• 27 جولائی, 2024

حضرت ڈاکٹر میر محمد علی خانؓ

حضرت ڈاکٹر میر محمد علی خانؓ۔ شیخ پور ضلع گجرات

حضرت ڈاکٹر محمد علی خان رضی اللہ عنہ ولد حضرت میاں میراں بخشؓ قوم میر شیخ پور ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔ آپ اندازًا 1875ء میں پیدا ہوئے، حصول تعلیم کے بعد فوج میں ملازم ہوگئے جس کے تحت دس سال ہندوستان میں رہے جس کے بعد 1901ء میں ملازمت کے سلسلے میں مشرقی افریقہ چلے گئے اور پھر ساری زندگی وہیں گزاری۔ مشرقی افریقہ میں ہی آپ کو احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور 1901ء میں تحریری بیعت کی اور پھر 1902ء میں جب ہندوستان آئے تو قادیان حاضر ہوکر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا، آپ کی بیعت کا اندراج اخبار الحکم میں یوں درج ہے:
’’بابو محمد علی خان صاحب اسسٹنٹ سرجن ہاسپٹل یوگنڈا ریلوے نیروبی واقعہ ملک افریقہ‘‘

(الحکم 17؍اگست 1902ء صفحہ16)

آپ کی بیعت کے بعد آپ کے خاندان کے دیگر افراد نے بھی بیعت کر لی۔ آپ کے والد حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ (وفات: 23؍ستمبر 1935ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) اور والدہ حضرت عمر بی بی صاحبہ (وفات: 5؍جنوری 1929ء مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) بھی اصحاب احمد میں سے تھے۔ آپ کے دو بھائی محترم احمد خان صاحب جودھ پور (وفات: 24؍اگست 1942ء) اور محترم اکبر علی خان صاحب تھے۔ اسی طرح آپ کے چچا کے بیٹے محترم ڈاکٹر عبداللہ خان صاحب (وفات: جنوری 1926ء)، حضرت میاں الٰہی بخش صاحبؓ (وفات: 11؍مارچ 1935ء۔ جودھ پور) اور میر برکت اللہ صاحب بھی مخلصین جماعت میں سے تھے۔

حضرت ڈاکٹر محمد علی خان صاحبؓ ایک مخلص اور فدائی وجود تھے۔ افریقہ میں ملازمت کے ساتھ خدمت دین کو بھی ہمیشہ مقدم رکھا۔ ناظر صاحب بیت المال قادیان اپنی ایک رپورٹ میں کلنڈنی ممباسہ کے ذکر میں لکھتے ہیں:
’’ممباسہ کی یہ جماعت ایک چھوٹی سی جماعت ہے جس کے ممبران جناب بابو اکبر علی خاں صاحب، ڈاکٹر محمد علی خاں صاحب و بابو محمد عالم صاحب اور میاں الٰہی بخش صاحب ہیں۔ میاں صاحب محاسب کا کام بھی سر انجام دیتے رہے ہیں، حق یہ ہے کہ صاحب موصوف نے محاسب کا کام نہایت احسن طریق سے سر انجام دیا ہے اور اس جماعت کے مذکورہ بالا احباب بھی چندوں کے ادا کرنے میں ایک دوسرے سے پیش قدمی کرنے والے ہیں اور ہر ایک مد میں بڑھ کر سبقت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کی قربانیوں اور کوششوں کو قبول فرماوے۔‘‘

(الفضل 31؍جنوری 1930ء صفحہ17-18)

1919ء میں نیروبی میں احمدیہ لائبریری بنانے کی تجویز پر آپ نے کتب کی خریداری میں اپنا وعدہ لکھوایا، اُس وقت آپ کینیا کے شہر لامو (Lamu) میں تھے۔

(الفضل 2؍اگست 1919ء صفحہ8)

حضرت پیر رحمت علی صاحبؓ کی افریقہ میں شہادت پر آپ نے ان کی یادگار میں بعض احباب کے نام اخبار جاری کرنے کا اعلان کیا۔

(بدر 24؍مئی و یکم جون 1904ء صفحہ16)

آپ نے اپنی ساری زندگی افریقہ میں ہی گزاری۔ آخری عمر میں آپ بہت بیمار ہوگئے تھے جس وجہ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ بیماری کی حالت میں بفضلہ تعالیٰ دسمبر 1929ء میں واپس ہندوستان آگئے اور سیدھا قادیان پہنچے، علاج کرایا لیکن جانبر نہ ہو سکے اور موٴرخہ 11؍جون 1930ء کو وفات پائی۔ آپ بفضلہ تعالیٰ 3/1 حصہ کے موصی (وصیت نمبر 2635) تھے۔ اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’ڈاکٹر محمد علی خان صاحب جو افریقہ میں ملازم تھے اور کچھ عرصہ سے بوجہ بیماری رخصت لے کر آئے ہوئے تھے، 11؍جون اپنے وطن گجرات میں حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ 11؍جون اُن کی نعش بذریعہ لاری لائی گئی۔ نماز جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے پڑھائی اور مرحوم مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے۔‘‘

(الفضل 14؍جون 1930ء صفحہ1)

آپ کی وفات پر آپ کی بیٹی محترمہ کنیز فاطمہ صاحبہ نے ذکر خیر کرتے ہوئے لکھا:
’’اپنے خاندان کے سب سے پہلے فرد تھے جو کہ احمدی ہوئے تھے، ان کی تبلیغ اور کوشش کے طفیل سب خاندان اس وقت ما شاء اللّٰہ احمدی ہے۔ آپ کا طریق تھا کہ جب کسی اپنے رشتہ دار یا دوست کو خط لکھتے تو ضرور ہی تبلیغ کرتے، بار ہا رشتہ داروں نے غصہ سے کہا کہ ہمیں تبلیغ کا خط نہ لکھا کرو لیکن آپ بدستور تبلیغ میں کوشش کرتے۔ مرحوم کا اخلاص حددرجہ کا تھا، اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابت یا اپنے سلسلہ کے خلاف ذرا بھی بات سنتے تو چہرہ غصہ سے سرخ ہو جاتا بلکہ اپنے پرانے دوستوں کی بھی پرواہ نہ کرتے، کسی کو جرأت نہ ہوتی تھی کہ احمدیت کے خلاف کوئی بات مرحوم کے سامنے کرے۔ آپ انگریز افسروں کو بھی بعض دفعہ کہہ دیتے کہ مجھے ایسی نوکری کی پرواہ نہیں جو کہ میرے مذہب میں روک بنے ……مرحوم نہایت اعلیٰ اوصاف کے انسان تھے، صاف گو تھے، چشم پوش تھے۔ کسی کی بات کو سن کر کسی کے آگے نہ بیان کرتے اور نہ ہی کسی کی بری باتیں سن کر یکدم یقین کرلیتے۔ اپنی بیوی بچوں کو بھی یہی کہتے کہ نیک ظن رکھا کرو، ظن المومنین خیرا والی آیت پڑھتے۔ نماز، روزہ کے بے حد پابند تھے۔ سب بچوں کو آپ نے خود ہی قرآن شریف با ترجمہ اور نماز با ترجمہ پڑھائی۔ دینی تعلیم کو دنیاوی تعلیم سے مقدم رکھا کرتے۔ چندہ وغیرہ میں بڑی قربانی کرتے، جب کبھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا کوئی اعلان چندہ کی بابت ہوتا فورًا لبیک کہتے، باوجود سخت مالی مشکلات کے پہلے اپنی تنخواہ میں سے چندہ ادا کرتے، بعد میں گھر کے اخراجات پورے کرتے۔ کبھی کبھار دینی کاموں میں بعض مجبوریوں کے باعث حصہ نہ لے سکتے تو نہایت ہی حسرت و اندوہ سے افسوس کرتے اور کہتے میرے دل کی تڑپ چین نہیں لینے دیتی لیکن مجبور ہوں، پھر بھی حتی الوسع دین کی خدمت کرتے۔ اپنے وعدہ کے بڑے پکے تھے اگر کسی کے ساتھ عہد و پیمان کرتے تو چاہے دوسرا عہد توڑ ہی دیتا آپ اپنا وعدہ پورا کرتے اور کہتے اس کے اعمال اس کے ساتھ اور میرے اعمال میرے ساتھ ہیں ….خیرات کے بھی حد درجہ پابند تھے، حسب طاقت ضرور ہی خیرات کرتے، چاہے قدم سے کریں یا باتوں سے یا پیسہ سے یا علاج سے۔ مرحوم کہا کرتے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ سوالی اگر گھوڑے پر چڑھ کر آئے اور سوال کرے تو بھی مت جھڑکو بلکہ اپنی توفیق کے مطابق ضرور کچھ نہ کچھ دے دیا کرو، سو میں اس حکم کے مطابق سب سوالیوں کو دے دیا کرتا ہوں۔ قادیان کی مقدس بستی سے خاص محبت رکھتے، جب کبھی ہندوستان آتے تو ضرور ہی قادیان کی زیارت کرتے اور یہی خواہش رکھتے کہ ہجرت کر کے قادیان میں رہوں چنانچہ اپنی خواہش کے مطابق اب افریقہ سے سیدھے قادیان آئے اور وہاں چار ماہ تک رہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص محبت تھی، بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سناتے ہوئے رو پڑتے اور آواز میں رقت پیدا ہو جاتی۔ آپ فرمایا کرتے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا تار افریقہ پہنچا تو میں تار پڑھ کر مبہوت ہوگیا اور خیال آتا شاید کسی دشمن کی شرارت ہو۔ فرماتے جب میں 1907ء میں افریقہ جانے لگا تو قادیان گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی، آپؑ نے مجھے جانے کی اجازت دے دی اور دعا کی مگر اس دن میں نہ جا سکا اور قادیان میں ہی رہا۔ دوسرے دن جب میں روانہ ہونے لگا تو مفتی محمد صادق صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مل لیا ہے! مَیں نے کہا ہاں کل مل لیا تھا۔ مفتی صاحب نے کہا آج پھر مل لو، زندگی کا کوئی اعتبار نہیں۔ مَیں نے مفتی صاحب کے ساتھ جاکر پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی اور آبدیدہ ہو کر روانہ ہوا، 6 مہینے کے بعد آپؑ کی وفات کا تار افریقہ پہنچا‘‘

(الفضل 12؍اگست 1930ء صفحہ8-9)

آپ کی اہلیہ محترمہ نواب بیگم صاحبہ بھی نیک خاتون تھیں۔ ان کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے: ’’نواب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد علی خان صاحب ممباسہ نے 6شیلنگ الفضل میں بھجوائے ہیں تا کہ کسی غریب کے نام 6ماہ کے لیے الفضل جاری کر دیا جائے، اس خوشی میں کہ ان کے عزیز بھائی میر عزیزالدین صاحب احمدی کے ہاں اللہ تعالیٰ نے فرزند ارجمند عطا فرمایا ہے۔‘‘

(الفضل 17؍اگست 1928ء صفحہ2 کالم2)

وصیت کے ریکارڈ کے مطابق 1910ء میں بیعت کی اور 23؍مئی 1973ء کو لاہور میں وفات پاکر بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔ تاریخ لجنہ اماء اللہ میں ان کا ذکر یوں محفوظ ہے:
’’نواب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میر محمد علی خان صاحب مرحوم افریقوی ….. مرحومہ نے اپنے شوہر کی بیعت کے کچھ عرصہ بعد ہی بیعت کر لی تھی اور تمام زندگی خدمت دین کے جذبہ سے سرشار رہیں۔ آپ کا تعلق گجرات کے گاؤں کالرہ دیوان سنگھ سے تھا۔ شوہر کی وفات کے بعد قادیان رہائش اختیار کر لی۔ ایک عرصہ تک محلہ دار الرحمت کی صدر بھی رہیں۔ اجلاس بھی آپ کے گھر ہوتے تھے ….. قریبًا پچانوے سال کی عمر میں وفات پائی۔‘‘

(تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد چہارم صفحہ231)

آپ کی اولاد میں تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں میر عنایت اللہ خان صاحب اور میر شریف احمد خان افریقی (وفات19؍نومبر 1942ء) اور بیٹیوں میں کنیز فاطمہ زوجہ میاں عطاء اللہ خان صاحب، رقیہ بیگم صاحبہ زوجہ خلیفہ عبدالرحمٰن صدیقی صاحب ابن حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ ، مبارکہ بیگم صاحبہ اور صفیہ بیگم صاحبہ زوجہ کمانڈر محمد یوسف خان صاحب کا علم ہوا ہے۔

(نوٹ: آپ کی تصویر مکرم میر ناصر احمد صاحب آف ٹورنٹو کینیڈا نے مہیا فرمائی۔ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ)

(غلام مصباح بلوچ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ آسٹریا کی تبلیغی سرگرمیاں

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی