• 7 مئی, 2024

منظوم کلام حضرت اقدس مسیح موعودؑ جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر

اسلام سے نہ بھاگو! راہِ ھُدیٰ یہی ہے
اے سونے والو جاگو! شمس الضحٰی یہی ہے

مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں بنایا
اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا یہی ہے

وہ دِلستاں نہاں ہے کس رَاہ سے اُس کو دیکھیں
اِن مشکلوں کا یارو مشکل کشا یہی ہے

باطن سِیہ ہیں جن کے اِس دیں سے ہیں وہ منکر
پر اَے اندھیرے والو! دِل کا دِیا یہی ہے

دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم نے دیکھی بھالیں
آخر ہوا یہ ثابت دَارُالشفا یہی ہے

سب ؔ خشک ہوگئے ہیں جتنے تھے باغ پہلے
ہر طرف میں نے دیکھا بُستاں ہرا یہی ہے

دنیا میں اِس کا ثانی کوئی نہیں ہے شربت
پی لو تم اِس کو یارو آبِ بقا یہی ہے

اِسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے سورج
پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن ۔ بَلا یہی ہے

جب کُھل گئی سچائی پھر اُس کو مان لینا
نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا یہی ہے

جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے ہے عاری
کِس کِس کا نام لیویں ہر سُو وَبا یہی ہے

لیکھو کی بدزبانی کارد ہوئی تھی اُس پر
پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و خطا یہی ہے

اپنے کئے کا ثمرہ لیکھو نے کیسا پایا
آخر خدا کے گھر میں بَد کی سزا یہی ہے

یوسف تو سُن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے

اِسلام کے محاسن کیونکر بیاں کروں میں
سب خشک باغ دیکھے پھولا پھلا یہی ہے

وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے

سبؔ پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے

پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اِک قمر ہے
اُس پر ہر اک نظر ہے بدرالدّجٰی یہی ہے

دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گِرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے

اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا
گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے

اِس دیں کی شان و شوکت یارب مجھے دکھادے
سب جھوٹے دیں مٹادے میری دُعا یہی ہے

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق
اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے

(قادیان کے آریہ اورہم،روحانی خزائن جلد20 صفحہ449 تا 459)

پچھلا پڑھیں

بیت السبوح فرینکفرٹ میں اہم تبلیغی ورکشاپ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ