• 25 اپریل, 2024

جمعہ اور عید ایک دن ہونا

(فقہ کیا کہتا ہے)

حدیث شریف میں آیا ہے کہ:

حضرت ابن عمر ؓفرماتے ہیں کہ رسول پاک ﷺکے عہد مبارک میں دونوں عیدیں (جمعہ اور عید) جمع ہوگئیں تو آپ ﷺ نے عید کی نماز پڑھا کر فرمایا جو جمعہ کی نماز کے لئے آناچاہے آجائے اور جو نہ آنا چاہے وہ نہ آئے۔

(سنن ابن ماجہ ۔کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیہَا ۔بَابُ مَا جَاء َ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۔روایت نمبر1213)

حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آج کے دن دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں جو چاہے اس کے لئے جمعہ کی بجائے عید کافی ہوگئی ۔اور ہم تو انشاء اللہ جمعہ ضرور پڑھیں گے۔

(سنن ابن ماجہ ۔کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیہَا ۔بَابُ مَا جَاء َ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۔روایت نمبر1311)

ابو عبیدؓبیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کے ساتھ عید کی نماز ادا کی۔اس دن جمعہ تھا۔آپؓ نے خطبہ عید سے پہلے نماز عید پڑھائی پھر خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگو!آج کے دن تمہارے لئے دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں (یعنی عید اور جمعہ)پس عوالی (یعنی مدینہ کے اطراف کے رہنے والوں) میں سے جو شخص پسند کرے جمعہ کا بھی انتظار کرے اور اگر کوئی واپس جانا چاہے تو واپس جاسکتا ہے میں اسے اجازت دیتاہوں ۔

(صحیح بخاری کِتَابُ الأَضَاحِیِّ.بَابُ مَا یُؤْکَلُ مِنْ لُحُومِ الأَضَاحِیِّ وَمَا یُتَزَوَّدُ مِنْہَا)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں کہ:

’’عید میں تنگی نہیں کی بلکہ فرمایا کہ اگر جمعہ و عید اکٹھے ہو جائیں تو گاؤں کے لوگوں کو جو باہر سے شریک ہوئے ہیں جمعہ کے لئے انتظار کی تکلیف نہ دی جائے۔‘‘

(بدر جلد 9 نمبر 10 ۔ 30 دسمبر 1909ء صفحہ 1 تا 3 )

اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ:

’’شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں ہی پڑھ لئے جائیں۔کیونکہ ہماری شریعت نے ہر امر میں سہولت کو مدنظر رکھا ہے ۔چونکہ عام نمازیں اپنے اپنے محلوں میں ہوتی ہیں لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔اسی طرح عید کی نماز میں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دور دور سے لوگ آ کر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لئے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں توجمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں۔بہرحال اصل غرض شریعت کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں زیادہ سے زیا دہ عرصہ کے لئے اکٹھے بیٹھ سکیں کیونکہ اسلام صرف دل کی صفائی کے لئے نہیں آیا۔اسلام قومی ترقی اور معاشرت کے ارتقاء کے لئے بھی آیا ہے اور قوم اور معا شرت کا پتہ بغیر اجتماع میں شامل ہونے کے نہیں لگ سکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 21۔اگست 1953ء)

حضرت مصلح موعودؓنے ایک اور موقع پر فرمایا کہ:

’’رسول کریم ﷺ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب جمعہ اور عید جمع ہو جائیں تو اجازت ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کرلیں مگر فرمایا ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔

کل بھی میرے پاس ایک مفتی صاحب کا فتویٰ آیا تھا کہ بعض دوست کہتے ہیں اگر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہو جائے تو قربانیوں میں ہم کو سہولت ہو جائے گی اور انہوں نے اس قسم کی حدیثیں لکھ کر ساتھ ہی بھجوا دی تھیں۔میں نے ان کو یہی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جمعہ اور عید جب جمع ہو جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر ہم تو وہی کریں گے جو رسول کریم ﷺنے کیا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا اگر کوئی جمعہ کی بجائے ظہر کی نما زپڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے مگر ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔

ہمارا رب کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دودو ( عیدیں) دیں۔ …یعنی جمعہ بھی آیا اور عید الاضحیہ بھی آئی اور اس طرح دو عیدیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے جمع کر دیں۔ اب جس کو دو دو چُپڑی ہوئی چپاتیاں ملیں وہ ایک کو کیوں ردّ کرے گا۔وہ تو دونوں لے گا۔سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آ جائے اور اسی لئے رسول کریم ﷺنے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس پر طعن کرے اور بعض لوگ ایسے ہوں جنہیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 11فروری1938ء
بحوالہ الفضل 15 مارچ 1938ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اگر عید جمعہ کے دن ہو تو اگرچہ نماز ظہر اد اکرنی بھی جائز ہے مگرمیں جمعہ ہی پڑھوں گا۔ جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دو سبق دئیے گئے ہیں ۔ایک قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے تبلیغ کی طرف ۔خطبہ کے لئے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کردی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 11 فروری1939ء۔الفضل 19 فروری 1939ء)

پچھلا پڑھیں

دعاؤں سے سالِ نو کا آغاز

اگلا پڑھیں

الفضل اپنے نام کی طرح افضال و برکات کا موجب ہے