دل نہیں دکھائیں گے۔ ہمدردی، شفقت اور پیار کو معاشرے کا حصہ بنائیں گے۔ Love for All میں اپنے احمدی بھائیوں اور اپنے خاندان کے افراد کو بھی شامل کریں گے۔ اپنی بیویوں سے اور بیویاں اپنے خاوندوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں گی۔ اپنے بچوں کی تربیت صحیح اسلامی تعلیم کو مدنظر رکھ کر کریں گے۔ جدید ایجادات کے نقصانات سے اپنی اولادوں کو دور رکھیں گے۔ دینی و دنیوی تعلیمات کو اپنے فیملی ممبرز میں، اپنے خاندان میں ، اپنے معاشرہ میں اجاگر کرنے کی فکر میں لگے رہیں گے۔وعلیٰ ھذاالقیاس

الغرض ہمارے پیارے امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2016ء میں سال کے آغاز پر جو 32 سوالات احباب جماعت کے سامنے رکھے تھے (اور جو اس شمارہ میں صفحہ قرطاس کی زینت ہیں) ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں گے۔ انہیں پڑھ کر نہ صرف اپنے دلوں میں اتُار کر اپنا محاسبہ کریں گے بلکہ اپنے ماتحت عزیز و اقارب، بیوی بچوں، بہن بھائیوں کو بھی پڑھا کر نئے سال میں اپنی سمت متعین کرنے کی تلقین کریں گے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2 جنوری 2015ء کے خطبہ جمعہ میں نئے سال کی مبارکباد دینے کے بعد فرمایا:
میں یہ بھی کہوں گا کہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہوگا جب ہم اپنے جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس حد تک ادا کیا ہے اور آئندہ کے لئے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لئے کتنی کوشش کریں گے۔پس ہمیں اس جمعہ سے آئندہ کے لئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو نئے سال میں ہمارے لئے اس حق کی ادائیگی کے لئے چستی او ر محنت کا سامان پیدا کرتے رہیں۔

یہ تو ظاہر ہے کہ ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ہمارے ذمہ جو کام لگایا گیا ہے اس کا حق نیکیوں کے بجالانے سے ہی ادا ہوگا لیکن ان نیکیوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں۔تو واضح ہو کہ ہر اس شخص کے لئے جو احمدیت میں داخل ہوتا ہے اور احمدی ہے یہ معیارحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مہیا فرمادئیے ہیں، بیان فرما دئیے ہیں اور اب تو نئے وسائل اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے ہر شخص کم ازکم سا ل میں ایک دفعہ خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر یہ عہد کرتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے بھر پور کوشش کرے گا۔اور ہمارے لئے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں کھول کر بیان فرما دئیے ہیں۔کہنے کو تو یہ دس شرائط بیعت ہیں لیکن ان میں ایک احمدی ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں ہیں ان کی تعداد موٹے طور پر بھی لیں تو تیس سے زیادہ بنتی ہیں۔پس اگر ہم نے اپنے سال کی خوشیوں کو حقیقی رنگ میں منانا ہے تو ان باتوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ورنہ جو شخص احمدی کہلا کر اس بات پر خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے وفات مسیح کے مسئلے کو مان لیا یا آنے والا مسیح جس کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کو مان لیا اور اس پر ایمان لے آیا تو یہ کافی نہیں ہے۔بیشک یہ پہلا قدم ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم نیکیوں کی گہرائی میں جا کر انہیں سمجھ کر ان پر عمل کریں اور بُرائیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائیں جیسے ایک خونخوار درندے کو دیکھ کر انسان اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔اور جب یہ ہوگا تو تب ہم نہ صرف اپنی حالتوں میں انقلاب لانے والے ہوں گے بلکہ دنیا کو بدلنے اور خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا ذریعہ بن سکیں گے۔

یا رب! یہی دُعا ہے ہر کام ہو بخیر
اکرام لازوال ہو انعام ہو بخیر
ہر وقت عافیت رہے ہر گام ہو بخیر
آغاز بھی بخیر ہو، انجام ہو بخیر

پچھلا پڑھیں

فرمانِ رسول ﷺ

اگلا پڑھیں

نئےسال کی شروعات پر احمدیوں کو کیا کرنا چاہئے ؟