• 23 اپریل, 2024

الفضل اپنے نام کی طرح افضال و برکات کا موجب ہے

ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰـهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ

سیّدناحضرت مصلح موعودؓنے’’الفضل‘‘کے ابتدائی دورمیں ہی خدائی تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ:

’’اس بات کوخداتعالیٰ کےسوا کوئی نہیں جانتااور نہ کوئی جان سکتا ہے کہ کن کن دعاؤں اور استخاروں کے بعدہم نے الفضل کی اشاعت کا کام اپنے ذمہ لیا ہے۔‘‘

(الفضل15 ۔اکتوبر1913ء)

پھر حضرت مصلح موعودؓ الفضل کے اجراءاور اس کی ابتدائی تاریخ کا ایمان افروز تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے۔ان کی سستی کو جھاڑے۔ان کی محبت کو اُبھارے۔ان کی ہمتوں کو بلند کرے۔یہ اخبار ثریاکے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسےثریاکی خواہش۔نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سوراخ کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔

خداتعالیٰ نے میری بیوی(حضرت سیدہ امّ ناصر۔ناقل)کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول اللہ ﷺکی مدد کی تحریک کی تھی۔اپنے دو زیور مجھے دے دئے کہ میں ان کو فروخت کر کےاخبار جاری کروں۔ ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے تھے جو انہوں نےاپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کےاستعمال کے لئےرکھے ہوئے تھے۔میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا۔اور پونے پانچ سو کےدونوں کڑے فروخت ہوئے ۔یہ ابتدائی سرمایہ الفضل کا تھا۔الفضل اپنےساتھ میری بے بسی کی حالت اور میری بیوی کی قربانی کو تازہ رکھے گا۔ ‘‘

’’دوسری تحریک اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان ؓکے دل میں پیدا کی اور آپ نےاپنی ایک زمین جو قریباًایک ہزارروپیہ میں بکی الفضل کے لئے دے دی۔مائیں دنیا میں خداتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہیں مگرہماری والدہ کو ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ کہ احسان صرف ان کے حصہ میں آیا ہے۔‘‘

پھر تحریر فرماتے ہیں کہ:

’’تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نےتحریک کی وہ مکرمی خان محمد علی خان صاحب ہیں۔آپ نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کے لئے دی۔پس وہ بھی اس رو کے پیدا کرنے میں جو اللہ تعالیٰ نے الفضل کے ذریعہ چلائی حصہ دار ہیں۔‘‘

(انوارلعلوم جلد8 صفحہ369۔371)

خداتعالیٰ کی شان ایک عجیب رنگ رکھتی ہےاور اس کے اپنے فضلوں سے نوازنے کا اندازبھی انوکھا،دلفریب اور نہاں درنہاں مصلحتوں میں پوشیدہ ہوتاہے۔

مندرجہ بالااقتباس لکھتے ہوئےخاکسار کا ذہن اس طرف گیاکہ جن مقدس وجودوں نے الفضل کے لئے اپنا سرمایہ مہیاکیا،خداتعالیٰ کا عجیب تصرف اور کرم نوازی ہے کہ ان کی نسلوں کو خدا تعالیٰ نے اپنے خاص الخاص بندوں میں چنااور خلعت خلافت سے نوازا۔

حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ؓ کے فرزند اکبرحضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ کو خلافت کی ردا پہنائی گئی اور پھر اب تک خلافتِ ثانیہ سے خلافتِ خامسہ تک تمام خلفاء‘‘نسل سیّدہ’’ ہیں۔

حضرت سیّدہ امّ ناصرؓ کے فرزندِاکبرحضرت مرزا ناصراحمد خلیفہ المسیح الثالث ؒ منتخب ہوئے۔حضرت سیّدہ ناصرہ بیگم کے فرزند اصغر حضرت مرزا مسرور احمد ہمارے محبوب امام ہیں۔ایّدہ اللہ بالروح القدس۔ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالثؒ حضرت نواب محمد علی خان کے داماد ہیں۔حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایّدہ اللہ تعالیٰ کی دادی حضرت بو زینب بی بی ؓ حضرت نواب صاحؓب کی ہی صاحبزادی ہیں۔

پس الفضل اپنے نام کی طرح افضال و برکات نازل کرنے کا مؤجب ہے۔کیا یہ صرف اتفاق ہے؟ہرگز نہیں۔خداتعالیٰ نے اپنی فعلی شہادت سے یہ ثابت فرمایاہے کہ اس کا قیام سراسر اس کے منشاء کے مطابق تھا اور اس کے بانی وہ برگزیدہ وجود تھے جن کی نسلوں کے ہاتھوںمیں جماعت کی زمامِ قیادت دی جانی تھی اور ان کے ذریعہ ایمان کو ثریا سے واپس لانا تھا۔

قارئین اسے خاکسار کا ذاتی نظریہ قرار دیں گے۔حضرت سیّدہ ناصرہؓ بیگم کی المناک وفات پر عاجز نے حضور انور کی خدمت میں یہ نکتہ پیش کیا تو آپ نے اس طرح عزّت افزائی فرمائی۔

’’آپ کا خط ملا جس میں آپ نے الفضل کے اجراء کے وقت ابتدائی سرمایہ کے لئےحضرت سیّدہ امّ ناصر صاحبہ اور میری والدہ محترمہ کے زیورات کی قربانی کاذکر کرکے اپنے جس ذوقی نکتہ کا ذکر کیا ہے۔آپ کی ذوقی بات تو ہے لیکن یہ ایک عرصہ سے میرے دل میں بھی تھی۔الفضل پڑھ کران کے لئے بھی دعاکیا کریں۔‘‘

(تحریر مبارک بنام کفش بردار2اگست2011ء)

پس اےقارئین الفضل!!خدا کے ان فضلوں اور رحمتوں کو یاد رکھوکہ کیا مبارک وہ وجود تھے جنہوں نے ایسےوقت میں کہ جب(بقول حضرت مصلح موعودؓ)’’اخبار میں پیسہ لگاناایسا ہی تھا جیسا کنؤیں میں پھینک دینااور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والامحمود ہوجو اس زمانہ کا سب سے بڑامذموم تھا‘‘خدا کی راہ میں اپنا سرمایہ پیش کر دیا۔

(انواالعلوم جلد8ص369)

آؤ!آج الفضل کے اس دورِنوپرخدا کے حضور سربسجودہو کران کے لئےدعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں اور خدا کی عظیم الشّان نعمت(اطال اللہ عمرہ) کے سلطان نصیر بنتے ہوئے اصحابؓ ِبدر کی یادیں تازہ کر دیں۔

خدا کے فضل و کرم کا نشاں ہے الفضل
ہمارے قلب و نظر کی کمان ہے الفضل
برس رہی ہیں خدا کی عنائتیں ہم پر
ہمارے دامنِ دل کا بیاں ہے الفضل
امامِ وقت سے رابطہ کی ایک دلیل
ہمارے حسنِ عقیدت کی جاں ہے الفضل

( نسیم سیفی)

(ڈاکٹرسلطان احمد مبشر)

پچھلا پڑھیں

جمعہ اور عید ایک دن ہونا

اگلا پڑھیں

اللہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا