حضرت چوہدری حکم دین رضی اللہ عنہ ولد مکرم چوہدری نبی بخش صاحب موضع دیالگڑھ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے اور ریاڑ زمیندار تھے۔ آپ پولیس میں ملازم تھے اور اپنی ملازمت کے سلسلے میں برما میں مقیم تھے کہ وہاں ایک مخلص احمدی حضرت ملک نور الدین رضی اللہ عنہ آف ہجکہ ضلع سرگودھا (وفات اگست 1926ء) کے ذریعہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کو بالمقابل تفسیر نویسی کا چیلنج دیا تھا۔ آپ کی بیعت کا اندراج اخبار میں یوں درج ہے۔
بیعت ’’حکم الدین صاحب دیالگڑھ قریب قادیان‘‘
(الحکم 10مارچ 1901ء)
آپ کے بیٹے مکرم مولوی محمد اسماعیل دیالگڑھی (وفات 14۔اگست 1983ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) آپ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’بیعت کے بعد فوج کے آدمیوں میں بھی اور شہر کے لوگوں میں بھی والد صاحب مرحوم اور مکرم مولوی نور الدین صاحب مرحوم کی مخالفت شروع ہوگئی یہاں تک کہ بالآخر لوگوں نے ان دونوں کا بائیکاٹ کر دیا اور ان کے ساتھ کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا ترک کردیا۔
والد صاحب مرحوم بیعت کے بعد پہلی دفعہ 1903ء یا 1904ء میں چھ ماہ کی رخصت پر دیالگڑھ آئے، شام کے وقت گھر پہنچے اور صبح اٹھ کر قادیان چلے گئے وہاں جاکر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور تشریف فرما ہیں، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب مولوی کرم دین والا مقدمہ چل رہاتھا۔ والد صاحب واپس دیالگڑھ چلے آئے اور اگلے دن پیدل چل کر بمقام گورداسپور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں جا حاضر ہوئے اور دستی بیعت کا شرف حاصل کیا اخبار الحکم اور سلسلہ کا دوسرا لٹریچر والد صاحب مرحوم اور مکرم مولوی نور الدین صاحب مرحوم کے پاس برما پہنچتا رہتا تھا۔ والد صاحب فرماتے تھے کہ الحکم کے ذریعے جب ہمیں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی وفات کی خبر پہنچی تو ہمیں سخت صدمہ ہوا۔ ساتھ ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے انتخاب کی خبر پڑھ کر دل کو ڈھارس ہوئی اور ہم دونوں نے فوراً حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔‘‘
(الفضل 3مارچ 1948ء)
جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر مشہور ہوئی تو یو پی کا رہنے والا ایک غیر احمدی جس کا نام حوالدار شیخ محمد تھا۔ آپ کو مخاطب کر کے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا برے الفاظ میں نام لے کر کہنے لگا دیکھو حکم دین! مرزا تو اب فوت ہوگیا ہے، اب تم توبہ کرلو اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مل جاؤ۔آپ نے اُسے جواب دیا کہ تمھاری مسلمانی اور اخلاق سب پر عیاں ہیں کہ تم کس قسم کے مسلمان ہو۔ اس پر حوالدار سخت برہم ہوا اور کہنے لگا کہ اس نے میری سخت توہین کی ہے میں اس کا کورٹ مارشل کرواؤں گا۔ لوگوں نے آپؓ کو سمجھایا کہ افسر ماتحت معاملہ ہے معافی مانگ لوایسا نہ ہو آپ کو سزا دلوا دے۔ آپؓ نے جواب دیا کہ میں نے اس کا کوئی گناہ نہیں کیا جس پر معافی مانگوں الٹا اس نے میرے مقدس پیشوا کو گالی دے کر مجھے دکھ دیا ہے۔ آپؓ فرماتے تھے کہ اس کے بعد میں نے بڑی عاجزی سے دعا شروع کر دی کہ خدا تعالیٰ مجھے اس کے شر سے محفوظ رکھے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایک رات کے اندر اندر یہ نشان دکھایا۔ ہوا یوں کہ حوالدار مذکور بد اخلاق لوگوں کا ہم جلیس تو تھا ہی۔ ایک شخص کسی عورت کو مع زیور اور قیمتی پارچات اغوا کر لایا اور حوالدار مذکور کے پاس آکر اس نے پناہ لی۔ پولیس کو بر وقت پتہ چل گیا اُس نے چھاپہ مارا، اغوا کنندہ تو فرار ہوگیا، مغویہ مع زیور اور پارچات برآمد کر لی گئی۔آپ بیان فرماتے تھے کہ جب پولیس ہم لوگوں کے سامنے حوالدار شیخ محمد کو ہتھکڑی لگا کر لے جانے لگی تو بعض آدمیوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اسے جتا دو کہ تم تو میرا کورٹ مارشل کروا رہے تھے مگر دیکھو اب خود جیل جا رہے ہو لیکن میں نے یہ بات کہنا گوارا نہ کیا۔ میرے ضمیر نے کہا یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توہین کرنے کی سزا تو پا ہی رہا ہے۔ اب میرے طعنے دینے سے اس کو یا مجھے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پس میں نے اسے کچھ کہنا نامناسب سمجھا بلکہ دوسری طرف ہوگیا تا کہ مجھے دیکھ کر یہ شخص شرمندہ نہ ہو۔
(الفضل 4مارچ 1948ء)
آپ بیان کرتے ہیں کہ میں حضورؑ کے ساتھ متعدد بار سیر کو گیا ہوں۔ یہ حضورؑ کا معمول تھا کہ راستے میں آتے جاتے ٹھہرا کرتے تھے۔
جب کرم دین والا مقدمہ تھا تو گورداسپور حضورؑ تاریخ پر گئے ہوئے تھے تو میں بھی بعد میں گیا، وہاں پہنچ کر بعد السلام علیکم مَیں حضورؑ کو دبانے لگ گیا تو اس وقت حضورؑ نے میری طرف دیکھا۔ اُس وقت ایک شخص امرتسر کا حضورؑ کو سورۃ تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ سنا رہا تھا۔ جب وہ شخص سورۃ ختم کر چکا تو میں نے عرض کی کہ حضور میں اپنے گاؤں میں اکیلا احمدی ہوں تو حضورؑ نے فرمایا کہ مثل مشہور ہے کہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔ پھر حضورؑ نے فرمایا کہ آپ کا گاؤں کون سا ہے؟ میں نے عرض کی حضور! دیالگڑھ۔ پھر حضورؑ نے فرمایا کہ مومن کو خدا اکیلا نہیں چھوڑتا۔
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 7 صفحہ 268)
بعد ازاں آہستہ آہستہ دیالگڑھ میں 50، 60 افرادکی جماعت قائم ہوگئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی وفات کے تھوڑا عرصہ بعد آپ پنشن لے کر برما سے چلے آئے۔ دیالگڑھ میں آپ اکیلے احمدی تھے۔ کبھی کبھی قادیان جا کر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی مجلس اور درس میں شامل ہوا کرتے اور نماز جمعہ اکثر قادیان آکر پڑھتے۔ خلافت ثانیہ کے موقع پر بغیر کسی تردّد کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بیعت کر لی۔ آپ اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کو بڑے درد سے تبلیغ کیا کرتے تھے اور جب کوئی غیر احمدی رشتہ دار فوت ہو جاتا تو آپ کو بہت افسوس ہوتا کہ کاش یہ احمدی ہوگیا ہوتا۔
باوجود اس کے کہ دیالگڑھ کے لوگ احمدیت کے سخت مخالف تھے مگر وہ آپ کی سچائی اور دیانت کے اس قدر قائل تھے کہ جب گورنمنٹ نے دیہات میں پنچائتیں قائم کرنے کی تحریک شروع کی تو دیالگڑھ میں باقی تمام امیدواروں کے متعلق لوگوں نے اختلاف کیا اور ایک دوسرے کی خوب مخالفت ہوئی مگر آپ کو گاؤں کے لوگوں نے بالاتفاق ممبر منتخب کر لیا ۔ اسی طرح برادری یا گاؤں کے جھگڑوں میں فریق آپ کے متعلق رضامند ہوجایا کرتے تھے کہ چودھری حکم دین صاحب جو بھی فیصلہ کریں گے وہ ہمیں منظور ہے۔ آپ منکسر المزاج اور بے نفس انسان تھے، کسی بات پر تکرار کرنے یا جھگڑنے سے ہمیشہ گریز کیا کرتے تھے۔
اپریل 1935ء میں کسی معاند نے آپ کے کھیت کو آگ لگادی۔ اللہ تعالیٰ نے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا۔
(الفضل 5مئی 1935ء)
تقسیم ملک کے وقت جب قافلے قادیان سے پاکستان آئے تو آپ بھی ایک ٹرک پر سوار ہوکر آرہے تھے کہ لاہور کے قریب ٹرک کی چھت سے گر کر شدید زخمی ہوگئے جس سے جانبر نہ ہوسکے اور مورخہ 19۔اکتوبر 1947ء کو قریبًا 72سال کی عمر میں وفات پائی۔ امانتاً لاہور میں دفن کئے گئے۔ آپ کے بیٹے مکرم مولوی محمد اسماعیل دیالگڑھی ان دنوں لکھنؤ میں تھے۔ بعدازاں آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی۔
آپ کی اہلیہ محترمہ نواب بی بی صاحبہ جن کی بیعت کا ذکر اخبار بدر 8 جنوری 1904ء صفحہ 9 پر درج ہے۔ انہوں نے 27 نومبر 1944ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپ کے بیٹے مکرم مولوی محمد اسماعیل دیالگڑھی کو بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق ملی۔
(غلام مصباح بلوچ۔کینیڈا)