• 19 اپریل, 2024

استنبول (قسطنطنیہ) کی سیر (قسط 3)

بِلیو مسجد یا نیلی مسجد

بلو مسجد کو تلاش نہیں کرنا پڑتا بلکہ مسجد خود آپ کو تلاش کر لیتی ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ایسے لگا کہ یہ عالی شان نیلی مسجد اپنے دروازے وا کئے ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ مقامی طور پرسلطان احمد کے نام سے منسوب اس مسجد کے گنبد اور ستون انفرادیت کی وجہ سے فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہیں۔اس کے اونچے مینارے استنبول کے شاندار افق پر تسبیح و تحمید کرتے نظر آتے ہیں۔قدیم شہر کے مرکز میں واقع، یہ مسجد 1616ء میں سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ سلطان احمداول Ottoman Sultan Ahmed I) نے کونسٹینٹینوپل (Constantinople) محل کی بنیادوں پر تعمیر کی تھی۔ سلطان احمد مسجد کو بیرونی دیواروں کے نیلے رنگ کے باعث نیلی مسجد کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ترکی کی واحد مسجد ہے، جس کے 6 مینار ہیں۔ کہتے ہیں کہ جب تعمیر مکمل ہونے پر سلطان کو اس کا علم ہوا تو اس نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کیونکہ اُس وقت صرف مسجد حرام کے میناروں کی تعداد 6 تھی۔

بلو مسجد اور حاجیہ صوفیہ جسے آیا صوفیہ بھی کہا جاتا ہے، ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں ۔ صبح سے لے کر رات دیر گئے تک یہ چوراہا سیاحوں سے ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔ یہاں ہر طرح کا سیاح نظر آتا ہے۔ حِجاب اور شرعی نقاب سے لے کر، مِنی اسکرٹ تک ہر قسم کا لباس پہنے لوگ مشرق و مغرب کے امتزاج کی کہانی سناتے نظر آتے ہیں۔ غیر مُسلم سیاح بھی اسلامی طرزِ تعمیر سے نگاہیں خیرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہر مسجد کے دروازے پرچادریں دستیاب ہیں جو آپ باندھ سکتے ہیں، اوڑھ سکتے ہیں۔ مغربی عورتیں اپنے لباس کے اوپر اِن چادروں کو اوڑھتی ہیں۔ نمازیوں کو نماز پڑھنے میں خلل نہ آئے اِس لئے دورانِ نماز سیاحوں کو مسجدوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجموعی طور پر ایک پُرامن، اخلاقی تقاضوں سے بھرپور فضاء آپ کومتاثر کرتی ہے۔

آیا صوفیہ یا حاجیہ صوفیہ

نیلی مسجد کے بالمقابل اس کی عظمت کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک اور شاندار عمارت موجود ہے جسے حاجیہ صوفیہ (Hagia Sofia) اورمقامی طور پر آیا صوفیہ(Aya Sofia) کہتے ہیں۔ آیا صوفیہ ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا ہے، جسے 1453ء میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کردیا تھا۔ 1935ء میں اتاترک نے اس کی گرجے و مسجد کی حیثیت ختم کر کے اسے عجائب گھر بنا دیا۔اِس عمارت کے اندر جانے کے لئے آپ کو ٹکٹ خریدنی ہوتی ہے۔ اگر لائن میں لگنے سے بچنا ہے تو پھر گائیڈڈ ٹور کیا جا سکتا ہے جو کہ قدرے مہنگا پڑتا ہے۔ لیکن صبح جلدی لائن میں لگ کرآسانی سے ٹکٹ حاصل کیا جا سکتا ہے۔لوگ صبح نو بجے سے ہی اِس میوزیم کے باہر قطار بند ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی دیواریں، اونچے اونچے دروازے اور ایک بلند و بالا ڈوم ہمیں کسی گزرے زمانے میں لے جاتے ہیں جو دنیا کی انتہائی طاقتورسلطنتوں کی ترقی اور زوال کی ایک طلسماتی کہانی پیش کرتا ہے۔ گنبد کے اندرونی حصے میں موجود مسیح کی تمثیلی پینٹنگز سے لے کر اسلامی طرز کی سجاوٹ دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ آیا صوفیہ کا مرکزی ہال، ہمیں دنیا کی دو بڑی تہذیبوں کے عروج و زوال کی داستانیں سناتے ہوئے صدیوں پیچھے لے جاتا ہے۔ اِس قلعہ نما عمارت کے اندر عیسائیت کے متعلق کچھ پنٹنگز اور موزیکس کے علاوہ امامت والی محراب اور دیوار پر عربی آیات، کلمہ طیبہ اور آنحضورﷺ کے اِسم مبارک اور اُن کے ساتھ خلفائے راشدین کے ناموں کے بڑے سائز کے فریم لگے ہوئے ہیں۔ جو کہ یقینی طور پر بعد میں ہی لگائے گئے ہوں گے۔ بہرحال یہ خوبصورت عمارت اندر سے بھی سنہری چمک دمک کے ساتھ نہایت خوبصورت اور دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔اِسی عمارت کے بغلی دروازے کے باہر ایک سنگِ مرمر کی تختی نصب ہے جس پر حضورﷺ کی حدیث لکھی ہے، جس کا مفہوم یہ کہ وہ فاتح خوش نصیب ہوگا جو استنبول کو فتح کرے گا۔
حديث الرسول ﷺ قال النبیٓ علیہ السلام لَتُفتَحُنّ القُسطَنطِينِية عَلَى يَدِ رَجُلِ، فَلَنِعمَ الأَمِيرُ أَمِيرُهَا وَلَنِعمَ الجَيشُ ذَلِكَ الجَيش۔

(المصدر السابق نفسه (4/ 335) بحوالہ فاتح القسطنطينية السلطان محمد الفاتح صفحہ 84)

توپ قاپی محل (Topkapi Palace) اور میوزیم

حاجیہ صوفیہ سے تھوڑے فاصلے پر یہ تاریخی قلعہ اور میوزیم واقع ہے، ویسے تو اِس قلعے سے متصل باغ بھی قابلِ دید ہے، شام کو یہاں مقامی لوگوں اور سیاحوں کا خوب رش رہتا ہے۔آیا صوفیہ کے سایہ میں کافاراگ مِدریس (کیفرِ آغامدرسہ) Caferaga Madrasa ہے جہاں سے ایک تنگ راستہ ہمیں سیدھا توپ کاپی محل کے گیٹ پر لے جاتا ہے۔ کافاراگ عثمانیہ سلطنت میں یہ ایک مدرسہ تھا جو کہ اب ایک ریسٹورانٹ ، صنعتکاری اور ہاتھ سے بنی چیزوں کے مرکز میں بدل چکا ہے۔قلعے کے اندر موجود باغیچے، دالان، محراب اور گنبد اسلامی طرزِ تعمیر کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لیکن اِس قلعے کا سب سے زیادہ پُرکشش حصہ یہاں کا مختصر سا میوزیم ہے۔اِس چھوٹی سی جگہ میں تاریخِ اسلام کی نادر اشیاء اور تبرکات موجود ہیں ۔ اس پر بھی داخلہ ٹکٹ ہے۔ نمائشی ہالز میں سلطنت عثمانیہ کے دور کی شاہی مصنوعات، شاہی ملبوسات اور اسلام کے مقدس نوادرات کی کلیکشنز موجود ہیں۔آنحضورﷺ ، خلفائے راشدین اور مختلف انبیاء اکرام سے منسوب اشیاء اِس میوزیم کا حصہ ہیں ۔ وہاں رکھی صحابہ کرام کی تلواریں اسلامی تاریخ کے اس دور کی یاد تازہ کرتی ہیں جب مسلمان حکمراں دنیا بھر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ رہے تھے۔ اسلامی نوادرات کا یہ سیکشن میوزیم کا سب سے اہم اورقیمتی حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اِس کے علاوہ بھی قلعے میں دیکھنے لائق دیگر کئی حصے موجود ہیں جیسے سلاطین سلطنتِ عثمانیہ کی تصاویر کا میوزیم، شاہی حَرم، شاہی کِچن اور اِس کے ظروف وغیرہ۔

یہ محل بادشاہ سلطان محمد دوئم نے کونسٹینٹینوپل Constantinople کی فتح کے بعد 1478ء میں جنگی حکمت عملی کو سامنے رکھتے ہوئےبنایا تھا۔ اوپر سے نیچے دیکھیں تو شمال میں Golden Horn شاخ زریں، مشرق میں آبنائے باسفورس، جنوب میں بحیرۂ مرمرہ نظر آتا ہے۔ تقریباً چار صدیوں تک عثمانیہ سلطنت کی حکومت کا مرکز رہا۔ ایک طرف حرم کا صحن باسفورس کا دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ کاش مسلمان تحقیق اور علوم کے شعبوں سےوابستہ رہتے تو آج دنیا کی عظیم ترین اورناقابل تسخیر قوم ہوتے۔
قریب ہی بیسیلیکا سسٹرن (Basilica Cistern) ایک حوض ہے جو کہ شہنشاہ جسٹنٹین اوّل نے چھٹی صدی عیسوی میں محل کو پانی کی سپلائی کے لئےتعمیر کروایا تھا اور استنبول کا سب سے بڑا پانی کا زخیرہ ہے۔ گو اس کا داخلہ انتہائی معمولی نظر آتا ہے لیکن جیسے ہی زیر زمین جاتے ہیں تو بازنطینی سلطنت کی اس حیرت انگیز تعمیر کو دیکھ کر انسان ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ روایت کے مطابق 7000 غلاموں نے اس کی تعمیر پر کام کیا۔ اس کے ایک ستون پر پرانے زمانے کی ایک تحریر بھی ہے جس پر آنسوؤں کے خاکے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ دوران تعمیر مرنے والےسینکڑوں غلاموں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ آبنائے بازفورس کے کنارے پہاڑ پر بنی ایک خوبصورت شاہکار سلیمان مسجد بھی سیاحوں کی توجہ کامرکز ہے۔ یہاں آنے والے مسلمانوں کی فن تعمیر کے جوہر دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔سلطان سلیمان عالیشان کے نام سےمنسوب اس مسجد کے ساتھ ہی سلطان سلیمان اور دیگرحکمرانوں کے مقبرے بھی ہیں۔استنبول کو مسجدوں کا شہر بھی پکارا جاتا ہے اور یہاں تقریباً تمام مساجد کا طرزِ تعمیرایک ہی جیسا ہے جن کی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔اکثر مساجد میں درمیانی گنبد ہوتا ہے اور اُس کے اطراف میں کھڑے مینار دور سے نمایاں نظر آتے ہیں۔ سلطنت عثمانیہ کا تخت ہونے کی وجہ سے اس شہر میں عثمانی دور کے بادشاہوں اور دیگر حکومتی عہدیداروں نے جگہ جگہ مساجد قائم کیں۔

آبنائے باسفورس کی سیر

سارے دن کی تھکان کو ایک ریسٹورنٹ میں تھوڑی دیر سستانے اور ٹرکش کھانے اور بعد میں گرم گرم ٹرکش قہوے کے ایک کپ سے دورکرنے کی کوشش کی۔ٹرکش کھانوں میں کباب جن میں آڈانا کباب، اسکندر کباب بہت مشہور ہیں۔شام کو ہم نے باسفورس کروز Bosphorus Cruise کے ذریعے استنبول کے نائٹ ویو جانے کا ارادہ کیا۔ویسے تو باسفورس کے کنارے لاؤڈ اسپیکرز پر کچھ افراد آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں کہ، ’باسفورس کی سیر،دریائے باسفورس کی سیر،ویری نائس ٹؤر،ویری گڈ ٹور ،لیکن ہم نے صبح ہی ٹکٹس کا انتظام کر لیا تھا۔ وقت مقررہ پر ہم توپ کاپی پیلس کے نیچے گودی پر پہنچے جہاں دو منزلہ خوبصورت کروز (ایک چھوٹے جہاز کو کہتے ہیں یا ایک حسین، خوبصورت اور آرام دہ کشتی کوبھی کہا جا سکتا ہے) ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں ہم بحیرۂ مرمرہ کے کنارے کو چھوڑ چکے تھے۔ کروز ہمیں لے کریورپین سائڈ میں واقع شاخ زریں Golden Horn سے ہوتی ہوئی شمالی یورپ کے ساحل کے ساتھ ساتھ آبنائے باسفورس اور آخر کار مشرق میں ایشین ساحل سے ہوتے ہوئے واپس پہنچے۔ گولڈن ہارن اس علاقے کا نام ہے جہاں آبنائے باسفورس کا پانی ایک سینگ کی صورت میں استنبول کی آبادی میں داخل ہوتا ہے۔

جغرافیائی طور پر گولڈن ہارن استنبول کے تاریخی مرکز کو باقی شہر سے جدا کرتا ہے اس کا ترکش نام Halic ہے جو عربی زبان کے لفظ خلیج سے ماخوذ ہے آسان لفظوں میں اسے Estuary یعنی دریائی دہانہ کہہ سکتے ہیں اس کے انگریزی نام Golden Horn کا مطلب سینگ سے مشابہت رکھنے والی سنہری خلیج ہے جو تنگ گزر گاہ کی صورت ہےاستنبول کے مرکز کو باقی شہر سے جدا کرتی ہے Horn تو اس کے سینگ جیسا ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور لفظ Golden کے پس منظر کے باب میں تاریخ دان الگ الگ رائے رکھتے ہیں کچھ کا خیال ہے کہ چونکہ ماضی میں یہ ایک اہم بندرگاہ تھی جو اس شہر میں مال و دولت کی فراوانی کا ذریعہ بنی اس نسبت سے اسے گولڈن کہا جانے لگا جبکہ بعض کی رائے ہے کہ جب طلوع و غروب ہوتے سورج کی کرنیں باسفورس کے پانیوں کو منور کرتی ہیں تو یہ سونے کی مانند چمک اٹھتے ہیں۔ رات کے وقت ساحل سمندر کے ساتھ پہاڑوں پر روشن عمارات اور ان کا پانی میں عکس ایک انتہائی دلربا منظر پیش کرتا ہے۔
اسلامک ریسرچ سنٹر ترکی نے تاریخ کو رقم کرنے اور عظیم ثقافتی ورثے کے متعلق بکھرے ہوئے اوراق کو جمع کر کے ان کی تدوین کا خاصا اہتمام کر رکھا ہے۔استنبول کا تاریخی مرکز اس کے ضلع گولڈن ہارن کے علاقے میں واقع ہے صدیوں پرانی تاریخ کے آثار عالی شان عمارت عجائب گھر یونیورسٹیوں کے کیمپس ثقافتی مراکز اسی گولڈن ہارن پر واقع ہیں۔شاخ زریں میں داخل ہوتے ہی حیرت انگیز طور پر خوبصورت سلیمانی مسجدنظر آتی ہے جو کہ سلطنت عثمانیہ کے ایک باصلاحیت آرکیٹیکٹ سنا ن کے فن کا شاہکار ہے۔

(قسط 1)

(قسط 2)

(مجید احمد بشیر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 1 جنوری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 جنوری 2020