چل کے خود آئے مسیحا
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا دورہ برکینا 2004ء
جمعرات 25؍مارچ 2004ء وہ تاریخی دن تھا جب اقلیم خلافت کے مظہر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے برکینا فاسومیں قدم رنجا فرما کر اس سرزمین کو منو رفرمایا۔یہ کسی بھی خلیفۂ وقت کا اس سر زمین کا پہلا دورہ تھا۔ اس دورے کے بعد برکینا فاسو کے بھاگ جاگ اٹھے۔ جماعتی سطح پرترقیات کو ایک رفتار عطا ہوئی۔ یہ دورہ ہر لحاظ سے غیر معمولی، شفقتوں اور عنایات کا عکاس، ایمان افروز، روح پرور، شفقت پدری کا مظہر، اجتماعی و انفرادی دعاؤں والتجاؤں سے بھر پور،اپنوں اور غیروں کے لئے مفید، جماعت برکینا فاسوکو ایک اور زندگی عطا کرنے والا، ترقیات کا غماز اور بشارات کا مظہر تھا۔ یہ دورہ 4؍اپریل 2004ء تک جاری رہا۔ اس دورے کےاثمار آج تک جماعت احمدیہ برکینا فاسو محسوس کر رہی ہے اور آئندہ بھی اس کی برکات سے حصہ پاتی رہے گی۔ ان شاء اللّٰہ
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لندن واپسی پر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍اپریل 2004ء میں اپنے مغربی افریقہ دورہ کا ذکر فرمایا۔ اس خطبہ میں سے برکینا فاسو سے متعلقہ حصہ پیش خدمت ہے۔ سیدنا حضرت امیر الموٴمنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
’’ٹمالے سے برکینا فاسو کا سفر ہم نے بذریعہ سڑک کیا اور راستے میں دو مساجد کا افتتاح بھی ہوا۔ ایک مسجد تو عین گھانا کے بارڈر سے چند گز کے فاصلے پر ہے اور ایک مخلص احمدی نے وہاں یہ مسجد بنائی ہے۔ اس طرح جو بھی بارڈر کراس کرتا ہے آنے والے یا جانے والے کیونکہ کافی آمد و رفت رہتی ہے اور عمومی طور پر دونوں طرف ان علاقوں میں مسلمان ہیں ان کی نظر ہماری مسجد پہ ضرور پڑتی ہے اس لئے وہ نماز پڑھنے کے لئے ہماری مسجد میں آجاتے ہیں۔ بذریعہ سڑک جانے کا پروگرام بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر سے ہی بنا لگتا ہے۔ کیونکہ پہلے جو گھانا والوں نے پروگرام بنایا تھا اور اس کی اپروول ہو گئی تھی، اس کے مطابق تو دورہ نارتھ تک کا مکمل کرنے کے بعد ہمیں پھر واپس اکرا آنا تھا اور وہاں سے بائی ایئر پھر برکینا فاسو جانا تھا لیکن روزانہ فلائیٹ نہیں جاتی بلکہ دو دن جاتی ہے ان میں سے ایک جمعہ کا دن تھا۔ تو وکیل التبشیر ماجد صاحب نے مجھے کہا کہ جمعہ جلدی پڑھ کے فوراً ہی ایئر پورٹ جانا ہو گا اس پر مجھے کچھ انقباض ہوا، میں نے کہا اس طرح نہیں جانا بلکہ بعض شہر جو انہوں نے پروگرام میں نہیں رکھے ہوئے تھے اور میرے علم میں تھے میں نے کہا وہ بھی دیکھ کے جائیں گے اور بائی روڈ جائیں گے۔ بہرحال اس کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ چند مزید مساجد کا افتتاح بھی ہو گیا لیکن اصل بات اس میں یہ ہے کہ لندن سے سفر شروع کرنے سے چند دن پہلے ماجد صاحب نے بتایا کہ برکینا فاسو کے مبلغ نے انہیں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ایک خواب یاد کرائی ہے۔ جو ماجد صاحب کو بھی یاد آ گئی کہ حضورؒ نے دیکھا تھا کہ وہ کاروں کے ذریعے سے بائی روڈ گھانا سے برکینا فاسومیں داخل ہوئے ہیں اور کوئی اسماعیل نامی آدمی بھی ان کو وہاں ملتا ہے بارڈر پہ یا کراس کرکے۔ اس پر حضور نے بعض اسماعیل نامی احمدیوں کی تصویریں بھی منگوائی تھیں، بہرحال پتہ نہیں کوئی ملا کہ نہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک الٰہی تقدیر تھی کہ ہم بذریعہ کار برکینا فاسو داخل ہوں اور یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہمارے قافلے میں ایک اسماعیل نامی ڈرائیور بھی تھا جس نے کچھ وقت ہماری گاڑی بھی چلائی جس میں مَیں بیٹھا ہوا تھا۔
اس ملک میں ہمارے مبلغین بھی ماشاء اللّٰہ قربانیوں کے معیار قائم کر رہے ہیں۔ وہاں جائیں تو پتہ لگتا ہے کہ واقعی لوگ قربانیاں دے رہے ہیں اور پھر برکینا فاسو میں جب داخل ہوئے بارڈر کراس کرنے کے بعد جو پہلا ٹاؤن آتا ہے، چند کلو میٹر پر ہی۔ وہاں اس علاقے کا جو ہائی کمشنر تھا وہ استقبال کے لئے آیا ہوا تھا۔ جلسہ بھی ماشاء اللّٰہ بڑا کامیاب رہا، صرف 15سال پہلے یہاں جماعت رجسٹر ہوئی ہے لیکن جماعت کے افراد کے ایمان و اخلاص میں ماشاء اللّٰہ ایسی ترقی ہو رہی ہے کہ دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتا ہے۔ یہاں کیونکہ فرنچ بولنے والے ہیں اس لئے ہر تقریر یا خطبے کا ایک دفعہ فرنچ میں ترجمہ ہوتا تھا پھر اس کا مقامی زبان میں ہوتا تھا۔ پھر جلسہ کے بعد ہم صحارا ڈیزرٹ کے قریب ایک قصبہ ڈوری ان کے لحاظ سے تو وہ شہر ہے بہرحال وہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے وہاں گئے وہاں بھی ایک چھوٹی سی گیدرنگ (Gathering) تھی۔ لوگ آئے ہوئے تھے، غریب لوگ ہیں، زیادہ تر وہابی ہیں ان میں سے احمدی ہوئے ہیں۔ یہاں بھی ا سکول کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ جس کا راستہ کل راستے میں سے 165کلو میٹر کا کچا راستہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے آرام سے ہو گیا۔ لیکن واپسی پر ہمارے قافلے کی ایک گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔ جس میں ہمارے دو مربیان اور دو قافلے کے افراد تھے جو یہاں سے گئے ہوئے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا، گاڑی سڑک سے اتر کر ایک کھائی میں گر گئی اور الٹ گئی لیکن کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ نے سب کو بچا لیا۔
برکینا فاسومیں بھی وزیراعظم اور ان کے صدر مملکت سے ملاقات ہوئی بڑے خوشگوار ماحول میں، ان کو بھی زراعت سے دلچسپی زیادہ تھی اس لئے کافی دیر تک بٹھائے رکھا بلکہ میری کوشش تھی کہ اب اٹھا جائے لیکن وہ کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ وہاں ایک تو لینڈ لاکڈ (Land Locked) علاقہ ہے، اس ملک کے ساتھ سمندر کوئی نہیں لگتا او رپھر صحارا کے قریب ہے اس لئے بارشیں بھی کم ہوتی ہیں اتنی زیادہ بارشیں نہیں ہوتیں لیکن ایک چیز ان علاقوں میں مجھے اچھی لگی کہ انہوں نے ہر جگہ چھوٹے ڈیم بنا لئے ہیں جہاں بارشوں کا پانی اکٹھا ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ابھی پانچ چھ مہینے بارشوں کا سیزن ختم ہوئے ہو چکے تھے لیکن اچھی مقدار میں وہاں پانی جمع تھا۔ محنتی لوگ ہیں یہ ملک بھی امید ہے کہ ترقی کرے گا۔ ان شاء اللّٰہ
برکینا فاسو میں بھی گھانا کی طرح جو بھی میری Activities رہیں، ان کا روزانہ نیشنل ٹیلیویژن، ریڈیو اور اخبارات میں باقاعدہ ذکر ہوتا رہا۔ برکینا فاسو میں تین نئی مساجد کا افتتاح ہوا اور ایک اسکول اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور پھر جو واگاڈوگو ان کا دارالحکومت ہے وہاں احمدیہ ہسپتال کا افتتاح بھی ہوا۔ بڑی وسیع او ر خوبصورت انہوں نے ہسپتال کے لئے نئی عمارت بنائی ہے۔ پہلے وہ کرائے کی عمارت میں تھا، اب اپنی عمارت بن گئی ہے۔ نصف کے قریب عمارت ابھی پہلے فیز میں بنی ہے لیکن اس کے باوجود بڑی وسیع عمارت ہے، یہاں بھی افتتاح کی تقریب میں وہاں کے وزیر صحت آئے ہوئے تھے، انہوں نے جماعتی خدمات کو بہت سراہا۔ برکینا فاسو کا ایک شہر بوبو جلاسو جہاں سے ایک خطبہ بھی نشر ہوا تھا یہاں ہماری جماعت کا ایک ریڈیو سٹیشن بھی ہے۔ جو تقریباً 70-80 کلو میٹر کی رینج میں سنا جاتا ہے، یہاں جمعہ پر بھی کافی حاضری یعنی 4-5 ہزار کے قریب حاضر ی ہو گئی تھی، احباب و خواتین آ گئے تھے، اس جگہ کی %90 آبادی مسلمانوں کی ہے۔ یہ سب ریڈیو کے پروگرام پسند کرتے ہیں، بلکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے ریڈیو پر جو نظمیں نشر ہوتی ہیں، وہ بھی بہت مقبول ہیں اور غیر احمدی بھی یہ نظم اکثر پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ ’’میرا نام پوچھو تو میں احمدی ہوں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 16؍اپریل 2004ء خطبات مسرور جلد دوم صفحہ248-251)
(صائمہ حنا۔ برکینا فاسو)