• 19 اپریل, 2024

سیرۃ النبی ﷺ ، پانچ بنیادی اخلاق کی روشنی میں

سچائی

آپؐ ہی تھے جن کو آغاز جوانی سے ہی اپنے پرائے سبھی امانت دار مانتے تھے۔ آپؐ کا نام ہی صدوق پڑگیا تھا جو بے حد سچ بولنے والے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی دعویٔ نبوت تک کھلم کھلا یہ گواہی دیتے رہے کہ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس جگہ ہم رسول کریمؐ کی صداقت کے بارے میں چند شہادتیں پیش کریں گے۔

میاں بیوی کی قربت کو قرآن شریف میں بجا طور پر ایک دوسرے کے لباس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (البقرہ:188) پس بیوی سے بڑھ کر کون ہے جو شوہر کے زیادہ قریب ہو اور اس کے اخلاق کے بارہ میں اس سے بہتررائے دے سکے؟
نبی کریمﷺ جب پہلی وحی کے بعد گھبراہٹ کے عالم میں گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو جن الفاظ میں تسلی دی وہ آپؐ کی صداقت کی زبردست گواہی ہے۔ انہوں نے آپؐ کی یہ اہم صفت بھی بیان کی کہ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؐ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا۔

(صحیح بخاری)

رسول اللہ ﷺکے اخلاق کے بارے میں حضرت عائشہؓ کی بھی یہی گواہی تھی کہ آپؐ کے اخلاق تو قرآن تھے اوراسلام وقرآن کا بنیادی خلق تو سچائی ہی ہے۔
حضرت عائشہؓ کی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم ؐ کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی۔ اور جب آپؐ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپؐ اس وقت تک اس سے کھچے کچھے رہتے تھے جب تک کہ آپؐ کو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے توبہ کرلی ہے۔

(ابن سعد)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت حق پہنچائیں تو کوہِ صفا پر آپؐ نے قبائل قریش کونام لے کر بلایا۔ جب وہ اکٹھے ہوئے تو ان سے پوچھا کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟‘‘ انہوں نے بلاتامّل کہا ہاں! ہم نے کبھی بھی آپؐ سے جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا۔ آپؐ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ ’’مگر جب آپؐ نے انہیں کلمۂ توحید کی دعوت دی توآپؐ کا چچا ابو لہب کہنے لگا‘‘ تیرا بُرا ہو کیا تو نے اس لئے ہمیں جمع کیا تھا۔‘‘

(صحیح بخاری )

ایک دفعہ قریش کا وفد نبی کریمﷺ کی شکایت لے کر رسول اللہؐ کے چچا ابوطالب کے پاس آیا۔ ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلواکر سمجھایا کہ قریش کی بات مان لو۔نبی کریمﷺ نے قریش سے فرمایا کہ اگر تم اس سورج سے روشن شعلۂ آگ بھی میرے پاس لے آؤ پھر بھی میرے لئے اس کام کو چھوڑنا ممکن نہیں ۔اس پر ابو طالب نے گواہی دی کہ خد ا کی قسم ! میں نے آج تک کبھی اپنے بھتیجے کو اس کے قول میں جھوٹا نہیں پایا۔ یعنی یہ اپنی بات کا پکا اور سچا ہے اور اس پر قائم رہے گا۔ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔

(بیہقی)

ابو طالب کی دوسری گواہی

شعب ابی طالب کے زمانہ کی ہے۔ جب اس محصوری کی حالت میں تیسرا سال ہونے کو آیا تو نبی کریم ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا اس کی ساری عبارت کو سوائے لفظ اللہ کے دیمک کھاگئی ہے۔ ابوطالب کو رسول اللہ ؐکے قول پر ایسا یقین تھا کہ انہوں پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ یہ بات بھی لازماً سچ ہے۔ چنانچہ وہ ان کے ساتھ سرداران قریش کے پاس گئے اور انہیں بھی کھل کر کہا کہ میرے بھتیجے نے مجھے یہ بتایا ہے کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک کھا گئی ہے۔ اس نے مجھ سے آج تک جھوٹ نہیں بولا۔ بے شک تم جاکر دیکھ لو اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلے تو تمہیں بائیکاٹ کا اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر وہ جھوٹا ثابت ہو تو میں اُسے تمہارے حوالے کروں گا۔ چاہو تو اسے قتل کرو اور چاہو تو زندہ رکھو۔ انہوں نے کہا بالکل یہ انصاف کی بات ہے۔ پھر جاکر دیکھا تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، سوائے لفظ اللہ کے سارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی تھی۔ چنانچہ قریش یہ معاہدہ ختم کرنے پر مجبور ہوگئے۔

(ابن جوزی)

خزیمہ حضرت خدیجہ ؓ کے سسرالی رشتہ داروں میں سے تھے۔ دعویٰ نبوت سے قبل جب رسول کریمؐ تجارت کے لئے حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر شام گئے۔ خزیمہؓ بھی حضورؐ کے ساتھ تھے۔ حضورؐ کے پاکیزہ اخلاق مشاہدہ کر کے انہوں نے بے اختیار یہ گواہی د ی کہ
’’اے محمدؐ میں آپؐ کے اندر عظیم الشان خصائل اور خوبیاں دیکھتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؐ وہی نبی ہیں جس نے تہامہ سے ظاہر ہونا تھا اور میں آپؐ پر ابھی ایمان لاتا ہوں۔ ‘‘ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جب مجھے آپؐ کے دعویٰ کی خبر ملی میں ضرور آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ مگر دعویٰ کے بعد جلد اس وعدہ کی تکمیل نہ ہوسکی۔ فتح مکہ کے بعد آکر اسلام قبول کیا تو رسول اللہؐ نے فرمایا ’’پہلے مہاجر کو خوش آمدید۔‘‘

(ابن حجر)

حضرت ابوبکرؓ رسول اللہؐ کے بچپن کے دوست تھے۔ انہوں نے جب آپؐ کے دعویٰ کے بارہ میں سنا تو رسول اللہﷺ کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہی کیونکہ زندگی بھر کا مشاہدہ یہی تھا کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔

(بیہقی)

پس رسول اللہؐ کا کردار بھی آپؐ کی سچائی کا گواہ تھا اور آپؐ کی پیشانی پر بھی سچائی کی روشنی تھی جسے حضرت ابوبکرؓ نے پہچان لیا۔
حق یہ ہے کہ سچوں کی گواہی دینے پر اپنے اور بیگانے تو کیا دشمن بھی مجبو رہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ابو جہل سے بڑھ کر کون تھا؟ مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برملا کہا کرتا تھا کہ ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو تو لے کر آیا ہے۔

(جامع ترمذی)

رسول اللہ ؐ کا دوسرا بڑا دشمن ابو سفیان تھا۔ ہر قل شاہ روم نے اپنے دربار میں جب اس سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے اس مدعی نبوت (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) پر اس سے پہلے کوئی جھوٹ کا الزام لگایا؟ ابو سفیان نے جواب دیا کہ نہیں ہرگز نہیں۔ دانا ہر قل نے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ اس نے لوگوں کے ساتھ توکبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور خدا پر جھوٹ باندھنے لگ جائے۔

(صحیح بخاری )

رسول اللہؐ کا ایک اور جانی دشمن نضربن حارث تھا جودارالندوہ میں آپؐ کے قتل کے منصوبے میں بھی شامل تھا۔ کفار کی مجلس میں جب کسی نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں محمدؐ کے بارے میں یہ مشہور کردینا چاہئے کہ یہ جھوٹا ہے تو نضر بن حارث سے رہا نہ گیا۔ وہ بے اختیار کہہ اٹھا کہ دیکھو محمدؐ تمہارے درمیان جوان ہوا، اس کے اخلاق پسندیدہ تھے۔ وہ تم میں سب سے زیادہ سچا اور امین تھا۔ پھر جب وہ ادھیڑ عمر کو پہنچا اور اپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے لگا تو تم نے کہا جھوٹا ہے۔ خدا کی قسم! یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ وہ جھوٹا ہے۔ وہ ہرگزجھوٹا نہیں ہے۔

(سیرت ابن ہشام)

دشمن رسول امیہ بن خلف نے اپنے جاہلیت کے دوست حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری سے اپنی ہلاکت کے بارے میں رسول اللہؐ کی پیشگوئی سن کربے ساختہ گواہی دی تھی کہ خدا کی قسم (محمدﷺ) جب بھی بات کرتا ہے۔ جھوٹ نہیں بولتا۔

(صحیح بخاری)

حضرت سعد بن معاذ ؓ انصاری نے جب سردارقریش امیہ بن خلف کی بیوی کو بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ اس کا خاوند امیہ ہلاک ہوگا تو وہ بے اختیار کہہ اٹھی! خداکی قسم محمدؐ جھوٹ نہیں بولتے۔ چنانچہ جب جنگ بدر کے لئے امیہ ابو جہل کے ساتھ جانے لگا تو بیوی نے پھر کہا ‘‘تمہیں یاد نہیں تمہارے یثربی بھائی سعد نے تمہیں کیا کہا تھا۔’’امیہ اس وجہ سے رُک گیا مگر ابوجہل باصرار اسے لے گیا چنانچہ امیہ بن خلف بدر میں مارا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ثابت ہوئی۔

(صحیح بخاری )

قریش نے ایک دفعہ اپنے ایک سردار عتبہ کو نمائندہ بناکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا۔ اس نے کہا کہ آپؐ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟آپؐ کی جوبھی خواہش ہے پوری کرتے ہیں۔آپؐ ان باتوں سے باز آئیں۔حضورؐ تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ جب وہ سب کہہ چکا تو آپؐنے سورۃ حٰم فُصِّلَتْ کی چند آیات تلاوت کیں ،جب آپؐ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد وثمود جیسے عذاب سے ڈرا تا ہوں توعتبہ نے آپؐ کو روک دیا کہ اب بس کریں اورخوف کے مارے اُٹھ کر چل دیا۔اس نے قریش کو جاکر کہا تمہیں پتہ ہے کہ محمدؐ جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آجائے جس سے وہ ڈراتا ہے۔ تمام سردار یہ سن کرخاموش ہوگئے۔ (حلبیہ13) اُن سب سردارانِ قریش کی یہ خاموشی اپنی ذات میں اس بات کی گواہی تھی کہ بلاشبہ آپ ؐصادق وراستباز ہیں۔

مسلمانوں اور یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے درمیان باہمی تعاون کا معاہد ہ تھامگر جنگ احزاب کے دوران بنونضیر کا سردار حیّ بن اخطب بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد قرظی کے پاس گیا اور اسے مسلمانوں سے معاہدہ توڑنے اور قریش کی مدد کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلمانوں کو شکست سے دوچار کیاجائے۔ کعب بن اسعد جوبنو قریظہ کا سرداراورمسلمانوں کا دشمن تھا بے اختیار کہہ اٹھا ’’تم میرے پاس زمانے بھرکی ذلت لے کر آئے ہو میں محمدؐ نےسے صدق کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔‘‘

(سیرت ابن ہشام )

عبداللہؓ بن سلام مدینہ کے ایک بڑے یہودی عالم تھے۔وہ مسلمان ہونے سے پہلے کا اپنا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضورؐ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگ دیوانہ وار آپؐ کو دیکھنے گئے میں بھی ان میں شامل ہوگیا۔ آپؐ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ہی میں پہچان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔

(سنن ابن ماجہ)

معروف محقق ایچ جی ویلز نے رسول اللہؐ کے صدق وصفا کی گواہی دیتے ہوئے لکھا:۔’’ یہ محمد(ﷺ) کے صدق کی دلیل قاطع ہے کہ ان سے قربت رکھنے والے لوگ، اُن پر ایمان لائے، حالانکہ وہ اُن کے اسرار ورموز سے پوری طرح واقف تھے اور اگر انہیں ان کی صداقت میں ذرہ برابر بھی شبہ ہوتا تو اُن پر وہ ہرگز ایمان نہ لاتے۔‘‘

پس ایک انسان کی سچائی پر اپنوں، پرایوں، دوستوں اور دشمنوں سب کا اتفاق کرلینا ایسی عظیم الشان شہادت ہے جو ہمارے نبی ؐ کی راستبازی اور سچائی کی زبردست اور روشن دلیل ہے۔

نرم اور پاک زبان کا استعمال

حسب ارشاد باری کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپؐ کو نرم کر دیا ہے۔ (آل عمران:107) آپؐ کی گفتگو میں تلخی تھی نہ تیزی ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھا کر وضاحت اور نرمی سے آپؐ اس طرح کلام فرماتے کہ بات ذہن نشین ہوجاتی۔ تین دفعہ بات دہراتے تھے۔

(مسند احمد بن حنبل)

کوئی بھی عزم کرلینے کے بعد آپؐ خدا پر کامل بھروسہ رکھتے۔ جب آپؐ تین دفعہ کوئی بات کہہ دیتے تو اسے کوئی پلٹا نہیں سکتا تھا۔ لیکن آپؐ کبھی صحابؓہ کی طاقت سے زیادہ ان کو حکم نہ دیتے تھے۔

(مسند احمد بن حنبل)

آنحضورؐبغیر ضرورت کے گفتگو نہ فرماتے تھے اور جب بولتے تھے تو فصاحت و بلاغت سے بھر پور نہایت بامعنی کلام فرماتے ۔خود بات شروع کرتے اور اسے انتہا تک پہنچاتے ۔آپؐ کی گفتگو فضول باتوں اور ہر قسم کے نقص سے مبرّا اوربہت واضح ہوتی تھی۔اپنے ساتھیوں سے تلخ گفتگو نہیں کرتے تھے۔نہ ہی انہیں باتوں سے رسوا کرتے تھے۔معمولی سے معمولی احسان کا ذکر بھی تعظیم سے کرتے اور کسی کی مذمت نہ کرتے۔کسی پر محض دنیوی بات کی وجہ سے ناراض نہ ہوتے البتہ جب کوئی حق سے تجاوز کرتا توپھر آپؐ کے غصہ کوکوئی نہ روک سکتا تھا اور ایسی بات پرآپؐ سزا ضرور دیتے تھے مگر محض اپنی ذات کی خاطر غصے ہوتے تھے نہ انتقام لیتے تھے۔غصے میں منہ پھیر لیتے تھے۔خوش ہوتے تو آنکھیں نیچی کرلیتے۔مسکراتے تو سفید دانت اس طرح آبدارہوتے جیسے بادل سے گرنے والے اولے۔

( طبقات ابن سعد)

حضرت جابرؓ کی روایت کے مطابق رسول کریمؐ کی گفتگو میں بھی ایک ترتیب اور حُسن ہوتا تھا۔

(سنن ابوداؤد)

امّ معبد کی روایت کے مطابق رسول اللہؐ شیریں بیان تھے۔ آپؐ کی گفتگو کے وقت ایسے لگتا تھا جیسے کسی مالا کے موتی گررہے ہوں۔

(حاکم مستدرک)

زیادہ تر آپؐ کی ہنسی مسکراہٹ کی حد تک ہوتی تھی۔ مسکرانا تو آپؐ کی عادت تھی۔ صحابہ ؓ کہتے ہیں ’’ہم نے حضور ؐسے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔ خوش ہوتے تو آپؐ کا چہرہ تمتما اُٹھتا تھا۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل)

آپؐ کی گفتگو خشک نہ تھی۔بلکہ ہمیشہ شگفتہ مزاح فرماتے تھے۔ مگر مذاق میں بھی کبھی دامن صدق نہ چُھوٹا۔ فرماتے ’’میرے منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے۔‘‘

(طبرانی)

جہاں تک اہل خانہ سے آپؐ کے حسن ِ سلوک کا تعلق ہے آپؐ نے کبھی گھروالوں کوبُرا بھلا نہیں کہا، گالی نہیں دی۔حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص کی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی کا بڑے دکھ کے ساتھ ذکر فرمارہے تھے ۔ اتنے میں وہ شخص ملنے آگیا۔ آپؐ اس کے ساتھ بہت نرمی اور ملا طفت سے پیش آئے۔ میں نے پوچھا کہ ابھی تو آپؐ اس کی بدسلوکی کا تذکرہ فرمارہے تھے۔ پھر اس کے ساتھ اس قدر نرم کلامی کیوں اختیار کی۔ آپؐ نے ایک جملہ میں نہ صرف حضرت عائشہ ؓ کی حیرت کا جواب دے دیا بلکہ خوش گفتاری کی اپنی دائمی صفت پر خود حضرت عائشہ ؓ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے کیا خوب فرمایا ’’ یَا عَائشَۃُ مَتٰی عَاھَدْتَّنِیْ فَحَّاشًا ‘‘ اے عائشہ ؓ! اس سے پہلے میں نے کب کسی سے بدکلامی کی ہے جو آج کرتا۔ حضرت عائشہ ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺکبھی کوئی درشت کلمہ اپنی زبان پر نہ لائے۔

(صحیح بخاری)

پچھلا پڑھیں

استنبول (قسطنطنیہ) کی سیر (قسط 3)

اگلا پڑھیں

مصروفیات حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مورخہ 28 دسمبر 2019ء تا مورخہ 03 جنوری 2020ء