2018ء کے اواخر میں ایک مقالہ ’’صحابہ رسولﷺ کی دین کے لئے قربانیاں‘‘ میں صحابہ رسولﷺ کے عالمی سفروں کے مطالعہ کا موقع ملا جس میں آنحضرتﷺ کے ایک صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے قسطنطنیہ کے لئےسفر اور ان کے وہاں پر مزار کے بارہ میں ذکر تھا۔ لندن کا سفر تو کر ہی رہے تھے خیال آیا کیوں نہ واپسی پر اس قدیم شہر کو جا کر دیکھا جائے جسےعلامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کا دل قرار دیتے ہوئے ’’مہدیِ امت کی سطوت کا نشانِ پائیدار‘‘ قراردیا ہے۔ اس شہر کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تحریر کیاکہ
صورتِ خاکِ حرم یہ سرزمیں بھی پاک ہے
آستانِ مسند آرائے شہِ لولاک ہے
نکہتِ گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی ہوا
تربتِ ایوب انصاری سے آتی ہے صدا
اے مسلماں! ملت اسلام کا دل ہے یہ شہر
سینکڑوں صدیوں کی کشت و خوں کا حاصل ہے شہر
چنانچہ ٹکٹس کی تلاش شروع ہوئی ۔لندن سے واپسی پر تین چار روز کے لئے استنبول میں ہوٹل کی بکنگ کروائی۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ آج کل ترکی کی سیر کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق استنبول نے سال 2018ءمیں 13 ملین 4 لاکھ 33 ہزار 101 سیاحوں کی میزبانی کی۔ جب اس تعداد کا 2017 ءکی تعداد 8ملین40 لاکھ 5 ہزار 95 سے موازنہ کیا جائے تو سال 2018 میں چونتیس فیصد اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال کے آخری مہینے میں استنبول کی سیر کو آنے والے سیاحوں کی تعداد ایک ملین77 ہزار 979 ریکارڈ کی گئی ۔
ترکی کے لئے ویزا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یو کے کا ویزا ہو تو آپ اپنے ٹریول ایجنٹ کے ذریعہ ای ویزا کے لئے درخواست دے سکتے ہیں جو کہ بہت مناسب قیمت میں آسانی سے مل جاتا ہے۔ ایک رات کے لئےقیام تو بعض ائیر لائنز کی طرف سے ہی مل جاتا ہے باقی دنوں کے لئے بھی مناسب دام میں ہوٹل کی بکنگ ہو جاتی ہے۔جو کہ کسی بھی پریشانی سے بچنے کے لئے سفر کے آغاز سے پہلے ہی کروا لینی چاہئے۔ یہ آن لائن بھی کروائی جا سکتی ہے۔ شہر کے دل میں مناسب رہائش والےکئی ایسے ہوٹل ہیں جہاں سے کئی تاریخی مقامات تک پیدل بھی اور بذریعہ میٹرو سروس رسائی ممکن ہے۔بہر حال ہم نے لندن سے استنبول کے لئے اپنے سفر کا آغاز کیا۔
استنبول قدیم اور جدید زمانوں کے امتزاج کا ایک طلسمی شہر ہے۔ ویسے تو کئی دفعہ سفر کے دوران ترکی کے اوپر سے گزرتے ہوئے یہ خواہش ضرور رہی کہ کسی وقت موقع ملنے پر ضرور اس جگہ کو دیکھناچا ہئے۔ یہ ملک زبردست تاریخ اور ثقافت کو اپنے اندر چھپائے 300,000 مربع میل پر پھیلا ہواہے لیکن ہم نے صرف استنبول شہرکے دیکھنے پر ہی اکتفا کیا جو کہ براعظم ایشیا اور براعظم یورپ کے سنگم پر واقع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے مقامی افراد کے طرز زندگی پر یورپ کی چھاپ نظر آتی ہے۔ تاریخ میں قسطنطنیہ کے نام سے مشہور ترکی کا شہر استنبول،ترک:Istanbul، یونانی: Konstantinoúpolis، انگریزی Istanbul: تاریخی طور پر Constantinople کے نام سے جانا جاتا ہے ۔یہ ملک کا سب سے بڑا شہر اور اس کا ثقافتی و اقتصادی مرکز ہے۔ شہر صوبہ استنبول کا صدر مقام بھی ہے۔ استنبول تاریخ عالم کا واحد شہر جو 3 عظیم سلطنتوں کا دار الحکومت رہا ہے۔ جن میں 330ء سے 395ء تک رومی سلطنت، 395ء سے 1453ء تک بازنطینی سلطنت اور 1453ء سے 1923ء تک سلطنت عثمانیہ شامل ہیں۔ جس کے باعث ہمیشہ اس عظیم تاریخی شہر کو اہمیت حاصل رہی۔ 1923ء میں ترک جمہوریہ کے قیام کے بعد دار الحکومت انقرہ منتقل کر دیا گیا۔ آبنائے باسفورس اور اس کی قدرتی بندرگاہ شاخ زریں Golden Horn یا Haliç کے کنارے واقع ترکی کا یہ شمال مغربی شہر باسفورس کے ایک جانب یورپ کے علاقے تھریس اور دوسری جانب ایشیا کے علاقے اناطولیہ تک پھیلا ہوا ہے اس طرح وہ دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے۔2000ء کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی 88 لاکھ 3 ہزار 468 اور کل شہری حدود کی آبادی ایک کروڑ 18ہزار 735ہے اس طرح استنبول یورپ کا دوسرا سب سے بڑا شہر ہے۔ شہر کو 2010ء کے لئے پیکس، ہنگری اور آسن، جرمنی کے ساتھ یورپ کا ثقافتی دار الحکومت قرار دیا گیا ہے۔ تاریخ میں شہر نے مکینوں کی ثقافت، زبان اور مذہب کے اعتبار سے کئی نام بدلے جن میں سے بازنطیم، قسطنطنیہ اور استنبول اب بھی جانے جاتے ہیں۔ شہر کو‘‘سات پہاڑیوں کا شہر’’بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شہر کا سب سے قدیم علاقہ سات پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جہاں ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد قائم ہے۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد سلطان محمد فاتح نے اس شہر کا نام اسلام بول رکھا مگر ترکوں کو اسلام بول بولنے میں مشکل ہوتی تھی تو وہ اسے استنبول کہتے تھے اس وجہ سے اس کا نام استنبول پڑا۔ بعض کے مطابق1923ءمیں جب مصطفی کمال اتاترک نے انقرہ کو نئی ترک جمہوریہ کا دار الحکومت قرار دیا تو اس وقت قسطنطنیہ کا نام استنبول رکھ دیا گیا۔بہرحال یہ شہر یورپ اور ایشیا کے سنگم پر شاخ زریں کے کنارے واقع ہے اور قرون وسطی میں یورپ کا سب سے بڑا اور امیر ترین شہر تھا۔ اس زمانے میں قسطنطنیہ کو Vasileousa Polis یعنی شہروں کی ملکہ کہا جاتا تھا۔
جیسے جیسے ہم ترکی کے قریب ہو رہے تھے یہ احساس غالب آ رہا تھا کہ ہمیں اس تاریخی جگہ کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے جو کہ قدیم یونانی، رومی تہذیبوں اور پھرمسلمانوں کی عثمانیہ سلطنت کا گھر رہا اور ترکی کا اہم تجارتی ، سیاحتی اور ثقافتی مرکز صدیوں پرمحیط انمول تاریخی ورثے سے مالامال ہے جس نے ہمیشہ ہی ہمیں متاثر کیا۔ اس وقت تودل کی حالت اور بھی عجیب تھی جب جہاز نے بحیرہ مرمرہ کے اوپر ترک انٹرنیشنل ایئرپورٹ استنبول پر اترنے کے لئے چکر لگایا اور ہمیں شہر کی ایک جھلک دیکھنے کا موقع مل گیا۔سمندر کے ساتھ ساتھ حسین پہاڑوں پر بنے خوبصورت مکانات، بحیرہ مرمرہ اور بحیرہ اسود کے سنگم پر واقع آبنائے باسفورس سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں ۔ قدیم فن تعمیرات سے مزین خوبصورت ، حسین اور شاہکار عمارتیں تحقیق کے دلدادہ افراد کی نگاہوں کا مرکز ہیں ۔ یونانی، رومی اور مسلمان سلطنتوں کے ادوار میں دارالخلافہ ہونے ۔ زمانہ قدیم میں استنبول کو قسطنطنیہ کہا جاتا تھا۔ یہ بازنطینی سلطنت سے بھی مشہور ہوا۔ شہر میں جگہ جگہ سلطنت روم، سلطنت عثمانیہ سمیت مختلف ادوار کی نشانیاں نظر آتی ہیں تاہم تاریخی قلعہ کی دیواریں اب شہر کے درمیان آچکی ہیں۔
تاریخ میں قسطنطنیہ نے کئی نام اختیار کئے جن میں سے بازنطین، نیوروم (نووا روما)، قسطنطنیہ اور استنبول مشہور ہیں۔ شہر کا سب سے پہلااور قدیم نام بازنطین تھا ، یہ نام اسے میگارا باشندوں نے تقریباً 600 ق م میں اس کے قیام کے وقت دیا تھا۔
جب 330 عیسوی میں رومن شہنشاہ کونسیٹنٹائن اول نے اپنا دارالحکومت روم سے یہاں منتقل کیا تو شہر کا نام بدل کر اپنے نام کی مناسبت سے کونسٹینٹینوپل کر دیا، (جو عربوں کے ہاں پہنچ کر’’قسطنطنیہ‘‘ بن گیا)۔ مغرب میں رومن امپائر کے خاتمے کے بعد یہ سلطنت قسطنطنیہ میں برقرار رہی اور چوتھی تا 13ویں صدی تک اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دوران دنیا کا کوئی اور شہر اس کی برابری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ مسلمان شروع ہی سے اس شہر کو فتح کرنےکی کوشش میں تھے۔چنانچہ اس مقصد کے حصول کی خاطر مسلمانوں نے چند ابتدائی کوششوں کی ناکامی کے بعد 674 میں ایک زبردست بحری بیڑا تیار کر کے قسطنطنیہ کی سمت روانہ کیا۔ اس بیڑے نے شہر کے باہر ڈیرے ڈال دیے اور اگلے چار سال تک متواتر فصیلیں عبور کرنے کی کوششیں کرتا رہا۔آخر 678 میں بازنطینی بحری جہاز شہر سے باہر نکلے اور انہوں نے انتہائی خطرناک ہتھیار سےحملہ آور عربوں پر حملہ کر دیا۔ اس کا ٹھیک ٹھیک فارمولا توآج تک معلوم نہیں ہو سکا، تاہم یہ ایک ایسا آتش گیر مادہ تھا جسے تیروں کی مدد سے پھینکا جاتا تھا اور یہ کشتیوں اور جہازوں سے چپک جاتا تھا۔ مزید یہ کہ پانی ڈالنے سے اس کی آگ مزید بھڑک جاتی تھی۔اس لئے یہ’’آتشِ یونانی‘‘ یا گریک فائر کے نام سے مشہور ہوا۔عرب اس آفت کے مقابلے کے لئے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے تمام بحری بیڑا آتش زار کا منظر پیش کرنے لگا۔ سپاہیوں نے پانی میں کود کر جان بچانے کی کوشش کی لیکن یہاں بھی پناہ نہیں ملی کیونکہ آتشِ یونانی پانی کی سطح پر گر کر بھی جلتی رہتی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے پورے بحرِ مرمر نے آگ پکڑ لی ہے۔عربوں کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔واپسی میں ایک ہولناک سمندری طوفان نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور سینکڑوں کشتیوں میں سے ایک آدھ ہی بچ کر لوٹنے میں کامیاب ہو سکی۔اسی محاصرے کے دوران آنحضرتﷺ کےمشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاریؓ نے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔ ان کا مقبرہ آج بھی شہر کی فصیل کے باہر ہے۔ ان کے مزار پر دعا کی غرض سے حاضری دی تودل نے بےساختہ کہا اصحاب رسول ﷺ پر ہزاروں لاکھوں سلام، مزار کے خوبصورت نقش و نگار نے جیسے اپنے سحر میں جکڑ لیا۔سلطان محمد فاتح نے یہاں ایک مسجد بنا دی تھی جسے ترک مقدس مقام مانتے ہیں۔
(قسط 2)
(قسط 3)
(پروفیسر مجید احمد بشیر)